معاشرے میں عمومًا پائی جانے والی بد اخلاقی کے ساتھ عشق رسول کے جو مظاہر دیکھنے میں آتے ہیں اس پر اکثر حیرت ہوتی ہے کہ یہ آخر کیسے ممکن ہوا کہ عشقِ رسول اور بد اخلاقی ایک جگہ کیسے اکٹھے ہو گئے۔
اسلام آباد میں مارچ 2016 کے دوران ہونے والے دھرنے میں خصوصاً اور معاشرے میں عمومًا پائی جانے والی بد اخلاقی کے ساتھ عشق رسول کے جو مظاہر دیکھنے میں آتے ہیں اس پر اکثر حیرت ہوتی ہے کہ یہ آخر کیسے ممکن ہوا کہ عشقِ رسول اور بد اخلاقی ایک جگہ اکٹھے ہو گئے۔ دودھ اور دوائیوں میں ملاوٹ کرنے والے میلاد کی محفلیں سجانے میں پیش پیش ہوتے ہیں، بھائی بہنوں کی جائیداد دبا لینے والے نعت شریف کی محفلیں لگاتے ہیں اور نعتیں سن کر آبدیدہ ہو جاتے ہیں اور آبدیدہ ہونے کے بعد بھی زمین کا قبضہ نہیں چھوڑتے۔ ‘اولیا’ء، ‘قطب’، ‘ابدال’ اور عوام، ماں بہن کی گالیوں کے اول و آخر نعرہ رسالت لگاتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ جس نبی ﷺ کے اعلٰی اخلاق کی گواہی ان کے دشمن بھی دیتے تھے، جن کے اخلاق کی کی عمدگی کا اعتراف خالق کائنات نے خود فرمایا، اور جن کا اسوہ حسنہ ان کے ماننے والوں کے لیے کامیابی اور نجات کا واحد ذریعہ قرار دیا گیا۔ ان کے نام لیوا ان کے ہی نام پر یہ سب بھی کر سکتے ہیں! لیکن اگر اس خاص مزاج کے تشکیلی عوامل جان لیے جائیں تو حیرت ختم ہو جائے گی، البتہ افسوس بلکہ صد افسوس اپنی جگہ بہر حال باقی رہے گا۔
بریلوی طبقے میں عشق رسول، ایک خاص مابعد الطبعیاتی تصور کا حامل ہے۔ آیاتِ قرانی اور احادیث کی ادھوری اور غلط ترجمانی، خصوصًا اولیاء اور مشائخ کے خود ساختہ قصوں اور خوابوں اور الہام کے ذریعے عشقِ رسول کا ایک خاص مفہوم اور اس کے مضمرات عوام کو ہر بریلوی مسجد اور خانقاہ سے باور کرائے جاتے ہیں۔ عشق رسول کی اس خاص تعبیر کے مطابق دنیا اور آخرت کی نجات کے لیے صرف اور صرف عشق رسول کا ہونا کافی ہے۔ شریعت، مسائل، اعمال و اخلاق کی حیثیت ثانوی ہی نہیں بلکہ محض اضافی ہے۔ مزید یہ کہ عشقِ رسول کے چند مظاہر مقرر کر دئیے گئے ہیں جن کے بارے میں اگر غور کیا جائے تو سب کے سب مولوی صاحب کی شخصیت، ان کی تشہیر اور ان کے معاش کے گرد گھومتے ہیں۔ مثلاً مساجد کی سجاوٹ، میلاد و نعت کی محفلیں اور ان کے لیے کھانے کے انتظامات، جلسے جلوس تقاریر، نعرے اور اب دھرنے بھی۔
عشقِ رسول کے چند مظاہر مقرر کر دئیے گئے ہیں جن کے بارے میں اگر غور کیا جائے تو سب کے سب مولوی صاحب کی شخصیت، ان کی تشہیر اور ان کے معاش کے گرد گھومتے ہیں۔
عشق رسول کا ایک لازمی تقاضا، اور سب سے بڑا مظہر اس تصور کو نا ماننے والوں سے نفرت اور انہیں گستاخِ رسول سمجھنا ہے۔ اب جو جتنا اس خاص تصورِ عشقِ رسول کے عملی مظاہر میں پرجوش ہو گا، وہ اتنا بڑا عاشق رسول سمجھا جائے گا۔ اس کی نجات کی ضمانت حلفاً دی جاتی ہے۔ یعنی عشق ِرسول ایک ایسا اکسیر ہے جس کے بعد کوئی گناہ، کوئی بد اخلاقی آپ کی نجات کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی۔ عشقِ رسول کی سند بھی چونکہ مولوی اور پیر صاحب دیتے ہیں، اس لیے ظاہر ہے کہ ان کو خوش کرنا اور خوش رکھنا ضروری ہو جاتا ہے۔ چنانچہ عشقِ رسول کی اسناد بانٹنے اور آخرت کے لافانی فوائد کے بدلے وہ مریدین سے دنیا کے فانی فوائد حاصل کرتے ہیں اور بے حد کرتے ہیں۔ یہاں تک کے بھوکے مفلس مریدوں سے بھی نذرانے وصول کرتے ہیں اور اپنی خاندان اور اولاد کے لیے شاہانہ زندگی کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ آپ کسی بھی مستحکم پیر صاحب کے اثاثہ جات اور ان کے ذرائع آمدن کو دیکھ لیجیے۔ یہ ہمارے معاشرے کی ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے۔
بریلوی طبقے کے معتبر علماء بریلوی مدارس اور خانقاہوں میں پلنے والے اس کرادر اور ذہنیت کے بارے میں عموماً کچھ کہنے سے گریز کرتے ہیں وجہ یہی ہے کہ عوام میں اسلام کی یہی تعبیر معروف ہے اور اس دھارے کے خلاف بات کرنا خود کو مطعون کرانے کے مترادف ہے۔ اب ان میں سے جو یہ ہمت کرتے ہیں ان کو اس روایتی فکر کے حاملین کی طرف شدید طعن و تشنیع کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے دیوبند اور اہل حدیث کے معتبر اور معتدل علماء اپنے مسالک کے غلط رویوں کے بارے میں عمومًا لب کشائی کرنا پسند نہیں کرتے۔ ہم نے دیکھا کہ اسلام آباد میں ہونے والے حالیہ دھرنے میں ہونے والی کھلی فحش گفتگو اور بد اخلاقی کے باوجود معتدل اور معتبر بریلوی علماء نے زبان بند رکھنے میں ہی عافیت سمجھی۔
بریلوی طبقے کے معتبر علماء بریلوی مدارس اور خانقاہوں میں پلنے والے اس کرادر اور ذہنیت کے بارے میں عمومًا کچھ کہنے سے گریز کرتے ہیں
عوام میں پائے جانے والے عشقِ رسول پر مبنی اس غلط دینی تعبیر کی جڑیں صدیوں پرانی بعض صوفیاء کی روایت سے چلی آتی ہیں، اس کو تبدیل کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ مستند علماء کرام شہادتِ حق کے تقاضے پورے کرتے ہوئے سامنے آئیں اور عوام کو مخاطب کریں۔ علمی مجالس منعقد کی جائیں جو غیر علمی دینی مجالس کی جگہ لے سکیں۔ اس طرح عوام کو قرآن اور سنت کے درست اور مستند ماخذ سے روشناس کرائیں۔
حکومت کو بھی چاہیے کہ مصلحت کی چادر کو طے کرکے رکھ دے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو عشقِ رسول کے حد سے بڑھتے مظاہر کو حد میں رکھنے کے لیے قانون کے بے لاگ نفاذ کی تاکید کرے اور اس کے لیے پولیس کی بھی مناسب ذہنی تربیت بھی کرے۔
2 Responses
عرفان شہزاد اچھا لکھتے ہیں اور ان کی اکثر باتوں سے میں متفق ہوتی ہوں۔ لیکن ایک لکھاری جب معتدل رویوں کی بات کرتا ہے تو اس کے ہاں فیصلہ صادر کرنے یا کسی بھی امر پر یکسر اور قطعیت بھرے جملے کچھ مناسب نہیں لگتے مثال کے طور پر یہ دو جملے ” شریعت، مسائل، اعمال و اخلاق کی حیثیت ثانوی ہی نہیں بلکہ محض اضافی ہے۔ ” اور “یعنی عشق ِرسول ایک ایسا اکسیر ہے جس کے بعد کوئی گناہ، کوئی بد اخلاقی آپ کی نجات کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی۔” ایسا نہیں ہے کہ یہ جملے غلط ہیں، ہمارا عام مشاہدہ ان امور میں ایسا ہی ہے لیکن بریلوی ہوں یا دیوبندی مکتب فکر یا اہل تشیع و دیگران سب ہی دیگر امور پر توجہ دیتے ہیں اخلاقی تربیت کا سامان بھی کرتے ہیں اور ان کی کوشش بھی، انھیں یکسر نہ ہی اضافی قرار دیتے ہیں اور نہ ہی کسی مخصوص سوچ کو ایسا اکسیرسمجھتے ہیں جو دیگر گناہ یا بدکاریاں کرنے کی کھلی چھٹی دے دے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ظاہر پرست معاشرتی سوچ یا ہماری تساہل پسندی تعبیرات تلاش لیتی ہے اور پھر اپنی جملہ منفی صفات کے ساتھ ساتھ گناہ دھونے کو عشق رسول کا سہارا لے لیتی ہے۔ جیسے گنگا جل سے نہا کر تمام گناہ دھل جاتے ہیں ایسے ہی اکثریت حج کو گناہ کی لانڈری سمجھ لیتی ہے۔ یہ ہماری سوچ کا مظہر ہے وہ سوچ جو ہمیں ایسی فلمیں اور کہانیاں تک لکھوانے پر اکساتی رہی ہے جس میں سلطانہ ڈاکو ہیرو ہوتا اور امیروں سے لوٹ کر غریبوں میں بانٹتا۔ خیر یہ تو اضافی بات سہی لیکن سوچ یہی ہے کہ ہم شعور فراہم نہیں کر رہے۔ اجتماعی طور پر صرف مذہبی طبقات نہیں پورے معاشرے اور نظام تعلیم و تربیت و خاندان سب کو ہی غلط اور درست کے واضح شعور کے ادراک اور اسے اپنانے کی ضرورت ہے۔ آپ کی تحریر یقینا ایک اچھی کاوش ہے۔
تبصرے کا شکریہ محترمہ حمیرا صاحبہ، یہ قطعیت یقینا پورے گروہ یا فرقے پر صادق نہیں آتی تاہم عوامی قسم کا ایک بڑا طبقہ جو زیادہ زور سے اس خانقاہی قسم کے مذھب سے وابستہ ہے اس کا یہی حال ہے، اور اس حققیت کی وجہ سے یہ قطعیت در آئی۔ تاہم غور سے پڑھنے کا شکریہ