مرزا اطہر بیگ کا ناول ’صفر سے ایک تک ‘سائبر سپیس کے ایک مُنشی کی سرگذشت ہے۔
لیکن سائبر سپیس ہے کیا؟ اس لفظ کی تخلیق کا سہرا فکشن کے لکھاری ولیم گِبسن کے سر ہے جنھوں نے سنہ انیس سو چوراسی میں پہلی بار اس لفظ کو استعمال کیا۔
اُس وقت شاید وہ خود بھی اس لفظ کے دور رس معانی کا اندازہ نہ کر سکے ہوں۔ خود ان کے مطابق سائبر سپیس محض ایک غیر مرئی حقیقت تھی۔
جدید ٹیکنالوجی کا ایک واہمہ جس میں دنیا بھر کے وہ لوگ مبتلا ہیں جو دفتروں، بینکوں اور دکانوں میں بیٹھے حساب کتاب کر رہے ہیں۔ وہ استاد جو بچوں کو حسابی کلیے سکھا رہے ہیں۔ یہ خطوط اور ہندسوں کا ایسا ملغوبہ ہے جس کے پسِ منظر میں اطلاعات و معلومات کا وسیع سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔
آج چھبیس برس گزر جانے کے بعد بھی یہ اصطلاح اتنی ہی مبہم اور پیچیدہ ہے جتنی اپنی تخلیق کے وقت تھی۔
کچھ لوگوں کے نزدیک سائبر سپیس محض دنیا میں پھیلے ہوئے کمپیوٹری نظاموں کے رابطے کا نام ہے۔ دیگر کے خیال میں یہ برقی مقناطیسی قوت کا ایسا استعمال ہے جو دنیا بھر کے افراد کو باہمی رابطوں کے قابل بنا دیتا ہے۔
مرزا اطہر بیگ کے ناول کا ہیرو اس سے بھی ایک قدم آگے جاتے ہوئے کہتا ہے کہ سائبر سپیس مکانیت سے ماوراء ہے اور دنیا بھر کے کمپیوٹروں کو یہ ایک ’ لامکاں‘ میں مربوط کرتا ہے۔ اس لا مکاں تک پہنچنے کے لیے آپ کو انٹر نیٹ کے برقی دروازے پر دستک دینی پڑتی ہے اور پھر برقی رو کے مہین نقطے کا اسپِ تازی آپ کی ایڑ لگتے ہی انجانی منزلوں کی طرف محوِ پرواز ہو جاتا ہے۔
صفر سے ایک تک کا مرکزی کردار زکی ہمیں بتاتا ہے کہ اس لامکاں میں اُس کی دشت نوردی کسی سوچے سمجھے منصوبے کا حصّہ نہیں تھی بلکہ اُس کے مالک کا بیٹا فیضان جو کہ بظاہر زکی کا دوست بھی تھا، کمپیوٹری علوم میں بالکل پھسدّی تھا۔ لیکن جب اس نے ایک تحقیقی مقالہ لکھنے کا فیصلہ کیا تو زکی سے درخواست کی کہ وہ متعلقہ موضوع پر اس لا مکاں سے ضروری مواد منگوا دے۔ زکی نے دوستی سے زیادہ چھوٹے مالک کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے اُسے مواد پہنچانا شروع کر دیا۔
کہانی سنہ انیس سو ستر کے آس پاس شروع ہوتی ہے اور ہم خود کو ایک بہت بڑے زمیندار کی حویلی میں پاتے ہیں جہاں اشرافیہ کی اقامت گاہ کے پہلو میں نوکروں کے کواٹر بھی ہیں جن میں صدیوں سے زمینداروں کے خدمت کرنے والے کمّیوں کی موجودہ نسل پروان چڑھ رہی ہے۔
زکی کا باپ پیشے کے لحاظ سے زمینداروں کا منشی ہے۔ یہ اُن کا خاندانی پیشہ رہا ہے اور زمینوں کا سارا حساب کتاب لمبے لمبے بہی کھاتوں میں درج ہے۔زکی پہلی بار یہ سارے کھاتے کمپیوٹر میں منتقل کرتا ہے اور اس کے باپ کو احساس ہوتا ہے کہ حساب کتاب کے صدیوں سے جاری نظام کو بدلنا ممکن ہے اور وہ اس تبدیلی کا پورا کریڈٹ اپنے بیٹے کو دیتا ہے۔
مالک لوگ ’سالار‘ کہلانے والی فیملی سے تعلق رکھتے ہیں اور خاصی الگ تھلگ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ فیضان سالار مالکوں کی نئی نسل کا نمائندہ ہے اور اپنے منشی کے بیٹے زکی کی مدد سے یونیورسٹی میں ایک سکالر کا مقام حاصل کر رہا ہے۔
اگر آپ کہانی میں کسی ہیروئن کے متلاشی ہیں تو ایک فرانسیسی طالبہ آپ کی کسی حد تک مدد کر سکتی ہے لیکن زلیخا نامی یہ لڑکی عام معانی میں کہانی کی خاتونِ اوّل نہیں ہے۔ دیکھا جائے تو کوئی کردار بھی اردو فکشن کے روایتی ڈھانچے میں فٹ ہوتا ہوا نظر نہیں آتا اور اس کی ضرورت بھی نہیں تھی کیونکہ مصنف نے یہ ناول مابعدِ جدید فکشن کی تکنیک پر تحریر کیا ہے اور اس میں دکھایا ہے کہ پاکستان میں مقتدر طبقے کی زندگی گزشتہ صدی کی آخری تین دہائیوں میں کن تبدیلیوں سے گذر رہی تھی، جب اطلاعاتی ٹیکنالوجی طرح طرح کے روپ دھار کر کمپیوٹر، انٹر نیٹ، ٹیلی ویژن، ٹیلی فون، اور سیل فون میں نصب کیمرے، ریڈیو اور منی ٹی وی کی صورت میں جلوہ گر ہو رہی تھی اور ہمارے نیم جاگیردارانہ سماج کو اٹھا کر اچانک جدید ترین زمانے میں پٹخ دیا گیا تھا۔
ناول کے بہت سے شاخسانے قدیم و جدید کے اسی تضاد سے پھوٹتے ہیں اور غالباً اردو ادب میں یہ پہلا موقع ہے کہ اس سماجی صورتِ حال کو پوسٹ ماڈرن فکشن نے اپنا موضوع بنایا ہے۔
’میں نے کرسر زلیخا کےنام کی طرف بڑھایا تو عجیب احساس ہوا، جیسے میں اسے چھو رہا ہوں اور نام پر کلِک کرنا کیسا لگا، میں کچھ نہیں کہوں گا کیونکہ کوئی بھی میری بات پر یقین نہیں کرے گا اور سب یہی کہیں گے کہ کمپیوٹر کا یہ شیدائی بالکل پاگل ہو گیا ہے۔‘
مرزا اطہر بیگ کے کردار زمان و مکان کی روایتی بندشوں سے آزاد گویا خود بھی ایک لا مکاں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ مصنف کواحساس ہے کہ آج ہم ایک ’عالمی وقت‘ میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جہاں فاصلوں کا تصور مٹ چکا ہے۔ مثلاً ہمارے لیے عین ممکن ہے کہ ہم گوجرانوالا میں بیٹھ کر ٹی وی پر کرکٹ کا ایک ایسا میچ دیکھ سکیں جو اُس وقت انگلستان کے شہر نوٹنگھم میں کھیلا جا رہا ہو، اسی دوران ہمیں شکاگو سے ایک دوست کا فون بھی آسکتا ہے اور ہم لندن میں کسی دوست سے انٹرنیٹ پر چیٹنگ بھی کر سکتے ہیں۔
زکی بھی کمپیوٹر کی سکرین پر زلیخا سے چیٹ کر رہا ہے۔۔۔ زلیخا جو اسکی گرل فرینڈ ہے اور اس وقت پیرس میں ہے، لیکن پنجاب کے اس دور افتادہ قصبے بھالیکی میں بیٹھا زکی اپنی توبہ شکن دیہاتی محبوبہ کو بھی دیکھ رہا ہے اور اسکی دعوتِ نگاہ سے بھی نبرد آزما ہے۔ ان خالص انسانی جذبات کے ساتھ ساتھ مشینی ابلاغ بھی جاری ہے اور دونوں کے ادغام سے پیدا ہونے والی انوکھی صورتِ حال ہی مرزا اطہر بیگ کی تحریر کا جوہر ہے۔
شہر کے ماحول میں ایک طرف تو گلی محلّے کے کردار ہیں جو رات کو بند دکانوں کے ویران تھڑے آبار کرتے ہیں اور دوسری جانب شہر کے کلچرل چوہدری ہیں جنھوں نے ملک میں ادب، آرٹ، کلچر، فنون اور تفریحات کی تمام ذمہ داریاں اپنے ناتواں کاندھوں پہ لے رکھی ہیں۔ ناول نگار نے اس گروہ کو کُبّا گروپ کا نام دیا ہے اور اسکے بارے میں لکھا ہے ٰ ٰ کُبّا گروپ اعلی طبقات کے ایسے افراد پر مشتمل تھا جس پر اِس جاہل معاشرے کی کلچرل اور انٹلیکچوئل رہنمائی کرنے کا بوجھ اتنی شدت سے آن پڑتا ہے کہ اُن کے کندھے باقاعدہ آگے کو جھک جاتے ہیں۔ حالانکہ خدانخواستہ کمر کے عُضلات میں کوئی خرابی نہیں ہوتی۔ پھر شاید اس جھکاؤ کو بیلنس کرنے کے لیے وہ اپنے چہرے کو تھوڑا سا اوپر اُٹھا لیتے ہیں اور دیکھنے والوں کو مسلسل سونگھنے کی کیفیت میں نظر آتے ہیں۔۔۔‘
ہیرو کا دوست ۔۔ یا یوں کہیے کہ مالک کا بیٹا، شہر کی انٹلیکچوئل فضا سے متاثر ہو کر کُبّا گروپ میں شامل ہوجاتا ہے۔ لیکن دانش ورانہ گفتگو کےلیے اسے جو مواد درکار ہے وہ زکی ہی کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔
’میں سالار منزل پہنچا تو رات کے تین بج رہے تھے اور مجھے تعجب ہوا کہ ڈرائنگ روم میں فیضان سالار ’اکیسویں صدی: توقعات اور خدشات‘ کے ڈاؤن لوڈز کا پلندہ سامنے رکھے میرا انتظار کر رہا تھا۔ وہ کُبّا موڈ میں ہرگز نہیں تھا بلکہ میری طرف دیکھتے ہوئے اسکا انداز ایک سخت گیر فکر مند چچا کا تھا جسے گاؤں سے اعلیٰ تعلیم کے لیے شہر آئے ہوئے آوارہ مزاج بھتیجے کو اپنے گھر میں ٹھہرانے کا ناخوشگوار فریضہ سونپ دیا گیا ہو۔‘
’کہاں سے آرہے ہو تم اس وقت، رات کے تین بجے۔‘
’۔۔۔ میں مزے سے ایک جگہ کھڑا پنجوں پہ وزن بدلتا رہا۔ فیضان کے چہرے پر ایک ایسی حیرت ظاہر ہو رہی تھی جو میں نہ پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی، جیسے وہ اصل معاملہ سمجھ گیا ہو۔۔۔ٰ ٰ کہیں سے پی کر آرہے ہو؟۔۔۔ اگر یہ نشہ نہیں تو پھر کیا ہے۔۔۔ اور وہ ایک لخت کُبّا موڈ میں آکر اٹھ کھڑا ہوا اور کندھے جھکا کر علمی تفکّر کا کُب نکال کر کمرے میں ٹہلنے لگا۔‘
فیضان سالار کی طرح ہیرو کا بڑا بھائی پیر صاحب بھی ایک قابلِ توجہ کردار ہے۔ اپنی کارکردگی میں یہ منٹو کے صاحبِ کرامات سے مختلف نہیں لیکن زمانی طور پہ ساٹھ برس بعد تخلیق ہونے والا یہ صاحبِ کرامات اپنے پروٹو ٹائپ سے کئی سطحوں پر آگے نکل گیا ہے۔ مابعدِ جدید فکشن کا ایک کردار ہونے کے ناتے یہ پیر صاحب اپنی جعل سازی کو چھپانے کی بجائے سرِ عام اسکی نمائش کرتے ہیں لیکن یہ صاف گوئی اور کھرا پن ہی اصل میں وہ خطرناک پھندا ہے جس میں وہ انتہائی کامیابی سے من مرضی کی خواتین کو پھانستے ہیں۔
ایڈگرایلن پو کی ڈراؤنی نظموں اور کافکا کی کہانیوں کے چیستانی ماحول کا مِلا جُلا تاثر آپ کو آرے والے ٹال کے مقام پر ملتا ہے جہاں کچھ نادیدہ ہاتھ ناول کے مرکزی کردار کو لا کر حبسِ بے جا میں ڈال دیتے ہیں۔ شدید جسمانی اذیت کے لمحات میں زکی پر انسانی بدن کے کچھ انوکھے راز افشا ہوتے ہیں۔ وہ انسانی جسم میں موجود سوراخوں کو گہری نگاہ سے دیکھتا ہے اور ان کے بارے میں ایک فلسفیانہ نقطۂ نظر تشکیل دیتا ہے۔ کہانی میں روایتی انداز کی کوئی تعارفی ابتداء، کوئی نقطۂ عروج یا کوئی تسلی بخش انجام موجود نہیں کیونکہ مابعدِ جدید فکشن اِن تکلفات سے ماورا ہوتی ہے اور کہانی میں شروع سے آخرتک مسلسل سانس لیتا ہوا لمحہء موجود ہی بیانیے کی اصل بنیاد ہے۔ اگر آپ کہانی میں ماضی یا مستقبل کی کوئی جھلک دیکھتے بھی ہیں تو حال کے اسی دھڑکتے پھڑکتے لمحے کی بدولت اور اسی کے توسط سے دیکھتے ہیں۔
اگر آپ دت بھارتی، گلشن نندہ، ابنِ صفی اور اے آر خاتون کے ناول پڑھ کر جوان ہوئے ہیں تو ہو سکتا ہے ’صفر سے ایک تک‘ آپ کو ایک آنکھ نہ بھائے لیکن فکر کی ضرورت نہیں۔ آپ کے جانے پہچانے اے حمید اور رضیہ بٹ تو مسلسل لکھ ہی رہے ہیں اور نئے لوگوں میں بھی سیما غزل اور عمارہ احمد نے پاپولر فکشن کی روایت کو آگے بڑھایا ہے۔
مرزا اطہر بیگ اُردو کی پوسٹ ماڈرن فکشن میں ہراول دستے کے آدمی ہیں۔ ہراول دستہ۔۔جو فتح کے جشن میں خود تو شریک نہیں ہو سکتا لیکن بعد میں آکر کامیابی اور کامرانی کے جھنڈے لہرانے والے انھیں بھرپور خراجِ عقیدت ضرور پیش کرتے ہیں۔
کوکبم را در عدم اوجِ قبولی بودہ است
شہرتِ شعرم بگیتی بعدِ من خواہد شدن
(میری قسمت کے ستارے کو اس دنیا میں نہیں بلکہ عدم میں قبولیت حاصل ہوئی ہے۔ چنانچہ میری شاعری کی شہرت بھی میرے بعد ہوگی، جب میں عدم میں پہنچ جاؤں گا) غالب
یہ ناول سانجھ پبلیکیشنز مفتی بلڈنگ ٹمپل روڈ لاہور نے شائع کیا ہے اور 394 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 400 روپے مقرر کی گئی ہے۔
بشکریہ بی بی سی اردع ڈاٹ کام لاہور
Leave a Reply