اگر ممتاز قادری اور علم دین جیسے افراد عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معیار ہیں تو میرے خیال میں ہم سے یقیناً کہیں کوئی بھول ہوئی ہے، ایک ایسے رسول سے جسے رحمت العالمین کہا جاتا ہے، جن سے متعلق یہ بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے کسی کو گزند نہیں پہنچائی، کسی کی جان نہیں لی تو پھر ان کے عشق کا تقاضا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کی جان ان سے عشق کے نام پر لے لی جائے یا اپنی جان قربان کر دی جائے؟ حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر اگر ایک مخصوص حلیہ، ایک مخصوص شباہت اور ایک مخصوص تنگ نظری ہی مقصود ہے تو پھر تمام زمانوں، تمام علاقوں، تمام انسانوں کے لیے بہترین اور عملی نمونہ انہیں کیسے قرار دیا جائے؟
یہ کیسے ممکن ہے کہ جو لوگوں پر سب سے مہربان ہو، خطائیں معاف کرنے والا ہو، شفاعت کا داعی ہو، مجبوروں، بے کسوں اور محتاجوں کا والی ہو وہ اپنی ناموس کے نام پر قتل کرنے کی اجازت دے سکتا ہو؟
اوکاڑہ کے ایک گاوں میں ایک پندرہ سالہ لڑکے کا اپنا ہاتھ اس گمان میں خود کاٹ لینا کہ اس سے گستاخی رسول کا ارتکاب ہوا ہے اس بیمار ذہنیت کی ایک ادنیٰ سی مثال ہے جو ہم نے عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر اپنی نسلوں کو منتقل کی ہے۔ یہ بیمار ذہنیت علم دین اور ممتاز قادری جیسے افراد کو جنم دیتی ہے اور اس نفرت کا باعث بنتی ہے جو ہم اپنے آس پاس موجود اقلیتوں کے ساتھ روا رکھتے ہیں۔ لیکن ایک لمحے کو عقل کو حاضر ناظر جان کر سوچیے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ معلمِ انسانیت قرار دیا جانے والا پیغمبر ایسے بیمار، متشدد اور تکلیف دہ طرزہائے عمل کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھ سکتا ہے؟
مولانا اختر شیرانی جیسے حضرات جو کم سنی کی شادی کے خلاف قوانین کو غیر اسلامی قرار دیتے ہیں اور انہیں توہین رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرار دیتے ہیں، ابو بکر بغدادی، ابو بکر شیکاو، مولوی فضل اللہ اور عبدالعزیز جیسے حضرات جو عورتوں کو باندیاں بنانے کے قائل ہیں، جن کے ہاتھ خون سے رنگے ہیں کیا یہ لوگ ہیں جو رسول اللہ کی سیرت پر عمل پیراء ہیں؟ شادی کی عمر کا تعین، حدود کے قوانین، جہاد کے فتوے اور قتل و غارت کے کتنے ہی غلغلے رسول اللہ کے نام پر بلند کیے جاتے ہیں اور حب رسول کے تقاضے نبھانے کے لیے ہم کتنے ہی انسانوں کی زندگیاں برباد کر چکے ہیں۔ لیکن کیا یہ سب واقعی بارگاہ محمدی میں مقبول بھی ہو گا؟ ہر گز نہیں۔ وہ جس کی زبان حب رسول کے نام پر مذہبی منافرت پھیلاتی ہے، وہ جس کا ہاتھ عشق رسول کے نام پر بندوق اٹھاتا ہے، وہ جن کے فتوے عورتوں اور اقلیتوں کی حیثیت کم تر قرار دیتے ہیں، وہ جن کی دکانوں پر نفرت امیز سٹیکر چسپاں ہیں مجھے یقین ہے کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحمت العالمین ہیں تو یہ سب ان کے لیے پسندیدہ نہیں ہو سکتا۔ یہ سب انہیں منظور نہیں ہو سکتا۔
عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ گمراہ کن صورتیں کسی بھی طرح اس اجتماعی فلاح اور بہبود انساں کا راستہ نہیں ہو سکتیں جس کا خواب عرب کے صحراوں میں مقیم اس ہادی، اس رہبر اور اس معلم نے دیکھا تھا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جو لوگوں پر سب سے مہربان ہو، خطائیں معاف کرنے والا ہو، شفاعت کا داعی ہو، مجبوروں، بے کسوں اور محتاجوں کا والی ہو وہ اپنی ناموس کے نام پر قتل کرنے کی اجازت دے سکتا ہو؟ تمام جہانوں کے لیے رحمت قرار دیئے جانے والےکے نام پر کون یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کی منشاء یہ ہے کہ محض ایک سبزی، یا داڑھی، یا مسواک، یا عربی زبان کو ناپسند کرنے پر کسی کو قتل کر دیا جائے، یا ایک غیر منصفانہ قانون پر تنقید کرنے والے کو گولیوں سے بھون دیا جائے، یا ایک مخصوص شباہت کو مسلط کر لیا جائے، یا کم سن بچیوں کی شادیاں کر دی جائیں، یا ایک غیر انسانی جہاد سے منع کرنے والی ماں کو قتل کر دیا جائے، یا آزادی اظہار پر پابندیاں عائد کر دی جائیں۔۔۔۔۔۔۔
درحقیقت ناموس رسالت، شریعت اور عشق رسول کے نام پر بنائے گئے ضابطے، قوانین، فتوے اور طرز معاشرت رسول اللہ کے پیغام اور ان کے مزاج کے بالکل برعکس ہیں۔
اگر عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ثبوت کے طور پر مجھے مخصوص لباس، مخصوص، شکل، مخصوص تنگ نظری، مخصوص چال ڈھال اپنانے ہو گی، کم سن بچیوں کی شادیوں کی حمایت کرنا ہو گی، حدود کے ظالمانہ اور جابرانہ قوانین کے حق میں بیان دینے ہوں گے، پردہ مسلط کرنا ہو گا، ممتاز قادریوں اور علم دینوں کو درست سمجھنا ہو گا، مرنا ہو گا اور مارنا ہو گا، احمدیوں سے نفرت کرنا ہو گی اور جہادیوں کو چندے دینے ہوں گے تو میں ایسے عشق رسول کا قائل نہیں۔ اگر عشق رسول یہی ہے کہ ہم قدیم قبائلی روایات، رہن سہن، طرز معاشرت اور حب رسول کے نام پر مرنے مارنے والوں پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرنا ہوں گی تو مجھے لگتا ہے کہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ ؤآلہ وسلم میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے داعین کے طرزعمل میں بہت بڑا تضاد موجود ہے۔ اگر رسول اللہ علیہ وآلہ وسلم رحمت العالمین تھے تو پھر وہ ممتاز قادریوں جیسے بے رحم قاتلوں کے "نذرانہ عشق” کو پسند کرنے والے کیسے ہو سکتے ہیں؟ اگر وہ واقعی مصلح اعظم تھے تو ان کی نسبت سے کم عمر بچیوں کی شادیوں کا جواز نکالنا کیسے ممکن ہے؟ اگر وہ تمام زمانوں کے لیے تھے تو پھر ایک مخصوص عرب قبائلی طرز معاشرت کو خود پر مسلط کرنے کے کیا معنی ہیں؟ میرے نزدیک عشق رسول کی مروجہ صورتیں جن کی بناء پر بنیادی انسانی آزادیاں سلب کی جاتی ہیں، انسانوں کو قتل کرنے کا جواز ڈھونڈا جاتا ہے، دیگر مذاہب کے ماننے والوں سے نفرت کا پیغام دیا جاتا ہے، اسلامی قوانین کے نام پر جو ناانصافی روا رکھی جاتی ہے وہ سبھی غلط اور گم راہ کن ہیں۔ عشق رسول کو دنیا میں امن کی بنیاد ہونا چاہیے ناکہ قتل و غارت گری کا جواز۔
درحقیقت ناموس رسالت، شریعت اور عشق رسول کے نام پر بنائے گئے ضابطے، قوانین، فتوے اور طرز معاشرت رسول اللہ کے پیغام اور ان کے مزاج کے بالکل برعکس ہیں۔ یا تو سیرت کی کتابوں میں جس مہربان اور رحم دل ہستی کا ذکر کیا گیا ہے وہ ٹھیک ہے یا پھر ممتاز قادری، علم دین اور اختر شیرانی جیسے لوگ جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر جان لینے اور عورتوں کی حیثیت کم تر قرار دینے کے قائل ہیں۔ اور مجھے یقین ہے کہ علم دین، ممتاز قادری اور اختر شیرانی کے اقوال و افعال کسی بھی طرح حب رسول اور منشائے محمدی نہیں۔ ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ کیا واقعی عشق رسول کا واحد تقاضا یہ ہے کہ کسی نہ کسی کو گستاخ رسول قرار دے کر قتل کیا جائے، احمدیوں کے خلاف نفرت آمیز سٹیکر چپکائے جائیں، عورتوں کے حقوق سلب کرنے والے قوانین بنائے جائیں، داڑھیاں بڑھا لی جائیں، ہتھیار اٹھا لیے جائیں یا عشق رسول کا حیقیقی تقاضا یہ ہے کہ ہم آسیہ بی بی اور جنید حفیظ جیسے مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہوں، اسلام کے نام پر بنائے گئے غیر منصفانہ قوانین کے خلاف آواز اٹھائی جائے اور دنیا کے امن کے لیے کام کیا جائے؟
Image: Dawn.com
یہ کیسا امن ہےکہ صرف اور صرف یہود و نصاریٰ کہیں تو امن اور کہیں تو دہشتگرد ہو دہشتگرد، شاعر مشرق نے خوب فرمایا تھا۔
بے خطر کود پڑا آتشِ نمبرود میں عشق
عقل محو تماشائے لب بام ابھی۔
میرے خیال میں آپ نے ادب کے تقاضوں کو پرکھا ہی نہیں۔ ایک بات یاد رکھیئے گا۔تحریر میں جھلک یہود و نصاری کی پیروی زیا دہ نظر آئی۔میں ہرگز ہرگز ایے لوگوں کی حمایت نہیں کر رہا جو مذہب کو آڑ بنا کر اپنے مفادات کو عزیز رکھتے ہیں۔
بلکہ ایسے افراد پر تنقید کر تیر برسا رہا ہوں جو دم تو اسلام کا بھرتے ہیں مگر سارے کے سارے افعال یہود و نصاری کے کرتے نظرآتے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ ان کا اسلام سے کوئی واسطہ ہی نہیں۔ اس کی مثال یہ کہ میرا گزر ایک جنازے پر ہوا دیکھا کہ بیٹے بیٹھے ہیں باپ کے جنازے پر اور منتیں کررہے کہ کہ غسل دے دو۔
شرم کی بات ہے۔
کیا ہمارا معاشرہ ایسا ہے۔
کیا ہمارہ تمدن ایسا ہے؟
نہیں ہم نے کلمہ تو ادا کر لیا مگر اس کی اساس اور تقاضے چھوڑدیئے۔ کیا صرف اور صرف مساجد میں امام صرف اور صرف گاوں کا ہی ہوگا۔ کیا صرف اور صرف موذن، گاوں سے ہی تعلق رکھے گا یا ایک مخصوص طبقہ ہی اجارہ دار ہوگا۔؟۔ یہ ہماری سوچ ہے ۔بغیر سوچے سمجھے تیر برسارہے ہوتے ہیں۔شہید غازی علم دین کے بارمیں تو علامہ اقبال کے مشہور جملے تھے،یہ چھوکرا ہم سے بازی لے گیا۔
کیا ہوگیا ہم کو۔اگر آپ کی سوچ اسلام سے الگ ہو کر لکھتی یا سوچتی ہے تو آپ کے ذہن و دل پرعقل و شعور تک رسائی کے پردے حائل ہیں۔
یہ ممتاز قادری اس کی بھی سوچ کو پرکھا کسی نے نہیں نا۔۔۔۔۔۔۔۔
جج کے فیصلے دینے کے بارے میں کسی نے پرکھا۔۔۔۔۔۔
پرکھا اُس وقت گیا جب تختہ دار پر لٹکا کر نیچے اُتارا گیا تو سب حیران رہ گئے کہ یہ ممتاز قادری واقعی ممتاز ہوگیا۔