ظلم کے منہ کو خون لگا ہے
وہ پاگل کتوں کی طرح اپنی زنجیروں سے باہر ہے
یا باہر کیا گیا ہے
یہ کون جانتا ہے کس نے کیا ہے
شہر میں منادی ہے
ظلم کے سر کی قیمت رکھی گئی ہے
کوئی جانتا ہے؟
سب جانتے ہیں
ظلم کی گرد ش گلی کوچوں میں دندنا رہی ہے
اختیارات کی رسموں کے دورانیے میں
یہ عہد کیا جاتا ہے

ظلم کو کچھ نہ کہنا
ایک مکاری ان کے چہروں پر ہوتی ہے
جو جانتے ہیں ظلم کی پناہ گاہیں
مکار لظو ں کو باہر کرتے ہوئے
ان کے منہ سے تھوک برآمد ہوتا ہے
جو ان ہی کےچہروں پرچھنٹیں اڑا تا ہے
ا ور ان کے دل اس خوف سے ان کے حلق میں اٹک جاتے ہیں
کہیں ظلم سن تو نہیں رہا
ظلم ان کے ہاتھوں پلا ہوا
اب ایک پاگل کتاہے

Leave a Reply