Laaltain

صحیح سمت میں صحیح قدم مگر۔۔-اداریہ

29 فروری، 2016
Picture of لالٹین

لالٹین

ہم بہت جلد ممتاز قادری کو عشق رسول کے ایک اور ایسے شہید کے طور پر دیکھیں گے جو آنے والے زمانوں میں ایک اور علم دین بن کر ہمارے نوجوانوں کو حب رسول کے نام پر قتل و غارت کا گمراہ کن راستہ دکھائے گا۔
گو پھانسی کی سزا اپنی جگہ ایک غیر انسانی سزا ہے اور پاکستانی نظام انصاف میں موجود نقائص کی وجہ سے پاکستان میں اس سزا کا دفاع ممکن نہیں لیکن پھر بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ ممتاز قادری کی سزائے موت پر عملدرآمد صحیح سمت میں اٹھایا گیا صحیح قدم ہے اور یقیناً یہ قدم عشق رسول کے گمراہ کن تصورات اور روایات پر ایک صحت مند مکالمے کے آغاز کا بھی باعث بنے گا۔ اگرچہ سزائے موت خواہ وہ ایک دہشت گرد ہی کی کیوں نہ ہو اس کی حمایت نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی اس پر خوشی کا اظہار کیا جا سکتا ہے لیکن یہ ایک واضح پیغام ہے کہ پاکستان کی سول قیادت اور نظام انصاف جس قدر بھی غیر فعال، بدعنوان اور غیر مقبول ہوں بہر طور مذہبی بنیادوں پر قتل و غارت کے خلاف ہیں۔ قانون کی بالادستی اور امن و امان کے قیام کے حوالے سے بھی یہ حکومت کے عزم کا اظہار ہے۔ یہ یقیناً ایک جرات مندانہ فیصلہ ہے اور اس کے نتیجے میں ملسم لیگ نواز حکومت کو بڑے پیمانے پر احتجاج اور مذہبی طبقات کی مخالفت بھی برداشت کرنا پڑے گی۔ تاہم ممتاز قادری کو ایک اور علم دین بننے میں بہت زیادہ وقت نہیں لگے گا اور بدقسمتی سے اس سلسلے میں حکومت بہت کچھ نہیں کر سکتی۔

حکومت نے وقتی طور پر حالات کو قابو میں رکھنے کے موزوں اور مناسب اقدامات کیے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم بہت جلد ممتاز قادری کو عشق رسول کے ایک اور ایسے شہید کے طور پر دیکھیں گے جو آنے والے زمانوں میں ایک اور علم دین بن کر ہمارے نوجوانوں کو حب رسول کے نام پر قتل و غارت کا گمراہ کن راستہ دکھائے گا۔ ممتاز قادری کی سزائے موت ہمارے لیے بہت سے نئے چیلنجز کو جنم دے گی، ریاست اور معاشرے کو ممتاز قادری کو بطور ہیرو تسلیم کرنے سے متعلق سنجیدہ بحث شروع کرنا ہو گی اور اس فکر کی بیخ کنی کرنا ہو گی جو عشق رسول کے نام پر انسانی جان لینے کو جائز قرار دیتی ہے۔

سلمان تاثیر کے قاتل کو دی جانے والی سزا آسیہ بی بی کے معاملے پر انصاف کے تقاضے پورے کیے بغیر ادھوری ہے۔
ممتاز قادری کی سزائے موت سے سلمان تاثیر کی ہلاکت کا معاملہ ختم نہیں ہوتا۔ ممتاز قادری کو دی جانے والی پھانسی محض ایک جرم کی سزا ہے لیکن سلمان تاثیر کا قتل کیا جانا محض ایک جرم نہیں تھا۔ یہ توہین رسالت اور توہین مذہب کے قوانین پر بحث، ان قوانین کے غلط استعمال کے خلاف احتجاج اور مذہب کے نام پر قانون ہاتھ میں لینے کی ممانعت کے خلاف بھی جرم تھا۔ ممتاز قادری کی جانب سے قانون کو ہاتھ میں لینے اور ان کے وکلاء اور حامیوں کا اسے درست قرار دینا بھی اسی معاملے کا ایک پہلو ہے جو قتل کرنے کے ایک واقعے تک محدود نہیں بلکہ ہماری روز مرہ آزادیوں اور حقوق کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ لیکن بد قسمتی سے ریاست اس حوالے سے بہت کچھ نہیں کر پائے گی۔

سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کو دی جانے والی سزا آسیہ بی بی اور توہین رسالت و مذہب کے قوانین کی زد میں آنے والے بے گناہوں کے معاملے پر انصاف کے تقاضے پورے کیے بغیر ادھوری ہے۔ یہ سزا توہین مذہب اور توہین رسالت کے ظالمانہ قوانین میں انسانی حقوق کی مروجہ تعریف کے مطابق ترامیم اور ان کے غلط استعمال کے خلاف قانون سازی کے بغیر بھی نامکمل ہے۔ اس سزا پر عمل درآمد کے موثر نتائج تب تک برآمد نہیں ہو سکیں گے جب تک عشق رسول کے نام پر تشدد اور ہتھیار اٹھانے کے خلاف ریاستی اور معاشرتی سطح پر واضح موقف اختیار نہیں کیا جاتا اور تشدد اور قتل و غارت گری کے لیے عشق رسول کو جواز بنانے کی فکر کو ہر سطح پر رد نہیں کیا جاتا۔ سلمان تاثیر کے قاتلوں میں صرف ممتاز قادری ہی نہیں بلکہ وہ مذہبی فکر بھی شامل ہے جو اس قسم کی دہشت گردی کو جواز فراہم کرتی ہے اور اس مذہبی فکر کے خلاف ایک پھانسی یا بہت سی پھانسیاں بھی کارآمد ثابت نہیں ہوں گی تاوقتیکہ اس گمراہ کن فکر کو ہر فکری اور علمی سطح پر رد کیا جائے، اور یہ ذمہ داری ریاست سے زیادہ معاشرے اور مذہبی طبقات پر عائد ہوتی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *