اشتہارات جوکبھی محض اطلاعیہ نوعیت کے ہوا کرتے تھے اب ہماری اخلاقیات اور تہذیب و تمدن پر اس قدر اثرانداز ہونے لگے ہیں کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک وقت آنے والا ہے جب زندگی بذاتِ خود ایک اشتہار بن جائے گی۔یہ کہنے میں کیا مضائقہ ہے کہ اشتہارات ہمیں تباہ و برباد کرنے کے درپے ہیں۔ انسان جولوک دانش (Folk Wisdom) کے ساتھ اپنے علاقے سے مخصوص روایات کے تحت ہزار ہا برس سے اپنی ضروریات اپنے ماحول سے پوری کرنے میں خوش و خرم تھا معاشی ترقی کی راہ پر چل کر آج کثیر القومی کمپنیوں کے ایک دلفریب مگر جانکاہ جال میں تہہ در تہہ پھنس چکا ہے اور کمرشل ازم کا دیومسلسل خلقت کو نگلتا چلا جارہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمیں اپنی ثقافت فرسودہ محسوس ہونے لگی ہےاور لوک دانش متروک ہورہی ہے۔
انسان جولوک دانش (Folk Wisdom) کے ساتھ اپنے علاقے سے مخصوص روایات کے تحت ہزار ہا برس سے اپنی ضروریات اپنے ماحول سے پوری کرنے میں خوش و خرم تھا معاشی ترقی کی راہ پر چل کر آج کثیر القومی کمپنیوں کے ایک دلفریب مگر جانکاہ جال میں تہہ در تہہ پھنس چکا ہے۔
جو اصول اس صارف معاشرے کے قیام کے لئے وضع کئے گئے ہیں ان کے باعث جدیدمصنوعات جس طبقہ کی پہنچ سے دور ہیں وہ محکوم ،پسماندہ اورخطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور اپنے طرز زندگی سے متعلق احساس کم تری کا شکار ہے۔جبکہ دوسری طرف وہ طبقہ جونام نہاد معیارزندگی کے مطابق زندگی گزارنابرداشت کر سکتا ہے نہ صرف معزز اور حاکم تصور کیا جانے لگاہے بلکہ اس طبقہ کے لئے مہنگی مصنوعات اس کے طبقاتی تفاخر اور احساس برتری کی بنیاد بھی ہے۔غضب دیکھیے کہ معیار اور پرآسائش زندگی کے حصول کی تگ و دو یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ مقابلے کی دوڑیہاں سے شروع ہوتی ہے۔آسائش اور سہولت کے لئے مصنوعات کی بڑھ چڑھ کر خریداری اور زیادہ سے زیادہ خریداری سے اپنے طرززندگی کی نمائش کی یہ دوڑ کثیر القومی (Multi National) کمپنیوں ہی کی وضع کردہ ہے، اس دوڑ میں شمولیت کا راستہ اشتہارات کے ذریعہ دکھایا جاتا ہے۔
ایک صارف معاشرے کی افراتفری سے ہماری نجات صرف اورصرف اپنےثقافتی دائرے میں رہتے ہوئے اپنے وسائل کے مطابق خرچ کی حد میں رہنے سے ہے۔ہمیں اپنی ترجیحات اور ضروریات زندگی کا ازسرِنو تعین کرنا ہوگا۔ہمیں اس بزرگ نسل کی طرف دیکھنا ہوگا جو خریداری کے گھن چکر میں پڑے بغیر بھی خوش اور مطمئن تھے۔ان کے زمانے میں غربت کے معنی وہ ہرگز نہیں ہوا کرتے تھے جو اب اور نہ ہی امارت اونچی عمارات اور پُر آسائش زندگی سےعبارت ہوا کرتی تھی۔گھر میں بھینس اپنی ضروریات کے لیے رکھی جاتی تھی اسکا دودھ فروخت نہیں ہوا کرتا تھا،جیب میں نقدی رکھ کر چلنے والے آدمی کو بُرا سمجھا جاتا تھا، اجناس کو اجناس کے دام پر تولا اور پرکھا جاتا تھا، لباس کے لئے بوتیک جانے اورکھانے کے لیے ریستوران کا رخ کرنے کی ضرورت نہ پڑتی تھی۔ صارف معاشرے کے کھوکھلے پن کو کیا روایتی فطری زندگی کی سادگی سے پر کیا جا سکتا ہے یا نہیں اسے سمجھنے کے لئے اپنی دھرتی سے جڑی روایات اور اقدار کو ایک بار پھر سمجھنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے وگرنہ انسانوں کو اجناس بننے میں دیر نہیں لگے گی۔
ایک صارف معاشرے کی افراتفری سے ہماری نجات صرف اورصرف اپنےثقافتی دائرے میں رہتے ہوئے اپنے وسائل کے مطابق خرچ کی حد میں رہنے سے ہے۔ہمیں اپنی ترجیحات اور ضروریات زندگی کا ازسرِنو تعین کرنا ہوگا۔ہمیں اس بزرگ نسل کی طرف دیکھنا ہوگا جو خریداری کے گھن چکر میں پڑے بغیر بھی خوش اور مطمئن تھے۔ان کے زمانے میں غربت کے معنی وہ ہرگز نہیں ہوا کرتے تھے جو اب اور نہ ہی امارت اونچی عمارات اور پُر آسائش زندگی سےعبارت ہوا کرتی تھی۔گھر میں بھینس اپنی ضروریات کے لیے رکھی جاتی تھی اسکا دودھ فروخت نہیں ہوا کرتا تھا،جیب میں نقدی رکھ کر چلنے والے آدمی کو بُرا سمجھا جاتا تھا، اجناس کو اجناس کے دام پر تولا اور پرکھا جاتا تھا، لباس کے لئے بوتیک جانے اورکھانے کے لیے ریستوران کا رخ کرنے کی ضرورت نہ پڑتی تھی۔ صارف معاشرے کے کھوکھلے پن کو کیا روایتی فطری زندگی کی سادگی سے پر کیا جا سکتا ہے یا نہیں اسے سمجھنے کے لئے اپنی دھرتی سے جڑی روایات اور اقدار کو ایک بار پھر سمجھنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے وگرنہ انسانوں کو اجناس بننے میں دیر نہیں لگے گی۔