پاکستان کے مغربی محاذ سے ایک اچھی خبر آئی ہے۔ ضربِ عضب کے زمینی آپریشن شروع ہونے کے بعد اب تک آنے والی سب سے بڑی خبر کے مطابق طالبان کے مرکزی رہنما عدنان رشید کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ عدنان کو زخمی حالت میں بھاگتے ہوئے جنوبی وزیرستان کی ایک وادی سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ سٹریٹیجک منصوبہ بندی اور پروپیگنڈا میں خاص شہرت رکھنے والے اس کمانڈر کی گرفتاری آپریشن میں سنجیدگی اور پاکستانی فوج کی پیشہ وارانہ قاببلیت کی دلیل بھی ہے۔ ہماری عدلیہ اور جیلیں اسے کب تک قید رکھ پائیں گی، ایک علیحدہ بحث ہے۔
یقیناً پاکستانیوں کی اکثریت نے عدنان کا خط نہیں پڑھا ہو گا مگر دہائیوں سے صیہونی سازشوں کے جواب میں غزوہ ہند کی للکار دینے والے اردو لکھاریوں نے کیا خوب انصاری نبھائی ہے۔
پرویز مشرف کے اقدام قتل میں سزائے موت پانے کے بعد عدنان اپریل 2012 میں بنوں جیل سے فرار ہوا۔ یہاں پر یہ زکر کرنا ضروری ہے کہ دوران جیل اس دہشت گرد رہنما کو موبائل فون جیسی کئی بنیادی سہولتیں فراہم کی گئی تھیں جس سے وہ باقاعدگی سے صحافیوں سے رابطے میں رہتا تھا۔ پچھلے سال اس نے ڈیرہ اسماعیل خان جیل پر حملہ کر کے اپنے دو سو پچاس ساتھیوں کو بھگانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ اس کامیاب آپریشن کی پروپیگنڈا ویڈیو انٹرنیٹ پر خاصی مقبول ہوئی۔ تاہم جس کارنامے نے عدنان کو عالمی شہرت سے نوازا، وہ ملالہ یوسف زئی کو لکھا جانے والا ایک کھلا خط ہے جس میں ملالہ پر حملے کی وجوہ بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ملالہ کے نقطہ نظر کو بھی چیلنج کیا گیا ہے۔
یہ خط محض ایک طالب کی طرف سے ملالہ کو دیا جانے والا جواب ہی نہیں، بلکہ ہمارے معاشرے میں بنیاد پرست بیانیے کی ایک اہم دستاویز بھی ہے۔ خط کو پڑھتے ہوئے اگر ایک لمحے کے لیے یہ نظر انداز کر دیا جائے کہ اسے لکھا کس نے ہے، تو یہی گمان ہو گا کہ یہ پاکستانی میڈیا کے مرکزی دھارے میں ملالہ کے خلاف لکھے جانے والے درجنوں کالموں میں سے ایک ہے۔ عدنان کے اسلوب اور دلائل کی چھاپ بعد میں آنے والے بہت سارے اردو کالموں میں نظر آتی رہی ہے۔ ایک اور زاویے سے دیکھیں تو عدنان وہی کچھ کہہ رہا ہے جو ہمارے کئی معتبر اور باریش کالم نگار کئی سالوں سے کہتے آئے ہیں۔ سمجھے اور سمجھائے بغیر نیو ورلڈ آرڈر اور تہذیبوں کے جنگی تصادم کی تکرار ہم آئے روز کہاں سے سنتے ہیں۔ میکالے اور برٹرینڈ رسل جیسے مغربی مفکرین کے سیاق و سباق سے کٹے ہوئے ہوئے حوالوں کی کترنیں عدنان کے ذہن میں کہاں سے آئیں۔ ‘انگریز کے آنے سے پہلے برصغیر کا ہر باشندہ پڑھا لکھا تھا’، یہ سفید جھوٹ عدنان نے کون سے نصابوں سے پڑھا۔ پورے عالمی نظام کو ظلم پر مبنی قرار دے کر بزور شمشیر اسے نیست و نابود کرنے کے نعرے صرف طالبان کی طرف سے تو نہیں آتے۔ ڈرون حملوں، عافیہ صدیقی اور امریکہ کی غلامی کی دہائی دے کر پاکستانی ریاست کے نظام کو بدلنے کی بات کوئی نئی تو نہیں۔ آخر پاکستان کی ائیر فورس، جس میں عدنان چھ سال تک ملازم رہا، میں طالبان کا وہ زہریلا پروپیگنڈا کہاں سے آ گیا کہ جس سے متاثر ہو کر اس نے پرویز مشرف کے قتل کا منصوبہ سوچا۔ ان سب کا جواب تلاش کرنا کچھ زیادہ مشکل نہیں۔
یہ خط محض ایک طالب کی طرف سے ملالہ کو دیا جانے والا جواب ہی نہیں، بلکہ ہمارے معاشرے میں بنیاد پرست بیانیے کی ایک اہم دستاویز بھی ہے۔ خط کو پڑھتے ہوئے اگر ایک لمحے کے لیے یہ نظر انداز کر دیا جائے کہ اسے لکھا کس نے ہے، تو یہی گمان ہو گا کہ یہ پاکستانی میڈیا کے مرکزی دھارے میں ملالہ کے خلاف لکھے جانے والے درجنوں کالموں میں سے ایک ہے۔ عدنان کے اسلوب اور دلائل کی چھاپ بعد میں آنے والے بہت سارے اردو کالموں میں نظر آتی رہی ہے۔ ایک اور زاویے سے دیکھیں تو عدنان وہی کچھ کہہ رہا ہے جو ہمارے کئی معتبر اور باریش کالم نگار کئی سالوں سے کہتے آئے ہیں۔ سمجھے اور سمجھائے بغیر نیو ورلڈ آرڈر اور تہذیبوں کے جنگی تصادم کی تکرار ہم آئے روز کہاں سے سنتے ہیں۔ میکالے اور برٹرینڈ رسل جیسے مغربی مفکرین کے سیاق و سباق سے کٹے ہوئے ہوئے حوالوں کی کترنیں عدنان کے ذہن میں کہاں سے آئیں۔ ‘انگریز کے آنے سے پہلے برصغیر کا ہر باشندہ پڑھا لکھا تھا’، یہ سفید جھوٹ عدنان نے کون سے نصابوں سے پڑھا۔ پورے عالمی نظام کو ظلم پر مبنی قرار دے کر بزور شمشیر اسے نیست و نابود کرنے کے نعرے صرف طالبان کی طرف سے تو نہیں آتے۔ ڈرون حملوں، عافیہ صدیقی اور امریکہ کی غلامی کی دہائی دے کر پاکستانی ریاست کے نظام کو بدلنے کی بات کوئی نئی تو نہیں۔ آخر پاکستان کی ائیر فورس، جس میں عدنان چھ سال تک ملازم رہا، میں طالبان کا وہ زہریلا پروپیگنڈا کہاں سے آ گیا کہ جس سے متاثر ہو کر اس نے پرویز مشرف کے قتل کا منصوبہ سوچا۔ ان سب کا جواب تلاش کرنا کچھ زیادہ مشکل نہیں۔
عدنان رشید تو پکڑا گیا، مگر ہر دوسرے پاکستانی کے ذہن میں بیٹھے عدنان رشید کو کون پکڑے گا۔
دانشوری کے جس معیار تک پہنچنے میں عدنان نے عمر کا ایک حصہ بِتایا ہو گا، ہمارے ہم وطنوں کی عقل سلیم میں وہی معیار سکہ بند ہے۔ یقیناً پاکستانیوں کی اکثریت نے عدنان کا خط نہیں پڑھا ہو گا مگر دہائیوں سے صیہونی سازشوں کے جواب میں غزوہ ہند کی للکار دینے والے اردو لکھاریوں نے کیا خوب انصاری نبھائی ہے۔ طالبان کو ان بزرگوں گا شکر گزار ہونا چاہیے کہ جن کی بدولت طالبان کے بیانیے کی وکالت ہمیں ناصرف اخبار، ٹی وی بلکہ ہر گلی کوچے میں نظر آتی ہے۔ اور ہاں، طالبان کے خلاف اب تک ہونے والے سب سے اہم آپریشن ضرب عضب کے بعد بھی سب کچھ پہلے جیسا ہی ہے۔
سالوں سے ان ‘اپنے لوگوں’ کے ساتھ مذاکرات کی دہائیاں دینے والے ٹھیک ہی تو کہتے ہیں کہ طالبان کو محض عسکری بنیادوں پر ہرانا ناممکن ہے۔ جواب عدنان نے خود ہی اپنے اس خط میں دیا ہے کہ ‘جنگوں میں ہتھیار سے کہیں زیادہ تباہ کن زبان ہوتی ہے’۔ ہماری تعلیم کے لیے عدنان نے مزید یہ اشارہ بھی دیا تھا کہ ‘استاد، قلم اور کتاب دنیا میں تبدیلی تو لا سکتے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کس قسم کا استاد، کس قسم کا قلم، اور کس قسم کی کتاب۔’
چاہے مزاکرات ہوں یا جنگ، ہمارے درمیان بیٹھے طالبان کے پانچویں کالم کی شناخت اور تدارک ضروری ہے۔ عدنان رشید تو پکڑا گیا، مگر ہر دوسرے پاکستانی کے ذہن میں بیٹھے عدنان رشید کو کون پکڑے گا۔
سالوں سے ان ‘اپنے لوگوں’ کے ساتھ مذاکرات کی دہائیاں دینے والے ٹھیک ہی تو کہتے ہیں کہ طالبان کو محض عسکری بنیادوں پر ہرانا ناممکن ہے۔ جواب عدنان نے خود ہی اپنے اس خط میں دیا ہے کہ ‘جنگوں میں ہتھیار سے کہیں زیادہ تباہ کن زبان ہوتی ہے’۔ ہماری تعلیم کے لیے عدنان نے مزید یہ اشارہ بھی دیا تھا کہ ‘استاد، قلم اور کتاب دنیا میں تبدیلی تو لا سکتے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کس قسم کا استاد، کس قسم کا قلم، اور کس قسم کی کتاب۔’
چاہے مزاکرات ہوں یا جنگ، ہمارے درمیان بیٹھے طالبان کے پانچویں کالم کی شناخت اور تدارک ضروری ہے۔ عدنان رشید تو پکڑا گیا، مگر ہر دوسرے پاکستانی کے ذہن میں بیٹھے عدنان رشید کو کون پکڑے گا۔
Bohat khoob likha aap ne Adnan Rasheed Sahab…..
good writing