Laaltain

صوفی فکر شدت پسندی کا واحد جواب ہے- اسرار

27 اکتوبر, 2014
Picture of لالٹین

لالٹین

لالٹین: اس برس کوک سٹوڈیو میں آپ کوپہلی بار گانے کا موقع ملا، آپ کے لئے یہ کیسا تجربہ تھا اور یہ بھی بتائیے گا کہ روحیل حیات کی جگہ سٹرنگز کی بطور پروڈیوسر آمد سےپروگرام کے معیا پر کیا اثر پڑا ہے؟
اسرار:
میرے جیسے گلوکار جو موسیقی کے سفر میں ابھی نئے ہیں ان کے لئے کوک سٹودیو کے منجھے ہوئے فنکاروں کے ساتھ گانا کسی اعزاز سے کم نہیں۔ کوک سٹوڈیو کی ریکارڈنگ کے دوران یہ کہنا مشکل ہوتا ہے کہ آپ کی کارکردگی پر عوامی رد عمل کیا ہو گا لیکن میرا رانجھا تو اس پروگرام کے منجھے ہوئے فنکاروں کے ساتھ کام کر کے ہی راضی ہو گیا ہے۔ جہاں تک روحیل حیات اور سٹرنگز میں موازنہ کا تعلق ہے تو روحیل حیات بہت اچھے میوزک پروڈیوسر ہیں تاہم مسلسل کام کرنے سے یکسانیت کا آجانا ایک فطری عمل ہے۔ سٹرنگز نے اس مرتبہ بہت اچھا کام کیا ہے کم سے کم میں اپنے دونوں گیتوں کے معیار سے مطمئن ہوں۔اگرچہ میرے جیسے طفل مکتب کی رائے کی کوئی حیثیت نہیں لیکن ایک کمپوزر ہونے کے ناطے میرے نزدیک کوک سٹودیو میں تغیر لانے کے لئے صرف پروڈیوسر ہی نہیں بلکہ بہت کچھ تبدیل کرنا ہوگا۔ جیسے اس سیزن میں بھی کوک سٹودیو میں بہت سے پرانے گیت نئے سرے سے پیش کئے گئے جن میں کچھ گیت ایسے بھی تھے جو کوک سٹوڈیو میں پہلے بھی گائے جا چکے ہیں، حالانکہ ہونا یہ چاہئے کہ اگلی مرتبہ کوک سٹوڈیو میں نئے گیت نگاروں، کمپوزرز اور پروڈیوسرز کو بھی موقع دیا جانا چاہئے اور نئے گیت بنائے جانے چاہئیں ،اس قدر سرمایہ کاری، فنکاروں اور وسائل کی موجودگی میں نئے گیت پیش نہ کیا جانا مناسب نہیں۔
میں موسیقی میں عقیدے کی تفریق سے بالاتر عالم گیر انسانیت کی حامل صوفی فکر کے ساتھ وارد ہوا تھا ۔ میرا خیال تھا کہ میری موسیقی ایڈیسن کے بلب کی طرح مندر ،مسجد ، کعبہ اور بت خانہ سبھی کو روشن رکھے گی ۔
لالٹین: آپ نے یکسانیت پر اعتراض کیا ہے ، بعض ناقدین کی نظر میں آپ کے گیت بھی یکسانیت کا شکار ہو چکے ہیں۔ گو آپ نے اپنی گائیکی میں جدت پیدا کی ہے لیکن آپ کے کام میں منقبت کا رنگ بہت حاوی نظر آنے لگا ہے حتیٰ کہ کوک سٹوڈیو میں بھی آپ نے ایک منقبت پڑھی ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟
اسرار:
مجھے خوشی ہے کہ یہ سوال مجھ سے کیا گیا ہے ،میں موسیقی کے شعبہ میں کسی پیشگی منصوبہ بندی کے ساتھ نہیں آیا تھا اور مجھے لگتا ہے کہ سب فنکاروں کے ساتھ خصوصاً میرے ساتھ یہ معاملہ ضرور ہوا ہے کہ جو سوچ کر اس فن کو اختیار کیا تھا وہ اب تک ہوا نہیں۔ میں موسیقی میں عقیدے کی تفریق سے بالاتر عالم گیر انسانیت کی حامل صوفی فکر کے ساتھ وارد ہوا تھا ۔ میرا خیال تھا کہ میری موسیقی ایڈیسن کے بلب کی طرح مندر ،مسجد ، کعبہ اور بت خانہ سبھی کو روشن رکھے گی ۔میری پہلی منقبت “علی علی” سے ” سب آکھو علی علی “تک جو بھی کام میں نے کیا ہے کسی پیشگی منصوبہ بندی کے بغیر اور صوفی فکر کے تحت ہے اور میں نہیں جانتا کہ اس جانب میرا رحجان کیوں کر ہوا۔ نہ تو میں مذہبی ہوں اور نہ ہی شیعیت کو فروغ دینا چاہتا ہوں، یہ ایک سرشاری کی کیفیت ہے جس کے تحت ایک کے بعد ایک منقبت مجھ سے “ہو رہی ہے”۔ جہاں تک یکسانیت کی بات ہے تو اس کا کوئی خاطر خواہ جواب میں نہیں دے پاوں گا عین ممکن ہے کل کو میں حضرت عیسیٰ علیہ سلام کی مدح میں گانے لگوں، کیوں کہ اس سرشار اور سرمست کیفیت کی کوئی وضاحت یا جواب طلبی نہیں ہو سکتی یہ تو ایک روانی ہے جس کے ساتھ بہنا اور بہتے چلے جانا ہے۔یہ ایک تخلیقی سرمستی ہے جس کے باعث ایک کے بعد ایک منقبت ہوتی چلی جا رہی ہے میں اس کی وجہ سے واقف نہیں ہوں۔

کوک سٹودیو میں میری منقبت نصرت فتح علی خان کی” دم مست قلندر”کے ایک مصرعہ “اج نئیں تے کل سارے علی علی کیہن گے”(آج نہیں تو کل سب علی علی کہیں گے)سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہے اور “سب آکھو علی علی ” کے جدید انداز کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے لیکن میرے خیال میں کوئی بھی فنکار سبھی کو مطمئن نہیں کر سکتا۔
لالٹین:برصغیر میں فنون لطیفہ اور روحانیت کا ساتھ قدیم ہے اور آپ بھی اس روحانی فکر کو ساتھ لےکر چل رہے ہیں، آپ کو نہیں لگتا کہ روحانیت اور تصوف نے برصغیر کی موسیقی اور دیگر فنون کو ایک محدود دائرے میں مقید کردیا ہے؟
اسرار:
دیکھئے اس مٹی کی پہچان یہی “مرچ مسالہ” ہے۔اب تک پاکستان، ہندوستان سمیت دنیا بھر میں ہمارے جتنے فنکاروں کو مقبولیت اور شہرت نصیب ہوئی ہے وہ روحانیت اور تصوف کے اسی “محدود” دائرے سے ابھر کر سامنے آئے ہیں، مجھے لگتا ہے کہ ہم جو بھی ہیں یہی ہیں۔اسی رنگ ڈھنگ نے غزل گائیکی میں غلام علی اور مہدی حسن، قوالی میں استاد نصرت فتح علی خان، کلاسیکی گائیکی میں استاد سلامت علی خان، نزاکت علی خان اور لوک فنکاروںمیں طفیل نیازی کو پہچان بخشی ہے ۔ روحانیت کی اس روایت سے وابستہ ہونا خود کو محدود کرنا نہیں بلکہ اپنی مٹی اور شناخت سے وابستہ ہونے کا نام ہے۔
لالٹین: جنون بینڈ نے ” صوفی راک”(Sufi Rock) کی صنف (genre)کا آغاز کیا تھا جسے آپ نے بھی اپنایا ہے، آپ کے لئے مشرقی تصوف کو مغربی راک موسیقی(Rock Music) کے امتزاج سے پیش کرنے کا تجربہ کیسا رہا؟
اسرار:
میں یہ واضح کردوں کہ میرے لئے صوفی راک کوئی حرف آخر نہیں، ممکن ہے کہ میں کل کو Rap گانا شروع کر دوں۔ پی ٹی وی کے بعض پروگراموں میں میں نے خالص لوک گائیکی کا تجربہ بھی کیا ہے،لیکن چوں کہ میں موسیقی کے ذریعہ لوگوں کو جنجھوڑنا چاہتا ہوں اورمیری خواہش ہے کہ سننے والے میرے پیغام کو محسوس کریں اس لئے میرا رحجان اس طرف ہوا۔ راک موسیقی میں اپنے سننے والوں کو ایک جذباتی سرمستی سے سرشار کرنے کی صلاحیت ہے، اس لئے میں نے اس انداز کا انتخاب کیا۔لیکن راک موسیقی کے علاوہ بھی مجھے کسی طرح سے کسی بھی انداز سے گانے میں کوئی مضائقہ نہیں، بس میرے نزدیک موسیقی کی کوئی بھی صنف اپنائی جائے اسے اس کی اصل شکل میں گانا ضروری ہے ۔
لالٹین: لیکن آپ کے انداز موسیقی کے ناقد یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ صوفی گیت محض کاروباری کامیابی کاایک ذریعہ بن کر رہ گئے ہیں اس لئے آپ سمیت تمام نوجوان گلوکار اس جانب مائل ہیں۔
اسرار:
(ہنستے ہوئے) بعض لوگوں کا میرے حلیے کے بارے میں بھی یہی خیال ہے کہ یہ مشہور ہونے کے لئے رکھا گیا ہے، لیکن میں آپ کو یہ بتا دوں کہ ایسا دکھاوا یا فریب بہت عرصہ تک نہیں چل سکتا۔ گو کہ میں کمرشلزم کے خلاف نہیں ہوں لیکن اگر میرا تصوف ،حلیہ یا موسیقی صرف مشہور ہونے کا ایک ذریعہ ہوتے تو میں اتنا عرصہ انہیں اپنے ساتھ لے کر نہ چل سکتا۔ صوفی راک تو مشہور ہونے کا بہت پرانا کلیہ ہے آج کل تو شہرت حاصل کرنے کے لئے بہت کچھ کیا جا سکتا ہے جو ہم نہیں کر رہے، کیوں کہ شہرت میرا مسئلہ نہیں ہے۔میری موسیقی اپنا رانجھا راضی کرنے کے لئے ہے ناکہ پیسہ کمانے یا شہرت حاصل کرنے کے لئے۔ ورنہ میں روز رات کو چائے کے کپ سے لے کر چابیوں کے گچھے تک کسی بھی چیز پر گانا بناکر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر سکتا ہوں اور مشہور ہوسکتا ہوں۔میں نہیں جانتا مستقبل میں میرا حلیہ یا گانے کا انداز کیا ہوگا، لوگوں کو پسند آئے گا یا نہیں ، میرے نزدیک سچا فنکار ڈگڈگی پر ناچنے والے بندر جیسا ہی ہوتا ہے جس کا ناچ لوگوں کو بھا جائے تو وہ پیسے پھینکتے ہیں۔
لالٹین: اسرارآپ کی اس سادھو پنتھی اور درویشی نے آپ کی عام زندگی اور شخصیت کو کس حد تک متاثر کیا ہے؟
اسرار:
بعض اوقات میرے حلیے کی وجہ سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ میں شاید بہت نیک آدمی ہوں لیکن میں یہ واضح کردوں کہ صوفی گائیک ہونے اور ایک عملی صوفی ہونے میں کافی فرق ہے۔ تصوف کی طرف میرا رحجان دین، دنیا، مذہب اور خدا سے متعلق ان سوالات کی کھوج سے ہوا جو ہر کسی کے ذہن میں اٹھتے ہیں۔ بعض لوگ ان سوالات کے جواب کھوجتے ہوئے بہت جلد کسی ایک نقطہ نظر پر ایمان لے آتے ہیں اور مطمئن ہو جاتے ہیں لیکن مجھ ایسے لوگوں کا تجسس بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔میرا معاملہ بکری کے اس میمنے جیسا ہے جسے اس کی ماں نے جنگل میں شیر کی موجودگی سے ڈرا کر جنگل جانے سے منع کیا تھا لیکن اپنے تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کروہ جنگل کا رخ ضرور کرتا ہے۔ موسیقی میرے سوالوں کا واحد جواب تھااور موسیقی نے ہی میرے زخموں کا مداوا کیا،یا کم از کم میرا دھیان ضرور بٹایا۔
جہاں تک میرے حلیہ کا تعلق ہے تو موسیقی کی وجہ سے جب میرے اپنے گھروالوں سے اختلافات شروع ہوئے اور مزاروں، درباروں پر چکر لگنے لگے تو اکثر شیو بڑھی رہتی تھی۔2007 میں جب میں لاہور آیا تو اس وقت میرا یہ حلیہ نہیں تھا لیکن جے علی اور حسن شاہ(میوزک ڈائریکٹر اور گلوکار دوست) سے ملاقات کے بعد یہ حلیہ سامنے آیا۔بلکہ ایک طرح سے یہ حلیہ میری سست اور لاپرواہ طبعیت کے لئے ایک نعمت بھی ثابت ہوا ہے، ویسے مجھے اس وقت اندازہ نہیں تھاکہ یہ حلیہ اس قدر مقبول ہو جائے گا۔
لالٹین: آپ کی ذاتی زندگی سے متعلق بہت کم معلومات دستیاب ہیں، کچھ بتائیں گے؟
اسرار:
میری پیدائش کوٹلی آزاد کشمیر کی ہے اور ہوش سنبھالنے سے قبل ہی میں اپنے خاندان کے ہمراہ حیدرآباد منتقل ہوگیا تھا۔ مجھے بچپن سے ہی بانسری، ڈھول اور گٹار کی آواز پسند تھی اور دھمال ڈالنے کا جنون تھا ،اس زمانے سے ہی میں گیت بھی کمپوز کررہا ہوں۔ابتدائی تعلیم اور بچپن کا زمانہ حیدرآباد میں ہی گزرا جہاں سے پھر کراچی جانا پڑا۔ وہیں سلطان احمد خان صاحب جن سے میرا بڑا گہرا تعلق ہے اور ان کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں ان سےموسیقی کی کچھ تعلیم بھی حاصل کی۔استاد جی کا جے علی (جواد علی ) کے سوا کوئی باقاعدہ گنڈابند شاگرد نہیں، لیکن جب میں ان کے پاس سیکھنے گیا تو موسیقی، مذہب اور خدا سے متعلق میرے تمام سوالوں کے جواب مجھے ان سے ملے۔ حالانکہ ان کا تعلق موسیقی کے کسی گھرانے سے نہیں لیکن ان کی درویشی اور مشرقی موسیقی سے متعلق ان کے علم نے مجھے بہت متاثر کیا۔انہوں نے میرے سید ہونے کے خاندانی تفاخر کو ختم کیا اور میری گتھیاں سلجھائیں اسی لئے میرے لئے وہ پیرومرشد کا درجہ رکھتے ہیں ۔ پھر 2007میں میں لاہور آیا اور یہاں جے علی اور حسن شاہ سے مل کر Soul Speaks Studioکا آغاز کیا۔ویسے اب تو ہر علاقہ اپنا ہی لگتا ہے میرا اپنا ایک شعر ہے کہ

میں نہیں جانتا مستقبل میں میرا حلیہ یا گانے کا انداز کیا ہوگا، لوگوں کو پسند آئے گا یا نہیں ، میرے نزدیک سچا فنکار ڈگڈگی پر ناچنے والے بندر جیسا ہی ہوتا ہے جس کا ناچ لوگوں کو بھا جائے تو وہ پیسے پھینکتے ہیں۔
تپتی دھوپ میں چھاوں جیسا لگتا ہے
اب ہر رستہ ماوں جیسا لگتا ہے
لالٹین:لاہور آنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
اسرار:
جب میں کراچی میں تھا اور میرا خاندان کشمیر منتقل ہو چکا تھا تو کراچی کے حالات ہمیشہ کی طرح خراب تھے۔ ان دنوں میں ذہنی سکون کی تلاش میں تھا اس لئے کراچی کی مصروف زندگی میں میرا رہنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ اسی زمانے میں خیال آیا کہ داتا کی نگری کا رخ کروں، میرے بڑے بھائی بھی ان دنوں لاہور کے مضافات میں مقیم تھے ان سے لاہور کے حالات دریافت کئے اور یہاں آگیا۔ یہاں آتے ہی کینال روڈ کے عشق میں مبتلا ہوگیا جس کے کنارے ٹہلتے میں نے کئی راتیں کالی کی ہیں۔ رہی سہی کسر ان “خبیث دوستوں” نے پوری کردی جن کے ساتھ الحمرا کی سیڑھیوں پر گٹار بجاتے گیت گاتے بہت وقت گزرا ہے ۔حسن شاہ نے اپنی کاواساکی(Kawasaki) پر لاہور کی ہر گلی پھرائی ہے، پھر جے علی جو مجھ سے بہتر فنکار ہےاس کے ساتھ موسیقی پر بحث و تمحیص شروع ہو گئی ،تب سے میں لاہور کا ہی ہو کر رہ گیاہوں کیوں کہ یہاں وہ سب کچھ تھا جس کی ایک فنکار کو تلاش ہوسکتی ہے۔
لالٹین: آپ نے سندھی گیت بھی گائے ہیں، پنجابی اور پشتو گانے بھی گا چکے ہیں لیکن اپنے آبائی علاقے کے پہاڑی گیت ابھی تک نہیں گائے، اس کی کیا وجہ ہے؟
اسرار:
کراچی میں مجھے ہر طرح کے لوگ ملے اور ان کی زبانوں کو سمجھنے کا موقع ملا اس لئے ان زبانوں کے گیت بھی گائے۔ میں اپنی آبائی زبان بول لیتا ہوں لیکن ابھی تک پہاڑی موسیقی کو سمجھ نہیں سکا اس لئے خواہش کے باوجود گانے کی کوشش نہیں کی۔
لالٹین: جون ایلیا، امرتا پریتم اور اقبال کو گانے کا خیال کیسے آیا؟
اسرار:
یہ سب میری بیٹھک کاکمال ہے، میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے افضل ساحر، انجم سلیمی، تجمل کلیم اور اکرام عارفی جیسے شعرا کی بیٹھک نصیب ہوئی اور ان لوگو ں نے میرا تعارف امرتا پریتم اور جون ایلیا جیسے شعراء سے کرایا ۔میں اپنے گیت خود بھی لکھتا ہوں لیکن میرا حال تو مستریوں جیسا ہے اس لئے مجھے جہاں کوئی اچھی چیز نظر آتی ہے میں گاتا ہوں۔ جیسے امرتا پریتم کی “اج آکھاں وارث شاہ نوں” کو گایا ہےاسے گاتے ہوئے افضل ساحر کی مدد سے میں نے امرتا جی کی ایسی شاعری کو بھی شامل کیا جو پہلے نہیں گائی گئی۔ اسی طرح میں تو شیو کمار بٹالوی کو بھی گانا چاہتا ہوں اگرچہ ان کی بہت سی اچھی چیزیں پہلی ہی گائی جا چکی ہیں۔
لالٹین: آپ کو کراچی کے حالات کی وجہ سے لاہور آنا پڑا اور ابھی حال ہی میں کوئٹہ میں سکیورٹی مسائل کے باعث آپ کا ایک کنسرٹ منسوخ بھی ہوا ہے،کیا آپ سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں جس شدت پسندی کا ہمیں سامنا ہے صوفی فکر اس کا موثر جواب ثابت ہو سکتی ہے؟
اسرار:
میرے خیال میں تو شدت پسندی کا واحد جواب صوفی فکر ہی ہے۔ صوفی کا پیغام سب کے لئے ہے اور سب کا ہے، اس میں کسی قسم کی تفریق روا رکھنا جائز نہیں۔ تصوف محض ترک دنیاکا ہی نام نہیں کہ شہر سے نکل کر جنگلوں کا رخ کیا جائے بلکہ صبر، برداشت اور تحمل سکھانے کا ایک ذریعہ ہے۔صوفی فکر کا پیغام ہی خیر اور بھلائی ہے اور تصوف مذہب پر عمل کرنے سے نہیں روکتا بلکہ مذہب کے نام پر قتل و غارت گری سے روکتا ہے، یہ فکر ذات، رنگ ، نسل، فرقہ اور مذہب کی بنیاد پر گلے کاٹنے سے روکتی ہے۔ موسیقی اور تصوف سے قطع نظر اگر محض آرٹ اور اظہار کے دیگر تخلیقی ذرائع کو ہی فروغ دیا جاتا تو شدت پسندی پر قابو پایا جا سکتا تھا۔
لالٹین: سرحد کے آرپار موجود نفرت اور کشیدگی کم کرنے کے لئے آرٹ اور فنکار کیا کردار ادا کرسکتے ہیں؟
اسرار:
میرے لئے ہندوستان سے محبت کے لئے یہی وجہ کافی ہے کہ وہاں خواجہ معین الدین چشتی، امیرخسرو اور لتا منگیشکر ہیں ،بلکہ لتا منگیشکر سے ملنے کی خواہش ہی میرے لئے ہندوستان سے نفرت نہ کرنے کی سب سے اہم وجہ ہے۔مجھے نہیں لگتا کہ دونوں طرف کا عام آدمی ایک دوسرے سے نفرت کرتا ہے،عام آدمی جینے اور جینے دو کا قائل ہوتا ہے، عام آدمی ہر جگہ ایک سا ہی ہے اس کے دکھ سکھ ایک سے ہیں۔ کشیدگی اور جنگ سیاسی منافرت کی پیداوار ہیں جیسے مودی صاحب کے آنے کے بعد کشیدگی شروع ہو گئی ہے۔ ایک فنکار ہونے کے ناطے میں چاہتا ہوں وہاں کے لوگ یہاں آئیں اور یہاں کے لوگ وہاں جائیں، میں تو چاہوں گا کہ میرے گیت مودی صاحب بھی سنیں جو ہم سے نفرت کرتا ہے وہ بھی سنے، فنکاراپنی مٹی اور دیس کا ہی ہوتا ہے لیکن اس کا ان جھگڑوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا مثلاً اگر دنیا بھر کے سازندے اور گائیک اکٹھے ہو جائیں تو وہ کچھ ہی دیر میں کوئی ایک چیز بجانا شروع کر دیں گے۔
لالٹین: آپ کا کوئی ارادہ ہے ہندوستان جا کر گانے کا یا فلم میں گانے کا؟
اسرار:
میرے نزدیک فلم میں گانا کوئی کامیابی نہیں کیوں کہ فلم کو موسیقی کی ضرورت ہوتی ہے موسیقی کو فلم کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بعض لوگوں نے مجھے فلم کے لئے گانے کی پیشکش بھی کی ہے لیکن میں معیار پر سمجھوتہ نہیں کر سکتا، میں فلم میں گاوں گا اگر فلم کو اسرار کی ضرورت ہے۔ میں کچھ بھی اور کہیں بھی گانے کو تیار ہوں لیکن میں پیسےیا شہرت کے لئے نہیں گاوں گاکیوں کہ میں داتا صاحب پر رات گزار سکتا ہوں لیکن ایسا کام جو میرے من کو راضی نہ کرے وہ نہیں کر سکتا۔
لالٹین: Innocence of Muslim فلم کے جواب میں بھی آپ نے ایک گیت گایا ہے،اس گیت کا خیال کیسے آیا؟
اسرار:
ڈنمارک میں چھپنے والے خاکوں کی خبر مجھے ایک ہوٹل میں کھانا کھاتے ہوئے ملی اور اس وقت ہی میں نے یہ سوچنا شروع کر دیا کہ بطور ایک انسان یا فنکار میرا کیا ردعمل ہونا چاہئے، کیا میں کوئی شیشے توڑ دوں یا بال نوچ لوں، ایک ملحد کی طرح سوچوں یا ایک مسلمان کی طرح ردعمل ظاہر کروں۔میرے سامنے عبدالمطلب کا واقعہ بھی تھا کہ جب ابرہہ کعبہ پر حملہ آور ہوتو انہوں نے اپنے اونٹ ابرہہ سے طلب کئے لیکن کعبہ کے تحفظ کے لئے کوئی بات نہیں کی، اور چوں کہ تصوف کا طالب علم شدت کو ناپسند کرتا ہے اس لئے جب نیویارک میں Innocence of Muslimsریلیز کی گئی تھی تو میرا ردعمل ایک گیت کی صورت میں سامنے آیا۔میں نہیں چاہتا تھا کہ میرا ردعمل ایک مذہبی یا مسلم فرد جیسا ہو یا میں جواباً کوئی گالی دوں لیکن وہ فلم اس قدر گھٹیا تھی کہ مجھے یہ گیت گانا پڑا۔
لالٹین: پاکستان میں اس وقت گلوکاروں میں دو رحجان نظر آتے ہیں؛ یا تو وہ تصوف کی طرف مائل ہیں یا حالات حاضرہ سے متعلق گیت گا رہے ہیں، آپ کا کوئی ایسا ارادہ ہے ؟
میرے لئے ہندوستان سے محبت کے لئے یہی وجہ کافی ہے کہ وہاں خواجہ معین الدین چشتی، امیرخسرو اور لتا منگیشکر ہیں ،بلکہ لتا منگیشکر سے ملنے کی خواہش ہی میرے لئے ہندوستان سے نفرت نہ کرنے کی سب سے اہم وجہ ہے۔
اسرار: کوئی صوفی بھلے وہ بلھے شاہ ہو یا شاہ حسین وہ ظلم ہوتا نہیں دیکھ سکتا، اپنے زمانے میں ان بابوں نے اپنے دور کے ظلم کے خلاف آواز بلند کی تھی۔ آج کے حالات مجھے بھی متاثر کرتے ہیں لیکن میں جب حالات حاضرہ پر کوئی گیت گاوں گا وہ کسی شاہی گویے یا کسی سیاسی جماعت کے گویے کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک فنکاراور عوامی جذبات کے ترجمان کی حیثیت سے گاوں گا۔
لالٹین: آپ کا تمام کام انٹرنیٹ پر مفت دستیاب ہے اس کی کیا وجہ ہے؟
اسرار:
میوزک چینلز کی کمی اور یوٹیوب کی بندش کے باعث پاکستان میں فنکار کوسامنے آنے کے لئے بہت تگ و دو کرنا پڑتی ہے ۔ موسیقی خرید کر سننے کا رواج بھی نہیں ہے اسی لئے میں نے اور جے علی نے جب کام شروع کیا تب یہی خیال ذہن میں تھا کہ کسی نہ کسی طرح ہمارا کام لوگوں تک پہنچے اس لئے ہم نے اپنے گیت لوگوں کے لئے مفت رکھے ہیں۔
لالٹین: کانسرٹس اور ریکارڈ کمپنیوں کی عدم موجودگی میں پاکستانی میوزک انڈسٹری کا کیا مستقبل دیکھتے ہیں؟
اسرار:
میرے خیال میں دنیا کا بہترین آرٹ پابندیوں اور محرومی کا نتیجہ ہے۔ موسیقی کے لئے حالات سازگار نہ ہونے، مسابقت بڑھنے اور رکاوٹوں کی وجہ سے ہی یہ امید کی جا سکتی ہے کہ چھانٹی کے بعد صرف اچھے لوگ ہی سامنے آئیں گے۔ گو کہ میں چاہتا ہوں کہ فنکاروں کی حکومتی سطح پر سرپرستی کی جائے لیکن ہمارے جتنے بھی بڑے اور نامور فنکار ہیں وہ ناقدری اور مشکلات کے باوجود اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اس لئے میں تو پُرامید ہوں ۔ میرے استاد سلطان احمد خان صاحب کہتے ہیں دوڑ میں شریک ہونے والا ہی اول آتا ہے، اور خدا ناانصاف نہیں اس لئے میرے خیال میں جو باصلاحیت ہو گا اور کوشش کرے گا سامنے آجائے گا۔
لالٹین: کلاسیکی یا نیم کلاسیکی گانے کا بھی کوئی ارادہ ہے؟
اسرار:
کلاسیکی گانا بہت مشکل منزل ہے اور میں خود کو اس لائق نہیں سمجھتا۔ طفیل نیازی اور سلامت علی خان جیسے لوگوں نے جو گایا ہے اس کے بعد کچھ گانا ممکن نہیں، پھر بھی کبھی کبھار تھوڑا بہت اپنے استاد سلطان احمد خان صاحب کا سکھایا ہوا گاتا ہوں۔
لالٹین: آپ ایک البم پر بھی کام کررہے ہیں، وہ کب تک دستیاب ہوگا اور مستقبل کے حوالے سے کیا ارادہ ہے؟
اسرار:
البم ابھی تو ممکن نہیں ہےکیوں کہ پاکستان میں کوئی ریکارڈ کمپنی موجود نہیں۔ البم کے لئے گیت تیار ہیں لیکن ابھی اسے ریلیز کرنا ممکن نہیں۔ مستقبل میں بھی سنگلز (Singles) ہی کرنے کا ارادہ ہے۔اس کے علاوہ میں کسی کے بھی ساتھ کام کرنےکو تیار ہوں خصوصاً اگر عابدہ پروین کے ساتھ “میں نعرہ مستانہ” گانے کا موقع ملے تو ضرور کروں گا۔

ہمارے لیے لکھیں۔