جب پہلی مرتبہ اُسے نفسیاتی امراض کے وارڈ میں دیکھا تو مجھے حیرت ہوئی، اُس دن سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہُوا تھا کہ کسی مریضہ سے یوں اُنسیت محسوس ہوئی ہو، حالانکہ میں پچھلے دس برس سے یہیں تھا۔
شروعات اُسے شطرنج سِکھانے سے ہوئی۔ بڑے ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق اب وہ ذہنی طور پر اِس قابل تھی کہ شطرنج ، لیڈر اور ذہنی آزمائش کے دیگر مشغلوں میں مصروف رہ سکے، سو، بڑے ڈاکٹر نے میری مشکل آسان کر دی اور اُن کا حکم بجا لاتے ہوئے میں اُسے شطرنج سکھانے لگا۔
جیسا کے میں نے سوچا تھا، حقیقتاً بھی ہمارا رشتہ ویسا ہی نِکلا اور بقول شاعر۔۔۔وہی سوچی ہوئی چالِیں وہی بے ساختہ پن، والا سلسلہ چل نکلا۔ بڑی روانی کے ساتھ ہم دوست بنتے چلے گئے۔ ہمارے درمیان آخر ایسی کون سی قدر مشترک تھی؟ اِس گُتھی کو سُلجھانا فی الوقت میرے لئے ممکن نہ تھا۔ میں براہِ راست نہ بڑے ڈاکٹر سے، نہ ہی اُس سے پوچھ سکتا تھا کہ آخر وہ یہاں تک کیسے پہنچی۔
میں مزید دیر کیے بغیر دیوانہ وار اکھاڑے کے چکّر کاٹنے لگا، تصور جو طیش کے عالم میں کوٹھری طرف جا رہا تھا ، مجھے اس حال میں دیکھ کر ڈر گیا ۔۔۔۔ اُدھر شبانہ نے اپنے خریدار کے بڑھتے ہاتھ تھامے اور اپنی گلابی آنکھوں سے اُسے گُھورتے ہوئے مردانہ آواز میں اپنی ہی ایجاد کردہ زبان میں عربی ملا کر کچھ بڑ بڑ آنے لگی ۔۔۔۔۔ میں نے بھی ایسا ہی کیا تھا!
پھر ایک دوپہر، اور وہ دوپہر سانولی تھی، کو ہم نے عملے اور ڈاکٹرز کی غفلت کا فائدہ اُٹھایا اور کسی طرح اسپتال سے منسلِک یونیورسٹی کی چھت پر جا بیٹھے۔ جس اوٹ میں چھپ کر ہم بیٹھے وہاں خوُب اندھیرا تھا اور مٹی کی وہی کلیشئے سوندھی ُخوشبو لہلہاتے سبزہ زادوں سے ہم آہنگ تھی، سامنے والے مکان کی چھت پر کئی سرخ شلواریں سوکھنے کی غرض سے لٹکی اب پائنچوں کے بَل اُڑ رہیں تھیں ۔۔ اور دُور کسی مور کی غیر رومانی کُوک سُن کر ہم دونوں کی ہنسی نکل گئی تھی۔۔ بارش کی پہلی بوندوں کے ساتھ ہم نے سگریٹ سُلگائے اور چھاتے کے تحفظ میں بیٹھ کر خاموشی سے سگریٹ پُھونکنے لگے، سگریٹ جلتی رہی جبکہ پنڈلیاں بھیگتی رہیں اور تب اُس نے اپنی سیاہ قمیض کا دامن اُٹھا کر اپنے برہنہ پستان دکھائے۔ جب کافی دیر بعد بھی میں بارش اور سگریٹ میں مشغول رہا تو اُس نے اپنا دامن سمیٹا اور اپنی کہانی سنانے لگی۔
رات گئے ہم اسپتال پہنچے تو کیا وارڈ بوائز، کیا ڈاکٹرز اور کیا نرسز، سب ہی نے خوب خبر لی اور جب مریض مجھے صلواتیں سنانے آئے تو بہت دیر ہو چکی تھی، کیونکہ میں اپنے ماضی میں کھو چکا تھا۔
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب ابّا نے مجھے لِباس کے نام پر ایک چھوٹی سی لنگوٹ پہنائی اور دیو ہیکل تصور کے حوالے کر دیا۔ تصور میرے بدن پر تیل کی مالش کرتا اور میں درد سے کراہتا رہتا۔ اُس وقت میری عمر دس برس تھی۔
جس اثناُء میں میرے ساتھ یہ ہوتا رہا، شبانہ بھی قریباً آٹھ برس کی ہو گی اور رفتہ رفتہ اُس کے کوٹھے پر تماش بینوں اور مدّاحوں کی جگہ خریداروں نے لے لی، کلچرل تبدیلی کیا آئی کہ گُھنگرووں، صوتی اسرار و رموز اور اعضاء کے پیچ و تاب کے ملاپ کو برا بھلا کہا جانے لگا، نمائش رک گئی اور کسی کلیشئے تہذیب یافتہ معاشرے کےاصولوں کے عین مطابق اب شبانہ کی مائیں، بہنیں، سہیلیاں ، اب بند دروازوں کے پیچھے فروخت ہونے لگیں ۔
جس اثناُء میں میرے ساتھ یہ ہوتا رہا، شبانہ بھی قریباً آٹھ برس کی ہو گی اور رفتہ رفتہ اُس کے کوٹھے پر تماش بینوں اور مدّاحوں کی جگہ خریداروں نے لے لی، کلچرل تبدیلی کیا آئی کہ گُھنگرووں، صوتی اسرار و رموز اور اعضاء کے پیچ و تاب کے ملاپ کو برا بھلا کہا جانے لگا، نمائش رک گئی اور کسی کلیشئے تہذیب یافتہ معاشرے کےاصولوں کے عین مطابق اب شبانہ کی مائیں، بہنیں، سہیلیاں ، اب بند دروازوں کے پیچھے فروخت ہونے لگیں ۔
وہاں میں چودہ برس کا ہو گیا اور اب مجھ سے وہ سب چھپا نا مشکل ہو گیا۔ اکھاڑے میں تصور کے ساتھ پہلوانی کرتے اور داُو پیچ لڑاتے ہوئے پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ میری تصور کےلیے برسوں پرانی محبت نے جسمانی صورت اختیار کی، اُس وقت تصور اپنی پوری قوّت لگائے مجھے چِت کرنے کے عمل میں مصروف تھا، جب ہی اپنے پیٹ پر اُسے میری محبت کا جسمانی سا یہ بڑھتا ہوا محسوس ہوا ، ایک لمحے کو وہ ٹھٹکا، کئی لمحے وہ نو عمری کو وجہ مان کر ہنسا مگر جب اُس ایک لمحے کو اُس نے میری آنکھوں کی طرف دیکھا تو ہڑبڑا کر دور ہو بیٹھا اور میں کسی دھتکارے ہوئے سڑک چھاپ کتّے کی طرح محبت طلب نظروں سے اُسے دیکھے گیا۔ تصور نے مجھے حقارت بھرے انداز میں نظر انداز کرتے ہوئے بڑے تیش کے عالم میں کوٹھری کا رُخ کِیا، کوٹھری۔۔۔جس میں میرا سادہ لوح ابّا قیلولہ کر رہا تھا۔ کوٹھری کے جانب اُس کے بڑھتے قدم دیکھ کر میں سہم گیا ۔
13 سالہ شبانہ بھی اس اثناُء میں بری طرح خوف زدہ تھی کی پہلی مرتبہ اُس کے جسم کا سودا ہونے جا رہا تھا۔
اور تب۔۔۔۔۔ ایک دوسرے سے کوسوں دُور ، اپنے اپنے ڈر کا ایک جیسا علاج نکالا تھا ہم نے۔۔۔۔ اور یہی قدر مشترک تھی ہم میں!
اور تب۔۔۔۔۔ ایک دوسرے سے کوسوں دُور ، اپنے اپنے ڈر کا ایک جیسا علاج نکالا تھا ہم نے۔۔۔۔ اور یہی قدر مشترک تھی ہم میں!
میں مزید دیر کیے بغیر دیوانہ وار اکھاڑے کے چکّر کاٹنے لگا، تصور جو طیش کے عالم میں کوٹھری طرف جا رہا تھا ، مجھے اس حال میں دیکھ کر ڈر گیا ۔۔۔۔ اُدھر شبانہ نے اپنے خریدار کے بڑھتے ہاتھ تھامے اور اپنی گلابی آنکھوں سے اُسے گُھورتے ہوئے مردانہ آواز میں اپنی ہی ایجاد کردہ زبان میں عربی ملا کر کچھ بڑ بڑ آنے لگی ۔۔۔۔۔ میں نے بھی ایسا ہی کیا تھا!
شبانہ کا خریدار اور میرا تصور حواس باختہ ہو کر چِلّانے لگے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” جن ! ۔۔۔۔۔ جن! ۔۔۔ جن! “
” جن ! ۔۔۔۔۔ جن! ۔۔۔ جن! “