کوئی چیز جو پہلے ہمارے مولوی صاحبان کی جانب سے حرام قرار پائی ہو اور پھر بتدریج حلال بن گئی ہو اس کا ایک اہم ضابطہ و اصول، شرعی نصوص (جو کہ ہمیشہ ایک ہی ہوتے ہیں) سے کہیں زیادہ یہ ہے کہ وہ چیز کسی خاص طبقے اور عوامی ضرورت سے آگے بڑھ کر مولوی حضرات کی ضرورت بن جائے۔
چھاپہ خانہ اور اسپیکر سے لے کر تصویر اور ٹیلی ویژن تک ہر مثال میں آپ کو یہ اصول کارفرما نظر آئے گا کہ جب تک عام لوگ یا کوئی مخصوص طبقہ انہیں اپنی ضرورت کے تحت استعمال کر رہا تھا، یہ حرام ہی تھیں لیکن جیسے جیسے یہی چیزیں مولوی حضرات کی ضرورت بنتی گئیں، ان چیزوں کا سفر حرمت سے حلت کی جانب طے ہوتا گیا۔یاد رہے کہ یہاں ضرورت سے مراد ایسا شرعی عذر نہیں کہ جس میں حرام بھی حلال ہو جاتا ہے کیونکہ وہ تو صرف مرنے سے بچنے کی صورت ہے بلکہ یہ صرف ایسی ضرورت ہے جسے مولوی صاحب ضروری سمجھیں، چاہے وہ احرام کی حالت میں ہنستی مسکراتی سیلفی کی ضرورت ہی کیوں نہ ہو۔
چھاپہ خانہ اور اسپیکر سے لے کر تصویر اور ٹیلی ویژن تک ہر مثال میں آپ کو یہ اصول کارفرما نظر آئے گا کہ جب تک عام لوگ یا کوئی مخصوص طبقہ انہیں اپنی ضرورت کے تحت استعمال کر رہا تھا، یہ حرام ہی تھیں لیکن جیسے جیسے یہی چیزیں مولوی حضرات کی ضرورت بنتی گئیں، ان چیزوں کا سفر حرمت سے حلت کی جانب طے ہوتا گیا۔یاد رہے کہ یہاں ضرورت سے مراد ایسا شرعی عذر نہیں کہ جس میں حرام بھی حلال ہو جاتا ہے کیونکہ وہ تو صرف مرنے سے بچنے کی صورت ہے بلکہ یہ صرف ایسی ضرورت ہے جسے مولوی صاحب ضروری سمجھیں، چاہے وہ احرام کی حالت میں ہنستی مسکراتی سیلفی کی ضرورت ہی کیوں نہ ہو۔
چھاپہ خانہ اور اسپیکر سے لے کر تصویر اور ٹیلی ویژن تک ہر مثال میں آپ کو یہ اصول کارفرما نظر آئے گا کہ جب تک عام لوگ یا کوئی مخصوص طبقہ انہیں اپنی ضرورت کے تحت استعمال کر رہا تھا، یہ حرام ہی تھیں لیکن جیسے جیسے یہی چیزیں مولوی حضرات کی ضرورت بنتی گئیں، ان چیزوں کا سفر حرمت سے حلت کی جانب طے ہوتا گیا
اس اصول کو ایک اور مثال سے سمجھیں کہ ہمارے ہاں مولوی حضرات آج بھی کریڈٹ کارڈ کو حرام و ناجائز قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ اگر کوئی یہ کہتا بھی ہے کہ حضرت! میں کریڈٹ کارڈ پر سود نہیں دیتا بلکہ وقت پر ہی اپنا کریڈٹ بل ادا کر دیتا ہوں اور اس پر کوئی اضافی ادائیگی نہیں کرنی پڑتی تو فقیہانہ انداز میں فرمایا جاتا ہے کہ پھر بھی حرام ہے کیونکہ چاہے آپ کریڈٹ کارڈ بل پر اضافی ادائیگی نہ کریں لیکن چونکہ آپ نے کریڈٹ کارڈ لیتے ہوئے یہ شرط تسلیم کر رکھی ہے کہ بل کی تاخیر پر آپ مقررہ اضافی ادائیگی کریں گے، اس لیے یہ سود ہی ہے اور اس کا تسلیم کرنا قطعی حرام۔
اب دیکھیئے کہ یہی مولوی صاحب اپنا گھر ہو مدرسہ اس میں دن رات بجلی و ٹیلی فون استعمال کر رہے ہیں اور ان کے بلوں کی ادائیگی میں بھی یہی شرط موجود ہے کہ اگر تاخیر ہوئی تو اضافی ادائیگی کرنا پڑے گی لیکن اس پر کوئی مولوی حرمت کا فتویٰ نہیں دیتا حتیٰ کہ اس عزیمت کو اختیار کر کے اجر و ثواب کی نیت رکھنے کا بھی روادار نہیں۔اب فرق صرف یہی ہے کہ کریڈٹ کارڈ ابھی تک صرف ایک مخصوص طبقے کی ضرورت ہے، اسی لیے یہ ابھی تک حرام ہے اور اس کے استعمال پر وعید سخت جبکہ بجلی و ٹیلی فون آج کیونکہ خود مولوی حضرات کی بھی ضرورت ہیں اسی لیے مستقل حلال بلکہ جو مولوی صاحب کا بل ادا کرے اس کے لئے جنت میں خصوصی روشنیوں والے گھر کا وعدہ بھی۔
مزے کی بات دیکھئے کہ مغربی و ترقی یافتہ ممالک میں جہاں آج کریڈٹ کارڈز عوامی ضرورت کے ساتھ ساتھ وہاں رہنے والے اسلامی مبلغین کی ضرورت بھی بن چکے ہیں، اسی لیے ان ممالک کے مولوی صاحبان کی جانب سے کریڈٹ کارڈز کی حلت میں فتاویٰ بھی جاری ہو چکے ہیں۔ اور ملا کی شریعت کا یہی وطیرہ ہے، جب تک کوئی شے خود مولوی صاحب کی ضرورت نہ بن جائے تب تک ان کی رگ اجتہاد نہیں پھڑکتی۔ مولوی صاحبان کے لیے ضرورت کسی ایجاد کا پیش خیمہ کبھی نہیں بنی بلکہ ان کے ہاں ضرورت “اجتہاد” کی ماں ہے۔
اب دیکھیئے کہ یہی مولوی صاحب اپنا گھر ہو مدرسہ اس میں دن رات بجلی و ٹیلی فون استعمال کر رہے ہیں اور ان کے بلوں کی ادائیگی میں بھی یہی شرط موجود ہے کہ اگر تاخیر ہوئی تو اضافی ادائیگی کرنا پڑے گی لیکن اس پر کوئی مولوی حرمت کا فتویٰ نہیں دیتا حتیٰ کہ اس عزیمت کو اختیار کر کے اجر و ثواب کی نیت رکھنے کا بھی روادار نہیں۔اب فرق صرف یہی ہے کہ کریڈٹ کارڈ ابھی تک صرف ایک مخصوص طبقے کی ضرورت ہے، اسی لیے یہ ابھی تک حرام ہے اور اس کے استعمال پر وعید سخت جبکہ بجلی و ٹیلی فون آج کیونکہ خود مولوی حضرات کی بھی ضرورت ہیں اسی لیے مستقل حلال بلکہ جو مولوی صاحب کا بل ادا کرے اس کے لئے جنت میں خصوصی روشنیوں والے گھر کا وعدہ بھی۔
مزے کی بات دیکھئے کہ مغربی و ترقی یافتہ ممالک میں جہاں آج کریڈٹ کارڈز عوامی ضرورت کے ساتھ ساتھ وہاں رہنے والے اسلامی مبلغین کی ضرورت بھی بن چکے ہیں، اسی لیے ان ممالک کے مولوی صاحبان کی جانب سے کریڈٹ کارڈز کی حلت میں فتاویٰ بھی جاری ہو چکے ہیں۔ اور ملا کی شریعت کا یہی وطیرہ ہے، جب تک کوئی شے خود مولوی صاحب کی ضرورت نہ بن جائے تب تک ان کی رگ اجتہاد نہیں پھڑکتی۔ مولوی صاحبان کے لیے ضرورت کسی ایجاد کا پیش خیمہ کبھی نہیں بنی بلکہ ان کے ہاں ضرورت “اجتہاد” کی ماں ہے۔