Laaltain

عبدالکلام ۔۔۔ اک عہد کا خاتمہ

1 اگست، 2015
جب میں مر جاؤں تو میری موت پہ چھٹی دینے کے بجائے ایک دن اضافی کام کیا جائے۔ یہ الفاظ یقینی طور پر کسی ایسی شخصیت کے ہو سکتے ہیں جس کی پوری زندگی انتھک محنت سے عبارت ہو۔ یہ الفاظ ڈاکٹر عبدالکلام کے ہیں جو 83برس کی عمر میں داعی لقمہ اجل ہو گئے۔ اسی طرح ایک موقع پر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ خدا بھی ان کی ہی مدد کرتا ہے جو سخت محنت کے عادی ہوں۔ ان دو جملوں میں ایک ممتازانسان کی پوری زندگی مقید ہے۔
جب میں مر جاؤں تو میری موت پہ چھٹی دینے کے بجائے ایک دن اضافی کام کیا جائے۔
کیا کسی کو خبر تھی کہ 1931میں کشتیاں تیار کرنے والے ایک غریب مزدور زین العابدین کے گھر پیدا ہونے والا بچہ ایک دن بھارت کا صدر بن جائے گا؟ بھارت میں اگرچہ مسلمانوں کی زندگی آسان نہیں لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ ڈاکٹر عبد الکلام جیسے محسنوں کو بھارت میں اعلیٰ ترین مقام بھی دیا گیا۔ آٹھ سال کی عمر میں اپنے کزن شمس الدین کے ساتھ اخبار فروخت کرنے والے اس بچے کے بارے میں کسے خبر تھی کہ ایک دن وہ ” میزائل مین ” کے نام سے جانا جائے گا۔ یہ خطاب ڈاکٹر صاحب کو میزائل ٹیکنالوجی میں لافانی خدمات کے اعتراف میں دیا گیا۔ بھارتی جوہری پروگرام میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ 98ء میں پوکھران کے ایٹمی دھماکوں میں ان کا کردار کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں رہا ان کی انہی خدمات کے اعتراف میں انہیں بھارت کے صدر کی مسند پہ بٹھایا گیا۔
83سالہ ڈاکٹر عبدالکلام کی زندگی جہد مسلسل کا نام ہے۔ مدراس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں داخلے کے لیے ان کے پاس ایک ہزار فیس تک نہ تھی۔ بہنیں ہمیشہ بھائیوں کے لیے قربانیاں دیتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی ہمشیرہ نے اپنی چوڑیاں گروی رکھ کے داخلہ فیس کا بندوبست کیا۔ مدراس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے گریجویشن کے بعد عبد الکلا م نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، نئے راستے طے ہوتے رہے، نئی منزلیں روشن ہوتی گئیں ۔ انڈین ریسرچ اینڈ سپیس آرگنائزیشن سے وابستگی ڈاکٹر صاحب کی زندگی میں بھی انقلاب لے کر آئی کیوں کہ روہینی-1 کی کامیابی کے بعد حکومت نے خصوصی طور پر ڈاکٹر صاحب کی خدمات سے استفادہ کرنے کے منصوبے شروع کیے۔
ڈاکٹر عبدالکلام کی خدمات کے اعتراف میں انہیں1981ء میں پدما بھوشن ایوارڈ،1990ء میں پدما وی بھوشن ایوارڈاور 1997 میں بھارت کے اعلیٰ ترین سول ایوارڈ بھارت رتنا سے نوازا گیا
روہینی نام تجرباتی طور پر تیار کیے گئے مصنوعی سیاروں کے سلسلے کو دیا گیا تھا، اسی منصوبے سے ڈاکٹر صاحب ایک محترم شخصیت کے طور پر بھارت میں ابھرے۔ روہینی اول انڈین سپیس اینڈ ریسرچ سینٹر نے 1978میں خلاء میں بھیجا۔ ڈاکٹر صاحب کی وجہ شہرت SLV یعنی Satellite Launch Vehicleبنے۔ اس ٹیکنالوجی نے انڈیا میں خلائی تحقیق کی نئی راہیں ہموار کیں۔
ڈاکٹر عبدالکلام کی خدمات کے اعتراف میں انہیں1981ء میں پدما بھوشن ایوارڈ،1990ء میں پدما وی بھوشن ایوارڈاور 1997 میں بھارت کے اعلیٰ ترین سول ایوارڈ بھارت رتنا سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ انہیں اندرون ملک اور بیرون ملک 20سے زائد اعزازت سے نوازا گیا۔
ڈاکٹر عبدالکلام کو بھارت میں سب سے زیادہ معتبر شخصیت سمجھا جاتا تھا ۔ ڈاکٹر صاحب جب ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن سے وابستہ تھے تو انتظامیہ نے حفاظتی انتظامات کے لیے دیوار پر کانچ کے ٹکڑے لگانے کا منصوبہ بنایا لیکن ڈاکٹر صاحب نے یہ منصوبہ صرف اس وجہ سے رد کر دیا کہ پرندوں کو دیوار پر بیٹھنے میں مشکلات پیش آئیں گی۔ایک تعلیمی ادارے کی تقریب میں ڈاکٹر صاحب نے اس وجہ سے مخصوص کرسی پر بیٹھنے سے انکار کر دیا کیوں کہ اس کا حجم باقی کرسیوں سے بڑا تھا جو اسے باقی نشستوں سے ممتاز کرتا تھا۔ صدارت سنبھالنے کے بعد جب وہ کیرالہ گئے تو انہوں نے صدارتی مہمان کے طور پر ایک چھوٹے سے ڈھابے کے مالک کو اپنا مہمان بنایا کیوں کہ اس کے ساتھ ان کا بہت اچھا وقت گزرا تھا۔
ایک ایسا شخص جو پرندوں کی تکالیف سے بھی آگاہ ہے اس کا احترام کیوں نہ کیا جائے
ہندوستانی معاشرے میں ڈاکٹر صاحب جیسا محنتی شخص جب احترام کا استعارہ بن جاتا ہے تو یقیناًحیرانی ہوتی ہے لیکن یہ حیرانی اس وقت مسکراہٹ میں بدل جاتی ہے جب ڈاکٹر صاحب کی شخصیت پر ایک نظر ڈالی جائے، ایک ایسا شخص جو پرندوں کی تکالیف سے بھی آگاہ ہے اس کا احترام کیوں نہ کیا جائے،ایک ایسا انسان جس اخبار فروش سے ملک کا صدر بن گیا لیکن کبھی عاجزی نہ چھوڑ سکا اسے توقیر کیوں نہ ملے۔ ڈاکٹر صاحب کی موت سے صرف ہندوستان میزائل ٹیکنالوجی کے بانی سے یا خلائی تحقیق کے گرو سے ہی محروم نہیں ہوا بلکہ دنیا ایک عظیم انسان سے محروم ہو گئی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *