کعبہ کی تولیّت پر بنو ہاشم اور بنو اُمیّہ کے باہمی جھگڑے سے لے کر واقعہ ء قرطاس کی بحث ہو یا حدیثِ ثقلین کی تشریح سے لے کر تنازعہ فدک کے شاخسانے ہوں، تاریخ ِ اسلام کے کسی بھی واقعے یا عنصر نے مذہب تشیّع کی شناخت کو متعیّن کرنے میں اہم کردار ادا نہیں کیا جتنا واقعہء کربلا نے شیعیت کے الگ تشخص کی بنیاد کھڑی کرنے میں اپنا حصہ ڈالا۔
شہادتِ حسین کے بعد جب بنو ہاشم اور اُمیّہ کی خلافت کے حوالے سے نزع ختم ہو گئی تو خانوادہء رسول کا سیاسی شیرازہ بکھر گیا۔ عراق و ایران میں شیعہ مذہب کے پھیلنے سے واقعہ ء کربلا کی یاد کو ایک Rejuvenating ثقافتی انداز میں زندہ رہنے کے مواقع میسر آگئے۔ کربلا میں جس طرح لشکرِ یزید نے خانوادہء رسول کو بے وطنی کے عالم میں تہہِ تیغ کیا اس میں عرب شویلری کی روایات کی مَوت کا عکس` بھی جھلکتا تھا جس وجہ سے کربلا اُس دور کی جنگوں میں سے ایک المیّہ ترین جنگ ثابت ہوئی۔
جہاں دیگر سامی مذاہب میں گریہ کوعبادات کے ارکان میں سے ایک اہم رکن سمجھا جاتا رہا تھا ، وہاں اہلِ بابل کئی صدیاں قبلِ مسیح سے ہی اپنے دیوی دیوتاءوں کی فُرقت میں گریہ کرتے رہے تھے۔ مذہب تشیّع یہ روائیت بعد ازاسلام امام حُسین اور خانوادہء رسول کے گریہ کی صورت میں جاری رہی جس کا باقاعدہ سر چشمہ ایران و عراق کی سرزمین تھی۔ اور فطری امر یہ تھا کیونکہ اس سے قبل اسلام نے جزیرہ ء عرب میں بھی پہلے سے موجود کئی رسوم کو بہتر (Refine) کر کے اپنا حصّہ بنا لیا تھا۔
سوزِ طبع ہمیشہ ایک مذہبی شخصیت اور مسلمان مومن کیلئے ایک اچھا وصف سمجھا جاتا رہا ہے۔ اور شیعہ اسلام میں اس وصف کی آبیاری عزاداری کی صورت میں ہوتی رہی ہے۔صوفیائے کرام کی دھرتی، برِصغیر پاک و ہند میں عزاداری کی روایئت کو اسی وجہ سے بہت قبول عام ملا۔صدیوں کے مشترکہ تمدّن میں ہندو اور سکھ تک اس میں شریک ہونے لگے۔ خطے میں مذہب کے سیاسی استعمال کے زور پکڑنے سے قبل تمام مذاہب کے تہواروں میں تمام قومیتوں کے ہندوستانی شریک ہوا کرتے تھے کہ ان تہواروں کی ثقافتی شناخت بھی مسلم تھی۔
جہاں واقعہء کربلا ایک با عمل مسلمان کو نماز، جہاد، رضائے الہی اور تقوی کی منزلت کا پیغام دیتا ہے وہاں مسلمان اور بالخصوص شیعہ اسلام کو اس واقعے سے وابستگی نے ایک خاص مزاج بخشا ہے جس کا اظہار دورِ جدید کی سیاسی تحریکوں اور انقلابات کےتناظر میں واضح طور پر ہوتا ہے۔ یزید کی بیعت سے انکار اور پھر ہجرت کی مثالوں میں امام حُسین کی شخصیت کا جو انقلابی اور مزاحمتی پہلو نکلتا ہے،اس نے ناصرف شیعہ مزاج پہ گہرا اثر ڈالا ہے بلکہ کربلا کو مزاحمتکا اور ظلم کے خلاف آوازہ ء حق بلند کرنے کی جراءت کا استعارہ بنا دیا ہے۔ کربلا جمہور کی خاطر جبر سے ٹکر لینے کا نام بن گیا ہے۔
دورِ حاضر میں جب سے مسلم مکاتیب فکر میں بنیاد پرستی کے زیرِ اثر ایک بار پھر مذہب کے ثقافتی رُخ پر شرک و بدعت کی مہریں لگا کر اسے مطعون کرنے کا سلسلہ شروع ہوا ہے، عزاداری کی روائیت کو ناصرف فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھا کر اسے صرف تشیّع تک محدود کر دیا گیا ہے بلکہ اسے سیکیورٹی خطرات بھی ہمہیشہ سے بڑھ کر ہیں۔ ان حالات میں تشیّع مکتبِ فکر کے مزاحمتی کردار میں ایک شدّت کا آ جانا لازمی امر ہے کیونکہ یہی مزاحمت اس روایت کا سیاسی و فکری پہلو ہے۔
تبصرے
Zabardast