میڈیا کی آزادی اور پرائیویٹ چینلز کے آغاز کے بعد سب سے اہم کام صحافتی اخلاقیا ت کا تعین کرنا ہے کیونکہ یہ فیصلہ کرنا نہایت ضروری ہے کہ واقعہ کو کس انداز میں پیش کیا جائے کہ حقیقت کی تصویر کشی ہو۔ سچ اور جھوٹ، صحیح یا غلط چونکہ اضافی اقدار ہیں اس لئے کسی خبر یا واقعہ کے تمام ممکنہ رخ پیش کیے جا سکتے ہیں ۔ معلومات کا حصول اور اسے عوام تک پہنچانے میں کس نوعیت اور طبقے کے مفادات کا خیال رکھا جاتا ہے اورکسے نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔ بہر حال یہ اختیار خبر بنانے اور نشر کرنے والی ایجنسی کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ عوام تصویر کا وہی رخ دیکھ پاتے ہیں جو انہیں دکھایا جاتا ہے۔ پرنٹ میڈیا ہویا الیکٹرانک، غیر معیاری اور من گھڑت معلومات عوامی رائے کو ہمیشہ کے لئے آلودہ کر دیتی ہیں اور صحافتی اعتبار متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ اُس واقعہ کی تاریخی حیثیت بھی غیر حقیقی ہو جاتی ہے۔ لہذا کسی خبر کو قابل اعتبار بنانے اور پیشہ وارانہ لحاظ سے متوازن بنانے کے لیے صحافتی اخلاقیات متعین کرنانہایت ضروری ہوجاتا ہے۔ اس تناظر میں ہم صحافتی اخلاقیات اور اس کے متعلق مختلف نظریات کی روشنی میں مختصراً یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاکستان میں صحافتی آزادی اور ’’میڈیا انقلاب‘‘ کے بعد گذشتہ چند سالوں میں معاملات کوکن خطوط پر چلایا گیاہے اور خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا اور پرائیویٹ چینلز کے آغاز کے بعد میڈیا نے سماجی تبدیلی میں کیا کردار ادا کیا۔
خبر ناموں ، ٹاک شوز، بریکنگ نیوز اور مباحثوں کی نوعیت کیا رہی ہے؟ کیا میڈیا نے عوامی رائے سازی میں کوئی مثبت کردار ادا کیا یا محض بے ترتیب رپورٹنگ اور کاروبار کا ذریعہ بن کر رہ گیا۔پاکستانی میڈیا کے ان رجحانات اور پہلوئوں کا جائزہ لینے سے پیشتر ہم سرسری طور پرصحافتی اخلاقیات کی درجہ بندی پر نظر ڈالتے ہیں ۔ اگرچہ میڈیا کا ضابطہ اخلاق حکومتی اداروں اور صحافتی کمیونٹی کے باہمی طور پر متعین کردہ اصولوں ، قوانین اور ضوابطہ پر مبنی ہوتا ہے مگر حقیقتاً اس پر صرف رضا کارانہ طور پر ہی عمل در آمد کیا جاتا ہے۔میڈیا اخلاقیات کودو طریقوں سے سمجھا جا سکتا ہے۔ آمرانہ نظریہ (Authoritarian Theory)کی رو سے پریس اور میڈیا ایک موثر ہتھیار کے طور پر صاحب اقتدار لوگوں کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے جو اپنی مرضی کی معلومات عوام تک پہنچاتے ہیں ۔اس نظریے کے مطابق میڈیا سے توقع کی جا تی ہے کہ حکومت اور مقتدر اداروں کے مفادات کا تحفظ کرے گا اور حکومتی اجازت کے بغیر کسی قسم کی سیاسی اور سماجی حد بندی سے انحراف نہیں کرے گا۔ سماجی ذمہ داری نظریہ (Social Responsibility Theory)کے مطابق میڈیا اپنے فیصلوں میں خود مختار ہوتا ہے لیکن وہ جمہوری اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے جہاں عوام تک درست اور اہم معلومات فراہم کرے گا وہیں اسے متوازن قوانین بھی قائم کرنا ہوں گے۔ اس رو سے میڈیا سے امید کی جاتی ہے کہ وہ سماج کی اخلاقی حدود سے تجاوز نہ کرے اور خبر نشر کرتے وقت سچائی (جو عوامی مفاد میں ہو )، خبر کی درستگی، غیر جانب داری اور معاشرتی توازن کو مدنظر رکھے۔ ان اصولوں کی روشنی میں دیکھا جائے تو گذشتہ سالوں میں پاکستانی میڈیا کو آزادی ملنے اور پرائیویٹ نشریات کے آغاز سے بہت سے اخلاقی ضابطوں کا خیال نہیں رکھا گیا۔
٢٠٠٢ء سے پہلے پاکستان میں حکومتی تحویل میں چلنے والا ٹی وی عوام الناس کے لیے معلومات کا واحد ذریعہ تھا جس کی حیثیت سرکاری ترجمان سے زیادہ نہ تھی۔٢٠٠٢ئ میں پرائیویٹ چینلز کو لائسنس ملنے کے بعد جیسے ایک انقلاب آگیا، بہت کم عرصے میں بہت زیادہ ٹی وی چینلز کا آغاز ہوا جن میں نیوز، انٹریٹمنٹ اور اسپورٹس کے مخصوص چینلز تھے۔ پہلے جہاں انہیں مخصوص اوقات میں نشر کیا جاتا تھا اب انہیں چوبیس گھنٹے کے لیے نشر کیا جانے لگا۔ اس بڑے نظام اور معلومات کے بے بہا سیلاب کو کنٹرول کرنا اور توازن قائم رکھنا بھی اتنا ہی اہم اور مشکل ہو گیا جس کے لیے صحافتی عملے کی بڑی تعداد درکار تھی جو الیکٹرانک میڈیا کو چلا سکے اور تکنیکی مسائل سے آگاہی رکھتی ہو ۔دوسرا ایسے لوگوں کو لائسنس دئیے گئے جو پہلے سے صحافت کے اہم نام تھے اور پرنٹ میڈیا میں متحرک تھے۔ گو ان میں وسیع تجربہ رکھنے والے لوگ تھے لیکن پرنٹ میڈیا کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا کے بارے میں زیادہ تجربہ کار نہیں تھے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے بہت سے ایسے صحافیوں نے پرنٹ میڈیا چھوڑ کر الیکٹرانک میڈیا میں شمولیت اختیار کی جو نا تجربہ کار تھے یا کوئی تربیت نہیں رکھتے تھے ۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں نصف سے زیادہ آبادی ناخواندہ ہو،میڈیا کی آزادی ایک حساس معاملہ تھا۔ کیونکہ عوام ٹی وی پر بتائی جانے والی ہر خبر کو درست سمجھتے ہیں اور اعتماد کرتے ہیں ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عوامی سوچ جو ابھی تک آمرانہ نظریے کے تابع میڈیا کو دیکھتی رہی ہے، اچانک تبدیلی آنے اور سماجی ذمہ داری کے نظریے کے تحت نئی صورت حال کو سمجھتے ہوئے رویوں میں تبدیلی نہ لا سکی اور نہ ہی اس کی کوششیں کی گئیں اس لئے ضروری تھا کہ ہر دو سطح پر اس تبدیلی کے لئے تربیت فراہم کی جاتی۔ یہ تربیتی عمل کسی حکومتی ادارے کے تحت لینے کے بجائے پیشہ ورانہ بنیادوں پر کیا جاتا تاکہ عالمی اور مقامی منڈی میں اپنی نشریات کو زیادہ قابل اعتماد بنایا جا سکے۔ ایسی صورت حال میں میڈیا اخلاقیات پر عمل درا ٓمد اور لوگوں کی مثبت ذہن سازی ایک فرض کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں ۔ یاد رہے کہ میڈیا (ٹی وی یا پرنٹ میڈیا ) کی پہلی ترجیح کاروبار ہوتی ہے۔ اس لیے ہر وہ خبر جو اچھی ریٹنگ دے سکتی ہے، چلا دی جاتی ہے لہذا یہ خیال رکھنا اخلاقی فرض بن جاتا ہے کہ اس عمل یا خبر کی سیاسی و سماجی اثرات کیا ہوں گے۔
گذشتہ چند سالوں میں پاکستانی میڈیا کی کارکردگی پر نظر دوڑائی جائے تو جہاں اس کے اچھے اقدمات دکھائی دیتے ہیں وہیں بہت سی بے ضابطگیوں اور غیر سنجیدہ رویوں کی طرف بھی نظر جاتی ہے۔ اس کی اہم مثالیں لال مسجد واقعہ کی کوریج اور اس کے بعد میڈیا پالیسی میں تبدیلی ایک غیر سنجیدہ حرکت نظر آتی ہے اور حالیہ، مارگلہ پہاڑوں پر گرنے والے ائیر بلیو جہاز کی غیر ذمہ دارانہ کوریج قابل غور ہیں ۔ مزید پہلوئوں پر روشنی ڈالی جائے تو کچھ روز قبل شعیب، ثانیہ شادی کو اس قدر اچھالا گیا کہ دو ملکوں کے درمیان فتح و شکست کی صورت اختیار کرتا ہوا محسوس ہوا جیسے یہ قومی انا اور عزت کا معاملہ ہو۔ اس کے علاوہ کئی ایسی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں جہاں میڈیا غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتا رہاہے۔ میڈیا کے لیے اس بات کا ادراک بھی نہایت ضروری ہے کہ خود کش دھماکے یا بڑے حادثے کی کوریج کرتے ہوئے کن باتوں کا خیال رکھا جائے ؟ کیا لاشیں ، خون میں لتھڑے جسمانی اعضائ، متاثرین کی چیخیں اور حساس معاملات کو بے حسی اور کاروباری انداز میں پیش کرنا درست ہے ؟ یا کوئی اخلاقی ضابطہ جو عوامی رائے سے تشکیل دیا گیا ہو، قائم کرنے کی ضرورت ہے ؟ یہاں یہ سوال بھی اُٹھتا ہے کہ کیا اس طرح کی نشریات عوامی دلچسپی کے تحت مطالبے پر دکھائی جاتی ہیں یا کسی ادارے کے نشریاتی مواد کا فیصلہ کرنے والے چند لوگ پوری قوم کے مزاج کی خود ساختہ نمائندگی کر رہے ہیں ؟ اس مسئلے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ میڈیا ملازمین اور رپورٹرز کی پیشہ ورانہ تربیت نہ ہونے کی وجہ سے ایسی بے ضابطگیاں پید ا ہوتی ہیں ، دوسرا یہ کہ چینلز جب مخصوص اداروں یا افراد کے نقطہ نظر پیش کرتے ہوئے جانب دار ہو جاتے ہیں تو صحافتی بنیادوں پر یہ غیر منصفانہ فعل ہے۔ اس کے لئے جو بھی ضابطہ تشکیل دیا جائے، اسے زبردستی لاگو نہیں کیا جا سکتا ، صرف باضمیر ہوتے ہوئے اخلاقی طور پر عمل پیرا ہو ا جا سکتا ہے۔ دوسر ی صورت میں رپورٹنگ کا قابل اعتبار ہونا مشکوک اور معلومات کے غلط ہونے کا شائبہ ہونے لگتا ہے۔ اس کے علاوہ ٹی وی ٹاک شوز میں جو صورت حال دکھائی دیتی ہے اُسے پرکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر ٹاک شوز میں متضاد آرائ سے گفتگو میں جوش پیدا ہو جائے، مہمان ایک دوسرے کو کوسنے اور طعنے دینے لگیں ، میزبان کسی ایک کی حمایت کرنے لگے اور مہمانوں پر اپنی ذاتی رائے مسلط کرنے لگے یا انہیں دبا کر خود فیصلہ دینے لگے اور ٹاک شو مہذب گفتگو کی بجائے ایک اکھاڑا بن جائے تو کیا یہ بہتر صورت حال ہو گی اور گفتگو یا ٹاک شوز کا بہتر انداز ہوگا ؟ہر گز نہیں ! افسوس کہ ہمارے اکثر ٹاک شوز اسی طرح کا منظر نامہ پیش کرتے نظر آتے ہیں ۔ ایسی شکل شاید ریٹنگ میں اضافہ کر دیتی ہو مگر ایک صحت مند اور معیاری گفتگو کا درجہ ہر گز حاصل نہیں کر سکتی۔ اسے بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اینکر پرسن اس معاملے کے بارے میں مکمل معلومات رکھتا ہو جس پر وہ پروگرام کر رہا ہے اور گفتگو کے دوران غیر جانب دار ہوتے ہوئے ہر گز اپنی رائے مسلط نہ کرے اور صحافیانہ کردار ادا کرتے ہوئے فیصلہ ساز نہ بن جائے۔پاکستانی میڈیا کو اس آزاد ی سے حاصل ہونے والے اختیارات اچھا امر ہیں لیکن اس بات کو پھر سے تجزیاتی میزان پر رکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا گذشتہ چند سالوں میں سماجی رویے اور معاشرتی معیارات بہتر ہوئے ہیں یا مزید بے حسی میں اضافہ ہوا ؟ وڈیرا اور جاگیردانہ کلچر، جامد سماجی نظام اور بوسیدہ تعلیمی پالیسیاں وہیں کھڑے ہیں یا بہتری کی جانب سفر کر رہے ہیں ؟ آج یہ فیصلہ کرنا ضروری ہے کہ میڈیا اپنی ذمہ داریوں اور اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے متوازن اور درست خبریں نشر کرے ۔ اس سے زیادہ قابل توجہ سوال یہ ہے کہ کےا میڈیا واحد ادارے کے طور پر سماجی تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے یا ہمیں دوسرے محازوں پر بھی تبدیلی کا عمل شروع کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔
Leave a Reply