عاجز علمی صاحب کو سائنسدان ہونے کا بالکل کوئی دعوٰی نہ تھا۔ لیکن آج وہ خود کو ذرا سا سائنسدان، سائنسدان سا سمجھ رہے تھے۔ بھلا وہ کیسے، بندہ خود کو سائنسدان، سائنسدان کیونکر سمجھ سکتا ہے؟

اس کا جواب زیادہ گھمبیر نہیں بھئی! وہ آج الجھے بالوں پھر رہے تھے، داڑھی بڑھی ہوئی تھی، جس میں جگہ جگہ سفید بال کسی اسکول کی اسمبلی میں کھڑے بچوں کی طرح مستقیم تھے، عینک ہمارے گاؤں کے مرحوم امام مسجد صاحب کی طرح ناک کے آخری سِرے پر کھڑی پُل صراط پر سے چلنے کی مشقِ مشکل میں تھی۔

ہر سوال کے سیدھے سادے جوابوں سے کام چلانے والے میاں انار سلطان آج عاجز صاحب کے پاس آکر زیادہ الجھن کا شکار ہو گئے تھے۔
ہر سوال کے سیدھے سادے جوابوں سے کام چلانے والے میاں انار سلطان آج عاجز صاحب کے پاس آکر زیادہ الجھن کا شکار ہو گئے تھے۔ ویسے تو کسی بھی عام سورج نکلے دن میں میاں انار اپنے دماغ کو سوچنے سمجھنے کی طرف لگانا وقت کا زیاں سمجھتے ہیں لیکن آج وہ اس شغل میں افراط کی ہر حد پار کر رہے تھے۔ میاں انار سلطان کا سَر پھٹا جا رہا تھا، "آخر آج عاجز علمی صاحب پہ کیا افتاد پڑی جو کسی محبوب کی اُلجھی لَٹ کی تمثیل بنے پڑے ہیں۔”

کچھ دیر تو اپنی اناریّت میں جواب کی تحقیق کے سلسلے میں زیرِ لب قیاس آرائیاں پھڑپھڑاتے رہے لیکن ضبطِ نفسی کا یہ سلنڈر جلد ہی پھٹ پڑا، لیکن کچھ اٹک اٹک کر پوچھا:

"عاجز علمی صاحب! بھلے یہ آج کیا آپ قبلہ اپنے آپ کو اہم اہم سا سمجھ رہے ہو جس طرح تازہ شادی شدہ مرد اپنے آپ کو خواہ مخواہ معتبر اور معزز جان رہا ہوتا ہے؟ آخر ہمیں بھی کچھ بتا دیجئے کہ ماجرا کیا ہے۔”

عاجز صاحب بھی سیدھے سیدھے کیسے بتانے والے تھے، ان میں بڑا کمال کا ضبط تھا۔ حالانکہ کسی بڑے کام کے انجام کی سرشاری، کسی یُوریکا لمحے (eureka moment) کا بارِ گراں اٹھائے رکھنا کوئی کارِ آسان نا تھا۔ ارشمیدس تو اس لمحے کے بوجھ کو ذرا برابر نا سنبھال پایا تھا، وہ بے چارہ تو یہ بھی بھول گیا تھا کہ حضرتِ انسان کے جدّ امجد نے جب دانۂِ گندم اپنے معدہ کی نذر کر لیا تھا تو ستّر پوشی کا خرچہ ایک ذیلی ذمے داری کے طور پلّے پڑ گیا تھا۔ لیکن عاجز علمی کا عمل تو ارشمیدس کے ہر طور معکوس تھا، یہاں اپنے یُوریکا لمحے کے بار کو اُٹھاتے لباسِ فطرت گھنیرا ہوتا جا رہا تھا اور عاجز صاحب سوچوں میں گُم کے گُم ہی تھے۔

عاجز علمی کا عمل تو ارشمیدس کے ہر طور معکوس تھا، یہاں اپنے یُوریکا لمحے کے بار کو اُٹھاتے لباسِ فطرت گھنیرا ہوتا جا رہا تھا اور عاجز صاحب سوچوں میں گُم کے گُم ہی تھے۔
میاں انار سلطان کی اناریّت جو اپنے چھَم چھَم لمحے سے پار ہو کر اب پوری طرح چھلک پڑی تھی، قریبی دیوار کے سائے میں گئے اور اپنا سَر اس سے کوئی لگ بھگ ساڑھے پانچ سے پونے چھ اِنچ کے فاصلے پر لاکر پورے حلق کے زور مع کوئی چار چھٹانک لعاب کے بولے، "عاجزززززززز! اب بتاؤ گے بھی کہ اپنا سَر اس دیوار کو دے ماروں!” (ا وووہ ہ ہ ہ، شُکر ہے اُن کا اپنا ہی سَر تھا ورنہ تو وہ عاجز صاحب کے سَر کی بابت بھی ایسی تعزیر کا معاملہ کر سکتے تھے۔)

خدارا عاجز صاحب اب اتنے بھی راہ گمُ کردہ نا ہوئے تھے۔ اس نقصِ امن جو کہ میاں انار سلطان کے دیوار سے سَر پٹکنے اور اس کے نتیجہ کے طور پر نا جانے اُن کے دماغ سے کیا برآمد ہو آتا، عاجز صاحب بول پڑے، "میاں انار اجی ایسا نا کیجئے، ہم بتائے دیتے ہیں کہ کیا ہوا۔”

انار سلطان نے سُکھ کی سانس لی؛ اپنی آنکھیں، جو چند ثانیے قبل کسی ہسپانوی بیل کی طرح کھلّم کُھلّا ہو گئی ہوئیں تھیں اور جن میں لہو کے فوارے پرویز مشرف کے دبئی جانے کی بھاگم بھاگ کی مانند نکلنے کو بے تاب تھے، اب وزیر آباد کے مکرر منتخب ن لیگ کے ممبر قومی اسمبلی جسٹس افتخار چیمہ کی طرح کسی مناسب حد تک کھلی کھلی سی رہ گئی تھیں۔

عاجز علمی صاحب نے مزید کہا کہ علمِ ارضیات والے اس حقیقت کو کھوجنے کی بابت پریشان تھے کہ زلزلے کی پیش بِینی کا علم نا ہونے کے برابر ہے۔
عاجز علمی صاحب نے مزید کہا کہ علمِ ارضیات والے اس حقیقت کو کھوجنے کی بابت پریشان تھے کہ زلزلے کی پیش بِینی کا علم نا ہونے کے برابر ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ کوئی پلیٹیں ہوتی ہیں (حلوے کی پلیٹیں ہرگز نا ذہن میں لائیے گا) جن کی حرکت سے کچھ جغرافیائی علاقوں کے انتہائی زیرِیں گوشوں میں فالٹ لائینز بن جاتی ہیں: یہ ٹیکٹانک پلیٹیں کہلانے والے زمین کے نچلے حصے ان ماہرین کے بقول نا جانے کیوں "حرکت” کر جاتے ہیں۔ "میاں انار صاحب آج میں نے وہ راز دریافت کر لیا ہے کہ ٹیکٹانک پلیٹیں کیونکر اپنے محوروں سے مفرور ہو جاتی ہیں” عاجز علمی صاحب اپنی گُم شدگی سے اچانک برآمد سرشاری سے بولے۔

میاں انار سلطان جو اپنے محدود ارتکازِ توجُّہ کو اپنی سرحدوں سے پار برُوئے کار لا کر ہمہ تن گوش سنتے رہے، لیکن اب عاجز صاحب کی شارٹ بریک پہ فوراً کہا،

"تو کیسے کُھلا آپ پہ یہ راز؟”

عاجز صاحب نے کسی بڑے راز کے افشاء کرنے کے سے انداز میں کہا،

"اس رگڑے پہ رگڑا مارکہ رقص کی حرکی توانائی سے زیرِ زمین ٹیکٹانک پلیٹیں سرِک جاتی ہیں جو بعد ازاں زلزلوں کا باعث بنتی ہیں۔ "

اس ہنگامہ خیز سربستہ راز کے کھلنے اور اس کے سننے کے بعد موقعہ پر موجود عینی گواہ کے مطابق میاں انار سلطان کی داڑھی بھی اچانک دو سے ڈھائی انچ مزید بڑھ گئی۔

One Response

  1. Humaira

    حالانکہ کسی بڑے کام کے انجام کی سرشاری، کسی یُوریکا لمحے (eureka moment) کا بارِ گراں اٹھائے رکھنا کوئی کارِ آسان نا تھا۔ ارشمیدس تو اس لمحے کے بوجھ کو ذرا برابر نا سنبھال پایا تھا، وہ بے چارہ تو یہ بھی بھول گیا تھا کہ حضرتِ انسان کے جدّ امجد نے جب دانۂِ گندم اپنے معدہ کی نذر کر لیا تھا تو ستّر پوشی کا خرچہ ایک ذیلی ذمے داری کے طور پلّے پڑ گیا تھا۔

    بہترین لکھا گیا ہے، داد قبول کیجیے۔ مزید زلزلوں کی وجوہات بھی نوٹ فرمالیجیے۔ زلزلے اس لیے آتے ہیں جب کسی خطے میں برے کام ہوں، جب کسی جگہ کے لوگ خدا کی کھلم کھلا نافرمانی کریں، جب خواتین پردہ کرنا چھوڑ دیں، بےحیائی عام ہوجائے، عورتیں شوہروں کی نافرمانی کریں، بیٹیاں پسند کی شادی کریں، اپنی شادی کی خواہش کا اظہار کریں،آفسوں میں کام کریں، مردوں کی برابری کریں، مرد داڑھی مونڈیں، پتلونیں پہنیں، ٹخنوں سے نیچے پتلونیں لٹکائیں اور عورتیں ٹخنے کھولیں تو زلزلے آتے ہیں۔

    جواب دیں

Leave a Reply

%d bloggers like this: