[blockquote style=”3″]
یہ نظم اس سے قبل اشارات پر شائع ہو چکی ہے، عاصم بخشی کی اجازت سے اسے لالٹین پر شائع کیا جا رہا ہے۔
[/blockquote]
[vc_row full_width=”” parallax=”” parallax_image=””][vc_column width=”2/3″][vc_column_text]
عرفان
[/vc_column_text][vc_column_text]
یہ جو ایک منظر تھا
کتنا خوبصورت تھا
آنکھ میں سمندر تھا
کوڑے والی روٹی پر
گدلے موتیوں جیسے
کچھ بچے ہوئے چاول
جن کا مول جذبوں کی
کھیتیوں سے بڑھ کر تھا
انگلیاں پھسلتی تھیں
پانچ ہی تو تھیں آخر
بوتلیں جو خالی تھیں
کوہ سے بھی بھاری تھیں
پھول جیسے ہاتھوں میں
خشک لکڑیاں جیسے
ان کہی سی کچھ نظمیں
منتظر ہوں سینے کی
برف ناک وحشت کو
آگ میں بدلنے کی
اور وہیں کہیں مالک
اس سوال چہرے پر
ان خیال آنکھوں میں
میں نے تجھ کو دیکھا تھا
تو بھی سوچتا ہو گا
کتنا خوبصورت تھا
یہ جو ایک منظر تھا
کتنا خوبصورت تھا
آنکھ میں سمندر تھا
کوڑے والی روٹی پر
گدلے موتیوں جیسے
کچھ بچے ہوئے چاول
جن کا مول جذبوں کی
کھیتیوں سے بڑھ کر تھا
انگلیاں پھسلتی تھیں
پانچ ہی تو تھیں آخر
بوتلیں جو خالی تھیں
کوہ سے بھی بھاری تھیں
پھول جیسے ہاتھوں میں
خشک لکڑیاں جیسے
ان کہی سی کچھ نظمیں
منتظر ہوں سینے کی
برف ناک وحشت کو
آگ میں بدلنے کی
اور وہیں کہیں مالک
اس سوال چہرے پر
ان خیال آنکھوں میں
میں نے تجھ کو دیکھا تھا
تو بھی سوچتا ہو گا
کتنا خوبصورت تھا
یہ جو ایک منظر تھا
[/vc_column_text][/vc_column][vc_column width=”1/3″][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row][vc_row][vc_column][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row]