فیملی گیٹ سکینڈل نے اعلی عدلیہ میں ایک نئے بحران کو جنم دیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ عدالتی بحرانوں سے بھری پڑی ہے۔ تاہم کچھ تنازعات دائمی شکل میں ہمیشہ موجود رہے ہیں۔ ان میں سے ایک اسلام کی آئینی اور قانونی حیثیت کا تعین ہے۔ زیر نظر مضمون میں اسی مسئلے پر اس امید کے ساتھ بات کی گئی ہے کہ اس سے ایک صحت مند بحث کو فروغ ملے گا۔
پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کی شکل میں تشدد اور تنازعات کا جو سلسلہ آج ہم دیکھ رہے ہیںاس کا ایک بنیادی عنصر مذہب کا دلیل کی جگہ لے لینا ہے۔ یہ عنصر نہ صرف نچلی سطح پرتشدد پسند گروہوں کی صورت میں نمودار ہوا ہے بلکہ ریاست کے اعلیٰ ترین اداروں خصوصاًعدلیہ نے بھی اس کو اپنایا ہے۔ یہ کہنا زیادہ درست ہو گا کہ عدلیہ نے اس رجحان کو معیار بنانے میں پہل کی ہے۔ قرآئن سے ثابت ہے کہ معاشرے میں قانون کی حکمرانی کے فقدان کے باوجود قانون اور عدالتی فیصلوں کا عوامی شعور کی تشکیل پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کس طرح پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے قانونی نظام میں استدلال اور آزمودہ آئینی تصورات کی بجائے مبہم مذہبی بیان کو جگہ دے کر منفی معیار تشکیل دیا ہے۔
پاکستان میں مذہب کے مفروضہ ریاستی مقام اور عدلیہ کی جانب سے اس مقام کی ٹھیکیداری کی کلاسیک مثال چیف جسٹس افتخار چوہدری کی زبانی سر زد ہوئی جب انہوں نے پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیارات کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کو ملک کو سیکولر بنانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ دراصل چیف صاحب کا یہ بیان سابقہ کئی ججوں کے ان بیانات کی بازگشت ہے جو انہوں نے مختلف آمرانہ اور ماورائے آئین اقدامات کی قانونی حیثیت کا فیصلہ دیتے ہوئے دیئے۔ جسٹس ذکی الدّین نے بھُٹو کی فوجی عدالتوں کے خلاف اور سابقہ چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے بے نظیر کی دوسری حکومت کی معطلی کو جائز قرار دیتے ہوئے بالکل یہی الفاظ کہے تھے۔ کیا وجہ ہے کہ ہماری عدالتوں نے آمروں کو آئین اور ریاست سے ہر قسم کا کھلواڑ کرنے کی اجازت دے دی مگر پارلیمنٹ پر بند باندھنے پر مُصر ہیں۔ اسکا سادہ جواب تو عدلیہ کی جمہوریت دشمنی ہے مگرعدالتوں کی طرف سے پارلیمنٹ کے اختیارات طے کرنے کا قانونی جواز کیا ہے۔ آئین میں عدالتی نظر ثانی کی شق موجود ہے مگر اس کا دائرہ تو بہت محدود ہے۔ اصل جواز کہیں اور سے اخذ کیا جاتا رہا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ نے ایک سے زیادہ مواقع پر خود کو خدا کا نائب اور اسکے اقتدارِاعلیٰ کا محا فظ قرار دیا ہے۔ جنرل یحییٰ کے مارشل لا کے خلاف ہونے والے مشہور مقدمے بنام عاصمہ جیلانی میں جسٹس سجاد احمد نے یہ کہا۔ اسکے بعد یوسف علی بنام پاکستان بار کونسل ٹریبیونل (PLD 1972 Lahore 404) میں ہائی کورٹ نے اس رائے کو دہرایا۔ اور ضیاالحق کے مارشل لا کو تحفظ دینے والے مقدمے بنام نصرت بھُٹو میں جسٹس انوارالحق نے یہ تک کہ دیا کہ عدالتیں مُسلم امت کے شعور کا مجسمہ ہیں۔ اس بات سے شاید یہ فیصلہ کرنا دشوار ہے کہ اس میں تضحیک کس کی ہوتی ہے، پاکستانی عدالتوں کی یا مسلم امت کے شعور کی۔
ابتدا میںپاکستانی عدالتیں قانونی دلائل کے لیے مذہب پر زیادہ انحصار نہیں کرتی تھیں۔آئینی تاریخ کے ابتدائی دو بڑے فیصلوں مولوی تمیزالدین اور دوسوکیس میں غیر جمہوری اور غیر آئینی اقدامات کو غیر مذہبی دلائل سے جواز فراہم کیا گیا۔ جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ جمہوریت دشمن فیصلے لازمی طور پر اسلامی دلائل سے اخذ نہیں ہوتے۔ اسی طرح بعد میں عاصمہ جیلانی مقدمے میں اس کے برعکس اسلامی دلائل کی بنیاد پر مارشل لا کو غلط قرار دے کر مثبت مثال پیش کی گئی۔ مگر پھر کیوں اسلام ہی کی روشنی میں ضیاالحق کے مارشل لا کو عین قانونی واسلامی قراردیاگیا۔ نہ صرف یہ بلکہ انیس سو نوے کی دہائی میں پارلیمانی روح کے خلاف صدارتی اختیارات سے حکومتیں گرانے کو بھی مذہب سے بنیاد فراہم کی گئی۔ اور پھر اسی دوران دیئے جانے والے فیصلوں کی سند سے ہی پرویز مشرف کے ماورائے آئین اقدامات جائز قرار پائے۔ اس معمے کی جڑیں پاکستان کے آئینی وسیاسی فلسفے کے ایک بنیادی تنازعے میں پیوست ہیں۔ وہ ہے اقتدارِاعلیٰ اور قانون کے ماخذ کا سوال۔ روایتی طور پر اس بارے میں د و رائے پائی جاتی ہیں۔ پارلیمانی نظام میں پارلیمان کو مقتدرِاعلیٰ سمجھا جاتا ہے جبکہ اس پر اعتراض یہ ہے کہ ایسا صرف خصوصی طور پر بر طانیہ میں ہے جہاں تحریری دستور موجود نہیں۔ لہذا دوسری رائے رکھنے والوں کے نزدیک تحریری دستور رکھنے والے ممالک میں دستور ہی مقتدر ہے۔ دونوں صورتوں میں ایک واضح معیار سامنے آجاتاہے جس کی بنیاد پر کسی اقدام کی آئینی حیثیت کو پرکھا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں تحریری دستور اور پارلیمنٹ دونوں کے ہوتے ہوئے بدقسمتی سے جبر اور سازباز کے ایک لمبے سلسلے کے بعد ایک تیسرے میعار کو جگہ دی گئی ہے اور وہ ہے مذہب کے بارے میں مبہم تصورات۔ ٹھوس صورت میں اس کا اظہار قرار دادِمقاصد ہے۔
سادہ لوح عوام اور سیاستدانوں کا ایک بڑا حصہ شاید اسے ایک مسئلے کے طور پر نہیں دیکھتامگر اوپر بیان کیے گئے آئینی بحرانات قرار دادِ مقاصد اور مذہبی تعویلات کو واضح قانونی نظام کا متبادل سمجھ لینے کی غلطی کا منطقی نتیجہ ہیں۔ تاہم اس سے پیشتر بھی کئی سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں۔ مثلاًقراردادِ مقاصد کافی سازباز کے بعد لائی گئی،کسی اقلیتی رکن اسمبلی نے اسے منظور نہیں کیا تھا، حتیٰ کہ منظور ہو جانے کے بعد بھی اسکا مقصد پاکستان کی آئینی بنیاد مہیا کرنا نہیں بلکہ آئین سازی میں محض رہنمائی کرناتھا۔ اسکے بعد یہ ہمیشہ آئین کا ابتدائیہ رہی جو آئین کا ناقابلِ عمل حصہ ہوتا ہے یہاں تک کہ ضیاالحق نے اسے آئین کا مکمل حصہ بنا دیا۔ شاید ضیا کے وقت عدالتیں اس قرارداد کی اصل حیثیت سے واقف تھیںیہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ نے ضیاالحق کی آئین شکنی کو قراردادِ مقاصد کی بجائے نظریہ پاکستان کا جواز فراہم کرنا زیادہ مناسب سمجھا۔ لیکن دیگر فیصلوں میں قرارداد کو آئین کی بنیاد بنانے کا ایسا رجحان پیدا ہوا کہ کئی سنجیدہ قانونی پیچیدگیوں پر منتج ہوا۔ جس سے باہر نکالنے کی عمدہ کوشش چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے 1991 ء کے حاکم خان کیس میں کی۔ انہوں نے مدلل اور واشگاف الفاظ میں کہا کہ قرار داد کسی بھی طرح آئین کی بنیاد یا اس سے برتر نہیں۔ لیکن بعد کے فیصلے اس اصول کی نفی کرتے رہے ہیں۔ اصل نقطہ یہ ہے کہ سوالات اور تنازعات میں گھری ایسی دستاویز کو آئین کی بنیاد کیسے قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ تو آئینی بنیاد کی بنیادی صحت پر ہی پورا نہیں اترتی۔
بعض مواقع پر قراردادِ مقاصد کو بظاہر جدت کے ساتھ بنیادی ساخت کے نظریے میں لپیٹ کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ موجودہ جمہوری نظام کے قابلِ ستائش کارنامے یعنی اٹھا رویں ترمیم کو بھی بنیادی ساخت کے نقطہ اعتراض پر کٹھائی میں ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ بنیادی ساخت کے نظریے میں جمہوریت، پارلیمانی ووفاقی نظام، عدلیہ کی آزادی اور ان سب کے ساتھ اسلامی امتزاج کو شامل کیا گیا ہے۔ بنیادی ساخت کے ہر ذکر میں ’اسلام کا امتزاج‘ آخر میں آتا ہے مگر جب بھی کوئی تضاد سامنے آتا ہے تو یہ امتزاج ایک ایسی سرحدی دیوار ثابت ہو تا ہے جو بنیادی ساخت کے باقی جملہ لوازمات کو آمرانہ روی کے قلعہ میں مقید رکھتا ہے۔حاکم خان کیس میں ہائی کورٹ نے سیاسی قیدیوں کی رہائی کو غیر اسلامی قرار دیامگر سوال یہ ہے ان سیاسی کارکنوں کی قیدوبند کی اسلامی دلیل کیا ہے، اگر ہے تو کیا وہ قابلِ قبول ہوسکتی ہے۔ مشرف آمریت کو چیلنج کرنے والے مقدمے ظفر علی شاہ بنام پرویز مشرف میں عدالت نے کہا کہ مشرف آئین تو بدل سکتا ہے مگر آئین کی بنیادی ساخت نہیں۔ نتیجتاً آئین تو آئین مشرف نے ملک کا حلیہ ایسا بدلا ہے کہ اس کی شناخت مشکل ہو گئی ہے۔ آمریت کے اس سرٹیفکیٹ پر دستخط کرتے وقت عدلیہ نہ جانے کون سی بنیادی ساخت کو محفوظ رکھنا چاہ رہی تھی۔جسٹس شمیم حسین قادری کو بھُٹو کے جزوی مارشل لامیں بنیادی ساخت کی خلاف ورزی صرف اسی صورت نظر آئی کہ اس میں نافذ کرفیو مسلمانوں کو مسجدوں میں نماز ادا کرنے کے لئے کافی وقت نہیں دیتا۔
عدلیہ کی ’مذہب پسندی‘ کا ایک اور خطرناک مظاہرہ 1991 ء میں نواز شریف کے دورِ حکومت میں منظورکردہ قانونِ شریعت کے خلاف جسٹس تنزیل الرحمن کے اس فیصلے کی صورت میں بھی ہے جس میں انہوں نے شریعت ایکٹ کی اس شق کو غیر اسلامی قرار دے دیا جس میں پارلیمنٹ اور موجودہ سیاسی نظام کے وجود کو عدالتی نظرِثانی سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا۔ تو گویا جس نظام کے تحت عدالتیں وجود میں آئیں، سپریم کورٹ اسی کے انکار کوجائز سمجھتی ہے۔ کیا یہ بالواسطہ طور پر اپنے ہی وجود اور اس کے جواز کا انکار نہیں؟ چنانچہ وہ کون ساصحیفہ ہے جوایسے غیر نمائندہ ججوں کو ملک کا نصب العین طے کرنے کا اختیار دیتا ہے جن کی قانونی عقل اور عوام سے وفاداری پر واضح سوالیہ نشان ہیں۔
اسلامی دلائل کی بنیاد پر انسانی حقوق اور عوامی فلاح کے حق میں بھی کئی فیصلے بھی دیئے گئے ہیں ۔ لیکن اس بات کی وضاحت کون کرے گا کہ زرعی اصلاحات، عائلی قوانین 1961 ء، مزارعین کا حقِ شُفہ اور قانون تحفظِ نسواں2006ءکیا انسانی حقوق کے مسئلے نہیں؟ اقلیتوں کے حقوق کی دلالت کہیں نظر کیوں نہیں آتی؟ہر قسم کے مسئلے پر’سو موٹو‘ اختیارات کو استعمال کیا جاتا ہے مگر مذہب کے نام پر تشدد کرنے اور تشدد پر اکسانے والوں کے خلاف کیوں نہیں؟ نقطہ مقصود یہ ہے کہ عدالتیں اسلام کا منتخب استعمال کرتی ہیںجس کا بنیادی مقصد قراردادِمقاصد اور بنیادی ساخت کے عدالتی دائرہ اثر کے ذریعہ حتمی طور پر اپنے اختیارات کو بڑھانا ہوتا ہے۔ کسی بھی قانون کو مسترد کرنے کا یہ اختیار اور اس سے جنم لینے والی غیر یقینی کیفیت قانونی نظام کی بقا کے لیے خطرہ ہے۔ اس عدالتی آمریت سے چھٹکارہ نہ پایا گیا تو انتہا پسندی کو فروغ ملے گا اور جمہوری امکانات کی روشنی بجھتی جائے گی۔