Laaltain

عطائیوں کی خارجہ پالیسی

22 نومبر، 2015
جدید دنیا میں قوموں کے مستقل دشمن یا دوست نہیں ہوتے بلکہ دوستیاں اور دشمنیاں ملکی مفادات کے گرد گھومتی ہیں۔ اقوام عالم کی سفارتی ترجیحات عقیدے، نسل یا جذباتی وابستگی کی بنیاد پر نہیں ہوتے بلکہ صرف اور صرف ملکی مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے طے کی جاتی ہیں، دیگر اقوام کے ساتھ تعلقات سنوارنے یا بگاڑنے کے لیے فیصلے ہمیشہ قومی مفاد کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔ لیکن ہمارے چند نام نہاد دانشور پاکستانیوں کو خارجہ تعلقات کی ضمن میں طرح طرح کی افیم پلاتے رہے ہیں۔ یہ حضرات نسل در نسل ہمیں چین دوستی، عرب تقدس، مغرب بیزاری اور ہندوستان دشمنی کی گھٹی دیتے آئے ہیں، قومی مفاد سے قطع نظر چین کے ساتھ ہماری دوستی سمندر سے گہری اور ہمالیہ کی چوٹیوں سے اونچی رہی ہے، عربوں سے ہماری عقیدت ہمارے اپنے نقصان کا باعث بنتی رہی ہے اور اور ہندوستان سے ہماری دشمنی ہماری شناختی علامت بن چکی ہے۔ اگرچہ چین اور عرب ممالک سے اچھے تعلقات ہمارے لیے کسی قدر سود مند بھی ہیں لیکن ان تعلقات کی بنیاد دوستی یا عقیدت کی بجائے خالصتاً ملکی مفاد پر استوار ہونی چاہیئے۔

 

ہماری سفارتی حکمت عملی اور خارجہ پالیسی ہماری معاشی ضروریات کی بجائے ہماری دفاعی ضروریات کے تحت مرتب کی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور چین سے ہمارا تعاون اقتصادی فوائد سے زیادہ دفاعی امداد تک محدود رہا ہے۔
ملکوں کے مابین دوستی نہیں تعلقات ہوتے ہیں کیوں کہ دوستی میں تن من کی قربانی بلا جھجک اور بغیر سوچ کر دی جاتی ہے لیکن عالمی معیشت، سیاست اور سفارت کاری میں بے لوث یا بے غرض کچھ نہیں کیا جاتا، ہر فیصلہ اپنے مفاد کے حصول کے لیے کیا جاتا ہے۔ ہماری سفارتی حکمت عملی اور خارجہ پالیسی ہماری معاشی ضروریات کی بجائے ہماری دفاعی ضروریات کے تحت مرتب کی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور چین سے ہمارا تعاون اقتصادی فوائد سے زیادہ دفاعی امداد تک محدود رہا ہے۔ پاک چین تعلقات کے حوالے سے یہ تسلیم کیا جانا ضروری ہے کہ اس ‘دوستی’ میں مبالغہ حقیقت کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ گو چین عالمی اداروں اور سفارتی ترجیحات میں پاکستانی موقف کی حمایت بھی کرتا ہے لیکن یہ حمایت اسی حد تک ہے جہاں تک چین کے مفادات کو نقصان پہنچانے کا باعچ نہیں بنتی۔ دوسرا یہ کہ یہ حمایت کبھی بھی پاکستان میں جمہوری اداروں کے ساتھ مشروط نہیں رہی بلکہ ہمیشہ عسکری اداروں کے نقطہ نظر سے کی گئی ہے۔ ہندوستان کے ساتھ جنگوں کا اگر سرسری مطالعہ کیا جائے تو چین کا سفارتی کردار خاصا محتاط رہا ہے اور چین نے ہمیشہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جنگوں سے خود کو بڑی حد تک علیحدہ رکھا ہے۔

 

چین کے ساتھ اقتصادی تعاون کے دوران بھی پاکستانی معیشت کا خیال نہیں رکھا گیا۔ پاکستان ریلوے کے دیوالیہ ہونے میں اگر ایک طرف ہماری بدعنوان قیادت ذمہ دار ہے تو دوسری جانب چینی کمپنیوں سے خریدے گئے ناقص اور غیر موزوں سازو سامان کا بھی عمل دخل ہے۔ جوہری ری ایکٹر کی تنصیب اور اقتصادی راہداری جیسے اہم معاملات میں بھی مقامی آبادی کے تحفظات کو پس پشت ڈالا گیا ہے جو کسی بھی وقت خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔ ایک چینی کمپنی کو تو حکومت نے بلیک لسٹ بھی کیا ہے جس نے پوری رقم وصول کر کے ناقص انجن فراہم کیے ہیں۔

 

ایک زمانے میں پشاور سے متصل باڑہ مارکیٹ باہر سمگل شدہ مصنوعات کا مشہور بازار تھا جن کا مقابلہ پاکستانی مصنوعات سے ہوا کرتا تھا لیکن جب سے چین میں ہر گھر میں موبائل فون، برقی آلات، کپڑا اور کھلونے بنانے کی فیکٹریاں کھل گئی ہیں تو اس بے لگام پیداوار نے پاکستانی مصنوعات کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ پاکستان بھر کی دکانیں ان مصنوعات سے بھری پڑی ہیں وجہ سادہ ہے کہ چینی مصنوعات کی تیاری کے دوران اکثر کاپی رائٹ کا خیال نہیں رکھا جاتا۔

 

عرب آمروں کے ساتھ ہمارے تعلقات خیرسگالی کی بنیاد پر نہیں، ہم صرف ان کے چوکیدار ہیں۔ “beggers don’t choose”کے مصداق ہم عربوں کی فرمائشوں پر انکار کی جرات نہیں کر سکتے۔
عرب ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات بھی ایک غیر متوازن جذباتی والہانہ پن پر مبنی ہیں۔ عربوں کو پاکستان میں حاصل غیر ضروری اثرورسوخ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہیں حاصل شکار کی سہولیات واپس لینے پر حکام تیار نہیں اور نہ ہی تکفیری مدارس کے لیے ان کی امداد روکنے کو تیار ہیں۔ عرب شیخوں سے ہمارے تعلقات کتنے مضبوط ہیں اس کا اندازہ ہمیں تب ہوا جب ہم نے یمن میں فوج بھیجنے سے انکار کر دیا۔ ہمارے انکار پر تعلقات کے غبارے سے یکدم ہوا نکل گئی۔ یو اے ای کے ایک وزیر نے پاکستان کے انکار پر کھلی دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ اماراتی کلمہ گو بھائیوں نے پاکستان کو سبق سکھانے کے لیے ہندوستانی وزیراعظم کو مدعو کیا اور ان کے ساتھ سرمایہ کاری کے معاہدے کیے۔

 

ابھی حال ہی میں حکومت پاکستان نے عدالت میں رٹ دائر کی ہے کہ عرب شہزادوں کو تلور کی شکار پر لگائی گئی پابندی کا خاتمہ کیا جائے کیوں کہ عرب ممالک کے ساتھ دیرینہ تعلقات متاثر ہو رہے ہیں۔ ہمارے لیے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ عربوں کے لیے پاکستان ایک زیردست ریاست ہے جو ان کی خوشنودی کے لیے کسی حد تک جانے کو بھی تیار ہے۔ عرب آمروں کے ساتھ ہمارے تعلقات خیرسگالی کی بنیاد پر نہیں، ہم صرف ان کے چوکیدار ہیں۔ “beggers don’t choose”کے مصداق ہم عربوں کی فرمائشوں پر انکار کی جرات نہیں کر سکتے۔

 

خارجہ پالیسی ملکی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائی جاتی ہے جس میں یہ نہیں لکھا جاتا کہ دشمن کو چین کی آزمائے ہوئے طاقت سے ڈرایا جائے یا عرب شیوخ کی قوت مردمی کو دوام دینے کے لیے تلور کا شکار بھی خارجہ پالیسی کاحصہ ہو گا۔
ہم نے افغان جہاد سے لے کر افغانستان میں امریکی مداخلت تک کبھی بھی اپنے مفاد میں فیصلے نہیں کیے اور ان غلط فیصلوں کی ذمہ داری عسکری قیادت پر عائد ہوتی ہے۔ جب مغرب، امریکہ اور تیل کی دولت سے مالامال شیخوں نے ہمیں کہا کہ کمیونسٹوں کے خلاف جہاد فرض ہے تو ہم جہاد کا معاوضہ لے کر ان پر چڑھ دوڑے اور پھر جب انہی کی جانب سے دوبارہ افغانستان پر حملہ کیا گیا تو ہم نے پھر وہی غلطی دہرائی اور خود اپنا نقصان کیا۔ ایک جانب ہم نے اپنے ہاں طالبان کو پناہ دی اور دوسری جانب ہم نے افغانستان میں جمہوری عمل کو کم زور کیا لیکن اس غلط خارجہ پالیسی سے خود ہمیں ہی نقصان ہوا۔ پشتون پٹی میں امداد یافتہ مسجدوں کے منبروں سے مُلااپنی تقریروں میں کمیونسٹوں کو (سور کافر) کہتے تھے بعدازاں انہی منبروں سے پاکستانی فوج اور حکومت کو بھی کافر کہا گیا۔
خارجہ پالیسی ملکی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائی جاتی ہے جس میں یہ نہیں لکھا جاتا کہ دشمن کو چین کی آزمائی ہوئی طاقت سے ڈرایا جائے یا عرب شیوخ کی قوت مردمی کو دوام دینے کے لیے تلور کا شکار بھی خارجہ پالیسی کاحصہ ہو گا۔ اگر یہی آپ چاہتے ہیں تو پھرخارجہ پالیسی بنانے والے بابوؤں کے بجائے کسی عطائی کو دفتر خارجہ میں جگہ دی جائے عرب بھی خوش ہوں گے اور ہمیں خیرات بھی ملتی رہے گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *