23 مارچ کو سات برس کے وقفے کے بعد افواج پاکستان نے یوم پاکستان کی پریڈ کا انعقاد بحسن و خوبی کیا جو یقیناً عسکری قیادت کی جانب سے پاکستان کے دفاع کے مضبوط عزم کا اظہار ہے۔تاہم اس موقع پر یہ سوال اٹھایاجانا اہم ہے کہ کیا پاکستان کے حصول کی سیاسی جدوجہد کے نقطہ آغاز کے یادگاری دن کو محض عسکری قوت کے اظہار کا دن بنا دینا کافی ہے؟ حب الوطنی اور قومیت کے تصور کو عسکری قوت کے ساتھ جوڑنے کے رحجان اور روایت نے پاکستان کے غیر فوجی محسنوں اور سیاسی قیادت کو عوامی منظر نامے پر جرنیلوں اور ایٹمی سائنسدانوں کے جھرمٹ میں گہنا دیا ہے۔
حب الوطنی اور قومیت کے تصور کو عسکری قوت کے ساتھ جوڑنے کے رحجان اور روایت نے پاکستان کے غیر فوجی محسنوں اور سیاسی قیادت کو عوامی منظر نامے پر جرنیلوں اور ایٹمی سائنسدانوں کے جھرمٹ میں گہنا دیا ہے۔
جدید ہتھیاروں اور عسکری مہارت کے اظہار کو پاکستان میں عسکریت پسندی کے عمومی رحجان سے علیحدہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ایک ایسی ریاست جو اپنے ماضی کو عرب اور افغان جنگجووں کی مدح سے شاندار بنانے کی کوشش کرے ،اپنے حال کو جدید ہتھیاروں کی تیاری سے ترقی پذیر ظاہر کرے اور اپنے مستقبل کو اسلحہ کے انباروں تلے محفوظ خیال کرے یقینا ً ایک کم زور ریاست ہے ۔ ریاست کی جانب سے عسکریت کو قومیت کی تشکیل کے بنیادی عنصر کے طور پرپیش کرنے سے معاشرے میں عسکریت پسندی کے رحجان میں اضافہ ہوا ہے۔ ریاست کی جانب سے ہرشاہراہ، چوراہے اور عوامی مقام پر عسکری علامات کی تنصیب اور نصاب میں عسکری فتوحات اور فاتحین کے بے تحاشا اور ستائشانہ ذکر سے عوامی سطح پر عسکری اداروں کو حب الوطنی کی واحد علامت کے طور پر دیکھا جانے لگاہے۔ ایک عام پاکستانی آج عسکری اداروں کی مدح و پذیرائی کے بغیر قومیت اور حب الوطنی کا تصور نہیں کرسکتا اور یقیناً یہ ریاست اور عوام کی شکست خوردگی ہے جسے ہتھیاروں کے سائے میں عزیمت بخشنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
قومیت کے اس ہتھیار بند تصور کے تحت عسکری برتری کو ریاستی طاقت اور ترقی کے متبادل قرار دینے سے ریاست کے سویلین ادارے کم زور ہوئے ہیں اور عام لوگوں نے ریاستی استحکام کے لیے عسکری اداروں کی طرف دیکھنا شروع کردیا ہے۔ اس تصور کے باعث ہی فوجی حکومتوں اور فوجی اداروں کی غیر آئینی سرگرمیوں اور اقدامات کو حب الوطنی اور قومی ضرورت کے لبادے میں چھپا کر تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اسی تصور کے تحت عسکری اداروں کی جانب سے قومی سلامتی کے معاملات میں کی جانے والی غلطیوں کو نظر انداز کرنے پر مجبور کیا جاتا رہا ہے اور اسی تصور کی بنیاد پر قوم پرست، ترقی پسند اور جمہوریت دوست دانشوروں اور رہنماوں کے خلاف عسکری استبداد کو گوارا کیا گیا ہے۔
قومیت کے اس ہتھیار بند تصور کے تحت عسکری برتری کو ریاستی طاقت اور ترقی کے متبادل قرار دینے سے ریاست کے سویلین ادارے کم زور ہوئے ہیں اور عام لوگوں نے ریاستی استحکام کے لیے عسکری اداروں کی طرف دیکھنا شروع کردیا ہے۔ اس تصور کے باعث ہی فوجی حکومتوں اور فوجی اداروں کی غیر آئینی سرگرمیوں اور اقدامات کو حب الوطنی اور قومی ضرورت کے لبادے میں چھپا کر تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اسی تصور کے تحت عسکری اداروں کی جانب سے قومی سلامتی کے معاملات میں کی جانے والی غلطیوں کو نظر انداز کرنے پر مجبور کیا جاتا رہا ہے اور اسی تصور کی بنیاد پر قوم پرست، ترقی پسند اور جمہوریت دوست دانشوروں اور رہنماوں کے خلاف عسکری استبداد کو گوارا کیا گیا ہے۔
سیاسی رہنماوں کی بجائے عسکری اداروں کو پاکستانیت، قومیت اور ملکی سلامتی کا واحد نگہبان تصور کرنے کے باعث اس ادارے کی حکمت عملی سے اختلاف کرنے والوں کی حب الوطنی پر سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔
دنیا میں نمایاں مقام کے حصول کے لیے ریاست کی جانب سے 23 مارچ کو یہ پیغام پوری شدت سے دیا گیا ہے کہ صرف مسلح افواج ہی اس مملکت کی نجات دہندہ اور محافظ ہونے کی اہل ہیں۔ ریاست کے واحد فعال ، متحرک اور موثر ادارے کے طور پر مسلح افواج نے اپنی شناخت جس طرح مستحکم کرلی ہے اس کی وجہ سے دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو یا خارجہ تعلقات، ملکی تاریخ ہو یافوجی شکستیں ہر معاملہ میں خاکی وردی کے بدنما داغ ہمیشہ نگاہوں سے اوجھل رہے ہیں۔
پاکستان میں حب الوطنی اور قومیت کی تشکیل کو عسکری قوت اور فوجی فتوحات کے ساتھ جوڑنے کا عمل پاکستانی عسکری اداروں کو لامحدود اختیارات اور اثرورسوخ دینے کا باعث بنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عسکری اداروں کے اقدامات اور پالیسیوں پر تنقید اور اختلاف کو غداری اور وطن دشمنی قرار دیا جاتا رہا ہے۔سیاسی رہنماوں کی بجائے عسکری اداروں کو پاکستانیت،قومیت اور ملکی سلامتی کا واحد نگہبان تصور کرنے کے باعث اس ادارے کی حکمت عملی سے اختلاف کرنے والوں کی حب الوطنی پر سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ درحقیقت یہ فراموش نہیں کیا جانا چاہیے کہ پاکستانیت کے مفہوم کو عسکری قوت اور اداروں تک محدود کردینے کے عمل نے ہی جمہوریت کی بساط بارہا لپیٹی ہے اور سیاسی قیادت کی نااہلی کے تصور کو مضبوط کیا ہے۔ عسکری اداروں کی حب الوطنی یقیناً لاریب ہے لیکن حب الوطنی کے اظہار کے لیے میزائلوں، ٹینکو ں اور توپوں کی نمائش اور فوجی جوانوں کی ستائش کے ساتھ ساتھ ان غیر فوجی دانش وروں، فنکاروں، سیاست دانوں، سماجی خدمت گاروں اور عام آدمیوں کو بھی نمایاں کیا جانا ضروری ہے۔ بلاشبہ 23 مارچ کی تقریبات میں سیاسی قیادت بھی موجود تھی اور پاکستانی ثقافت کے مظاہرے بھی تاہم ان کی حیثیت عمومی زندگی میں ایک زیردست اور کٹھ پتلی سے زیادہ نہیں اور محض شامل باجہ کے طور پر انہیں ساتھ رکھا جاتا ہے۔
حب الوطنی اور قومیت کے اظہار کے لیے صرف فوجی شہداء ہی نہیں بلکہ عام لوگوں کی قربانیوں کو بھی اجاگر کیا جانا ضروری ہے۔ حب الوطنی اور پاکستانیت کی ترویج کے لیے عوامی تقریبات اور قومی دنوں کو عسکری تقریبات میں تبدیل کرنے کی بجائے عام آدمیوں کا تہوار بنانا بھی ضروری ہے۔ ہتھیار بند فوجیوں کے سامنے ایک شاعر، ایک ڈاکٹر، ایک سیاستدان، ایک کھلاڑی، ایک فنکار اور ایک عام آدمی کو بھی قومی تقریبات میں نمائندگی کا حق دینا ہوگا۔ پاکستانیت اور پاکستان سے محبت کے مفہوم کو عسکریت تک محدود کرنے کی بجائے اس میں پاکستانی ثقافت کی ہمہ گیریت کے اظہار کے مواقع میں تبدیل کرنا ہوگا۔
پاکستان میں حب الوطنی اور قومیت کی تشکیل کو عسکری قوت اور فوجی فتوحات کے ساتھ جوڑنے کا عمل پاکستانی عسکری اداروں کو لامحدود اختیارات اور اثرورسوخ دینے کا باعث بنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عسکری اداروں کے اقدامات اور پالیسیوں پر تنقید اور اختلاف کو غداری اور وطن دشمنی قرار دیا جاتا رہا ہے۔سیاسی رہنماوں کی بجائے عسکری اداروں کو پاکستانیت،قومیت اور ملکی سلامتی کا واحد نگہبان تصور کرنے کے باعث اس ادارے کی حکمت عملی سے اختلاف کرنے والوں کی حب الوطنی پر سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ درحقیقت یہ فراموش نہیں کیا جانا چاہیے کہ پاکستانیت کے مفہوم کو عسکری قوت اور اداروں تک محدود کردینے کے عمل نے ہی جمہوریت کی بساط بارہا لپیٹی ہے اور سیاسی قیادت کی نااہلی کے تصور کو مضبوط کیا ہے۔ عسکری اداروں کی حب الوطنی یقیناً لاریب ہے لیکن حب الوطنی کے اظہار کے لیے میزائلوں، ٹینکو ں اور توپوں کی نمائش اور فوجی جوانوں کی ستائش کے ساتھ ساتھ ان غیر فوجی دانش وروں، فنکاروں، سیاست دانوں، سماجی خدمت گاروں اور عام آدمیوں کو بھی نمایاں کیا جانا ضروری ہے۔ بلاشبہ 23 مارچ کی تقریبات میں سیاسی قیادت بھی موجود تھی اور پاکستانی ثقافت کے مظاہرے بھی تاہم ان کی حیثیت عمومی زندگی میں ایک زیردست اور کٹھ پتلی سے زیادہ نہیں اور محض شامل باجہ کے طور پر انہیں ساتھ رکھا جاتا ہے۔
حب الوطنی اور قومیت کے اظہار کے لیے صرف فوجی شہداء ہی نہیں بلکہ عام لوگوں کی قربانیوں کو بھی اجاگر کیا جانا ضروری ہے۔ حب الوطنی اور پاکستانیت کی ترویج کے لیے عوامی تقریبات اور قومی دنوں کو عسکری تقریبات میں تبدیل کرنے کی بجائے عام آدمیوں کا تہوار بنانا بھی ضروری ہے۔ ہتھیار بند فوجیوں کے سامنے ایک شاعر، ایک ڈاکٹر، ایک سیاستدان، ایک کھلاڑی، ایک فنکار اور ایک عام آدمی کو بھی قومی تقریبات میں نمائندگی کا حق دینا ہوگا۔ پاکستانیت اور پاکستان سے محبت کے مفہوم کو عسکریت تک محدود کرنے کی بجائے اس میں پاکستانی ثقافت کی ہمہ گیریت کے اظہار کے مواقع میں تبدیل کرنا ہوگا۔
یہ ایک بہت اہم نقطہ ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس ملک میں صرف فوجیوں کی خدمات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے۔ جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جیسے دیگر ادارے جس نکمے اورملک سے محبت کرنے والے نہیں ہیں۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام یہ بات جانیں کہ یہ صرف فوجی ہی نہیں جن کی وجہ سے ہم محفوظ ہیں۔ بلکہ یہاں اور بھی ادارے ہیں کہ اگر ان کا وجود نہ ہو یہ ریاست نہ چل سکے۔ ہر ادارہ ایک سا لائق تحیسن اور محب وطن ہے۔
If Jihaad against evil Self is the best Jihaad then Self(awareness) must be most important power itself against any evil, not conventional or hybrid weapons………
But only "DEWANAA” want to know his true self in Pakistan…!
talwar nhi qalam ! (Y)