ہم صحافت کے اس ننگے ناچ کو روز دیکھتے ہیں ، اسے برا بھلا کہتے ہیں مگر اس کے چسکے سے محروم بھی نہیں رہنا چاہئے
کسی شیر صحافی کی شکار کرکے لائی ہوئی خبر کو گدِھوں کی طرح نوچنے اور بھنبھوڑنے والے اینکرز،تجزیہ کاروں اور مراعات یافتہ صحافیوں سے معذرت کے ساتھ !
تحریر کا مقصد یہ نہیں کہ خود کو کسی ایسی فلم کا سنجے دت ثابت کروں جسے زمانے سے دکھوں کے سواکچھ نہیں ملا ۔ اخلاقیات کے جس کھمبے پر میرے سینئر چڑھ کر بیٹھے ہیں وہ بہت اونچا ہے اور سچی بات بتاؤں تو ابھی کسی اور جگہ سے نوکری کی پیشکش بھی نہیں ہوئی۔ مختصراً یہ کہ شام سات سے رات بارہ تک گلے پھاڑ پھاڑ کر تدریس میں مصروف اخلاقیات کے ڈسکو ڈانس میں ایوارڈ پانے والے ان صحافیوں کے ٹھمکے آ ج کل کسی گندی پشتو فلم کی ہیروئن سے کم نہیں ۔ ہم صحافت کے اس ننگے ناچ کو روز دیکھتے ہیں ، اسے برا بھلا کہتے ہیں مگر اس کے چسکے سے محروم بھی نہیں رہنا چاہئے ۔
تحریر کا مقصد لیکچرجھاڑنا نہیں ہے سیدھی بات یوں ہے کہ اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ دل تو میرا بھی کرتا ہے کہ فراز صاحب کی مشہور نظم کے چار مصرعے ٹویٹر اور فیس بک پر لکھوں؛
میرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی
میرا قلم تو عدالت میرے ضمیر کی ہے
اسی لئے تو جو لکھا تپاق جاں سے لکھا
جبھی تو لوچ کماں کا زبان تیر کی ہے۔۔
لیکن مجھے ڈر ہے کہ میرے بینک اکاؤنٹ میں اس وقت موجود رقم بس اتنی سی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ایک مہینہ ۔۔۔ اس کے بعد فراز کے ان مصرعوں کے طفیل میرے فیس بک سٹیٹس پر داد دینے والے اور میرے ٹویٹ کے سامنے موجود ستارے کو سفید سے پیلا کرکے ری ٹویٹ کرنے والے احباب یہ سوچ کر فون اٹھانا ہی نہ چھوڑ دیں کہ کہیں یہ ادھار نہ مانگ لے ۔ میرا تو میڈیا ٹاؤن میں پلاٹ بھی نہیں کہ جسے بیچ کر چلتی کام نام گاڑ ی رکھ لوں۔ نہ ہی میں اس دیمک کی طرح ہوں جو اپنے ہی گھر کو چاٹ کھائے ۔
تحریر کا مقصد لیکچرجھاڑنا نہیں ہے سیدھی بات یوں ہے کہ اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ دل تو میرا بھی کرتا ہے کہ فراز صاحب کی مشہور نظم کے چار مصرعے ٹویٹر اور فیس بک پر لکھوں؛
میرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی
میرا قلم تو عدالت میرے ضمیر کی ہے
اسی لئے تو جو لکھا تپاق جاں سے لکھا
جبھی تو لوچ کماں کا زبان تیر کی ہے۔۔
لیکن مجھے ڈر ہے کہ میرے بینک اکاؤنٹ میں اس وقت موجود رقم بس اتنی سی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ایک مہینہ ۔۔۔ اس کے بعد فراز کے ان مصرعوں کے طفیل میرے فیس بک سٹیٹس پر داد دینے والے اور میرے ٹویٹ کے سامنے موجود ستارے کو سفید سے پیلا کرکے ری ٹویٹ کرنے والے احباب یہ سوچ کر فون اٹھانا ہی نہ چھوڑ دیں کہ کہیں یہ ادھار نہ مانگ لے ۔ میرا تو میڈیا ٹاؤن میں پلاٹ بھی نہیں کہ جسے بیچ کر چلتی کام نام گاڑ ی رکھ لوں۔ نہ ہی میں اس دیمک کی طرح ہوں جو اپنے ہی گھر کو چاٹ کھائے ۔
آخر میں اپنے چھٹانک بھر مداحوں اورلگ بھگ ڈیڑھ درجن قدر دانوں پر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اگر ایگزیکٹ کے خلاف لگائے گئے الزامات سچ ثابت ہوئے تو میں استعفیٰ پھر بھی نہیں دوں گا۔ نئی نوکری تلاش کروں گا، مل گئی تو استعفیٰ دے دوں گا۔ اگر نہ ملی تو اسی تنخواہ پر دلجمعی سے کام کرتا رہوں گا کیونکہ میں افورڈ نہیں کرسکتا
مجھے کامران خان سمیت بول ٹی وی سے استعفیٰ دینے والے کسی بھی شخص سے شکوہ نہیں ۔ ایک تو یہ کہ سب کا اپناظرف ہوتا ہے ۔ دوسرا یہ کہ بندہ برداشت کرسکتا ہو توپھر جو مرضی فیصلہ کرے ۔ لیکن صاحبان اخلاق !!آپ نے جن لوگوں کو سہانے خواب دکھا کر بول فیملی کا حصہ بنایا وہ کچھ پریشان ہیں کیونکہ خاندان سے استعفیٰ نہیں دیا جاتا، اس کی حفاظت کی جاتی ہے۔ ہاں! اگربچے غلطیوں میں حد سے گزر جائیں تو انہیں عاق کردیا جاتا ہے لیکن عاق کرنے کے لیے بچوں کا غلطیوں میں حد سے گزرجانا ضروری ہے ۔ آج ہمیں آپ کی ضرورت سب سے زیادہ تھی ۔ اگر وہ میڈیاجسے آپ سیٹھ میڈیا کہہ کر ہمیں یہاں لائے ،وہ جھوٹا ہے تو ہمارے ساتھ مل کر اس کے خلاف جنگ کرتے اور اگر غلطی شعیب احمد شیخ کی ہے تو بھی کسی سایہ دار درخت کی طرح ہمیں جھلسنے سے بچاتے ۔خیر سب کی اپنی مجبوریاں ہیں، آپ کی بھی کوئی مجبوری ہوگی۔
شعیب احمد شیخ پر الزامات لگے ہیں ٗ لگانے والے بھی دودھ سے دھلے ہوئے نہیں ،تحقیقات کرنے والے بھی آسمان سے نہیں اترتے اور ان کھوجیوں کی رسیاں جن سیاستدانوں کے ہاتھ میں ہیں ان کی ’’پارسائی‘‘ کی ہوشربا داستانیں بھی سب نے سن رکھی ہیں۔آخر میں اپنے چھٹانک بھر مداحوں اورلگ بھگ ڈیڑھ درجن قدر دانوں پر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اگر ایگزیکٹ کے خلاف لگائے گئے الزامات سچ ثابت ہوئے تو میں استعفیٰ پھر بھی نہیں دوں گا۔ نئی نوکری تلاش کروں گا، مل گئی تو استعفیٰ دے دوں گا۔ اگر نہ ملی تو اسی تنخواہ پر دلجمعی سے کام کرتا رہوں گا کیونکہ میں افورڈ نہیں کرسکتا۔
ضروری نوٹ ۔: ہمدردی جتاننے یا نئی نوکری تلاش کرنے میں رہنمائی کی کوئی ضرورت نہیں۔
والسلام
عیسیٰ نقوی
شعیب احمد شیخ پر الزامات لگے ہیں ٗ لگانے والے بھی دودھ سے دھلے ہوئے نہیں ،تحقیقات کرنے والے بھی آسمان سے نہیں اترتے اور ان کھوجیوں کی رسیاں جن سیاستدانوں کے ہاتھ میں ہیں ان کی ’’پارسائی‘‘ کی ہوشربا داستانیں بھی سب نے سن رکھی ہیں۔آخر میں اپنے چھٹانک بھر مداحوں اورلگ بھگ ڈیڑھ درجن قدر دانوں پر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اگر ایگزیکٹ کے خلاف لگائے گئے الزامات سچ ثابت ہوئے تو میں استعفیٰ پھر بھی نہیں دوں گا۔ نئی نوکری تلاش کروں گا، مل گئی تو استعفیٰ دے دوں گا۔ اگر نہ ملی تو اسی تنخواہ پر دلجمعی سے کام کرتا رہوں گا کیونکہ میں افورڈ نہیں کرسکتا۔
ضروری نوٹ ۔: ہمدردی جتاننے یا نئی نوکری تلاش کرنے میں رہنمائی کی کوئی ضرورت نہیں۔
والسلام
عیسیٰ نقوی
2 Responses
Very well written Dear Essa
Excellent… you nailed it bro… media gurus and those self claimed kings should read this….