حکومت پاکستان اور طالبان کے درمیان فروری میں شروع ہو نے والا مذاکرتی عمل جو بیس روز جاری رہنے کے بعد طالبان کی طرف سے دہشت گردی کی مسلسل کاروائیوں کے بعد معطل کر دیا گیا تھا، اب طالبان کی طرف سے اعلانِ جنگ بندی کے بعد پھر شروع ہونے کو ہے ۔مذاکرات کے دوران ملکی اور غیر ملکی میڈیا میں طالبان اور اس کے حامی مذہبی اور سیاسی افراد کو خاصی کوریج ملی اور یوں لگتا تھا جیسے طالبان ریاست کے ساتھ برابری کی سطح کے فریق تسلیم کر لئے گئے ہیں ۔ دہشت گردوں اور ریاست کے باغیوں کو اس قدر میڈیا کوریج اور حمایت کی مثال دنیا بھر میں کہیں نہیں ملتی۔ 23ایف سی اہلکاروں کی شہادت کے بعد پاک فوج نے اپنی کامیاب سرجیکل اسڑائکس سے طالبان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا اور جس سے بہت سارے ملکی و غیر ملکی دہشت گرد ہلاک و زخمی ہوئے ۔پاک فوج نے اپنی پریس بریفنگ میں یہ بات واضح کی ہے کہ فوج نے طالبان کے گردگھیرا تنگ کر لیا ہے اور شمالی وزیرستان کو دہشت گردوں سے چند ہفتوں میں خالی کرا لیا جائے گا، لیکن موجودہ جنگ بندی طالبان کو دوبارہ اپنی صفیں درست کرنے کی مہلت دے سکتی ہے۔ طالبان کی طرف سے جنگ بندی کے اعلان کے بعد فضائی حملے روک دیے گئے ہیں اور طالبان کے حمایتی مذہبی و سیاسی راہنماوں کی طرف سے جنگ بندی کو ایک احسن قدم قرار دیا جا رہا ہے۔ جنگ بندی اور دوبارہ مذاکرات کے آغاز پر پاکستان کی عوام اور عسکری ماہرین شکوک و شہبات کا اظہار کر رہے ہیں، یوں محسوس ہوتا ہے جیسے طالبان تیاری کے لئے مزید وقت حاصل کرنا چاہتے ہیں یا اپنی کمزور پوزیشن کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔
طالبان کو ماضی میں افغانستان اور مغربی سرحد کے دفاع کے لئے استعمال کرنے کی پالیسی آج بھی بعض عسکری حلقوں میں پسندید ہ ہے اور اپنے عالمی اثرورسوخ میں اضافے کے لئے صرف پاکستان نہیں بلکہ سعودی ریاست بھی جہادی گروہوں اور طالبان کو استعمال کرتی رہی ہے۔
طالبان کو ماضی میں افغانستان اور مغربی سرحد کے دفاع کے لئے استعمال کرنے کی پالیسی آج بھی بعض عسکری حلقوں میں پسندید ہ ہے اور اپنے عالمی اثرورسوخ میں اضافے کے لئے صرف پاکستان نہیں بلکہ سعودی ریاست بھی جہادی گروہوں اور طالبان کو استعمال کرتی رہی ہے۔ طالبانی فکر کو پروان چڑھنے والے مدارس کو سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک شاید اسی لئے امداد فراہم کرتے ہیں۔ نواز حکومت کے اقتدار میں آنے سے پاکستان میں سعودی عرب کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ نے پاکستان کی داخلی و خارجی پالیسی کو عوام پاکستان اور بین الاقوامی دنیا میں مشکوک بنا دیا ہے۔ سعودی حکومت عرب خطے اور دنیا میں اپنے اثرورسوخ میں اضافے کے لئے بھی ان جہادی تنظیموں کو استعمال کرنا چاہتا ہے۔
شام کی جنگ میں مسلح دہشتگردوں کو اسلحہ اور ہر طرح کی امداد دینے میں سعودی عرب سرفہرست ہے مگر شام میں دہشتگرد گروہوںمیں جاری شدید تصادم شامی خانہ جنگی کے نتیجہ خیز ہونے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ یہ صورتِ حال بشارالاسد حکومت کے مخالفین کے لئے بہت پریشان کن ہے جس کا اظہار سعودی عرب ، قطر ، ترکی اور امریکی عہدے دار اکثر اوقات کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ بات بھی بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں زیر ِبحث ہے کہ سعودی عرب مختلف ممالک میں موجود ان جہادیوں کو پاکستان یکجا کر کے ایک پرائیوٹ فورس تیار کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان سے جاری موجودہ مذاکرات بھی در حقیقت ان دہشتگردوں کی منتشر قوت کو متحد اور اپنے تابع کر کےعالمی دہشتگر د فورس کی تشکیل کو حتمی شکل دینے کی کوشش ہے۔ مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں امن صرف یہی آئے گا کہ حکومتی و سیاسی شخصیات ، سول اور سکیورٹی اداروں وغیرہ پر حملوں کا سلسلہ بند ہو جائے گا جبکہ شیعہ اور دیگر اقلیتوں کی ٹارگٹ کلنگ جاری رہے گی ۔
عالمی منظر نامے پر سعودی اثرورسوخ میں اضافہ کے لئے تیار کی جانے والے ان جہادی لشکروں کے ذریعے شام، لبنان اور ایران پر اثرانداز ہونے اور ان ممالک میں اپنی پسند کی حکومتیں یا سعودی حکومت کے زیرِ اثر امارت اسلامیہ کا قیام بھی اس منصوبے کا حصہ ہو سکتا ہے۔
پاکستان نے سعودی عرب کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے تحت کراچی سے سی 130 طیارے کے ذریعے شام کے خلاف برسر پیکار دہشتگردوں کے لئے طیارہ اور توپ شکن میزائل اور دیگر آلات اردن روانہ کر دیئے ہیں جو شام میں برسرپیکار جہادیوں کے حوالے کیے جائیں گے۔
یہ کہنا غلط ہے کہ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں بڑی تباہی آئے گی مذاکرات کی کامیابی پاکستان کے وجود کے لئے خطرہ ہو سکتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ پاکستانی ریاست 80 کی دہائی کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ تہران ریڈیو کی پشتو سروس کے رپورٹر جاویدرشید خان نے یہ خبر دی ہے کہ پاکستان نے سعودی عرب کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے تحت کراچی سے سی 130 طیارے کے ذریعے شام کے خلاف برسر پیکار دہشتگردوں کے لئے طیارہ اور توپ شکن میزائل اور دیگر آلات اردن روانہ کر دیئے ہیں جو شام میں برسرپیکار جہادیوں کے حوالے کیے جائیں گے۔ گو کہ پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان نے اس بات کی تردید کی ہے لیکن مذاکرات کا دوبارہ آغاز اور حکومتی بیانات یہ پتہ دے رہے ہیں کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ اگر یہ بات درست ثابت ہوتی ہے تو پاکستان کی عوام یہ بات پوچھنے کی حقدار ہے کہ برسر اقتدار چند افراد کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ ملک کے سیاہ سفید کے مالک بن کر اپنی ذاتی مفاد اور ترجیحات کے تحت فیصلے کریں اور ریاست کے وجود اور عالمی امن کو خطرے میں ڈال دیں ۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات پاکستان کے مفاد میں نہیں کیونکہ طالبان کی فکر پاکستان دوست اور اسلامی فکر نہیں۔طالبان فکر غلبے اور توسیع کی سوچ ہے جو دنیا بھر میں قومی ریاستوں کی جگہ من پسند خودساختہ مذہبی شریعت کے تحت خلافت کے قیام کی سوچ ہے۔ مذاکراتی کمیٹیوں کے ممبران ان طالبان کو پاکستان دوست ثابت کرنے کی روش ترک کر دیں اور ماضی کی طرح پاکستان میں طالبانی فکر کو پروان چڑاھنے کیلئے حکومتی سرپرستی کرنے سے اجتناب کیا جائےورنہ پھر یہ ناسور مستقبل میں پاکستان کیلئے شدید مشکلات پیدا کر دے گا۔ طالبان کا مکمل خاتمہ اور اس فکر کی بیخ کنی ہی ایک روشن پاکستان کی ضامن ہے۔

Leave a Reply