کیا آپ جانتے ہیں کہ 20 مارچ کو عالمی یومِ شادمانی منایا جاتا ہے؟! یہ دن اقوامِ متحدہ کی ایما پر منانا شروع کیا گیا ہے اس دن کے اغراض و مقاصد عوام و خواص اور تمام انسانیت کی صحتمندی، خوشی اور ترقی کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے!
بنیادی طور پر خوشی مثبت، پرسکون، سرشاری کی ذہنی کیفیات کا نام ہے۔ اور اس کی سائنسی(حیاتیاتی)،نفسیاتی ، مذہبی اور فلسفیانہ توجیہات موجود ہیں۔ خوشی، شادمانی یا سرشاری کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اقوامِ متحدہ نے انسانی حقوق کے عالمی منشور میں دفعہ نمبر تین کے تحت اس احساس یا کیفیت کی بطور حقِ انسانی تائید و توثیق کی ہے، عالمی منشور برائے انسانی حقوق کے مطابق "ہر شخص کو اپنی جان، آزادی اور ذاتی تحفظ کا حق ہے” یہاں خوشی، اطمینان یا سکون کی ظاہری یا قابلِ شمار خواص (یعنی جن کو گنا یا تولا جا سکے) مذکور ہیں۔ سائنسی طور پر دیکھا تو سارا کھیل ایک کیمیائی مادے کا ہے جس کو ڈوپامائن کہتے ہیں، یہ کیمیائی مادہ انتہائی مسرت کے موقع پر انسانی خون میں خارج ہوتا ہے اور انسان کو وہ خاص احساس یا تسکین دلاتا ہے جس کا وہ متقاضی ہوتا ہے۔ مذہبی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو عبادات کے موقع یا پھر مذہبی اعتبار سے انتہائی معتبر جگہوں کی زیارت سے اس احساس کا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ فلسفیانہ نظریہ سے دیکھا جائے تو خوشی کا تعلق مقصدِ حیات سے جا ملتا ہے، یونانی فلسفیوں نے یہ سوالات اٹھائے تھے کہ، آخر ہمارا مقصدِ حیات کیا ہے؟ ہم کیوں خوش ہوں یا خوشیاں منائیں؟ اسی بات کا جواب نفسیات بڑی خوبصورتی کے ساتھ دیتی ہے کہ خوشی دو طرح کی ہوتی ہے ایک مادی یا جسمانی، اس کو انگریزی میں پلیژر کہتے ہیں اور دوسری کو ہیپینس یا جوائے یا فلو کہتے ہیں۔ پلیژر اچھا کھانا کھانے، جنسِ مخالف سے باتیں کرنے یا میل جول سے بھی حاصل ہوجاتا ہے، لیکن حقیقی خوشی یا جوائے، ذہن و وقوف کی نشونما، سوچنے، غور کرنے، علم و دانش کے حصول اور انسانیت کی فلاح و بہبود سے حاصل ہوتا ہے۔
اب سوال یہ اٹھتا ھے کہ اس دن کو منانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟! ہر کسی کو پتہ ہے خوشی کیا ہوتی ہے تو پھر کیوں خاص طور پر اس دن باقاعدہ ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے؟! ان سوالات کے جوابات انتہائی تلخ ہیں۔ سچائی یہ ہے کہ لوگ آج بھول گئے ہیں کہ خوشی، اطمینان، سکون کیا ہوتا ہے۔
بنیادی طور پر خوشی مثبت، پرسکون، سرشاری کی ذہنی کیفیات کا نام ہے۔ اور اس کی سائنسی(حیاتیاتی)،نفسیاتی ، مذہبی اور فلسفیانہ توجیہات موجود ہیں۔ خوشی، شادمانی یا سرشاری کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اقوامِ متحدہ نے انسانی حقوق کے عالمی منشور میں دفعہ نمبر تین کے تحت اس احساس یا کیفیت کی بطور حقِ انسانی تائید و توثیق کی ہے، عالمی منشور برائے انسانی حقوق کے مطابق "ہر شخص کو اپنی جان، آزادی اور ذاتی تحفظ کا حق ہے” یہاں خوشی، اطمینان یا سکون کی ظاہری یا قابلِ شمار خواص (یعنی جن کو گنا یا تولا جا سکے) مذکور ہیں۔ سائنسی طور پر دیکھا تو سارا کھیل ایک کیمیائی مادے کا ہے جس کو ڈوپامائن کہتے ہیں، یہ کیمیائی مادہ انتہائی مسرت کے موقع پر انسانی خون میں خارج ہوتا ہے اور انسان کو وہ خاص احساس یا تسکین دلاتا ہے جس کا وہ متقاضی ہوتا ہے۔ مذہبی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو عبادات کے موقع یا پھر مذہبی اعتبار سے انتہائی معتبر جگہوں کی زیارت سے اس احساس کا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ فلسفیانہ نظریہ سے دیکھا جائے تو خوشی کا تعلق مقصدِ حیات سے جا ملتا ہے، یونانی فلسفیوں نے یہ سوالات اٹھائے تھے کہ، آخر ہمارا مقصدِ حیات کیا ہے؟ ہم کیوں خوش ہوں یا خوشیاں منائیں؟ اسی بات کا جواب نفسیات بڑی خوبصورتی کے ساتھ دیتی ہے کہ خوشی دو طرح کی ہوتی ہے ایک مادی یا جسمانی، اس کو انگریزی میں پلیژر کہتے ہیں اور دوسری کو ہیپینس یا جوائے یا فلو کہتے ہیں۔ پلیژر اچھا کھانا کھانے، جنسِ مخالف سے باتیں کرنے یا میل جول سے بھی حاصل ہوجاتا ہے، لیکن حقیقی خوشی یا جوائے، ذہن و وقوف کی نشونما، سوچنے، غور کرنے، علم و دانش کے حصول اور انسانیت کی فلاح و بہبود سے حاصل ہوتا ہے۔
اب سوال یہ اٹھتا ھے کہ اس دن کو منانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟! ہر کسی کو پتہ ہے خوشی کیا ہوتی ہے تو پھر کیوں خاص طور پر اس دن باقاعدہ ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے؟! ان سوالات کے جوابات انتہائی تلخ ہیں۔ سچائی یہ ہے کہ لوگ آج بھول گئے ہیں کہ خوشی، اطمینان، سکون کیا ہوتا ہے۔
مذہبی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو عبادات کے موقع یا پھر مذہبی اعتبار سے انتہائی معتبر جگہوں کی زیارت سے اس احساس کا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ فلسفیانہ نظریہ سے دیکھا جائے تو خوشی کا تعلق مقصدِ حیات سے جا ملتا ہے
آج لوگ دکھاوے، نمود و نمائش کو ہی خوشی کے ذرائع سمجھنے لگے ہیں، لوگ لباس سے لیکر کھانے ہر چیز میں برانڈ ڈھونڈ رہے ہیں اور اس افراتفری میں خود کو خودی کو، خوشی کو کھو رہے ہیں۔ آج لوگ مقصدِ حیات و عزمِ جزم کو نہیں، فیس بک لائک کو اپنی منزلِ مقصود سمجھ بیٹھے ہیں۔ لوگ خوشی گورے رنگ، دبلے جسم، امارت، شہرت میں ڈھونڈنے لگے ہیں اور ان کو پا لینے کے بعد بھی افسردہ و کھوکھلا پن محسوس کر رہے ہیں۔ اگر آپ سچی خوشی کے متلاشی ہیں تو وہ آپ کو عبادت میں، حصولِ علم میں، فکری نشستوں میں، ادبی محافل میں، انسانیت کی خدمت میں کسی مشغلہ میں مثلاً مطالعہ، مکالمہ، کھانا پکانے میں، باغ بانی کرنے میں، عکاسی، عکس نگاری، مصوری میں، غور و فکر کرنے میں، کالم یا بلاگ لکھنے میں ملے گی۔ دکھاوا وقتی طور پر ستائش تو دلا سکتا ہے، سکون نہیں۔ ایک اور بات ہم میں سے کچھ لوگ جب ان میں سے کسی ذریعہ کو نہ پاسکیں تو منشیات کی جانب رجوع کرلیتے ہیں جو زبردستی ڈوپامائن کا اخراج کرواکر ہمیں بلاوجہ یا جعلی خوشی کا احساس دلادیتے ہیں لیکن دراصل وہ ہمیں ذہنی، جسمانی، معاشی، معاشرتی و روحانی طور پر تباہ کردیتے ہیں۔
تو چلیں آج عہد کرتے ہیں کہ ہم خوش رہیں گے اور دوسروں میں بھی خوشیاں بانٹیں گے۔ ہم ایسا ہر ملنے والے کی طرف مسکرا کر دیکھ کر بھی کر سکتے ہیں، کسی طالبِ علم کو پڑہنے میں مدد دے کر بھی کر سکتے ہیں یا پھر اس دن سے متعلق معلومات عام کر کے بھی کرسکتے ہیں۔ خوش و خرم رہیئے اور خوب ترقی کیجیے۔
تو چلیں آج عہد کرتے ہیں کہ ہم خوش رہیں گے اور دوسروں میں بھی خوشیاں بانٹیں گے۔ ہم ایسا ہر ملنے والے کی طرف مسکرا کر دیکھ کر بھی کر سکتے ہیں، کسی طالبِ علم کو پڑہنے میں مدد دے کر بھی کر سکتے ہیں یا پھر اس دن سے متعلق معلومات عام کر کے بھی کرسکتے ہیں۔ خوش و خرم رہیئے اور خوب ترقی کیجیے۔
Leave a Reply