پچھلی دو دہائیوں سے پاکستانی ریاست کو سب سے بڑا خطرہ کسی بیرونی دشمن سے نہیں بلکہ دہشت گرد تنظیم” تحریک طالبان پاکستان ” اور دیگر مسلح مذہبی جہادی گروہوں سے ہے جن کی پرورش میں ریاست کا اپنا حصہ بھی ہے ـبظاہر طالبان کا مطالبہ، ملک میں شریعت کا نفاذ ہے لیکن دراصل یہ اس مخصوص مکتبہ فکر کی سوچ کو ملک پر لاگو کرنا چاہتے ہیں جس کے یہ پیروکار ہیں ـان گروہوں کا بنیادی مقصد اپنے شدت پسند نظریات کی بنیاد پر ایک ایسی امارت کی تشکیل ہے جو عالمگیر غلبہ کی جہادی تحریکوں کے لئے مستقر اور معسکر کا کام دے سکے۔ اگر ان کو نفاذِ شریعت میں دلچسپی ہوتی تو یہ دوسرے فرقوں اور مذہبی اکائیوں کے خلاف ایسی دہشت گردانہ کاروائیاں ہر گز نہ کرتے جس سے ان کے نہتے مرد، عورت، بچے اور بوڑھے مارے جاتے کیونکہ اسلام کسی بھی حالت میں نہتے لوگوں کو مارنے کی اجازت نہیں دیتاـ
بظاہر طالبان کا مطالبہ، ملک میں شریعت کا نفاذ ہے لیکن دراصل یہ اس مخصوص مکتبہ فکر کی سوچ کو ملک پر لاگو کرنا چاہتے ہیں جس کے یہ پیروکار ہیں ـان گروہوں کا بنیادی مقصد اپنے شدت پسند نظریات کی بنیاد پر ایک ایسی امارت کی تشکیل ہے جو عالمگیر غلبہ کی جہادی تحریکوں کے لئے مستقر اور معسکر کا کام دے سکے۔
ریاست کے خلاف اس جنگ یا بغاوت میں طالبان کا سب سے خطرناک ہتھیار وہ خودکش حملہ آور ہیں جو کسی بھی عوامی اجتماع ،عسکری و شہری تنصیب کو نشانہ بنانے کے لئے خود کو دھماکے سے اڑا لیتے ہیں ـ اس طریقہ کار کی مثال ماضی میں حسن بن صباح کے پیروکاران سے دی جا سکتی ہے جو کہ تاریخ میں حشیشن کے نام سے جانے جاتے ہیں اور وہ ابنِ صباح کے احکامات بجا لانے کے لیے کسی بھی شخصیت کو قتل کر دیتے تھے خواہ ان کی اپنی جان چلی جائے ـ وہ یہ سب اس لیے کرتے تھے کہ ابنِ صباح نے انہیں نہ صرف بہشت کی بشارت دی تھی بلکہ مشن پر نکلنے سے پہلے کوہستان طالقان میں بنائی گئی جنت کی سیر بھی کروائی جاتی تھی اور بتایا جاتا تھا کہ مرنے کے بعد تم یہاں آؤ گے ـ اس خودساختہ جنت میں انہیں دنیا جہان کی نعمتیں پیش کی جاتیں تھیں جن میں مخصوص تربیت یافتہ دوشیزائیں بھی شامل ہوتی تھیں جو کہ ان پیروکاروں کے حواس کو یوں قابو کرتی تھیں کہ وہ جنت سے نکلنے کے بعد واپسی کے لیے کسی بھی حد سے گزرنے کو تیار ہوتے تھے ـ ان قاتلوں نے اس وقت کی ریاستوں کو شدید نقصان پہنچایا اور عباسی خلافت کے زوال میں بہت اہم کردار کیا ـ بعض ذرائع کے مطابق موجودہ طالبان بھی اپنے خودکش حملہ آوروں کے اذہان کو قابو کرنے کے لیے ابنِ صباح جیسے ہتھکنڈے ہی استعمال کرتے ہیں جن میں منشیات سے لیکر کر جنس تک شامل ہیں ـ
ان طالبان کے خلاف کاروائی کے لیے پاکستانی معاشرہ واضح طور پر تین گروہوں میں تقسیم ہے ـ ایک گروہ جو اقلیت میں ہے طالبان کے خلاف مکمل عسکری قوت کو برؤے کار لاکر ان کے خاتمے کا حامی ہے،دوسرا گروہ جو کہ تعداد میں کم ہے وہ کچھ وجوہات کی بنا پر ان سے مذاکرات کرنے کا حامی ہے اور مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں عسکری حل کی بات کرتا ہے ـ تیسرا گروہ جو معاشرے کی ایک واضح اقلیت ہے طالبانی سوچ و نکتہ نظر کا حامی ہے، یہ گروہ طالبان کو حق پر سمجھتا ہے اور ان کی مالی، اخلاقی اور کسی بھی ممکن ذرائع سے ان کی امداد کرتا ہے ـ تاہم بد قسمتی سے ذرائع ابلاغ میں مذہبی شدت پسندی سے ہمدردی رکھنے والے طبقہ کے غلبہ اور دائیں بازو کی جماعتوں کے سیاسی مفادات کی وجہ سے رائے عامہ طالبان کے خلاف عسکری طاقت کے استعمال پر کنفیوژن کا شکار ہے۔
کچھ اسی قسم کی فکری تقسیم حسن بھی صباح کے دور میں بھی تھی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس وقت کے مسلم حکم ران ان اندرونی اختلافات کے باعث اس گروہ کو ختم کرنے میں ناکام رہے اور کمزور ہو کر رفتہ رفتہ صفحۂ ہستی سے مٹ گئے اس گروہ کی کاروائیوں کا خاتمہ منگول جنگجووں کی آمد سے ہوئی۔موجودہ حالات میں ریاستِ پاکستان اور پاکستانی عوام کے سامنے بھی دو راستے ہیں، ایک تو یہ کہ تاریخ کو دہراتے ہوئے منقسم رہیں اور کسی ہلاکو خان کی آمد کا انتظار کریں جو اس گروہ کا قلع قمع کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام آباد میں ویسی ہی خون کی ندیاں بہائے جیسی ہلاکو نے بغداد میں بہائی تھیں یا پھر یہ کہ قوم و ریاست متحد اور یکسو ہو کر اس گروہ کا خود خاتمہ کریں تاکہ پاکستان ایک جدید فلاحی ریاست بن سکے۔
ان طالبان کے خلاف کاروائی کے لیے پاکستانی معاشرہ واضح طور پر تین گروہوں میں تقسیم ہے ـ ایک گروہ جو اقلیت میں ہے طالبان کے خلاف مکمل عسکری قوت کو برؤے کار لاکر ان کے خاتمے کا حامی ہے،دوسرا گروہ جو کہ تعداد میں کم ہے وہ کچھ وجوہات کی بنا پر ان سے مذاکرات کرنے کا حامی ہے اور مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں عسکری حل کی بات کرتا ہے ـ تیسرا گروہ جو معاشرے کی ایک واضح اقلیت ہے طالبانی سوچ و نکتہ نظر کا حامی ہے، یہ گروہ طالبان کو حق پر سمجھتا ہے اور ان کی مالی، اخلاقی اور کسی بھی ممکن ذرائع سے ان کی امداد کرتا ہے ـ تاہم بد قسمتی سے ذرائع ابلاغ میں مذہبی شدت پسندی سے ہمدردی رکھنے والے طبقہ کے غلبہ اور دائیں بازو کی جماعتوں کے سیاسی مفادات کی وجہ سے رائے عامہ طالبان کے خلاف عسکری طاقت کے استعمال پر کنفیوژن کا شکار ہے۔
کچھ اسی قسم کی فکری تقسیم حسن بھی صباح کے دور میں بھی تھی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس وقت کے مسلم حکم ران ان اندرونی اختلافات کے باعث اس گروہ کو ختم کرنے میں ناکام رہے اور کمزور ہو کر رفتہ رفتہ صفحۂ ہستی سے مٹ گئے اس گروہ کی کاروائیوں کا خاتمہ منگول جنگجووں کی آمد سے ہوئی۔موجودہ حالات میں ریاستِ پاکستان اور پاکستانی عوام کے سامنے بھی دو راستے ہیں، ایک تو یہ کہ تاریخ کو دہراتے ہوئے منقسم رہیں اور کسی ہلاکو خان کی آمد کا انتظار کریں جو اس گروہ کا قلع قمع کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام آباد میں ویسی ہی خون کی ندیاں بہائے جیسی ہلاکو نے بغداد میں بہائی تھیں یا پھر یہ کہ قوم و ریاست متحد اور یکسو ہو کر اس گروہ کا خود خاتمہ کریں تاکہ پاکستان ایک جدید فلاحی ریاست بن سکے۔
One Response
شہزاد قیصرصاحب ذرا یہ تحریرملاحظہ کیجیے گا۔۔پھر حسن بن صباح (اصل نام حسن صباح) کے کاروائیوں کے بارے میں شاید آپ کو حیرت ہوگی: حسن صباح اور ڈاکٹر فرحان کامرانی کی روایتی تحقیق https://www.humsub.com.pk/329604/aafiyat-nazar-5/