طبقاتی معاشروں میں مذہبی پیشوائیت (theocracy) اشرافیہ کے تحفظ میں کس طرح دُہرے معیارات اور یک طرفہ وکالت کا مظاہرہ کرتی ہے اِس کی ایک مثال گزشتہ سال 21 دسمبر 2015ء کو دیکھنے میں آئی جب بیسیوں کنال پر محیط رہائش گاہ میں رہنے والے عمران خان نے میانوالی کی ’صلو برادری‘ کو دھمکی دی کہ نمل کالج کے لیے اپنی اراضی ہمارے نرخوں پر دے دو ورنہ تحریکِ انصاف کی حکومت آئی تو تمہاری زمینیں بحقِ سرکار بلامعاوضہ ضبط کر لی جائیں گی۔ جبکہ دوسری مثال لاہور میں ’اورنج ٹرین‘ منصوبے سے متاثرہ شہریوں کی ہے جن کی املاک حکومتِ پنجاب بازاری قیمت سے کم اور سستے سرکاری نرخوں پر جبراً خرید رہی ہے۔ مذکورہ بالا دونوں مثالوں کے ضمن میں مذہبی پیشوائیت کو موضوعِ بحث بنانے کی وجہ مذہبی پیشوائیت کی جانبدارانہ خاموشی ہے جو اُس نے عمران خان اور پنجاب حکومت کے معاملے پر سادھ رکھی ہے۔
اشرافیہ کے لیے ہاوسنگ سوسائٹیز، شاپنگ مالز اور ہوٹلز جیسے تجارتی منصوبوں کی تکمیل کے لئے کچی آبادیوں، زرعی زمینوں اور سرکاری املاک پر قبضے کے لیے دھونس، طاقت اور اثرورسوخ سے کام لیا جا رہا ہے۔
یہ خاموشی معنی خیز اور لائقِ بحث اس لئے ہے کہ جب کبھی بھی جاگیرداری کو ختم کرنے اور نجی صنعتوں کو قومیانے (nationalization) کی بات ہوئی ہے تو مذہبی پیشوائیت اِس معاشی معاملے کو کفر و اسلام کی جنگ بنا کر اشرافیہ کے تحفظ کے لیے کوشاں رہی ہے۔ شرعی عدالتیں نجی ملکیت کو عین اسلام قرار دینے کے راگ الاپتی ہیں، اسلامی نظریاتی کونسل جائیداد کی حد متعین کرنے کو خلافِ اسلام قرار دیتی ہے، دارالافتاء اجتماعی ملکیت کے داعیان پر الہاد کے فتوے لگاتے رہے ہیں، حتیٰ کہ مذہبی پیشواوں کے خیال میں اسلام بھی خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ اس حوالے سے افغانستان، ایران اور پاکستان میں جاگیرداری اور سرمایہ داری کو بچانے کے لئے مذہبی پیشوائیت کی جانب سے زرعی اصلاحات اور صنعتیں قومیانے کی مخالفت ہمارے سامنے ہے۔ گویا مذہبی پیشوائیت اشرافیہ کے استحصال، لوٹ مار اور تجاوزات پر مبنی فرسودہ نظام (status quo) کو بچانے کے لئے اس نظام کو مذہب کی چھتری فراہم کرتی رہی ہے۔
نجی ملکیت کے مسئلے پر مذہبی طبقے کا کردار دوغلا رہا ہے۔ اشرافیہ کے مفادات کے تحفظ کے لیے اجتماعی ملکیت کی مخالفت کی جاتی رہی ہے لیکن جب متوسط اور محنت کش طبقوں کی نجی املاک کی باری آتی ہے تو تب مذہبی پیشوائیت نجی ملکیت کی حرمت پر اپنے روایتی تضادات کا بھرپور مظاہرہ کرتی ہے۔ مثلاً ’اورنج ٹرین‘ جیسے حکومتی منصوبوں کی تعمیر کے لئے نجی ملکیت کے خلاف ریاستی طاقت کا بے دریغ استعمال جاری ہے۔ اشرافیہ کے لیے ہاوسنگ سوسائٹیز، شاپنگ مالز اور ہوٹلز جیسے تجارتی منصوبوں کی تکمیل کے لئے کچی آبادیوں، زرعی زمینوں اور سرکاری املاک پر قبضے کے لیے دھونس، طاقت اور اثرورسوخ سے کام لیا جا رہا ہے۔ عمران خان (مستقبل کے خود ساختہ وزیراعظم) کسی کی نجی ملکیت پر قبضے کے لیے دھمکیاں لگا رہے ہیں اور شہباز شریف حکومت میٹرو ٹرین جیسے منصوبوں کے لیے لوگوں کو بے گھر کر رہی ہے لیکن اب نہ تو کسی پر الحاد کا فتویٰ لگتا ہے اور نہ ہی دارالافتاویٰ، شرعی عدالتوں اور اسلامی نظریاتی کونسل میں سے کسی کو نجی ملکیت کی حرمت یاد آتی ہے۔ اشرافیہ کے مفادات کی خاطر نجی ملکیت کو عین اسلام اور نجی جائیداد کی حد مقرر کرنے کو خلافِ اسلام قرار دینے والا مذہبی طبقہ متوسط اور محنت کش طبقوں کی نجی املاک کے معاملے پر دہرے معیارات اور جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاموش ہے۔
آئین میں ریاست کو معاوضہ دے کر نجی املاک کو ترقیاتی منصوبوں کے لیے استعمال کرنے کا جو اختیار دیا گیا ہے اُس کا نشانہ سرمایہ دار اور جاگیردار کی بجائے متوسط اور محنت کش طبقے بن رہے ہیں۔
اس حوالے سے ایک نکتہ یادر رہے کہ 1973ء کے آئین میں ریاست کو معاوضہ دے کر نجی املاک کو ترقیاتی منصوبوں کے لیے استعمال کرنے کا جو اختیار دیا گیا ہے اُس کا نشانہ سرمایہ دار اور جاگیردار کی بجائے متوسط اور محنت کش طبقے بن رہے ہیں۔ ایک اخباری خبر کے مطابق ایک صوبائی وزیر کا گھر بچانے کے لیے اورنج میٹرو کا نقشہ تبدل کیا گیا ہے جبکہ جین مندر، پرانی انار کلی، پیراشوٹ کالونی اور کپورتھلہ ہاوس جیسے رہائشی علاقوں کو معاوضہ ادا کیے بغیر مسمار کیا جا رہا ہے۔ 1973ء کے آئین کی 12 رکنی آئین ساز کمیٹی کے رکن بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید (مرحوم) کی تصنیف ’جہدِمسلسل‘ کے مطابق ریاست کو نجی املاک ضبظ کرنے کے خصوصی اختیارات ذوالفقار علی بھٹو کے عہد کی پیپلزپارٹی نے ملک میں آئینی و قانونی طریقے سے اشتراکیت کا نفاذکرنے کے لئے دیئے تھے۔
شیخ محمد رشید (مرحوم) کے بقول آئین سازی کے دوران ابتدائی اور غیرحتمی مسودوں میں نجی ملکیت کو بحق سرکار ضبط کرنے کے ریاستی اختیار کے لیے استعمال کی گئی اشتراکی اصطلاحات مذہبی پیشوائیت کے احتجاج پر آئین سے خذف کردی گئی تھیں کیونکہ اشتراکی اصطلاحوں سے جاگیردار اور سرمایہ دار اشرافیہ طبقے کی نجی املاک مستقل خطرے کا شکار ہو گئی تھیں۔ البتہ اشتراکی اصطلاحات خذف کردینے کے بعد سرمایہ دار اور جاگیردار اشرافیہ کے ایماء پر مذہبی پیشوائیت کے تحفظات دور ہوگئے تھے۔ راقمِ تحریر کے مطابق اشتراکی اصطلاحات کے بغیر آئین میں ریاست کا نجی املاک کو بحقِ سرکار ضبط کرنے کا اختیار دینے پر مذہبی پیشوائیت کی رضامندی واضح کرتی ہے کہ آئین ساز کمیٹی کے اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے اراکین کو اتنا طبقاتی شعور ضرور تھا کہ اشتراکی اصطلاحات کے بغیر بحق سرکار ضبط ہونی والی نجی املاک اشرافیہ کی بجائے متوسط اور محنت کش طبقوں کی ہی ہوں گی اسی لئے انہوں نے ریاست کو بحقِ سرکار نجی املاک کو قومیانے کے اختیارات پر تحفظات کا اظہار نہیں کیا تھا۔
مذہبی پیشوائیت کا دُہرا معیار تب بھی بے نقاب ہوتا ہے جب وہ اشرافیہ کے پاس دولت کے ارتکاز کو زکوۃ اور خمس سے مشروط کر کے اُن کی عیاشیوں سے بھرپور زندگی کو تحفظ دیتی ہے۔
اشرافیہ کی طرفداری اور محکوم طبقوں سے لاتعلقی پر مبنی مذہبی طبقے کے دُہرے معیارات کی وجہ یہ ہے کہ مسجدوں، امام باڑوں، درگاہوں، خانقاہوں، مدرسوں، دارالافاویٰ، مذہبی سیاسی جماعتوں اور مذہبی دعوتی تحریکوں کی صورت میں مذہبی پیشوائیت کی جو دکانیں چل رہی ہیں وہ متوسط اور محنت کش طبقوں کے معمولی چندوں سے زیادہ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے نذرانوں، خدمتوں اور مالی سرپرستی سے چلتی ہیں۔ بدلے میں مذہبی پیشوا مذہب کو بندے کا خدا سے ذاتی معاملہ قرار دینے کی بجائے اجتماعی پھڈا بنا دیتے ہیں تاکہ وہ اشرافیہ کے تحفظ میں مذہب کے چورن کو استعمال کرکے مستکبرین (haves) کے پاس دولت کے ارتکاز کو خدا کی عطا (divine right) کے طور پر معاشرے سے جائز منوالے۔ یہی مذہبی طبقہ مستضعفین(haves-not) کی معاشی محرومیوں کو خدا کی طرف سے لکھا گیا مقدر (divine decree) قرار دے کر ان کی طبقاتی جدوجہد کو صبروشکر کے نام پر زائل کرنے کا ذمہ دار بھی ہے۔ مذہبی پیشوائیت ایصالِ ثواب کے نام پر نذرانے بٹور کر اشرافیہ کی روحوں کو تو دنیا سے براہ راست جنت میں منتقل کروا دیتی ہے لیکن غریب جو اگلے جہاں میں جنت کی امید پر دنیا میں ’جہنم نما‘ زندگی گزارتا ہے وہ مذہبی پیشواوں کی جیبیں بھرنے سے قاصر ہونے کی بنا پر دنیا میں جہنم نما زندگی اور آخرت میں جہنم میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوتا ہے۔
مذہبی پیشوائیت کا دُہرا معیار تب بھی بے نقاب ہوتا ہے جب وہ ایک طرف تو اشرافیہ کے پاس دولت کے ارتکاز کو زکوۃ اور خمس سے مشروط کر کے اُن کی عیاشیوں سے بھرپور زندگی کو تحفظ دیتی ہے۔ لیکن دوسری طرف بنیادی ضروریات سے محروم محنت کش اور مناسب سہولیات سے محروم متوسط طبقوں کو یہی مذہبی پیشوائیت باور کراتی رہتی ہے کہ بہتر معیارِ زندگی کی دوڑ میں پڑنے کی بجائے آخرت کی تیاری کرو ۔ متوسط اور محنت کش طبقوں کو ترکِ دنیا کے لئے وعظ و نصیحت کرنے والی مذہبی پیشوائیت بذاتِ خود کھالیں، چندے اور نذرانے بٹور کر پرآسائش زندگی گزارتی ہے۔ پاکستان کی تمام مذہبی سیاسی جماعتوں، مذہبی دعوتی تحریکوں اور مذہبی فلاحی اداروں کے کرتا دھرتا مذہبی طبقے کے طرزِ زندگی کا بغور جائزہ لیجئے اور اُن کی کوٹھیوں، گاڑیوں، پلاٹوں، بینک بیلنسز اور کثیرالازواج ’نعمتوں‘ سے بھرپور زندگی پر خرچ ہونے والے مصارف کا ذریعہ آمدن ضرور دریافت کیجئے۔
Image: Lahore, Metro aut Aap
Good article with daring brave narrative against system of exploitation on basic rights of the poor in the name of religion .