عشائے آخری کا ظرفِ طاہر ڈھونڈتا ہوں میں
مسیحائے زماں ہوں، بیس صدیاں پیشتر ہی
اس مسافت پر چلا تھا
آج کے دن اس زمیں پاک سے، جس پر
لہو پیہم برستا آ رہا ہے اس بڑے دن سے!
سموم و ریگ کے طوفان میرا تاج کانٹوں کا
اڑا کر لے گئے ہیں، اور ۔۔۔۔۔
اندھیرے کی سلاخیں مجھ کو اندھا کر گئی ہیں ۔۔۔میں
بھٹکتا ہوں سکوت مرگ میں، طوفانِ ظلمت میں
مرے شاگرد سارے سو گئے ہیں خوابِ غفلت میں
مرا ساتھی نہیں ہے کوئی بھی ان بیس صدیوں میں
مگر میں پا شکستہ، تن دریدہ چلتا جاتا ہوں
مرے کاندھے پر ان سب کی صلیبیں ہیں
جنہیں اس دشت گاہی میں
مرے ہمراہ ہونا تھا، مگر سب مجھ سے پیچھے رہ گئے ہیں

میں اپنے ہاتھ دونوں عرش کی جانب اٹھاتا ہوں
کہ تاریکی میں کوئی اک ستارہ ہی
عشائے آخری کا ظرف طاہر ہو
فلاک پر اُڑ کے جو تاروں کے جھرمٹ میں
کہیں گم ہو گیا تھا بیس صدیاں پیشتر
جب قطرہ قطرہ اس میں میرا خوں
ٹپک کر بھر گیا تھا ایک ہی شب میں

"کہاں وہ شب، کہاں یہ بیس صدیاں بعد کا "اب !
فرق ہے دونوں زمانوں میں
کہ پچھلی بیس صدیاں تو
لہو کے ذائقے سےاس طرح مانوس ہیں جیسے
عشائے آخری کی اس رکابی سے
ابھی تک نسل انساں کی کہانی کے ورق پر
خوں برستا ہو !

One Response

  1. Ashraf Naqvi

    بہت عمدہ اور دل کو چھونے والی نظم ہے، تاریخی حوالے سے بھی یہ گزشتہ بیس صدیوں کا احاطہ کرتی ہے ۔ بہت عمدہ۔ بہہت دل کش۔ ڈھیروں داد

    جواب دیں

Leave a Reply

%d bloggers like this: