جنسی و صنفی تشدد اور استحصال کے خلاف 16 روزہ جدوجہد ایک عالمی تحریک ہے جو ہر سال، 25 نومبر تا 10 دسمبر چلائی جاتی ہے۔ اس تحریک کا آغاز سنہ 1991 میں ہوا تھا۔ یہ تحریک عالمی یومِ انسدادِ جنسی تشدد سے شروع ہوتی ہے اور عالمی یومِ انسانی حقوق تک چلتی ہے۔ اس تحریک کا مقصد عورتوں پر ہونے والے مظالم اور جرائم کے بارے میں آواز بلند کرنا، خواتین کو حقیقی صورت میں ان کے حقوق دلوانا اور قدیم، قبیح، رذیل و ذلیل پدرسری روایات کا تدارک ہے۔(ویسے کیا ہی بہتر ہوتا کہ یہ کالم بھی کوئی خاتون ہی لکھتی لیکن شاید ایڈیٹر کا ارادہ بھی مجھے میری برادری کا قبیح چہرہ دکھانا تھا)۔ مذاق سے سوا بہر طور حقوق نسواں کے لیے کوشش انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کا لازمی جز ہے اور خواتین کے خلاف امتیازی سلوک، جنسی تشدد اور استحصال کا خاتمہ مردوں کی بھی اسی قدر ذمہ داری ہے جس قدر خواتین کی۔

حقوق نسواں کے لیے کوشش انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کا لازمی جز ہے اور خواتین کے خلاف امتیازی سلوک، جنسی تشدد اور استحصال کا خاتمہ مردوں کی بھی اسی قدر ذمہ داری ہے جس قدر خواتین کی۔
بہت سے مرد شاید فوراً اس حقیقت کو جھٹلا دیں گے کہ عورت مظلوم ہے! کیونکہ جب بھی عورتوں پر مظالم کی بات ہوتی ہے تو انگلی ہمیشہ مردوں کی جانب ہی اٹھتی ہے۔ کئی مرد فوراً کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے کبھی کسی عورت کا استحصال کیا ہی نہیں ہے تو پھر تمام مردوں کو موردِ الزام کیوں ٹھہرایا جا رہا ہے لیکن جب میں عالمی ادارہِ صحت کی مرتب کردہ عورتوں پر ہونے والے مظالم کی فہرست دیکھتا ہوں تو سمجھ جاتا ہوں کہ عورت کا استحصال قبل از ولادت شروع ہوتا ہے اور بعد از مرگ جاری رہتا ہے! یہ سمجھنا بے حد ضروری ہے کہ جس دنیا میں ہم رہ رہے ہیں وہاں بہت سے خطوں کے باشندے بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں، لیکن یہ تسلیم کرنا بھی ضروری ہے کہ ہر معاشرے میں سیاسی طاقت، معیشت اور فیصلہ سازی کے عمل میں خواتین کو شامل نہ کیے جانے کی وجہ سے خواتین کی ایک بڑی تعداد بنیادی حقوق سے محروم ہے۔ حقوق نسواں کی جدوجہد مردوں کے خلاف نہیں بلکہ ان پدرسری اقدار، قوانین، رسوم و رواج اور افراد کے خلاف ہے جو ان جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں یا انہیں تحفظ دیتے ہیں۔
اور اگر اب بھی آپ کو لگتا ہے کہ "مرد مظلوم ہے” یا یہ کہ "عورت اتنی بھی مظلوم نہیں” تو اسی فہرست کی مناسبت سے مثالیں پیش کیے دیتا ہوں۔

کبھی سنا ہے کہ الٹراسائونڈ رپورٹ میں لڑکا پتہ چلے اور باپ اس بچے کو تلف کرنے پر زور دے؟ نہیں! غریب سے غریب ترین شخص بھی بیٹے کی پیدائش پر رقصاں ہوتا ہے لیکن دنیا کے کئی علاقوں میں آج بھی بچے کی جنس پتہ چلنے پر بہت سی بچیوں کو رحم مادر میں قتل کردیا جاتا ہے، کیوں؟ کیونکہ یہ خرچہ کروائے گی، اس کا جہیز کون بنائے گا! اور جس آدمی کے پاس بیوی کا الٹراساونڈ کروانے کے پیسے نہ ہوں وہ بعد از ولادت اپنی بیٹی کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ وجہ وہی یہ کھائے گی، پیئے گی، لیکن کمائے گی نہیں!

عورت کا بچپن امتیازی سلوک سے داغدار ہوتا ہے! بیٹے کو دو انڈے تو کھلادیئے جاتے ہیں لیکن بیٹٰی کو انڈے کی سفیدی پر ہی اکتفا کرنے کی تلقین کی جاتی ہے، اس سے کہا جاتا ہے کہ زردی بھی بھائی کو کھانے دو! اس کو توانائی کی ضرورت ہے! اس نے بڑے ہو کر باپ کا بانہہ بیلی بننا ہے، لیکن اس بات کو صرفِ نظر کردیا جاتا ہے کہ بیٹی کو بھی بڑے ہو کر ماں بننا ہے، اس کے جسم کو بھی غذائیت کی ضرورت ہے۔

ہر وہ بینک جو قرضے بانٹ رہا ہوتا ہے وہ ہمیشہ والدین کو تاکید کرتا ہے کہ بیٹے کی تعلیم کے لیے قرضہ لے لو اور بیٹی کے جہیز کے لیے، ہم عموماً بیٹوں کو نجی جامعات سے تعلیم دلواتے ہیں اور بیٹیوں کو؟ سرکاری جامعات سے! وجہ لڑکیوں نے کیا کرنا ہے تعلیم حاصل کر کہ؟ ہم من حیث القوم بلکہ من حیث الخطہ عورتوں کی تعلیم کے دشمن ہیں۔ ہمارے ہاں عورت کی تعلیم کا جواز بھی خاندان کے لیے عورت کی تعلیم کی ضرورت کے ساتھ مشروط ہے یعنی ہم تعلیم کو عورت کا بطور انسان حق تسلیم کرنے کو تیار نہیں بلکہ ہم اسے محض اس لیے تعلیم دلاتے ہیں کہ اس کی "سماجی افادیت” کتنی ہے۔

دنیا کے کئی علاقوں میں آج بھی بچے کی جنس پتہ چلنے پر بہت سی بچیوں کو رحم مادر میں قتل کردیا جاتا ہے، کیوں؟ کیونکہ یہ خرچہ کروائے گی، اس کا جہیز کون بنائے گا
جہیز کے نام پر ذلت ہمیشہ عورت ہی جھیلتی ہے! جہیز کی وصولی کے لیے تو بہت سی بات چیت ہوتی ہے لیکن عموماً حق مہر، نان نفقے اور طلاق کے حق پر سوچ بچار اور لڑکی کی مرضی پوچھنے کی زحمت نہیں کی جاتی۔ کئی دفعہ دلہے منہ دکھائی میں اپنے سابقہ معاشقوں کی فہرست پیش کردیتے ہیں اور فوراً ایک این آر او مانگ لیتے ہیں، سچائی سے بڑا کوئی تحفہ ہو نہیں سکتا ہے، البتہ ان اپنے جیسی ‘سچی’ بیوی درکار نہیں ہوتی ہے۔ ان کو ایک مالدار گونگی بیوی درکار ہوتی ہے۔ جو جہیز لائے بلکہ ہر سال اس ڈیوڈنڈ یا منافع بھی لاتی رہے۔

کیا کبھی کسی مرد کو لڑکا نہ پیدا کرنے کی پاداش میں ذلت کا سامنا کرنا پڑا ہے؟ نہیں! مرد موبائل سم کی طرح بیویاں بدل لیتا ہے کہ شاید دوسری یا تیسری کہ یہاں بیٹا پیدا ہوجائے، لیکن اس حقیقت کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا ہے کہ یہ قدرتی عمل ہے جس کے لیے کسی عورت کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ ایک عورت کے ہاں لڑکی کے بعد ایک اور لڑکی پیدا ہوجائے تو اسے مزید سزائیں جھیلنی پڑتی ہیں، کبھی کئی بیٹیوں کے باپ کو برا بھلا کہا گیا؟ نہیں، اس کو ہمیشہ احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، با ہمت اور سخت جان کہا جاتا۔ لیکن اس تمام احترام اور عزت میں بھی ترس اور افسردگی چھپی ہوتی ہے، دوسری جانب اس شخص کی بیوی کو بدنصیب تصور کیا جاتا ہے۔

ہم سب کہتے ہیں کہ جہیز ایک لعنت ہے! شاید تبھی معاشرہ اتنا ملعون ہوتا جا رہا ہے، ہم محبت کے عہد و پیماں کے لیے ‘یومِ جانو’ تو ضرور مناتے ہیں لیکن جہیز کی ملعون رسم کو ختم کرنے کے لیے کوئی دن نہیں مناتے ہیں۔ اور اگر کوئی باپ جیسے تیسے کر کہ اپنی بیٹی کو جپیز دے بھی دے تو جہیز کم لانے پر اس کو تاحیات رسوا کیے رکھتے ہیں۔

کبھی سنا ہے کہ کسی لڑکے نے منگنی توڑ دی اور انتقاماً لڑکی نے اس کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا؟ نہیں! لیکن اگر کوئی لڑکی، کسی لڑکے سے شادی سے انکار کردے تو اس کے چہرے پر تیزاب پھینک کر اسے اپنی دانست میں تاحیات "نشان عبرت” بنادیا جاتا ہے۔

دیہی علاقوں میں اگر مرد کا کسی لڑکی پر دل آجائے تو اس لڑکی کے بھائی پر کارو کاری کا الزام لگا کر، بطور سزا اس کی بہن کا ہاتھ مانگ لیا جاتا ہے۔ اس بات کو دیہات کا واقعہ سمجھ کر ہم شہری علاقوں میں رہنے والوں کو اس بات پر خوش نہیں ہونا چاہیئے، کیونکہ ہمارے ملک کی کم و بیش 70 فیصد آبادی دیہات پر ہی مشتمل ہے۔ اور یہ سانحات آئے دن ہوتے رہتے ہیں۔

کبھی سنا ہے کہ لڑکا شادی کے بعد انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں بیچ دیا گیا؟ نہیں! ہاں یہ ضرور سن رکھا ہے ہم سب نے کہ فلاں لڑکی کو لڑکا گھر سے بھگا لے گیا۔ اگر کوئی بھاگنے والی لڑکی سے پوچھے تو وہ یہ کہتی ہے کہ میں اپنا بنیادی انسانی حق استعمال کر رہی ہوں یعنی کہ اپنی رضامندی سے شادی کا حق۔ یہ حق جو مجھے ریاست اور تمام اقوامِ عالم نے تفویض کیا ہے! لیکن ہر لڑکی جو شادی کرنے کی خاطر اپنا گھر چھوڑ دیتی ہے، تاحیات ہنسی خوشی رہتی ہے؟ شاید! لیکن حقائق تو یہ کہتے ہیں کہ لافانی محبت کے جال میں پھانسنے والے لڑکے ان لڑکیوں کو عموماً معاشرتی دباو کے تحت چھوڑ دیتے ہیں! اور اگر کبھی ان بد بختوں سے پوچھا جائے کہ تم نے اس لڑکی کو اپنی شریکِ حیات کیوں نہ بنایا تو وہ کہتے ہیں کہ جو اپنے ماں باپ کی نہ ہوئی وہ میری کیا ہوتی! میرے بعد کسی اور کے ساتھ بھاگ جاتی لہٰذا میں نے قصہ ہی ختم کردیا، اب میں کسی شریف زادی کے ساتھ شادی کروں گا۔

ہمارے معاشرے میں جائیداد کو بچانے کی غرض سے بھی عورت کا استحصال کیا جاتا ہے۔ قرآن سے شادی، وٹہ سٹہ اور شادی بیاہ کی دیگر رسموں میں عورت کو ملکیت کی طرح لین دین کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان قبیح افعال کا پدرسری معاشرے اور عورت کے استحصال سے گہرا تعلق ہے۔ عورت کو ہی ہر مشکل، مصیبت، برائی اور فساد کی جڑ قرار دیا جاتا ہے اور اس بات کو بطور محاورہ بھی استعمال کیا جاتا ہے کہ زن، زر اور زمین ہر فساد کی جڑ ہے۔
کیوں کہ زن کی شادی کرنے کی صورت میں اس کو وراثت میں سے اس کا حصہ دینا پڑے گا، اس لیے اس کو زر اور زمین کا بٹوارہ کرنے والی چیز سمجھا جاتا ہے۔ اس کے بر عکس لڑکا، شادی کی صورت میں دوسرے کے گھر کی زن، زر اور زمین تینوں گھسیٹ لائے گا۔

ہمارے معاشرے میں جائیداد کو بچانے کی غرض سے بھی عورت کا استحصال کیا جاتا ہے۔ قرآن سے شادی، وٹہ سٹہ اور شادی بیاہ کی دیگر رسموں میں عورت کو ملکیت کی طرح لین دین کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
شاید اسی لوٹ کھسوٹ سے بچنے کے لیے مردوں نے عورتوں کے "تبادلے” پر مبنی ایک اور قبیح رسم ایجاد کر ڈالی ہے جسے وٹّہ سٹّہ کہتے ہیں، کہا یہ جاتا ہے کہ اپنی بہن کا گھر سلامت رکھنے کے لیے اگلے کی بہن اپنے گھر لے آو لیکن بادی النظر دیکھا جائے تو نظر آتا ہے کہ تم میری بہن کی جائیداد کا حصہ نہ مانگنا اور میں تمہاری بہن کا حصہ نہ مانگوں گا۔

مندرجہ بالا مظالم کم ہیں؟ حقیقت اس سے زیادہ قبیح ہے! اگر یقین نہ آئے تو ٹی وی کھولیں اور ڈرامے دیکھ لیں! وہاں بھی خواتین کے استحصال کی منظر کشی نشر ہو رہی ہے، یہ الگ بات ہے اس منظر کشی کا کوئی اثر نہیں ہورہا ہے۔ تفریحی چینل عورتوں کے استحصال کو ذریعہِ تسکین بنا چکے ہیں عورتیں ان مظالم کو دیکھتی ہیں اور انہی کو اپنا مقدر مان کر چپ پو بیٹھتی ہیں، اور مرد نیوز چینلز پر ہونے والی اس گھٹیا منظر کشی سے نفسانی تسکین کشید کرتے ہیں۔ اخبارات ان مسائل کی خبر لگا کر طاقت کے ایوانوں کو ہلانا نہیں چاہتے ہیں، بلکہ دوسرے اور آٹھویں صفحہ پر خالی کالموں کا پیٹ بھرتے ہیں۔

اس غلام گردش سے نکلنے کا واحد راستہ خواتین میں ان حقوق کا شعور اجاگر کرنا ہے۔ اپنے جاننے والوں کو خواتین کے حقوق کے بارے میں بتائیں! انسانی حقوق کا عالمی منشور Universal Declaration of Human Rights کیا کہتا ہے یہ ہر فرد کو بتانا ضروری ہے۔ سیڈا یا CEDAW – Convention on All Form of Discriminations Against Women کیا کہتا ہے؟ شادی سے قبل فریقین کی رضامندی، شادی کے لیے عمر کی کم از کم حد اور شادی کی رجسٹریشن کے عالمی کنونشن Convention on Consent to Marriage, Minimum Age for Marriage and Registration of Marriages میں کیا عہد کیے گئے ہیں۔
عالمی پلان برائے انسدادِ تشدد بر زنان و دختران Global Implementation Plan to End Violence against Women and Girls میں کیا عودے کیے گئے ہیں۔

آئینِ پاکستان میں خواتین کو کون سے حقوق تفویض کیے گئے ہیں۔
دفاتر میں ہراسانی سے تحفظ کے قوانین Bill Against Harassment of Women At Workplace کا متن کیا ہے۔
ان دستاویزات کو پڑھیئے اور اوروں کو بھی پڑھائیے، ان پر بحث کریں، بلاگ لکھیں، ویڈیو بنا کر انٹرنیٹ پر پوسٹ کریں، اگر کسی مارننگ شو کا پروڈیوسر آپ کا جاننے والا ہے تو اس سے کہیں کہ ان موضوعات پر سال میں کم از کم بارہ شو ضرور کرے! آئیں عہد کریں کہ ہم کم از کم دس افراد تک یہ پیغام ضرور پہنچائیں گے اور بالخصوص خواتین کو ان کے آئینی و انسانی حقوق کے بارے میں ضرور بتائیں گے۔

Leave a Reply