جب اس نے سنا کہ عراق اور شام میں اسلامی خلافت قائم ہوگئی ہے تو یہ خبر اس کے لیے کسی خوشی کا باعث نہیں نہ بنی ،ایک زمانہ تھا جب خلافت کا قیام اور عالمی جہاد کا پھیلاؤاس کی زندگی کا مقصد تھا لیکن نجانے کیوں آج عراق اور شام میں لڑنے والے اس کے لیے مجاہدین نہیں رہے تھے،صرف "شدت پسند دہشت گرد اور بھٹکے ہوئے” رہ گئے تھے ۔
انہوں نے بتایا کہ قیامت کے روز یہ سب ڈگریاں، دکانیں ملازمتیں کام نہیں آئیں گی وہاں صرف شہادت کام آئے گی۔اس محفل سے وہ کتنا پرجوش اٹھا تھا، اس نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ یونیورسٹی میں داخلہ نہیں لے گا اوراپنی زندگی جہاد کے لیے وقف کردے گا۔
اسے وہ وقت اب بھی یاد تھا جب ترجمہ قرآن کی کلاس میں کچھ نوجوانوں سے اس کی ملاقات ہوئی، کیسی متاثر کن شخصیت تھی ان سب کی، یقین اور امید سے بھرے ایسے لوگ جیسے انھیں معلوم ہو کہ ان کی زندگی کا مقصد کیا ہے۔ ان کی باتوں میں ہر وقت دنیا کو بدل دینے کی تمنا تھی، اور دین کے بارے میں ان کے خیالات کتنے واضح تھے، بات بات پر قرآن کی آیات اور احادیث سناتے تھے۔ یہ لوگ اس کی مسجد کے مولوی صاحب اور باقی نمازیوں سے سے بہت مختلف تھے وہ بھی انھی جیسا بننا چاہتا تھا۔ نماز کے بعد دیر تک وہ ان کے حلقے میں بیٹھا رہتا اور ان کی باتیں سنتا اور جب وہ کشمیر، چیچنیا و بوسنیا کے مجاہدین کے قصے سناتے تو اسکے لہو کی گردش بڑھ جاتی، اور وہ کچھ لمحوں کے لیے خود کو میدان جنگ میں عیسائیوں، ہندوؤں اور ناپاک کافروں کو قتل کرتے دیکھتا۔ وہ کافر جواس کے مظلوم مسلمان بھائیوں کا خون بہاتے ، ماؤں بہنوں کی عزتیں لوٹتے اور دین کے غلبہ کی راہ میں رکاوٹ بنے بیٹھے تھے۔ ان دنوں میں وہ خود کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان سمجھتا تھا، جسے سیدھی راہ نظر آگئی تھی۔ وہ خود کو خدا کا پسندیدہ اور چنیدہ محسوس کرنے لگا تھا۔پھر وہ جماعت کا فعال رکن بن گیا، جماعت کا لٹریچر پڑھنا اور بانٹنا ، دروس میں حصہ لینا اور چندہ اکھٹا کرنا اس کے معمولات تھے، اس کا حلیہ بھی ان جیسا ہوگیا، جماعت میں سب ایک دوسرے کے بھائی تھے اور دعوۃ و جہاد ان کا واحد مقصد تھا۔ تب زندگی کتنی بامقصد معلوم ہوتی تھی ۔
وہ گلابی آنکھیں جو کتنے اشتیاق سے اسے دیکھتی تھیں اسے قید کرنے سے قاصر رہیں، وہ دامن چھڑا کر چلا آیا، دین کی سربلندی اور جنت کی طلب اس مہ رخ سے زیادہ طاقتور تھی (بہت سالوں بعد اب وہ سوچتا ہے کہ کیا وہ گلابی آنکھیں اب بھی اس کی منتظر ہوں گی۔) پھر اسے اپنا دوست بھی یاد آتا جو گھر بار اورتعلیم چھوڑ کر مجاہدین کے ساتھ خود کو راہ خدا میں شہادت کے لئے وقف کر چکا تھا اورکسی نامعلوم مقام پر معرکہ حق و باطل میں شہید ہوگیا تھا، اس کا غائبانہ نماز جنازہ کتنا شاندار تھا کیسے رو رو کر اس کی شہادت کی قبولیت کی دعا مانگی گئی تھی۔اس کی ماں کا رو رو کر برا حال تھا اور اس کے والد کہتا تھا کہ ان خبیثوں نے میرے بچے کو بھٹکا کر خود قتل کیا ہے۔لیکن اسے اپنے دوست کے ماں باپ کی نا سمجھی پر شدید غصہ آیا جو اپنے بیٹے کی شہادت پر شکوہ کنا تھے،اس نے تو سنا تھا کہ شہادت سعادت ہے، شہیدوں کے خون سے خوشبو آتی ہے ، آگ ان کے جسم کو نہیں چھوتی اور شہادت کے بعد بھی ان کے چہرے پر مسکراہٹ ہوتی ہے۔
برسات کی ایک شام اس کے ایک قریبی جماعتی بھائی نے اس سے ملاقات کی اوربڑے رازدارانہ انداز میں کہا کہ ایک خاص چیز آپ کو دینی ہے لیکن آپ نے آگے کسی سے ذکر نہیں کرنا۔ وہ ذرا چوکنا ہوگیا،پھر انھوں نے ایک سی ڈی اس کے حوالے کی۔ اس سی ڈی کے اند رجو تھا وہ اسے دل تھام کر دیکھنا پڑا، وہ فلسطین میں صابرہ ،شتیلہ کے کیمپوں میں اسرائیلی مظالم، مشرقی تیمور اور احمد آباد کے مسلم کش فسادات کی وڈیو تھی، توربورا کی داستانیں تھیں۔اس کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ انسانوں پر اتنا ظلم بھی کیا جاسکتا ہے، وہ زندہ انسان کو جلائے جانے کا منظر، وہ نہتے بندے کے پیچھے تلوار لے کر بھاگتے لوگ، وہ انسانوں کی مسخ شدہ لاشیں۔ یہ مناظر اس کے دل و دماغ میں کھب گئے ، اور اس کے ذہن میں یہود وہنود، امریکہ، بھارت اور اسرائیل سے انتقام کا تصور رہ گیا۔ پھرایک روز درسِ خاص میں امیر صاحب خود تشریف لائے اور انھوں نے دعوت و جہاد کا منہج سمجھایا ، دنیا داروں پر لعنت بھیجی جو ڈگریوں اور ملازمتوں کے حصول کے پیچھے وقت برباد کررہے ہیں اور دین و آخرت کو بھلا بیٹھے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ قیامت کے روز یہ سب ڈگریاں، دکانیں ملازمتیں کام نہیں آئیں گی وہاں صرف شہادت کام آئے گی۔اس محفل سے وہ کتنا پرجوش اٹھا تھا، اس نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ یونیورسٹی میں داخلہ نہیں لے گا اوراپنی زندگی جہاد کے لیے وقف کردے گا۔
دس سال بیت گئے ، کئی تنظیمیں منطر عام پر آئیں اور گئیں، کئی آپریشن ہوئے ، ہر طرف کسی نہ کسی بنیاد پر قتل عام ہے۔ اور وہ اکثر سوچتا ہے کہ کیا مسلمانوں کا مقدر صرف جہالت ، جذباتیت ، فرقہ پرستی، قتل وغارت گری، اقتدار کے لیے نا ختم ہونے والی لڑائیاں اور مذہب کا معاشی و سیاسی استعمال ہی ہے؟
اب وہ جماعت کے اندرونی حلقوں میں اٹھنے بیٹھنے لگا، لیکن یہاں اسے قرآن و حدیث کے ذکر سے زیادہ چندہ جمع کرنے، کھالیں اکٹھی کرنے ،اسلحہ کے زور پر مخالف فرقہ کی مساجد پر قبضہ کرنے جیسے مسائل پر زیادہ سننے کا موقع ملا۔ وہ لوگ جو اسے زندگی اور رزق کے لیے اللہ پر بھروسے کا کہتے تھے خود چند روپوں، چند کھالوں اور مسجدوں پر قبضہ کی خاطر لڑائیاں کرتے دکھائی دیے۔سب سے حیرت انگیز بات یہ تھی کہ جہاد کی دعوت دینے والا کوئی بھی شخص اپنی اولاد کو جہاد پر نہیں بھیجتا تھا ۔دوسروں کے بچوں کو ڈگریوں سے روکنے والے اپنے بچوں کو ڈاکٹر انجینیئر بناتے تھے اور نوکریاں بھی کرواتے تھے۔ایک امیر کے بعد امیر بننے کی سیاسی کشمکش جاری رہتی اور اکثر اختلاف ہونے پر ایک جماعت ٹوٹ کر دو یا تیں جماعتوں میں بٹ جاتی۔ اور جو چیز سب سے بڑا راز تھا کہ جماعت کو چلانے کے لیے کروڑوں کہاں سے آتے تھے، ٹریننگ کے لیے جگہ، اسلحہ اور تحفظ کہاں سے ملتا تھا۔ ان سب باتوں کے بہت سادہ جواب دیے جاتے تھے کہ دیکھیں میرے بھائی جب آپ دین کا کام کرتے ہیں تو اللہ آپ کی مدد کرتا ہے کبھی کبھی تو آپ کے دشمن بھی آپ کے مددگار بن جاتے ہیں جیسے اقبال نے کہا ہے کہ ” پاسبان مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے”۔ افغان جہاد کی مثال دیکھ لو کیسے امریکہ کی مدد سےاسلام کا دفاع ہوا، تو میرے بھائی اللہ اپنے دین کی حفاظت کے لیے مسلمانوں کا محتاج نہیں ہے۔اب اس کے دل میں جماعت اور دعوت و جہاد کے بارے میں شکوک اٹھنے لگے۔
پھر اس نے اپنے شہر میں خود کش دھماکے ہوتے دیکھے جن میں معصوم لوگ شہید ہوتے، جب اس نے جماعتی بھائیوں سے پوچھا تو ان کا جواب بڑا سادہ تھا کہ خود کش حملے اسلام میں جائز ہیں اور جو بے گناہ مارے جاتے ہیں ان کو جنت ملے گی اور بڑے مقصد کے لیے چھوٹی چھوٹی قربایناں تو دینی ہی پڑتی ہیں۔ پھر اس نے سنا کہ کچھ جہادی جماعتیں بنک ڈکیتیاں اور اغواء برائے تاوان کی کاروایاں بھی کرتی ہیں اور اس کا جواز بھی یہی بتایا گیا کہ اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے ایسا کرنا جائز ہے وہ آپ نے واقعہ تو سنا ہوگا، جب ۔۔۔
انھی شکوک و شبہات کے دنوں میں کئی ایسے لوگوں سے بھی ملنے کا اتفاق ہوا جو جہادی تنظیموں کا حصہ رہ چکے تھے مگر پھر متنفر ہوکر چھوڑ گئے ، وہ راشد جو عالم دین تھا اور نوئے کی دہائی میں طالبان کے ساتھ مل کر لڑ چکا تھا، اسے حیرانی تھی کہ اتنے مسلمان روسیوں نے نہیں مارے جتنے طالبان اور دوسرے گروہوں نے آپس میں لڑ کر مار دیے ہیں۔ وہ قاسم جو قرآن وحدیث کے مطالعہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ دین اور جہاد کا جو تصور یہ تنظیمیں رکھتی ہیں وہ صحیح نہیں ہے، وہ عبداللہ جو نفسیات کا شوقین تھا اور برین واشنگ کے سارے طریقے اسے معلوم تھے جس نے اسے سمجھایا کہ ذہنوں میں حقیقت کا تصور کیسے بنایا جاتا ہے،اسد جو تاریخ کا طالب علم تھا اور پچھلے 1300 سال میں اٹھنے والی ہر مسلح تنظیم اور گروہ کے منہج اور انجام سے واقف تھا۔، مخدوم جو صحافی تھا اور تنظیموں کے اندرونی حالات سے واقف تھا ۔ لیکن ہر وہ شخص جو سوچنے لگا تھا وہ اس وحشت اور پاگل پن سے دستبردار ہو چکا تھا۔ مقصد کا نہ ہونا برداشت ہو سکتا ہے مگر مقصد ایک دھوکا، ایک فریب اور ایک غلطی ثابت ہو جائے ، یہ کیسے برداشت کیا جا سکتا ہے؟
دس سال بیت گئے،کئی تنظیمیں منطر عام پر آئیں اور گئیں، کئی آپریشن ہوئے،ہر طرف کسی نہ کسی بنیاد پر قتل عام ہے۔ اور وہ اکثر سوچتا ہے کہ کیا مسلمانوں کا مقدر صرف جہالت،جذباتیت،فرقہ پرستی، قتل وغارت گری، اقتدار کے لیے نا ختم ہونے والی لڑائیاں اور مذہب کا معاشی و سیاسی استعمال ہی ہے؟

4 Responses

Leave a Reply

%d bloggers like this: