[blockquote style=”3″]
جواد احمد پاکستان کے مشہور پاپ گلوکار ہیں اور گزشتہ کچھ عرصہ سے اشتراکی انقلاب کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ جواداحمد نے یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور میں شوقیہ گلوکاری سے کیا، آپ جیوپیٹرز بینڈ سے بھی وابستہ رہے۔
[/blockquote]
لالٹین: ایک گلوکار اور فن کارسے ایک کارکن، انقلابی اور اشتراکیت پسند تک کا سفر کیسے طے ہوا، اتنی بڑی تبدیلی آپ کی شخصیت میں کیسے آئی؟
جواد احمد: یہ کوئی بدلاؤ (Transformation)نہیں ہے،انقلابی خیالات تو چودہ پندرہ برس کی عمر سے میرے ذہن میں تھے اور یہی وجہ ہے کہ میں اس زمانے میں کافی غصے میں رہا کرتا تھا۔میں انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کے زمانے میں ہی انقلابی ہو چکا تھا۔ اس زمانے میں بھی اور آج بھی میرے لئے انقلاب کا مطلب بہت سادہ سا تھا کہ جو اگاتا ہے، بناتا ہے، کام کرتا ہے اسے اس کا حصہ ملنا چاہئے اور سبھی کو سب کچھ میسر ہو،ہاں البتہ تب مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ انقلاب آئے گا کیسے۔میں اس زمانے میں انتخابات کے ذریعہ حکومت بنانے والی اورسرمایہ دارانہ جمہوریت کے نعرے بلندکرنے والی مذہبی اور لبرل سیاسی جماعتوں سمیت سبھی جماعتوں کے پاس گیا ۔ میں سب سے رابطے میں رہالیکن کسی بھی جماعت کے طریقہ کار اور نظریات سے متفق نہیں ہو سکا۔ مجھے نہیں لگا کہ ان میں سے کوئی بھی جماعت ان مسائل کو حل کر سکتی ہے۔پھر میرا رابطہ ان جماعتوں سے ،جو مذہبی بنیادوں پر مساوات پر مبنی سیاسی و معاشی نظام کے قیام پر یقین رکھتی ہیں،اور اس کے بعد اشتراکیت پسند افراد اور جماعتوں سے ہوااور مجھے لگا کہ معاشی ، سماجی اور سیاسی مساوات ہی مسائل کا حل ہے اوراسے برابری کے حصول کا طریقہ مزدور ، کسان اور پسے ہوئے یعنی محنت کش طبقات کا انقلاب (Working Calss Revolution)ہے۔ تاہم اس جدوجہد کی راہ میں تب سے اب تک یہی رکاوٹ حائل رہی ہے کہ لوگ اس انقلاب اور جدوجہد کے لئے سیاسی طور پر با شعور اور منظم نہیں ہیں۔
اس تمام پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے مجھے آٹھ برس لگے یہ فیصلہ کرنے میں کہ میں برابری اور مساوات قائم کرنے کی انقلابی جدوجہد کا حصہ بنوں۔موسیقی جیوپیٹرز بینڈ(Jupiter’s Band)کے زمانے سے ہی میرے لئے مساوات کے قیام اور سیاسی جدوجہد کے لئے ایک ذریعہ (Tool) رہی ہے۔میں2000ء میں اپنے پہلے البم سے اب تک اسی پیغام کو لے کر گارہا ہوں۔
جواد احمد: یہ کوئی بدلاؤ (Transformation)نہیں ہے،انقلابی خیالات تو چودہ پندرہ برس کی عمر سے میرے ذہن میں تھے اور یہی وجہ ہے کہ میں اس زمانے میں کافی غصے میں رہا کرتا تھا۔میں انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کے زمانے میں ہی انقلابی ہو چکا تھا۔ اس زمانے میں بھی اور آج بھی میرے لئے انقلاب کا مطلب بہت سادہ سا تھا کہ جو اگاتا ہے، بناتا ہے، کام کرتا ہے اسے اس کا حصہ ملنا چاہئے اور سبھی کو سب کچھ میسر ہو،ہاں البتہ تب مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ انقلاب آئے گا کیسے۔میں اس زمانے میں انتخابات کے ذریعہ حکومت بنانے والی اورسرمایہ دارانہ جمہوریت کے نعرے بلندکرنے والی مذہبی اور لبرل سیاسی جماعتوں سمیت سبھی جماعتوں کے پاس گیا ۔ میں سب سے رابطے میں رہالیکن کسی بھی جماعت کے طریقہ کار اور نظریات سے متفق نہیں ہو سکا۔ مجھے نہیں لگا کہ ان میں سے کوئی بھی جماعت ان مسائل کو حل کر سکتی ہے۔پھر میرا رابطہ ان جماعتوں سے ،جو مذہبی بنیادوں پر مساوات پر مبنی سیاسی و معاشی نظام کے قیام پر یقین رکھتی ہیں،اور اس کے بعد اشتراکیت پسند افراد اور جماعتوں سے ہوااور مجھے لگا کہ معاشی ، سماجی اور سیاسی مساوات ہی مسائل کا حل ہے اوراسے برابری کے حصول کا طریقہ مزدور ، کسان اور پسے ہوئے یعنی محنت کش طبقات کا انقلاب (Working Calss Revolution)ہے۔ تاہم اس جدوجہد کی راہ میں تب سے اب تک یہی رکاوٹ حائل رہی ہے کہ لوگ اس انقلاب اور جدوجہد کے لئے سیاسی طور پر با شعور اور منظم نہیں ہیں۔
اس تمام پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے مجھے آٹھ برس لگے یہ فیصلہ کرنے میں کہ میں برابری اور مساوات قائم کرنے کی انقلابی جدوجہد کا حصہ بنوں۔موسیقی جیوپیٹرز بینڈ(Jupiter’s Band)کے زمانے سے ہی میرے لئے مساوات کے قیام اور سیاسی جدوجہد کے لئے ایک ذریعہ (Tool) رہی ہے۔میں2000ء میں اپنے پہلے البم سے اب تک اسی پیغام کو لے کر گارہا ہوں۔
لالٹین : کوئی خاص واقعہ یا حادثہ جس نے آپ کو انقلابی سیاست کی طرف مائل کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہو؟
جواد احمد: نہیں ایسا کوئی خاص واقعہ نہیں ہوا،میں تو عملی سیاست میں بھی شریک نہیں ہوا کیوں کہ میرے لئے یہ سیاست بے حد معمولی سطح کی تھی۔ایم ایس ایف(مسلم سٹوڈنٹس فیڈیریشن(، پی ایس ایف ( پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن) اور جمعیت وغیرہ کی لڑائیاں میرے لئے معاشی عدم مساوات، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور غربت جیسے مسائل کے سامنے نہایت سطحی اور معمولی تھیں۔ مجھے لگتا ہے کہ چونکہ انسان معاشرے کی پیداوار ہے اور وہ جو کچھ بھی سوچ رہا ہوتا ہے ، کر رہا ہوتا ہے اس پر اس کو الزام دینا اور ذمہ دار قرار دینا مناسب نہیں۔جب کہ کسی ایک نظریہ کے پیروکاروں کے خلاف کوئی اور نظریاتی محاذبنانے سے باہمی نفرت بڑھتی ہے۔
جواد احمد: نہیں ایسا کوئی خاص واقعہ نہیں ہوا،میں تو عملی سیاست میں بھی شریک نہیں ہوا کیوں کہ میرے لئے یہ سیاست بے حد معمولی سطح کی تھی۔ایم ایس ایف(مسلم سٹوڈنٹس فیڈیریشن(، پی ایس ایف ( پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن) اور جمعیت وغیرہ کی لڑائیاں میرے لئے معاشی عدم مساوات، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور غربت جیسے مسائل کے سامنے نہایت سطحی اور معمولی تھیں۔ مجھے لگتا ہے کہ چونکہ انسان معاشرے کی پیداوار ہے اور وہ جو کچھ بھی سوچ رہا ہوتا ہے ، کر رہا ہوتا ہے اس پر اس کو الزام دینا اور ذمہ دار قرار دینا مناسب نہیں۔جب کہ کسی ایک نظریہ کے پیروکاروں کے خلاف کوئی اور نظریاتی محاذبنانے سے باہمی نفرت بڑھتی ہے۔
میرے لئے انقلاب کا مطلب بہت سادہ سا تھا کہ جو اگاتا ہے، بناتا ہے، کام کرتا ہے اسے اس کا حصہ ملنا چاہئے اور سبھی کو سب کچھ میسر ہو،ہاں البتہ تب مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ انقلاب آئے گا کیسے۔
لالٹین: آپ پاکستان کے مسائل کا حل صرف انقلاب میں دیکھتے ہیں؟ اور ایسے انقلاب کے حقیقی امکانات کیا ہیں؟
جواداحمد: میں صرف پاکستان کے لئے نہیں پوری دنیا کے لئے انقلاب کی بات کرتا ہوں۔ میرے خیال میں اگر پاکستان میں انقلاب نہ آیا تو پھر پاکستان کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے گا۔ پاکستان میں اس وقت محنت کش طبقہ منتشر ہے اور اپنے معاشی مسائل اورایک انقلابی پارٹی کے نہ ہونے کی وجہ سے ایک بھرپور انقلابی جدوجہد کے لیے منظم نہیں ہے لیکن جب تک محنت کش طبقہ لسانی، علاقائی، نسلی، صوبائی، مذہبی اور فرقہ ورانہ لڑائیوں سے دور ہے تب تک برابری کے انقلاب کے امکانات بے حد زیادہ ہیں۔
انقلاب کے لیے لوگوں کے تیار نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ مغرب کے آزادی اظہار، انسانی برابری ،شخصی آزادی اور عدم مداخلت پر مبنی سیاسی نظام جیسے نام نہاد تصورات کو ہی ایک زمینی حقیقت سمجھ بیٹھے ہیں کیونکہ حکمران طبقات ، سیاسی پارٹیاں اور میڈیا انہی نظریات کا پراپیگنڈہ کرتے ہیں۔ یہ تصورات میرے نزدیک بالکل بے بنیاد اور کھوکھلے ہیں اور ان کا عملی طور پر اس کرہ ارض میں کہیں کوئی وجود نہیں ہے ۔ میں امریکہ اور یورپ میں جاتا ہوں تو وہاں بھی میں لاطینی امریکہ، مشرقی یورپ ،افریقہ اور ایشیا کے تیسری دنیا اور ترقی پذیر ممالک کے پسماندہ عوام کو ہی محنت اور مشقت کرتے دیکھتا ہوں۔ ترقی پذیر ممالک اورپاکستان کے حالات دیکھ کر یہی ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کا اصل مسئلہ معاشی عدم مساوات اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہی ہے۔
جواداحمد: میں صرف پاکستان کے لئے نہیں پوری دنیا کے لئے انقلاب کی بات کرتا ہوں۔ میرے خیال میں اگر پاکستان میں انقلاب نہ آیا تو پھر پاکستان کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے گا۔ پاکستان میں اس وقت محنت کش طبقہ منتشر ہے اور اپنے معاشی مسائل اورایک انقلابی پارٹی کے نہ ہونے کی وجہ سے ایک بھرپور انقلابی جدوجہد کے لیے منظم نہیں ہے لیکن جب تک محنت کش طبقہ لسانی، علاقائی، نسلی، صوبائی، مذہبی اور فرقہ ورانہ لڑائیوں سے دور ہے تب تک برابری کے انقلاب کے امکانات بے حد زیادہ ہیں۔
انقلاب کے لیے لوگوں کے تیار نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ مغرب کے آزادی اظہار، انسانی برابری ،شخصی آزادی اور عدم مداخلت پر مبنی سیاسی نظام جیسے نام نہاد تصورات کو ہی ایک زمینی حقیقت سمجھ بیٹھے ہیں کیونکہ حکمران طبقات ، سیاسی پارٹیاں اور میڈیا انہی نظریات کا پراپیگنڈہ کرتے ہیں۔ یہ تصورات میرے نزدیک بالکل بے بنیاد اور کھوکھلے ہیں اور ان کا عملی طور پر اس کرہ ارض میں کہیں کوئی وجود نہیں ہے ۔ میں امریکہ اور یورپ میں جاتا ہوں تو وہاں بھی میں لاطینی امریکہ، مشرقی یورپ ،افریقہ اور ایشیا کے تیسری دنیا اور ترقی پذیر ممالک کے پسماندہ عوام کو ہی محنت اور مشقت کرتے دیکھتا ہوں۔ ترقی پذیر ممالک اورپاکستان کے حالات دیکھ کر یہی ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کا اصل مسئلہ معاشی عدم مساوات اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہی ہے۔
لالٹین: ایران کی طرح کا مذہبی انقلاب بھی تو آسکتا ہے، ضروری نہیں کہ سوشلسٹ انقلاب ہی آئے؟
جواد احمد: اگر پاکستان کے لوگوں نے یہ فیصلہ کیا تو پھر ایران کی طرح یہاں کے معاشی نظام میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئے گی اور مسائل اسی طرح سے موجود رہیں گے۔
جواد احمد: اگر پاکستان کے لوگوں نے یہ فیصلہ کیا تو پھر ایران کی طرح یہاں کے معاشی نظام میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئے گی اور مسائل اسی طرح سے موجود رہیں گے۔
لالٹین: پاکستان میں معاشی انقلاب اور تبدیلی کے لئے آپ کون سا ماڈل تجویز کرتے ہیں؟
جواد احمد: روس میں انقلاب کے بعد جس طرح منصوبہ بند معیشت قائم کی گئی میرے خیال میں پاکستان کو ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو اس کی ضرورت ہے۔روس میں پسماندگی اور خارجی محاذ پر خطرات کی وجہ سے جو مسائل پیدا ہوئے ان سے ہم نے بھی سبق حاصل کیاہے اور آج ہم ایک بہتر منصوبہ بند معیشت چلا سکتے ہیں۔
جواد احمد: روس میں انقلاب کے بعد جس طرح منصوبہ بند معیشت قائم کی گئی میرے خیال میں پاکستان کو ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو اس کی ضرورت ہے۔روس میں پسماندگی اور خارجی محاذ پر خطرات کی وجہ سے جو مسائل پیدا ہوئے ان سے ہم نے بھی سبق حاصل کیاہے اور آج ہم ایک بہتر منصوبہ بند معیشت چلا سکتے ہیں۔
لالٹین: معاشی تبدیلی اور انقلاب تو ایک طویل (Long Term Process)مدت عمل ہے، جب کہ دوسری طرف انتہاپسندی اور شدت پسندی کی وجہ سے لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ معاشی انقلاب تو ایک دورازکار حل ہے فوری مسائل کے حل کے لئے کیا کیا جائے؟
جواد احمد: جو لوگ طبقاتی سوال اٹھائے بغیر شدت پسندی اور انتہا پسندی کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے، گروہ بندی کرنے اور آواز اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں ان کی لبرل ازم محض خام خیالی ہے اور اس سے یہ لڑائی صرف بڑھے گی ۔امریکہ، برطانیہ، سویڈن، فرانس اور اٹلی جیسےانسانی فلاح کے علمبر دار سرمایہ دار ہتھیار فروش ملکوں کے لئے یہ لڑائی بہت منافع بخش ہے اس لیے وہ ایسے مسائل کو ہوا دے کر وہ اس لڑائی کو لازماً بڑھائیں گے(آپ شائد یہ بات نہ چھاپیں)۔
جواد احمد: جو لوگ طبقاتی سوال اٹھائے بغیر شدت پسندی اور انتہا پسندی کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے، گروہ بندی کرنے اور آواز اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں ان کی لبرل ازم محض خام خیالی ہے اور اس سے یہ لڑائی صرف بڑھے گی ۔امریکہ، برطانیہ، سویڈن، فرانس اور اٹلی جیسےانسانی فلاح کے علمبر دار سرمایہ دار ہتھیار فروش ملکوں کے لئے یہ لڑائی بہت منافع بخش ہے اس لیے وہ ایسے مسائل کو ہوا دے کر وہ اس لڑائی کو لازماً بڑھائیں گے(آپ شائد یہ بات نہ چھاپیں)۔
جو لوگ طبقاتی سوال اٹھائے بغیر شدت پسندی اور انتہا پسندی کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے، گروہ بندی کرنے اور آواز اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں ان کی لبرل ازم محض خام خیالی ہے۔
ہمیں لوگوں کو سب سے پہلے خوراک، صحت کی سہولیات اور ایسی تعلیم دینے کی ضرورت ہے جس سے کارکن اور محنت کش طبقے میں طبقاتی شعور پیدا ہو، انہیں اپنی محرومی کے اسباب کا علم اور احساس ہو اور وہ اپنے حقوق کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔ لوگوں کے پاس بیمار ہونے پر دوائی کے لئے پیسے نہیں ہوتے، ہسپتال میں جگہ نہیں ہوتی، تو پہلے یہ مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے۔ جن مسائل کی آپ بات کررہے ہیں وہ معاشی مسائل حل ہونے کے ساتھ خود بخود حل ہوجائیں گے۔ لیکن عدم رواداری اور تکثیریت جیسے تصورات کو علیحدہ سے مسلط کرنے کی کوشش سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
کسی بھی قسم کی شدت پسندی اور انتہا پسندی کے حوالے سے کام کرنے والوں کا صرف ایک فائدہ مجھے نظر آتا ہے کہ روایتی فکر اور تاریخی جبر سے آزاد ہونے والے افرادمساوات کے حصول کی انقلابی جدوجہد کی طرف جلد اور آسانی سے مائل ہو جاتے ہیں۔آپ کو شاید یہ بات عجیب لگے لیکن شدت پسندی اور دیگر موضوعات پر این جی اوز جو کام کر رہی ہیں آخر کار اس کا فائدہ انقلابی جدوجہد ہی کو ہوگا مگر یہ این جی اوز خود انسانی برابری اور مساوات کے لیے براہِ راست کچھ نہیں کر سکیں گی۔ اسی لئے ہم این جی اوز کے کام کو سراہتے ہیں لیکن حقیقی تبدیلی وہی لوگ لائیں گے جو معاشی نظام کی تبدیلی کی جدوجہد کریں گے۔ یقیناًانتہا پسندی اور شدت پسندی پر کام کرنا اہم ہے لیکن ان مسائل کا تدارک معاشی انقلاب کے لئے کام کرنے والوں کی بدولت ہی ہوگا۔ یہ لوگ ان مسائل کو محض مذمت یا اظہار ہمدردی کی بجائے معاشی بنیادوں پر حل کریں گے۔
کسی بھی قسم کی شدت پسندی اور انتہا پسندی کے حوالے سے کام کرنے والوں کا صرف ایک فائدہ مجھے نظر آتا ہے کہ روایتی فکر اور تاریخی جبر سے آزاد ہونے والے افرادمساوات کے حصول کی انقلابی جدوجہد کی طرف جلد اور آسانی سے مائل ہو جاتے ہیں۔آپ کو شاید یہ بات عجیب لگے لیکن شدت پسندی اور دیگر موضوعات پر این جی اوز جو کام کر رہی ہیں آخر کار اس کا فائدہ انقلابی جدوجہد ہی کو ہوگا مگر یہ این جی اوز خود انسانی برابری اور مساوات کے لیے براہِ راست کچھ نہیں کر سکیں گی۔ اسی لئے ہم این جی اوز کے کام کو سراہتے ہیں لیکن حقیقی تبدیلی وہی لوگ لائیں گے جو معاشی نظام کی تبدیلی کی جدوجہد کریں گے۔ یقیناًانتہا پسندی اور شدت پسندی پر کام کرنا اہم ہے لیکن ان مسائل کا تدارک معاشی انقلاب کے لئے کام کرنے والوں کی بدولت ہی ہوگا۔ یہ لوگ ان مسائل کو محض مذمت یا اظہار ہمدردی کی بجائے معاشی بنیادوں پر حل کریں گے۔
لالٹین: انقلاب کے فطری اور سیاسی عوامل سے قطع نظر آپ نظریاتی تنازعات پر یقین نہیں رکھتے، اشتراکیت بھی تو ایک نظریہ ہی ہے جو سرمایہ دارانہ نظام سے متصادم ہے۔
جواد احمد: سوشلزم جمود کا شکار نظریہ نہیں ہے بلکہ اس کی پیداوار زمینی حقائق اورعدم مساوات کی وجہ سے ہے۔ سوشلزم کو ایک عقیدہ یا نظریہ قرار دینا مناسب نہیں کیوں کہ سوشلزم متحرک اور عملی اصولوں پر مبنی ہے۔ اس کمرے میں موجود افراد کی طبقاتی تقسیم ہی سوشلزم کے حقیقت ہونے کا ثبوت ہےجب تک یہ طبقات موجود ہیں تب تک سوشلز م ہے کیوں کہ تاریخی طور پر متروک اور انسانوں کی بڑی اکثریت کے لیے غیر فائدہ مند بلکہ نقصان دہ سرمایہ دارانہ نظام اب دنیا کوکچھ اور نہیں دے سکتا،انسانی سماج کی اجتماعی ترقی کی اگلی منزل اشتراکیت ہی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی طرح سوشلزم بھی ایک معاشی و سیاسی نظام کا نام ہے اور اس کا مذہب سے کوئی تصادم نہیں ہے، میں ایک مسلمان بھی ہوں، پاکستانی بھی اور سوشلسٹ بھی ہوں۔
جواد احمد: سوشلزم جمود کا شکار نظریہ نہیں ہے بلکہ اس کی پیداوار زمینی حقائق اورعدم مساوات کی وجہ سے ہے۔ سوشلزم کو ایک عقیدہ یا نظریہ قرار دینا مناسب نہیں کیوں کہ سوشلزم متحرک اور عملی اصولوں پر مبنی ہے۔ اس کمرے میں موجود افراد کی طبقاتی تقسیم ہی سوشلزم کے حقیقت ہونے کا ثبوت ہےجب تک یہ طبقات موجود ہیں تب تک سوشلز م ہے کیوں کہ تاریخی طور پر متروک اور انسانوں کی بڑی اکثریت کے لیے غیر فائدہ مند بلکہ نقصان دہ سرمایہ دارانہ نظام اب دنیا کوکچھ اور نہیں دے سکتا،انسانی سماج کی اجتماعی ترقی کی اگلی منزل اشتراکیت ہی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی طرح سوشلزم بھی ایک معاشی و سیاسی نظام کا نام ہے اور اس کا مذہب سے کوئی تصادم نہیں ہے، میں ایک مسلمان بھی ہوں، پاکستانی بھی اور سوشلسٹ بھی ہوں۔
لالٹین: اگر سوشلزم اس قدر عملی اور متحرک “نظریہ” ہے تو 2008کے معاشی بحران کے باوجود سرمایہ دارانہ ممالک میں کوئی بڑی انقلابی جدوجہد شروع کیوں نہیں ہو سکی؟
جواد احمد: اس کی وجہ یہ ہے کہ محنت کش طبقہ کو اپنے برابری کے حقوق کے لیے برپا کیے جانے والے انقلاب کے فہم اور شعور تک پہنچنے اس جدوجہد میں شریک ہونے کا فیصلہ کرنے میں تھوڑا وقت لگے گا ۔ انقلاب کے لئے جس تنظیم اور شعور کی ضرورت ہے اس کا دانشوروں ،طلبہ، نوجوانوں، سیاسی کارکنان اورمحنت کش طبقے کے آپسی اکٹھ میں ابھی فقدان ہے۔ یہی اکٹھ انقلاب کا ہراول دستہ ہوگا۔
جواد احمد: اس کی وجہ یہ ہے کہ محنت کش طبقہ کو اپنے برابری کے حقوق کے لیے برپا کیے جانے والے انقلاب کے فہم اور شعور تک پہنچنے اس جدوجہد میں شریک ہونے کا فیصلہ کرنے میں تھوڑا وقت لگے گا ۔ انقلاب کے لئے جس تنظیم اور شعور کی ضرورت ہے اس کا دانشوروں ،طلبہ، نوجوانوں، سیاسی کارکنان اورمحنت کش طبقے کے آپسی اکٹھ میں ابھی فقدان ہے۔ یہی اکٹھ انقلاب کا ہراول دستہ ہوگا۔
لالٹین: جواد آپ موسیقی کو تبدیلی لانے کا ایک ذریعہ قرار دیتے ہیں لیکن آپ کا زیادہ تر کام کمرشل ہے اور ابتدا میں جس قسم کا میوزک آپ نے کیا اس میں سیاسی پیغام کم اور شاید ثقافتی مواد زیادہ ہے۔
جواد احمد: میرا ابتدائی کام کمرشل نہیں ہے۔ میرے پہلے البم کے چودہ میں سے صرف پانچ گانے کمرشل تھے اور پہلا ویڈیو”اللہ میرے دل کے اندر” مکمل طور پر طبقاتی ویڈیو تھا۔ میرے پہلے البم کا نام “بول تجھے کیا چاہئے” تھا اور اس البم کے بیشتر گانے جن کے ویڈیو میں بنانا چاہتا تھا مگر نہیں بنا سکا، یہ بتانے کے لئے کافی ہیں کہ میں کیسا کام کرنا چاہتا تھا۔ میں نے ان گانوں کے ویڈیوز اس لیے نہیں بنائے کیونکہ ’’اللہ میرے دل کے اندر‘‘ کی ایک درمیانی سی کامیابی اس بات کا ثبوت تھی کہ لوگ محبت، تفریح اور اُچھل کُود کے موضوعات پر مبنی گانے سننا چاہتے تھے ۔ میں نے چودہ برس قبل سماجی اور سیاسی موضوعات پر گانا شروع کیا تھا جبکہ پاپولر میوزک میں شاید ہی کوئی ایسا کرتا ہو۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ اب کچھ لوگ نظریاتی اور بہت سے فیشن کے طور پر بھی سیاسی موضوعات پر گا رہے ہیں۔ اگر آپ میرا پہلا البم سنیں تو اس میں صرف 2 کمرشل گانے “اوہ کہندی اے سیاں میں تیری آں” اور”بن تیرے کیا ہے جینا” شامل ہیں۔ البم کے ریلیز ہاور ’’ اللہ میرے دل کے اندر‘‘ کا ویڈیو لانچ ہونے کے بعد جب مجھے پتا چلا کہ سماجی اور سیاسی موضوعات پر مبنی میوزک اتنا پاپو لر نہیں ہوسکتا جتنا کہ تفریحی میوزک ، تو میں نے ان دونوں کمرشل گانوں کے ویڈیو بنائے اورمیں بھی مشہور ہوگیا۔
مجھ سے پہلے آنے والے اور میرے ہم عصر گلوکار جب عوامی پسند کا کام کرکے مشہور ہونے لگےتو مجھے احساس ہوا کہ موسیقی کو تبدیلی کا ذریعہ بنانے کے لئے پہلے مجھے اپنا مقام بنانا پڑے گا۔ اگلے البم میں میں نے پانچ بھنگڑے شامل کئے تو مجھے مزید شہرت ملی۔ مجھے اپنی جگہ بنانے کے لئے کمرشل کام کرنا پڑا اور اس کا مجھے فائدہ بھی ہوا کیوں کہ اب جب میں انقلابی جدوجہد کر رہا ہوں تو پاکستان کے کروڑوں افراد مجھے جانتے ہیں، لیکن اب وہ مجھے میرے کمرشل کام کے ساتھ ساتھ میرے ا نقلابی گیتوں کی وجہ سے بھی جانتے ہیں۔ کمرشل کام کرتے ہوئے میں آپ کو بالکل بھی سوشلسٹ نہیں لگوں گا لیکن یہ کام کرنا اس لیے ضروری ہے تاکہ اپنا معیار زندگی برقرار رکھا جا سکے اور انقلابی جدوجہد کے لئے بھی اس کی ضرورت ہے۔
جواد احمد: میرا ابتدائی کام کمرشل نہیں ہے۔ میرے پہلے البم کے چودہ میں سے صرف پانچ گانے کمرشل تھے اور پہلا ویڈیو”اللہ میرے دل کے اندر” مکمل طور پر طبقاتی ویڈیو تھا۔ میرے پہلے البم کا نام “بول تجھے کیا چاہئے” تھا اور اس البم کے بیشتر گانے جن کے ویڈیو میں بنانا چاہتا تھا مگر نہیں بنا سکا، یہ بتانے کے لئے کافی ہیں کہ میں کیسا کام کرنا چاہتا تھا۔ میں نے ان گانوں کے ویڈیوز اس لیے نہیں بنائے کیونکہ ’’اللہ میرے دل کے اندر‘‘ کی ایک درمیانی سی کامیابی اس بات کا ثبوت تھی کہ لوگ محبت، تفریح اور اُچھل کُود کے موضوعات پر مبنی گانے سننا چاہتے تھے ۔ میں نے چودہ برس قبل سماجی اور سیاسی موضوعات پر گانا شروع کیا تھا جبکہ پاپولر میوزک میں شاید ہی کوئی ایسا کرتا ہو۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ اب کچھ لوگ نظریاتی اور بہت سے فیشن کے طور پر بھی سیاسی موضوعات پر گا رہے ہیں۔ اگر آپ میرا پہلا البم سنیں تو اس میں صرف 2 کمرشل گانے “اوہ کہندی اے سیاں میں تیری آں” اور”بن تیرے کیا ہے جینا” شامل ہیں۔ البم کے ریلیز ہاور ’’ اللہ میرے دل کے اندر‘‘ کا ویڈیو لانچ ہونے کے بعد جب مجھے پتا چلا کہ سماجی اور سیاسی موضوعات پر مبنی میوزک اتنا پاپو لر نہیں ہوسکتا جتنا کہ تفریحی میوزک ، تو میں نے ان دونوں کمرشل گانوں کے ویڈیو بنائے اورمیں بھی مشہور ہوگیا۔
مجھ سے پہلے آنے والے اور میرے ہم عصر گلوکار جب عوامی پسند کا کام کرکے مشہور ہونے لگےتو مجھے احساس ہوا کہ موسیقی کو تبدیلی کا ذریعہ بنانے کے لئے پہلے مجھے اپنا مقام بنانا پڑے گا۔ اگلے البم میں میں نے پانچ بھنگڑے شامل کئے تو مجھے مزید شہرت ملی۔ مجھے اپنی جگہ بنانے کے لئے کمرشل کام کرنا پڑا اور اس کا مجھے فائدہ بھی ہوا کیوں کہ اب جب میں انقلابی جدوجہد کر رہا ہوں تو پاکستان کے کروڑوں افراد مجھے جانتے ہیں، لیکن اب وہ مجھے میرے کمرشل کام کے ساتھ ساتھ میرے ا نقلابی گیتوں کی وجہ سے بھی جانتے ہیں۔ کمرشل کام کرتے ہوئے میں آپ کو بالکل بھی سوشلسٹ نہیں لگوں گا لیکن یہ کام کرنا اس لیے ضروری ہے تاکہ اپنا معیار زندگی برقرار رکھا جا سکے اور انقلابی جدوجہد کے لئے بھی اس کی ضرورت ہے۔
لالٹین: آپ کے مشہور گیت “دوستی” میں جس طرح کی حب الوطنی دکھائی گئی ہے ، اپنے سوشلسٹ نظریات کے تقابل میں اس کی کیا وضاحت کریں گے؟
میں نے حال ہی میں ایک گانا ’’ مٹی دا پہلوان‘‘(Mud Wrestler)ریلیز کیا ہے جو کہ ویسے تو دنیا میں رہنے والے تمام انسانوں کے لیے ایک پیغام ہے لیکن اس کے تیز موسیقی اورردھم کے ساتھ بامقصد و بامعنی الفاظ کے امتزاج کی وجہ سے اسے خاص طور پر نوجوانوں کو ضرور سننا چاہیے ۔
جواد احمد: اس گانے کی ویڈیو پاکستان ٹوبیکو کے تعاون سے بنی تھی۔مجھ سے پہلے بہت سے سنگر بھی ملٹی نیشنلز کے ساتھ کام کر رہے تھے خاص طور پر وہ جن کے گیت پنجاب میں بہت مقبول تھے، جو پاکستان میں صارفین کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ان سنگرز کے لاکھوں روپے کے ویڈیوز بن رہے تھے جس کی وجہ سے وہ باقی گلوکاروں سے بہت آگے نکل گئے تھے۔ ویڈیو بنانا اس زمانے میں مجبوری بھی تھی کیوں کہ صرف گانا مشہور ہونے سے کچھ نہیں ہوتا، اپنا امیج بنانے کے لئے ویڈیو بنانا پڑتا ہے۔ وائٹل سائنز کی شہرت کی وجہ بھی ان کے وہ ویڈیوز ہیں جو انہوں نے ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے تعاون سے بنائے تھے۔ پاکستان ٹوبیکو نے جب مجھے سائن کیا تو انہوں نے دوگانوں کے ویڈیوز بنانے کی بات کی۔ وہ چاہتے تھے کہ دوستی کے موضوع پر کوئی گیت بنایا جائے، میں نے پورے پاکستان کے لوگوں سے دوستی کی بات کی اور پہلی بار قومی ترانے کو بھی اپنے گیت کا حصہ بنایا۔انہیں یہ گیت اس قدر پسند آیا کہ انہوں نے “اچیاں مجاجاں والی” اور”دوستی” کے ہائی بجٹ ویڈیو بنائے۔اس زمانے میں “دوستی” کا ویڈیو 35لاکھ میں بنا۔احسن رحیم نے اس گانے کے ویڈیو کا سٹوری بورڈبنایا تھا جبکہ میرا گانے سے صرف اتنا تعلق ہے کہ امریکی ٹور(Tour) کے دوران شاٹس دینے کے لئے پاکستان آیا تھا اور پھر واپس چلا گیا، اس سے زیادہ میرا کوئی تعلق اس ویڈیو سے نہیں تھا۔ مجھے تو ویڈیو بننے کے بعد پتہ چلا کہ اس کی کہانی کیا تھی لیکن بہر حال میں اسے ایک اچھا ویڈیو سمجھتا ہوں جس میں جنگ کی ہولناکی میں بھی انسانی رشتوں سےدوستی اور محبت کا سبق ملتا ہے۔ یہ گانا فوج کے سپاہیوں کو بے انتہا پسند ہے جو کہ میرے لیے نہایت قابلِ عزت باوردی محنت کش ہیں۔
لالٹین: میوزک کیرئیر سے متعلق آپ کی مستقبل کی منصوبہ بندی کیا ہے؟
جواد احمد:اب میں زیادہ تر”بول تجھے کیا چاہئے” جیسے البم ہی کروں گا۔ جن میں کسی حد تک کمرشل کام ہو گا لیکن زیادہ تر بامقصد اور انقلابی گیت ہی گانے کا ارادہ ہے۔
جواد احمد:اب میں زیادہ تر”بول تجھے کیا چاہئے” جیسے البم ہی کروں گا۔ جن میں کسی حد تک کمرشل کام ہو گا لیکن زیادہ تر بامقصد اور انقلابی گیت ہی گانے کا ارادہ ہے۔
لالٹین: ہمارے ہاں زیادہ تر فن کار اور گلوکار یا تو سیاسی عمل سے بالکل علیحدہ ہوتے ہیں یا پھر دائیں بازو کے حامی ہوتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟
جواد احمد: فن کاروں کو متاثر ہونے کے لئے دیگر فنکاروں اور مخصوص ماحول کی ضرورت ہوتی ہے جیسے فیض ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے تو دیگر شاعر بھی ان سے متاثر ہوئے۔ زیادہ تر لوگ کمرشل کام کرنے کے لئے ہی اس میدان میں آئے ہیں اس لئے بھی ان کی کوئی سیاسی وابستگی نہیں ہوتی۔ میرے لئے دائیں اور بائیں بازو کی تقسیم خالصتاً معاشی اور طبقاتی جدوجہد سے وابستگی کی بنیاد پر ہےاسی لیے عبیداللہ سندھی، حسرت موہانی اور مولانا بھاشانی جیسے لوگ میرے لئے بائیں بازو کے لوگ ہیں۔
جواد احمد: فن کاروں کو متاثر ہونے کے لئے دیگر فنکاروں اور مخصوص ماحول کی ضرورت ہوتی ہے جیسے فیض ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے تو دیگر شاعر بھی ان سے متاثر ہوئے۔ زیادہ تر لوگ کمرشل کام کرنے کے لئے ہی اس میدان میں آئے ہیں اس لئے بھی ان کی کوئی سیاسی وابستگی نہیں ہوتی۔ میرے لئے دائیں اور بائیں بازو کی تقسیم خالصتاً معاشی اور طبقاتی جدوجہد سے وابستگی کی بنیاد پر ہےاسی لیے عبیداللہ سندھی، حسرت موہانی اور مولانا بھاشانی جیسے لوگ میرے لئے بائیں بازو کے لوگ ہیں۔
لالٹین: تو کیا آپ اپنے ساتھی فنکاروں کو انقلابی جدوجہد میں شامل کرنے کی کوشش کریں گے؟
جواد احمد: بہت سے لوگ ہیں جو میرا خیال ہے اس طرف آئیں گے۔ شہزادرائے میں سماجی کام کرنے کا Potential موجود ہےوہ میرے خیال کے مطابق لیفٹ ٹوسنٹر(Left to Center (کے نظریات رکھتا ہے۔ اسی طرح اور بہت سے لوگ ہیں جو میرے ساتھ گاہے بگاہے ان موضوعات پر تبادلہ خیال کرتے رہتے ہیں جب تحریک بڑھے گی تو مجھے یقین ہے کہ انہیں زمینی حقائق کا زیادہ بہتر طریقے سے اندازہ اور علم ہوگا اور وہ انسانی برابری کے قیام کے لیے طبقاتی جدوجہد کا حصہ بنیں گے۔
جواد احمد: بہت سے لوگ ہیں جو میرا خیال ہے اس طرف آئیں گے۔ شہزادرائے میں سماجی کام کرنے کا Potential موجود ہےوہ میرے خیال کے مطابق لیفٹ ٹوسنٹر(Left to Center (کے نظریات رکھتا ہے۔ اسی طرح اور بہت سے لوگ ہیں جو میرے ساتھ گاہے بگاہے ان موضوعات پر تبادلہ خیال کرتے رہتے ہیں جب تحریک بڑھے گی تو مجھے یقین ہے کہ انہیں زمینی حقائق کا زیادہ بہتر طریقے سے اندازہ اور علم ہوگا اور وہ انسانی برابری کے قیام کے لیے طبقاتی جدوجہد کا حصہ بنیں گے۔
لالٹین: اس وقت آپ بائیں بازو کی اشتراکیت پسند جماعتوں میں سے کسی کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں؟
جواد احمد: میرا خیال ہے اس موضوع پر زیادہ بات نہ ہی کی جائے تو بہتر ہے۔ میرے بائیں بازو کی تمام جماعتوں سے اچھے تعلقات ہیں اور ان سے بھی جو شدت پسندی ،انتہا پسندی کے حوالے سے کام کررہے ہیں ان کے علاوہ میرے مذہبی اور لبرل جماعتوں میں بھی موجود بہت سے حساس اور دردمند لوگوں سے تعلقات ہیں۔ مستقبل میں اگر محنت کش طبقہ کی جدوجہد کی شروع ہوجائے تو بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے ساتھ مل کر کا م کیا جا سکتا ہے۔ابھی تو میرا کام انٹرنیشنل یوتھ اینڈ ورکرز موومنٹ کے تحت ہی ہے۔
جواد احمد: میرا خیال ہے اس موضوع پر زیادہ بات نہ ہی کی جائے تو بہتر ہے۔ میرے بائیں بازو کی تمام جماعتوں سے اچھے تعلقات ہیں اور ان سے بھی جو شدت پسندی ،انتہا پسندی کے حوالے سے کام کررہے ہیں ان کے علاوہ میرے مذہبی اور لبرل جماعتوں میں بھی موجود بہت سے حساس اور دردمند لوگوں سے تعلقات ہیں۔ مستقبل میں اگر محنت کش طبقہ کی جدوجہد کی شروع ہوجائے تو بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے ساتھ مل کر کا م کیا جا سکتا ہے۔ابھی تو میرا کام انٹرنیشنل یوتھ اینڈ ورکرز موومنٹ کے تحت ہی ہے۔
لالٹین: انٹرنیشنل یوتھ اینڈ ورکرز موومنٹ (International Youth and Workers Movement) کے بارے میں کچھ بتانا چاہیں گے؟
جواد احمد: اس تنظیم کے بڑے سیدھے سادے سے مقاصد ہیں۔ اس تنظیم کے ذریعے ہم مڈل کلاس اور ورکنگ کلاس نوجوانوں کو ،چاہے وہ پڑھے لکھے ہیں یا نہیں، اپنے ساتھ ملا کر ان کے ذریعے محنت کش طبقے تک رسائی حاصل کریں گے اور بحث، مباحثوں، مذاکروں، جلسوں، میڈیا اور دیگر سرگرمیوں کے ذریعے نوجوانوں ، طالب علموں اور متوسط طبقے کے افراد کو اپنے ساتھ ملائیں گے۔ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے لوگوں، دانشوروں اور سیاسی کارکنوں کا اس جدوجہد میں شامل ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر آپ پی ٹی سی ایل ( Telecommunication Limited Pakistan ) کی نجکاری کے عمل کا جائزہ لیں تو آپ کو لگے گا کہ پی ٹی سی ایل کے ملازمین کی نجکاری کے خلاف تحریک کا متوسط طبقے پر کوئی اثر نہیں ہوا، عام لوگوں نے اس تحریک کے ملازمین کو صرف ہڑتال کرنے والے اور سڑکیں بلاک کرنے والے افراد کے طور پر دیکھا،معاشرے میں محنت کش طبقے کے مسائل کے حوالے سے بے حسی کی وجہ سے کوئی ان کے ساتھ شامل نہیں ہوا۔ اسی لئے طالب علموں اورنوجوانوں کا مزدوروں، کسانوں، محنت کشوں، غریبوں اور مظلوم طبقات سے میل جول ضروری ہے تاکہ وہ ان لوگوں کے مسائل کو سمجھ سکیں۔
جواد احمد: اس تنظیم کے بڑے سیدھے سادے سے مقاصد ہیں۔ اس تنظیم کے ذریعے ہم مڈل کلاس اور ورکنگ کلاس نوجوانوں کو ،چاہے وہ پڑھے لکھے ہیں یا نہیں، اپنے ساتھ ملا کر ان کے ذریعے محنت کش طبقے تک رسائی حاصل کریں گے اور بحث، مباحثوں، مذاکروں، جلسوں، میڈیا اور دیگر سرگرمیوں کے ذریعے نوجوانوں ، طالب علموں اور متوسط طبقے کے افراد کو اپنے ساتھ ملائیں گے۔ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے لوگوں، دانشوروں اور سیاسی کارکنوں کا اس جدوجہد میں شامل ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر آپ پی ٹی سی ایل ( Telecommunication Limited Pakistan ) کی نجکاری کے عمل کا جائزہ لیں تو آپ کو لگے گا کہ پی ٹی سی ایل کے ملازمین کی نجکاری کے خلاف تحریک کا متوسط طبقے پر کوئی اثر نہیں ہوا، عام لوگوں نے اس تحریک کے ملازمین کو صرف ہڑتال کرنے والے اور سڑکیں بلاک کرنے والے افراد کے طور پر دیکھا،معاشرے میں محنت کش طبقے کے مسائل کے حوالے سے بے حسی کی وجہ سے کوئی ان کے ساتھ شامل نہیں ہوا۔ اسی لئے طالب علموں اورنوجوانوں کا مزدوروں، کسانوں، محنت کشوں، غریبوں اور مظلوم طبقات سے میل جول ضروری ہے تاکہ وہ ان لوگوں کے مسائل کو سمجھ سکیں۔
لالٹین: نوجوانوں کے لئے کوئی پیغام؟
جواد احمد: میں نے حال ہی میں ایک گانا ’’ مٹی دا پہلوان‘‘(Mud Wrestler)ریلیز کیا ہے جو کہ ویسے تو دنیا میں رہنے والے تمام انسانوں کے لیے ایک پیغام ہے لیکن اس کے تیز موسیقی اورردھم کے ساتھ بامقصد و بامعنی الفاظ کے امتزاج کی وجہ سے اسے خاص طور پر نوجوانوں کو ضرور سننا چاہیے ۔ وہ طالب علم اورنوجوان جو اپنے آس پاس کے حالات پر کڑھتے ہوں اور دیگر نوجوانوں کی طرح صرف ذاتی مسرت یا خوشی کی تلاش میں نہ ہوں ان کے لئے میرا پیغام ہے کہ وہ اپنے ارد گرد کے حالات کی خرابی کی وجوہ کا تعین کریں اور ان کے حل کی کوشش کریں۔ اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ انتخابی سیاست سے مسائل حل نہیں ہو سکتے، نہ ہندوستان کے نہ پاکستان کے اور نہ ہی تیسری دنیا ، دوسری یا پہلی دنیا کے کسی بھی ملک کے۔ساری دنیا کے نوجوانوں کو برابری اور مساوات کے عالمی انقلاب کی راہ اپنانا ہو گی اور ایک غیر طبقاتی عالمی انسانی سماج کے قیام کی خاطر سیاسی جدوجہد کرنا ہوگی کیونکہ اس وقت جبکہ پوری دنیا میں بھوک، غربت، بیماری، جہالت،روزگار، تعلیم و صحت جیسے مسائل اور جنگوں کو جنم دینے والا اور ظلم و جبر اور طبقاتی بنیادوں پرمبنی سرمایہ دار انہ نظام قائم ہے، ان کی اس دنیا کو بدلنے کی لازوال جدوجہد اور قربانی وقت اور حالات کا تقاضہ ہے۔
جواد احمد: میں نے حال ہی میں ایک گانا ’’ مٹی دا پہلوان‘‘(Mud Wrestler)ریلیز کیا ہے جو کہ ویسے تو دنیا میں رہنے والے تمام انسانوں کے لیے ایک پیغام ہے لیکن اس کے تیز موسیقی اورردھم کے ساتھ بامقصد و بامعنی الفاظ کے امتزاج کی وجہ سے اسے خاص طور پر نوجوانوں کو ضرور سننا چاہیے ۔ وہ طالب علم اورنوجوان جو اپنے آس پاس کے حالات پر کڑھتے ہوں اور دیگر نوجوانوں کی طرح صرف ذاتی مسرت یا خوشی کی تلاش میں نہ ہوں ان کے لئے میرا پیغام ہے کہ وہ اپنے ارد گرد کے حالات کی خرابی کی وجوہ کا تعین کریں اور ان کے حل کی کوشش کریں۔ اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ انتخابی سیاست سے مسائل حل نہیں ہو سکتے، نہ ہندوستان کے نہ پاکستان کے اور نہ ہی تیسری دنیا ، دوسری یا پہلی دنیا کے کسی بھی ملک کے۔ساری دنیا کے نوجوانوں کو برابری اور مساوات کے عالمی انقلاب کی راہ اپنانا ہو گی اور ایک غیر طبقاتی عالمی انسانی سماج کے قیام کی خاطر سیاسی جدوجہد کرنا ہوگی کیونکہ اس وقت جبکہ پوری دنیا میں بھوک، غربت، بیماری، جہالت،روزگار، تعلیم و صحت جیسے مسائل اور جنگوں کو جنم دینے والا اور ظلم و جبر اور طبقاتی بنیادوں پرمبنی سرمایہ دار انہ نظام قائم ہے، ان کی اس دنیا کو بدلنے کی لازوال جدوجہد اور قربانی وقت اور حالات کا تقاضہ ہے۔
تبصرے
جواد احمد سے گذارش هے که سب سے پهلے اسے انسان کو سمجهنا پڑے گا.اور انسان کو سمجهنے کے لیے اسے انسان کے پیدا کرنے والے کے دیے هوئے قوانین اور قائدوں کا مطالعه کرنا پڑے گا.جواد احمد معاشره کے نشیب وفراز کو هموار کرنے کی بات کر رها هے.کاش وه اس فلسفه حیات کو سمجهتا که اسی اختلاف کی وجه سے یه دنیا حسین هے.رهی بات انسان کے حقوق و فرائض کی تو یه ایک دوسری بحث هے.حالانکه جواد احمد اگر اس نقطه پر اپنی توجه مرکوز کریں که ایک بهترین نظام کے چلانے والا ایک بد دیانت شخص هو تو وه بهترین نظام بهی انسانیت کی خدمت کرنے سے قاصر هو گا.
در حقیقت ضرورت اس امر کی هے که انسانوں پر محنت کی جائے جیسے که همارے پیارے رسول مقبول صلی الله علیه وسلم اور همارے خلفائے راشدین نے کی. اور انکی اس محنت کے نتیجه میں ایک ایسا معاشره وجود میں آیا که مرتے مرتے بهی وه اپنے بهائی کو خود پر ترجیح دے رهے تهے اور ایسی ایسی مثالیں قائم کر گئے جس کی تاریخ ابهی تک کوئی مثال دینے سے قاصر هے.
میں نے اس پهلو پر بڑا غورکیا که جدید دور کے جدید دانشور سوشلازم،کیمونزم،مغربی جمهوریت وغیره نظاموں کو هی کیوں اپنی گفتگو اور تحریروں میں زیرِبحث لاتے هیں اسلام کو کیوں نهیں.تومجهے پته چلا که آج کے دور میں نظامِ اسلام کو کیوں زیرِبحث نهیں لایا جاتا وه اس لیے که اس وقت اسلام کےماننے والے ا تنے کمزور هیں که دنیا ان کو کسی خاطر میں هی نهیں لاتے.وگرنه اسلام هی ایک ایسا دین جوانسانیت کوعادلانه و منصفانه نظام دیتا هے.
جواد احمد سے گذارش هے که وه لفظ “مساوات”اور “عدل وانصاف “کے فرق کو سمجهنے کی کوشش کریں تو شاید وه اس بڑی واضح حقیقت کو سمجه سکیں.
دعا هے که الله تعالی هم سب کو سمجهنے کی توفیق عطا فرمائے .آمین