Laaltain

ظلم کا جواز کیا

23 جون، 2016
پاکستان میں امجد صابری کا قتل ہوا ہے، یہ سنتے ہی ہم سب پریشان ہو گئے۔ہونا بھی چاہیے کہ کسی فنکار کو اس بے دردی سے ماردینے کا مقصد سمجھ میں نہیں آتا، میری اپنی ایک دوست کی فیس بک پوسٹ کے ذریعے مجھے معلوم ہوا کہ انہیں کسی پروگرام میں نہ جانے پر دھمکیاں مل رہی تھیں۔ اگر یہ دھمکی حقیقت میں تبدیل ہوئی ہے تو ہمیں واقعی اس پر افسوس کرنا چاہیے۔ مگر ہمیں اس پر غور کرنا چاہیے کہ کیا یہ ایسا پہلا واقعہ ہے جس میں ‘تھرل کلنگ’ جیسی کوئی بات موجود ہے۔ یہ صرف پاکستان میں نہیں ہورہا ہے، بلکہ پوری دنیا مین ہورہا ہے۔2003 میں مارگریٹ ملر کا لندن میں جس بے رحمی سے قتل ہوا، اس کی وجہ صرف اتنی تھی کہ ایک شخص کسی انسان کی جان لینے کا تجربہ کرنا چاہتا تھا۔ مارگریٹ بھی فنکار تھے، قتل کے وقت ان کی عمر ستائیس برس تھی اور انہیں چاقو سے گود کر مارا گیا تھا۔ یہ بات تو کچھ پرانی ہے لیکن ابھی حال ہی میں کریشٹینا گریمی، جو کم عمری میں بھی ایک بہترین گلوکارہ تھیں، ایک کنسرٹ میں گولی مار کر مار دی گئیں، اس خبر نے بہت سے گانے والوں کو دنگ کر دیا، ابھی اس خبر پر بہنے والے آنسو خشک بھی نہ ہو سکے تھے کہ ایک دوسرے امریکی سنگر الیژاندرو’جانو’ کو گولی مار دی گئی۔ یہ سارے معاملات اور ان سے جڑی تفتیش میں یہ بات سامنے آتی رہی ہے کہ مارنے والا صرف مارنا چاہتا تھا، اس کا مقصد نہ لوٹ تھا، نہ بدلہ، نہ رنجش اور نہ انہیں مارنے والوں میں اس سے پہلے کسی قسم کی نفسیاتی کمزوریاں پائی گئی تھیں۔ یہ بات بے رحمی کی حد تک سچ ہے کہ ہم جتنا چاہیں اپنے معاشروں کو کوس لیں لیکن کسی کی بے وجہ جان لینے میں مذہبی احکامات، وطن پرستی اور غیرت کا عنصر شامل نہیں ہوتا۔ ہمیں بنیادی مسئلے پر غور کرنا ہو گا اس سے پہلے کہ ہم سب بے وجہ مارے جائیں۔

 

ہم جتنا چاہیں اپنے معاشروں کو کوس لیں لیکن کسی کی بے وجہ جان لینے میں مذہبی احکامات، وطن پرستی اور غیرت کا عنصر شامل نہیں ہوتا۔
عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ ہم ایسے واقعات سنتے ہیں، جن کا کوئی سر پیر ہمیں سمجھ میں نہیں آتا لیکن ان کے بارے میں بات نہیں کرتے یا انہی نظر انداز کر دیتے ہیں۔ خود میرے محلے کا احوال سن لیجیے۔ جس علاقے میں میں رہتا ہوں، وہاں گزشتہ چھ مہینوں میں تین ایسے قتل کی خبریں سن چکا ہوں، جن کا کوئی مقصد ابھی تک واضح نہیں ہوا ہے۔ ان میں سے ایک وکیل صاحب ہیں، چلیے انہیں تو پھر بھی دشمنوں کی نظرِبد کا شکار سمجھا جاسکتا ہے، مگر آپ ایک ایسے حادثے کے بارے میں کیا کہیں گے جس میں ایک شخص کو صرف اس لیے گولی ماردی جائے کیونکہ وہ کسی گاڑی کے سامنے آ گیا تھا اور گاڑی والے کی غلطی پر اصرار کررہا تھا یا پھر ایسا واقعہ جس میں کسی گھر پر لٹکائے جانے والے برقی قمقمے کو تھوڑا ادھر ادھر نہ کرنے پر ایک انسان مارگرایا گیا ہو۔

 

ہوم آفس، حکومت برطانیہ کی شماریات کے مطابق پچھلی ایک دہائی میں بے وجہ کیے جانے والے قتل کی تعداد دو گنا ہوگئی ہے۔ یعنی کہ اب اس ترقی یافتہ ملک میں بھی تین میں سے ایک قتل ایسا پایا جاتا ہے، جس کی کوئی وجہ دریافت نہیں ہو پاتی۔ جب لوگ بلاوجہ مرنے لگیں تو قاتل کی کوئی تعریف متعین نہیں کی جاسکتی ہے۔ یہ ایک ایسی نفسیاتی روش ہے، جو کل مجھے یا آپ کو بھی قاتل بناسکتی ہے، سوال سب سے بڑا یہ ہے کہ اس بے مقصد قتال کے لیے اتنا طیش یا اتنا ایڈونچر کہاں سے پیدا ہو رہا ہے۔ اور ایک سب سے بڑی وجہ جسے ہم فراموش کرتے ہیں، وہ ہے فرسٹریشن۔ قتل کتنا ہی بے مقصد کیوں نہ ہو، وہ ایک جرم ہے۔ ایک بھیانک جرم، جس کو نظر انداز کرنے کا مطلب ہے، چاقو کی نوک کو اپنی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ کرخاموش رہنا۔ لیکن آپ چیخ چلا کر کیا کر سکتے ہیں، دنیا جس طرف بڑھ رہی ہے، جس طرح بڑھ رہی ہے، کیا اس میں اس طرح کے قتل کوئی اہمیت رکھتے ہیں۔ وہ چند آنسو جو آپ بڑے جذباتی طور پر ان حادثوں پر بہاتے ہیں، ان کے لیے اس دور کے لوگوں کے پاس کوئی وقت نہیں ہے، ہمارے پاس ماتم کرنے کے لیے وقت نہیں ہے، اس لیے ہم ایک منٹ کا ‘مون دھارن’ کرکے اپنے اپنے کاموں کی طرف چل پڑتے ہیں۔

 

وہ چند آنسو جو آپ بڑے جذباتی طور پر ان حادثوں پر بہاتے ہیں، ان کے لیے اس دور کے لوگوں کے پاس کوئی وقت نہیں ہے، ہمارے پاس ماتم کرنے کے لیے وقت نہیں ہے
کیا ہم نے کوئی شعبہ ایسا بنایا ہے، کیا ہمارے پاس کوئی ایسی وزارت ہے، جو لوگوں کے بڑھتے ہوئے فرسٹریششن، طیش کو قابو میں کرنے کی سنجیدہ کوششیں کرے، جو بے مقصد ہونے والے قتل پر سر پکڑنے کے بجائے، قاتل کو اس کی سنگینی کا احساس کرا سکے۔ کیا کوئی ایسی وزارت ہے، جو لوگوں کے حق میں یوں بھی سوچے کہ آخر وہ مرنے یا مارنے کی طرف راغب کیوں ہوتے ہیں، میں صرف اپنے ملک کی بات نہیں کر رہا۔ پوری دنیا کا لگ بھگ یہی قصہ ہے، کتنی ہی تہذیب یافتہ قوم ہو، اس زہر سے تھوڑی بہت نیلی پڑتی دکھائی دے جائے گی، کیونکہ یہ ایک وبا ہے، ایک ایسا وائرس جس کا علاج بہت ضروری ہے، لیکن ہم نے واقعی اب تک اس کے لیے وقت نہیں نکالا ہے۔ ہمارے نیوز چینل کسی اے ٹی ایم میں گھس کر چوکیدار کو جان سے مارنے کی فوٹیج کو بہت مہنگے میں خریدتے ہیں اور پھر اس چھوٹی سی تنبیہ کے ساتھ دکھاتے ہیں کہ ‘کمزور دل والے اسے دیکھنے سے پرہیز کریں’۔ لیکن پھر بھی ایسی فوٹیج پر آپ کو ہزاروں لائکس اور لاکھوں ویوز دیکھنے کو مل جائیں گے۔ ظاہر ہے کہ خون ہوتے دیکھنا ہمارے لیے ایک قسم کا ‘تھرل’ ہی ہے۔ اور یہ ‘تھرل’ کسی دن بڑھ کر’خون کرتے دیکھنے’ پر بھی آمادہ ہوسکتا ہے۔ وہ کون سا شعبہ ہے، جو یہ طے کرے کہ جہاں تک ممکن ہو، لوگوں کو کسی ایسی بات، کسی ایسے جبر، کسی ایسے منظر، کسی ایسے خیال سے باز رکھنے کی کوشش کرے گا، جو اذیت کوشی یا اذیت پسندی کو فروغ دینے کا کام کرتا ہو۔

 

ہمیں بچپن سے انسانی حرمت کے کتنے جیتے جاگتے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں، وہ کون سے اسکول ہیں، جو یہ سکھاتے ہوں کہ انسانی جان سے مقدم اور کوئی شے نہیں ہے۔ خون بہانا، چاہے وہ کیسے ہی مقصد کے لیے ہو، صحیح اور جائز نہیں ہے۔ یہ صرف لکھا اور پڑھا دینے والی باتیں نہیں ہیں۔ یہ عملی تجربوں کی چیزیں ہیں اور جب تک یہ ہماری نفسیات کا حصہ نہیں بنتیں، تب تک موت اور خون کے تعلق سے پیدا ہونے والے ایسے تھرل کو روکنا ممکن نہیں ہے۔

 

ہم مذہب، سیاست، سائنس، سرحد اور دوسری بحثوں میں اس بات کو بالکل بھولے ہوئے ہیں کہ ہتھیار سے انسان کی بڑھتی ہوئی رغبت کس قدر خطرناک ہے۔ یہ شوق کہ میرے ہاتھ میں بھی ایک پستول ہو یا میرے گھر بھی ایک رائفل، اور ظاہر ہے جن کے پاس یہ سب کچھ نہیں ہوتا، وہ اپنے گھروں میں چاقو، ہاکی، تلواریں یا دوسرے ایسے ہتھیار رکھتے ہیں۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا ہوتا ہے، پھر اچانک ایک دن آپ کے مکان کی پچھلی طرف کوئی جھگڑا ہوتا ہے تو آپ چونکتے ہیں کہ فلاں آدمی گھر کے اندر گیا اور وہاں سے عجیب وغریب قسم کا کوئی ہتھیار لے آیا۔ یا پھر کسی گھر سے نکلنے والی کوئی ایسی بوسیدہ لاش جس کا پتہ اس نے خود اپنا بدن سڑا کر ہمیں دیا ہو، اس کا سر دیوار سے مار کر ، نل سے لڑا کرپھوڑا گیا ہو، یہ سب جب سامنے آتا ہے تو دل دہلتا ضرور ہے، مگر ہم اس جبریہ موت کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ وہ ہمارے بالکل برابر سےنکل جاتی ہے اور ہم اس کی پھنکار سن کر سہمتے ہیں اور پھر اپنے کام میں مصروف ہوجاتے ہیں۔

 

سب سے بھیانک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ ہم اس شخص کو مارنے پر آمادہ ہو جائیں جو بلاوجہ بس ہمیں پسند نہ آتا ہو، جس نے ہمارا کچھ نہ بگاڑا ہو۔
پچھلے کچھ ماہ گزرے کہ میرے ایک دوست نے عجیب و غریب قتل کی خبر سنائی تھی، ایک لڑکے، لڑکی کے درمیان عشق تھا، باپ کو جب اس کی بھنک لگی تو اس نے کسی بہانے لڑکے کو گھر بلایا، پھر رات بھر اسے طرح طرح کی اذیتیں دے کر مارتا رہا، چھوٹی عمر کی دو بچیاں سہم کر یہ سارا منظر گمرے کی کھڑکی سے دیکھتی رہیں۔ فجر کی نماز کے وقت وہ پڑوس کی مسجد سے ایک بڑا کڑھاو لایا، اس میں پانی گرم کیا اورلڑکے کا سر اس میں ڈال دیا۔جس وقت پولیس نے اس کی لاش دریافت کی ، وہ پہچاننے میں نہیں آرہی تھی۔ غیرت کے نام پر باپ کو قتل ہی کرنا تھا تو وہ لڑکے کو چاقو سے مار سکتا تھا، اس کا گلا گھونٹ سکتا تھا، لیکن پوری رات اسے اذیت دینا، اس کے سر اور پیروں پر ہتھوڑے برسانا۔۔۔ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ یہ بغیر مقصد کے ظلم کی وہ کریہہ صورت ہے، جس پر ہم کبھی دھیان نہیں دیتے۔ آخر اتنا غصہ کہاں سے آتا ہے کہ ہم سامنے والے کا گوشت پگھلتا دیکھیں، کھال اترتی دیکھیں، کراہیں سنیں، آنکھیں ابلتی دیکھیں اور ہمارا جی نہ بھر آئے۔ اور ایسا نہیں ہے کہ یہ واقعہ صرف ہندوستان میں پیش آیا ہے، ایسے ہزاروں واقعات پوری دنیا میں ہر وقت کہیں نہ کہیں پیش آرہے ہیں اور ان کو روکنے کے لیے کیا انہیں سمجھنے کے لیے بھی ہمارے پاس بالکل وقت نہیں ہے۔

 

تو پھر ایک دن یوں ہو گا کہ کوئی سبزی فروش، سبزی بیچتے ہوئے صرف اس لیے مارا جائے گا کہ اس کی آواز سے کسی کی نیند میں خلل پڑ رہا تھا، ایک ٹرین کا ڈرائیور اس لیے قتل کردیا جائے گا کیونکہ اس نے مسافر کو اس چھوٹے سٹیشن پر کیوں نہ اترنے دیا، جہاں وہ اترنا چاہتا تھا یا پھر سب سے بھیانک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ ہم اس شخص کو مارنے پر آمادہ ہوجائیں جو بلاوجہ بس ہمیں پسند نہ آتا ہو، جس نے ہمارا کچھ نہ بگاڑا ہو۔ بس یونہی ہمیں برا لگے۔ کیا ہم سب ایک ایسی ہی صورت حال کا انتظار کر رہے ہیں، اگر اس قسم کی موت کے ہم سب ہی عادی ہیں تو یہ کھیل شاید اسی دن ختم ہو، جس دن ہمارے پڑوس کے ملک کا کوئی مقتدر پاگل ہو کر ایک طویل خونی جنگ یا پھر نیو کلیر وار کا آغاز کردے اور ہم بھی بے مقصد مار دیے جائیں۔ بس یونہی کیونکہ ہمارا پڑوسی ملک ہمیں پسند نہیں کرتا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *