سیاست کا لفظ ہمارے ہاں عمومی طور پر ایک منفی تاثر رکھتا ہے۔ایسے میں طلبہ جن کو مستقبل کا معمار سمجھا جاتا ہے ،سیاست کا رخ کریں تو گویا خطرے کی گھنٹیاں بجنا شروع ہو جاتی ہیں۔ کالج یا یونیورسٹی میں داخلے کے وقت والدین کی اولین نصیحت یہ ہوتی ہے کہ بیٹا سیاست سے بچنا۔نتیجتاً زیادہ تر بچے سیاست کے نام پر غنڈا گروہوں کے ہاتھوں پٹائی اور گالی گلوچ کھا کر بھی ’تعلیم‘ کا اپنا مشن جاری رکھتے ہیں۔ سیاست دشمنی کی ان کی گھُٹی اتنی دیر پا ہوتی ہے کہ فارغ التحصیل ہو کر بھی سیاست جیسی ناپاکی سے دور رہتے ہیں ۔ انعام کے طور پر ہمیں اسی طرح کا نظام اور لیڈر ملتے ہیں جن کا رونا ہر کوئی رو رہا ہے۔تاہم صورتِ حال ہمیشہ اتنی متذبذب نہیں تھی۔
طلبہ نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کی بدولت ماضی میں کئی کارہائے نمایاں سر انجام دیے ہیں۔پاکستان میں طلبہ شرو ع سے ہی متحرک رہے ہیں۔ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن نے تحریکِ پاکستان کواہم قوت بخشی۔بعد میں طلبہ کی ایک بڑی تعداد نے نہ صرف ہماری تاریخ کے ایک روشن باب یعنی ترقی پسند تحریک کو جلا بخشی بلکہ ایوب سے مشرف تک تمام آمروں کے خلاف بھی برسرِ پیکار رہے۔
تاہم مختلف آ مر قو تو ں نے طلبہ کو اپنے مفا دات کے لئے بھی استعما ل کیا۔ترقی پسند طلبہ گروہوں کو ریاستی عتاب کا نشانہ بنایا گیا جبکہ دائیں بازو کی قوتوں کی سرپرستی کی گئی۔صحت مند اور آزادانہ ماحول نہ ہونے کی وجہ سے کئی غنڈہ عناصر بھی طلبہ تنظیموں میں در آئے۔ ضیا الحق کی بدترین آمریت میں علا قا ئی تعصب، مذ ہبی انتہا پسندی اور کلاشنکوف کلچر کے رجحا نا ت پھیلتے چلے گئے۔ بعد میں انہی رجحانات کا بہانہ بنا کر طلبہ یونینز پر پابندی لگا دی گئی۔ لیکن یونینز پر پا بندی کے با وجود دائیں بازو کی تنظیموں کوریاستی ضرورتوں کے مطابق استعمال کیا جاتا رہا۔ نسل پسندی اور علیحدگی پسند عناصر کو ہوادینے، ترقی پسند گروہوں کو زدوکوب کرنے اورافغان جہادجیسی ریاستی پالیسیوں میں کئی طلبہ گروہوں کو استعمال کیا گیا۔ طلبہ سیاست کے نام پر جو خون خرابہ بعد میں دیکھنے میں آیا وہ انہی ریاستی پالیسیوں کا شاخسانہ ہے۔
طلبہ یونینز کا مقصد جمہوری ضابطوں کے مطابق اجتماعی فیصلہ سازی اور رائے دہی میں طلبہ کی تربیت کرنا ہوتا ہے۔ اس سے وہ نہ صرف تعلیمی ادارے کے معاملات میں طلبہ کا نقطہ نظرپیش کرتے ہیں بلکہ مستقبل میں سیاسی طور پر ایک باشعور شہری بھی بنتے ہیں۔یونینز پر پابندی سے طلبہ میں سیاسی ، جمہوری اور تنقیدی شعورکا دروازہ ہی بند کر دیا گیا۔ آزادی اظہار، حق رائے دہی اورمناسب نمائیندگی کے ختم ہو نے کی بدولت طلبہ کی اہلیت اور جذبات کو کوئی تعمیری اظہار نہ مل سکا۔ گھٹن کے اس ماحول میں نفرت، تشدداور غنڈہ گردی کا پھیلنا ایک فطری ردّعمل ہے۔
آج کا طالب علم مایوسی کا شکار نظر آتا ہے۔ تعلیمی اداروں کے بے پناہ مسائل ہیں جن پر طلبہ کو بولنے نہیں دیا جاتا۔ اور اگر وہ ان پر آواز اٹھائیں بھی تو زیادہ تر عوام اسکے متعلق ایک منفی تاثر رکھتی ہے۔یہ وہی منفی تاثر ہے جوہمیں ملکی سیاست کے با رے میں بھی عوامی رائے میں نظر آتا ہے۔ ریاستی سطح پرسیاسی عمل کی بیخ کنی اورمعاشرے میں جمہوری اقدار کی غیر موجودگی تمام سماجی گروہوں پر اثر انداز ہوتی ہے، طلبہ اس سے مستثنیٰ نہیں ۔ آمرانہ حکومتوں کے علاوہ سیاسی ادوار میں بھی طلبہ کے مسائل اور مطالبات اسی طرح نظر انداز رہے ۔بتدریج وہ علمی ماحول بھی تبا ہ ہو گیا جس میں ان کی تخلیقی و تعمیری صلاحیتیں پنپ سکتیں۔اہم سوال یہ ہے کہ1984سے طلبہ یونینز پر پابندی لگی ہوئی ہے کیا اس کے بعد سے تشدداور غنڈہ گردی میں کمی واقع ہوئی؟ کیا تب سے ہمارا تعلیمی معیار بہتر ہوا؟ غور کرنے پر اندازہ ہو گا کہ پابندی مسئلے کا حل نہیں بلکہ اس کی جڑ ہے۔
طلبہ کو سیا ست سے کسی طرح بھی دور نہیں رکھا جا سکتا۔جب بھی کوئی قومی نو عیت کا مسئلہ درپیش ہو طلبہ اس کا حصہ بنے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ اسکا اندازہ وکلاء تحریک میں طلبہ کی شمولیت اور جدوجہد سے لگایا جا سکتاہے۔حال ہی میں طلبہ کی ایک بڑی تعداد نے مختلف سیاسی جماعتوں کی سر گرمیوں میں بھی پرُ جوش انداز میں حصہ لیا ہے۔ ملک کی دگرگوں صورتِ حال میں طلبہ کی پر امن سیاسی شمولیت امن اور رواداری کے پرچار کے لئے اہم کام کر سکتی ہے۔تا ریخ یہ بتاتی ہے کہ طلبہ سیاست نے دنیا بھرمیں کئی عظیم کام سر انجام دیے ہیں ۔ جب بھی انہیں دبانے کی کوشش کی گئی اسکے اثرات منفی ہی نکلے۔
طلبہ سیاست پہ پابندی آمرانہ سوچ کی عکاسی ہے اور اگر ہم نے یہاں ایک روادار،با شعور اور جمہوری معاشرہ قائم کرنا ہے تو حکومت کو طلبہ سیاست سے پابندیاں اٹھاناہوں گی۔ ایک جمہوری اورترقی پسند معاشرے کی تشکیل کے لئے نوجوان نسل کا غیر سیاسی ہونانقصان دِہ ہونے کے علاوہ خطرناک بھی ہے۔ ویسے تو 2008میں طلبہ یونینزسے پابندی ہٹا لی گئی تھی مگر ابھی تک کوئی لائحہ عمل یا ضابطہ وضع نہیں کیاگیاجس کی بنیاد پر یونین سازی اور الیکشنز کے عمل کو باقاعدہ بنایا جاسکے۔ حکومت کوچاہیے کہ فوری طور پرطلبہ سیاست کے مسئلے کو سنجیدگی سے لے کرمناسب قانون سازی اور ضابطہ اخلاق عمل میں لائے تاکہ طلبہ کی صلاحیتوں کو مناسب رستہ مل سکے۔
سو فیصد متفق