میری جو شامت آئی، مجھے خداوندان ِدفتر سے ایک بار پھر حُکم ہوا کہ فلاں سرکاری ادارے کے سربراہ کے دفتر جاو اور فلاں فلاں فائل کا پیچھا کرو۔۔۔ اور کام پڑا بھی تو پولیس کے ایک بڑے عہدیدار سے،
کام اُس سے آپڑا ہے کہ جس کا جہان میں
لیوے نہ کوئی نام ستم گر کہے بغیر۔۔۔
خیر، جاں صدقہ کئے جا پہنچا، اردلی سے عرض نیاز کی، حُکم ہوا کہ فلاں افسر کے دفتر چلا جاوں، وہاں سے مطلوبہ فائل کا سراغ ملے گا۔ ‘فلاں افسر’ کے دفتر پہنچا تو پتہ چلا کہ آپ کا عہدہ تو بہت بڑا ہے لیکن آپ کو حاجی صاحب کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ پھر یہ جان کر تسلی ہوئی کہ آپ باوردی افسر نہیں ہیں، سوچا یہ بھی خوب ہوا ورنہ کیا معلوم رعب کے مارے میں حرفِ مدعا ہی بھول بیٹھتا۔ ان کے دفتر میں بٹھا دیا گیا تو نائب قاصد نے بتایا کہ صاحب نماز پڑھنے گئے ہیں، انتظار کرنا ہوگا، میں نے کہا بہت احسن ہے، اور سوچا کہ آپ یقیناً بہت مہربان افسر ہوں گے۔میں بیٹھ گیا۔
کام اُس سے آپڑا ہے کہ جس کا جہان میں
لیوے نہ کوئی نام ستم گر کہے بغیر۔۔۔
خیر، جاں صدقہ کئے جا پہنچا، اردلی سے عرض نیاز کی، حُکم ہوا کہ فلاں افسر کے دفتر چلا جاوں، وہاں سے مطلوبہ فائل کا سراغ ملے گا۔ ‘فلاں افسر’ کے دفتر پہنچا تو پتہ چلا کہ آپ کا عہدہ تو بہت بڑا ہے لیکن آپ کو حاجی صاحب کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ پھر یہ جان کر تسلی ہوئی کہ آپ باوردی افسر نہیں ہیں، سوچا یہ بھی خوب ہوا ورنہ کیا معلوم رعب کے مارے میں حرفِ مدعا ہی بھول بیٹھتا۔ ان کے دفتر میں بٹھا دیا گیا تو نائب قاصد نے بتایا کہ صاحب نماز پڑھنے گئے ہیں، انتظار کرنا ہوگا، میں نے کہا بہت احسن ہے، اور سوچا کہ آپ یقیناً بہت مہربان افسر ہوں گے۔میں بیٹھ گیا۔
ہمارے چہروں کے ناگوار لیکن خاموش تاثرات کو سہلانے کیلئے نائب قاصد نے ایک وفادارانہ سی خیر سگالی کوشش کی "حاجی صاحب ماشاءاللہ روزانہ صلوٰۃ التسبیح پڑھتے ہیں” بجائے اس کے کہ ماحول کا تناو کم ہوتا ، اندر جھانکتے ہوئے کانسٹیبل اور دیہاتی نوجوان مزید سہم گئے کہ آج تو حاضری کا پہلا دن تھا اور ایسی بارگاہوں سے ایک حاضری میں مراد براری نہیں ہوتی۔
"صاحب نماز پڑھ رہے ہیں” دروازے پہ کھڑے چند اور لوگوں کو بھی اُن کے مرتبے اور حیثیت کے مطابق درشت یا نسبتاً کم درشت لہجوں میں کئی بار بتایا گیا ۔ ایک دیہاتی سا لڑکا جو نوکری کیلئے انٹرویو دینے آیا تھا ، باہر بینچ پہ بٹھایا گیا تھا، ہر چند منٹ کے بعد بے چینی کے عالم میں پوچھ رہا تھا "صاحب کب آئیں گے؟” اُسے ہر بار ایک ہی سے الفاظ میں ڈانٹ پڑ رہی تھی جبکہ اندر بیٹھے چند معززین یا مُجھ ایسے بظاہر معززین کو ہر بار نئے الفاظ میں اور نئے طور سے بتایا جارہا تھا کہ "صاحب کی نماز ختم ہوا چاہتی ہے سر” ایک لیڈی کانسٹیبل کا بوڑھا باپ اپنی بیٹی کے تبادلے یا شائد بحالی کے لئے منت سماجتوں کا پلندہ لے کے بائِیں جانب کے صوفے پہ بیٹھا تھا اور نوکری کے طلبگار دیہاتی نوجوان سے ذیادہ بے چینی سے ‘صاحب’ کا انتظار کررہا تھا۔ایک سپاہی جسے بڑے وردی والے صاحب کی بارگاہ میں پیشی کیلئے بلوایا گیا تھا ، شائد زندگی میں پہلی بار اپنی خاکی زین اور مزری کی وردی کو ‘کلف’ لگوا کر اور پالش شدہ بوٹ پہن آیا تھا، بھی منتظر تھا۔ وہ دروازے کے باہر بے چینی میں کھڑا وقفے وقفے سے فرش پر ایڑیاں بجا رہا تھا اور بے تابی میں بار بار اندر جھانک رہا تھا لیکن اندر سے نائب قاصد کی بارُعب اور گھمبیرآواز "صاحب نماز پڑھ رہے ہیں ” سُن کے ہر بار واپس اپنی جگہ پہ نیم سپاہیانہ انداز میں کھڑا ہو جاتا۔ مُجھے تو ہمت ہی نہ پڑی کہ میں اپنے چہرے پہ انتظار کی ناگواری کا تاثر ہی آنے دوں، آخر میں ایک نیک اور خدا رسیدہ افسر کے انتظار میں بیٹھا تھا۔
اسی اثناء میں ایک بزرگوار اُجلے سفید کپڑے اور خوبصورتی سے استری کی گئی سیاہ واسکٹ پہنے اور ایک فائل بغل میں دابے نہائیت عجلت میں اندر آئے ، میں نے اُٹھ کر مصافحے کا شرف حاصل کیا کہ شائد آپ ہی موصوف افسر الحاج صاحب ہیں کہ جو دُنیا داری کے خرافات کو پسِ پُشت ڈال کر اپنے مقدس آسمانی فریضے کی ادائیگی میں اتنی دیر سے مصروف تھے۔ "حاجی صاحب کہاں ہیں؟” نووارد نے سوال کیا تو اس سے پہلے کہ میں اپنی یہ غلط فہمی درست کر پاتا کہ آپ نووارد صاحب بھی حاجی صاحب موصوف نہیں ہیں، نائب قاصد نے بآوازِ بلند نعرہ لگایا "صاحب نماز پڑھ رہے ہیں” جواباً کونے میں بیٹھے عرضی بدست بزرگ نے فرمایا”ماشاءاللہ” لیکن اُن کے لہجے سے مُجھے اندازہ نہ ہو سکا کہ آپ واقعی افسر موصوف کے تقوے کی داد دے رہے ہیں یا پھر اس انتظار کی کوفت کے اظہار کیلئے طنزاً کلمہء تحسین پڑھ رہے تھے۔نووارد بزرگ ہیڈ کلرکوں کی سی تمکنت اور کلرکوں کی سی فرمانبرداری کے ساتھ، جس عجلت میں آئے تھے، اتنے ہی سکون سے بیٹھ کر انتظار کرنے والوں میں شامل ہوگئے۔نائب قاصد بہرحال ان کی طرف موءدب تھا۔ "کُچھ اندازہ ہے کہ کب تک تشریف لائیں گے صاحب؟”کچھ دیر بعد نووارد بزرگ نے سوال کیا۔”بس آتے ہی ہوں گے، دس پندرہ منٹ ہو گئے ہیں انہیں گئے ہوئے” نائب قاصد نے کہا تو مُجھے بہت تا و آیا کہ آدھا گھنٹا تو ہونے کو تھا جب سے میں آیا تھا۔لیکن ناچار خاموش رہنا پڑا کیونکہ میرے پاس بحث کرنے کیلئے دلائل بھی نہ تھے۔ وجہ یہ تھی کہ مُجھے یاد نہیں آرہا تھا کہ اس وقت کون سی نماز ادا کی جاتی تھی۔ پھر میں نے ذہن پہ ذور دیا کہ جب بھلے وقتوں میں ہم بھی نماز پڑھا کرتے تھے تب طویل ترین نماز کتنے دورانئے کی ہوتی تھی؟؟؟ لیکن پھر نعوذباللہ پڑھ کے یہ خیال جھٹک دیا کہ عبادت کا حساب کرنا بندے کا نہیں، رب کا کام ہے لہذہ خموشی سے انتظار کرنے میں ہی عافیت جانی۔ اسی دوران ایک ماتحت افسر بھی آن بیٹھے جو کہ حاجی صاحب سے اتنے بے تکلف ہوں گے، اور شائد اللہ میاں سے بھی، کہ اُنہوں نے نائب قاصد سے پوچھ ہی لیا "بھئی کتنی دیر ہو گئی ہے صاحب کو گئے ہوئے اور کتنی دیر لگتی ہے نماز پڑھنے میں؟”۔ مُجھے اُن صاحب کی جراتِ رندانہ پہ حیرت ہوئی کہ حاجی صاحب اور اللہ میاں کے درمیان کے معاملات اور وہ بھی لین دین کے معاملات میں یوں آٹپکنے کی ہمت ہم گنہگاروں کو تو کبھی نہ ہو سکتی تھی۔
نائب قاصد نے کچھ لیت و لعل کی کوشش کی تو ماتحت افسر نے حُکم دیا "میاں چلے جاو مسجد اور دیکھ آو کہ صاحب کو کتنی دیر اَور ہے آنے میں”نائب قاصد بھاگا۔ کُچھ دیر کو لَوٹا اور آکے بولا "سر، ابھی صاحب نے فرض نمازمکمل کی ہے اور بس صلوۃ التسبیح شروع کی ہے” کمرے پہ خاموشی چھا گئی۔ باہر کھڑے سپاہی اور دیہاتی نوجوان نے بھی کان کھڑے کررکھے تھے، اُنہوں نے بھی سُنا اور کھڑکی سے اُن کے مرعوب چہرے نظر آرہے تھے۔میں نے ایک بار پھر گھڑی دیکھی تو پون گھنٹہ ہونے کو تھا۔ ایک بار تو جی میں آئی کہ باقی ماندگانِ محفل کو ہی کھری کھری سُنا ڈالوں لیکن میں کیوں کہتا۔۔۔ گنہگار بندہ ہوں، ایک نیک اور پارسا شخص کے عشقِ الہی میں کیوں خواہ مخواہ کیدو بنتا، بھئی یہ اُس کی دین ہے جسے پروردگار دے۔۔۔
ہمارے چہروں کے ناگوار لیکن خاموش تاثرات کو سہلانے کیلئے نائب قاصد نے ایک وفادارانہ سی خیر سگالی کوشش کی "حاجی صاحب ماشاءاللہ روزانہ صلوٰۃ التسبیح پڑھتے ہیں” بجائے اس کے کہ ماحول کا تناو کم ہوتا ، اندر جھانکتے ہوئے کانسٹیبل اور دیہاتی نوجوان مزید سہم گئے کہ آج تو حاضری کا پہلا دن تھا اور ایسی بارگاہوں سے ایک حاضری میں مراد براری نہیں ہوتی۔ کانسٹیبل لڑکی کے ابا نے ایک اور کڑوی سی ماشاءاللہ ادا کی اور خوابِ خرگوش کے مزے لینے لگے جیسا کہ وہ پچھلی ماء شااللہ سے تازہ ترین ماشاءاللہ کے درمیانی عرصے میں کرتے رہے تھے۔ ماتحت افسر اور ہیڈ کلرک کے چہرے سپاٹ تھے گویا وہ اس معمول کے عادی تھے۔
اسی اثناء میں ایک بزرگوار اُجلے سفید کپڑے اور خوبصورتی سے استری کی گئی سیاہ واسکٹ پہنے اور ایک فائل بغل میں دابے نہائیت عجلت میں اندر آئے ، میں نے اُٹھ کر مصافحے کا شرف حاصل کیا کہ شائد آپ ہی موصوف افسر الحاج صاحب ہیں کہ جو دُنیا داری کے خرافات کو پسِ پُشت ڈال کر اپنے مقدس آسمانی فریضے کی ادائیگی میں اتنی دیر سے مصروف تھے۔ "حاجی صاحب کہاں ہیں؟” نووارد نے سوال کیا تو اس سے پہلے کہ میں اپنی یہ غلط فہمی درست کر پاتا کہ آپ نووارد صاحب بھی حاجی صاحب موصوف نہیں ہیں، نائب قاصد نے بآوازِ بلند نعرہ لگایا "صاحب نماز پڑھ رہے ہیں” جواباً کونے میں بیٹھے عرضی بدست بزرگ نے فرمایا”ماشاءاللہ” لیکن اُن کے لہجے سے مُجھے اندازہ نہ ہو سکا کہ آپ واقعی افسر موصوف کے تقوے کی داد دے رہے ہیں یا پھر اس انتظار کی کوفت کے اظہار کیلئے طنزاً کلمہء تحسین پڑھ رہے تھے۔نووارد بزرگ ہیڈ کلرکوں کی سی تمکنت اور کلرکوں کی سی فرمانبرداری کے ساتھ، جس عجلت میں آئے تھے، اتنے ہی سکون سے بیٹھ کر انتظار کرنے والوں میں شامل ہوگئے۔نائب قاصد بہرحال ان کی طرف موءدب تھا۔ "کُچھ اندازہ ہے کہ کب تک تشریف لائیں گے صاحب؟”کچھ دیر بعد نووارد بزرگ نے سوال کیا۔”بس آتے ہی ہوں گے، دس پندرہ منٹ ہو گئے ہیں انہیں گئے ہوئے” نائب قاصد نے کہا تو مُجھے بہت تا و آیا کہ آدھا گھنٹا تو ہونے کو تھا جب سے میں آیا تھا۔لیکن ناچار خاموش رہنا پڑا کیونکہ میرے پاس بحث کرنے کیلئے دلائل بھی نہ تھے۔ وجہ یہ تھی کہ مُجھے یاد نہیں آرہا تھا کہ اس وقت کون سی نماز ادا کی جاتی تھی۔ پھر میں نے ذہن پہ ذور دیا کہ جب بھلے وقتوں میں ہم بھی نماز پڑھا کرتے تھے تب طویل ترین نماز کتنے دورانئے کی ہوتی تھی؟؟؟ لیکن پھر نعوذباللہ پڑھ کے یہ خیال جھٹک دیا کہ عبادت کا حساب کرنا بندے کا نہیں، رب کا کام ہے لہذہ خموشی سے انتظار کرنے میں ہی عافیت جانی۔ اسی دوران ایک ماتحت افسر بھی آن بیٹھے جو کہ حاجی صاحب سے اتنے بے تکلف ہوں گے، اور شائد اللہ میاں سے بھی، کہ اُنہوں نے نائب قاصد سے پوچھ ہی لیا "بھئی کتنی دیر ہو گئی ہے صاحب کو گئے ہوئے اور کتنی دیر لگتی ہے نماز پڑھنے میں؟”۔ مُجھے اُن صاحب کی جراتِ رندانہ پہ حیرت ہوئی کہ حاجی صاحب اور اللہ میاں کے درمیان کے معاملات اور وہ بھی لین دین کے معاملات میں یوں آٹپکنے کی ہمت ہم گنہگاروں کو تو کبھی نہ ہو سکتی تھی۔
نائب قاصد نے کچھ لیت و لعل کی کوشش کی تو ماتحت افسر نے حُکم دیا "میاں چلے جاو مسجد اور دیکھ آو کہ صاحب کو کتنی دیر اَور ہے آنے میں”نائب قاصد بھاگا۔ کُچھ دیر کو لَوٹا اور آکے بولا "سر، ابھی صاحب نے فرض نمازمکمل کی ہے اور بس صلوۃ التسبیح شروع کی ہے” کمرے پہ خاموشی چھا گئی۔ باہر کھڑے سپاہی اور دیہاتی نوجوان نے بھی کان کھڑے کررکھے تھے، اُنہوں نے بھی سُنا اور کھڑکی سے اُن کے مرعوب چہرے نظر آرہے تھے۔میں نے ایک بار پھر گھڑی دیکھی تو پون گھنٹہ ہونے کو تھا۔ ایک بار تو جی میں آئی کہ باقی ماندگانِ محفل کو ہی کھری کھری سُنا ڈالوں لیکن میں کیوں کہتا۔۔۔ گنہگار بندہ ہوں، ایک نیک اور پارسا شخص کے عشقِ الہی میں کیوں خواہ مخواہ کیدو بنتا، بھئی یہ اُس کی دین ہے جسے پروردگار دے۔۔۔
ہمارے چہروں کے ناگوار لیکن خاموش تاثرات کو سہلانے کیلئے نائب قاصد نے ایک وفادارانہ سی خیر سگالی کوشش کی "حاجی صاحب ماشاءاللہ روزانہ صلوٰۃ التسبیح پڑھتے ہیں” بجائے اس کے کہ ماحول کا تناو کم ہوتا ، اندر جھانکتے ہوئے کانسٹیبل اور دیہاتی نوجوان مزید سہم گئے کہ آج تو حاضری کا پہلا دن تھا اور ایسی بارگاہوں سے ایک حاضری میں مراد براری نہیں ہوتی۔ کانسٹیبل لڑکی کے ابا نے ایک اور کڑوی سی ماشاءاللہ ادا کی اور خوابِ خرگوش کے مزے لینے لگے جیسا کہ وہ پچھلی ماء شااللہ سے تازہ ترین ماشاءاللہ کے درمیانی عرصے میں کرتے رہے تھے۔ ماتحت افسر اور ہیڈ کلرک کے چہرے سپاٹ تھے گویا وہ اس معمول کے عادی تھے۔
اگلے چند لمحے اسی اطمینان میں گذر گئے تو ماتحت افسر نے نائب قاصد کو پھر سے مسجد کی طرف دوڑا دیا۔ اب ماحول کا تناو اپنے عروج پر تھا جسے کم کرنے کیلئے قاصد کی غیر موجودگی میں ہیڈ کلرک صاحب ،افسر ماتحت سے مخاطب ہوئے "خُدا خوش رکھے بہت ہی نیک اور خُدا رسیدہ شخص ہیں حاجی صاحب” حاضرین منتظرین میں سرگوشیاں اور چہ مگوئیاں شروع ہونے لگیں تو نائب قاصد آدھمکا۔ "
ایک باوردی اے۔ایس۔پی صاحب ہمراہ دو بلا وردی بزرگوں کے، دفتر میں آئے، صاحب کا پوچھا "سر وہ نماز پڑھ چُکے ہیں، ابھی صلوٰۃ التسبیح پڑھ رہے ہیں، بس آتے ہی ہوں گے”نائب قاصد نےاضافی احترام کے ساتھ بتایا۔ "جاو یار مسجد ، اور دیکھ آو کتنی دیر کو آنے والے ہوں گے؟” اے ۔ایس۔پی صاحب نے حُکم دیا اور میرے ساتھ والی کُرسی پہ بیٹھ گئے، ہمراہی مہمانان پرے صوفے پر بیٹھ گئے۔اُن مہمانوں کے چہروں پر وہی طمانیت یا تفاخر تھا جو کسی بڑے افسر کے دفتر میں بیٹھ کر کسی بھی عام آدمی کو ہو سکتا ہے لیکن ہمارے چہروں کی وہ طمانیت اب کربِ انتطار میں ڈھل چکی تھی بلکہ میں تو اب اُس پارسا اور متقی افسر سے غائبانہ طور پہ ہی اتنا مرعوب ہوا بیٹھا تھا کہ باقاعدہ خود کو ذہنی طور پر اس نیک انسان کا سامنا کرنے کے نااہل محسوس کرنا شروع کردیا تھا۔اب کی بار شائد اے۔ایس۔پی صاحب کی ایڑ لگی تھی کہ نائب قاصد جلدی واپس آگیا، ہم خوش ہوئے کہ ہمارا نرم رو قاصد پیامِ زندگی لایا اور پیام یہ تھا کہ "صاحب نے صلوٰۃ التسبیح مکمل کرلی ہے، اب دُعا کررہے ہیں” بادی النظر میں سب کو اطمینان ہوا کہ عبادت کا مغز لیکن نماز کا آخری مرحلہ شروع آن پہنچا ہے لیکن اے۔ایس۔پی صاحب شائد ڈھیٹ مٹی کے تھے، اُٹھے "صاحب آ چُکیں تو مُجھے بتانا” فرمایا اُنہوں نے نائب قاصد سے اور چلے گئے۔ باقی سب لوگ بیٹھے تھے لیکن یہی قصہ کہ جو تری بزم میں بیٹھا سو پریشاں بیٹھا۔اب یہ کسی حکیم صاحب کے دواخانے کی انتظارگاہ یا خیبر میل کا ڈبہ تو تھا نہیں کہ انتظار کی کوفت سے بچنے کو ساتھ بیٹھے ہووں سے کوئی ہمدردی کی بات، مزاج پُرسی یا بچوں کے رشتوں میں درپیش رکاوٹوں کے حوالے سے باتیں ہی ہو جاتیں لیکن کیا کرتے،بس خموش بیٹھا کئے، سوچوں کے مشغلے میں۔۔۔
میں نے سوچا کہ صاحب دُعا تک آگئے ہیں تو پھر انتظار ختم سمجھیں کیونکہ دُعا عموماً بس ‘فارمیلٹی’ ہی ہوتی ہے نماز میں۔ آخر ہم بھی نوجوانی میں نمازیں پڑھا کرتے تھے۔ لیکن شائد مُجھے اندازہ نہ تھا کہ دُعا ‘فارمیلٹی’ نہیں ہوتی بلکہ جوانی جلد باز ہوتی ہے۔جب کچھ اور وقت گُذرا تو مُجھے بے چینی سی ہونے لگی۔” آخر اتنا بڑا افسر اتنی لمبی دُعائیں کیسے مانگ سکتا ہے ۔۔۔ یعنی اُسے کیا چاہیئے ہو سکتا ہےکہ اللہ میاں سے لمبی لمبی جرحیں کرے؟؟” میں نے خود کو تسلی بھی دی اور خود سے سوال کیا، جواب ملا "نہیں، افسر کی دُعا مختصر ہونی چاہیئے کیونکہ نوکری اُسے نہیں چاہیئے، بنگلے میں رہتا ہوگا، مرغِ مرغن کھاتا ہو گا، حج کی سعادت حاصل کرلی، دُختر کا فرض بھی یقیناً ادا کر لیا ہوگا، والدین کیلئے مغفرت مانگنا کوئی طویل پروسیجر نہیں۔۔۔ بلکہ آجکل تو اپنے پاس وقت نہ ہو تو کسی کو پیسے دیجے، اپنے ابا کی مغفرت کیلئے قرآن، نماز، نعت، کُچھ پڑھوا لیجئے۔ باقی رہی اولادکیلئے دُعا، تو افسروں کے ہاں عموماً ذیادہ سے ذیادہ دو بچے ہوتے ہیں اور دو بچوں کیلئے لمبی سے لمبی کیا دعا مانگی جاسکتی ہے۔ یعنی قصہ مختصر، افسران کے مطالبات کی فہرست مجھ ایسے کم مایہ آدمی کے محتاط اندازے کے مطابق ذیادہ سے ذیادہ پانچ منٹ کی دُعا "مار” ہوتی ہے۔لیکن جب یہ پانچ منٹ بھی طویل ہو گئے تو میرا دل ڈوبنے سا لگا کہ کہیں حاجی صاحب کوئی غریب اور پھانک افسر تو نہیں ہیں؟؟؟لیکن پھر خود کو تسلی دی کہ حاجی صاحبان غریب اور پھانک نہیں ہوتے ۔ اسکی دو وجوہ ہیں: ایک تو یہ ہے کہ اگر غریب ہوں تو حج ہی کیونکر کر پائیں، دوم، ماں کہتی ہےکہ اُس دَر سے جو کوئی ہو آتا ہے، دامن بھر بھر لاتا ہے۔۔۔ سو اس میں کوئی شک نہ رہا کہ آپ صاحب ثروت افسر ہیں۔
اگلے چند لمحے اسی اطمینان میں گذر گئے تو ماتحت افسر نے نائب قاصد کو پھر سے مسجد کی طرف دوڑا دیا۔ اب ماحول کا تناو اپنے عروج پر تھا جسے کم کرنے کیلئے قاصد کی غیر موجودگی میں ہیڈ کلرک صاحب ،افسر ماتحت سے مخاطب ہوئے "خُدا خوش رکھے بہت ہی نیک اور خُدا رسیدہ شخص ہیں حاجی صاحب” حاضرین منتظرین میں سرگوشیاں اور چہ مگوئیاں شروع ہونے لگیں تو نائب قاصد آدھمکا ۔ "سر، وہ دُعا پڑھ رہے ہیں ابھی تک” بتایا قاصد نے۔ "اُف خُدایا” اب کی بار میں سوچے بغیر نہ رہ سکا کہ حاجی و افسر موصوف کی دُعا کی طوالت کی وجہ کیا ہو سکتی ہے۔۔۔ بے چینی میں بے روزگار دیہاتی نوجوان کی طرف دیکھا، زیرِ عتاب سپاہی کی طرف دیکھا، کلرکوں کی افسردہ جانوں کو دیکھا، اپنی گریبان میں جھانک کر چاکِ بُنیان پہ نظر دوڑائی تو ایک خیال بجلی کے کوندے کی طرح ذہن میں لپکا "ہو نہ ہو ، صاحب کو اُمتِ مسلمہ کی عمومی حالت پہ کُڑھنے کا عارضہ لاحق ہے، بالیقین یہی وجہ ہے آپ کی طویل دُعاوں کی”میں نے دل میں فیصلہ صادر کردیا ۔اب مُجھے موڈ کی ناگواری ختم کرنے کا جواز فراہم ہو گیا۔سوچا کہ اگر ہمارا ہر افسر اُمتِ مُسلمہ اور مُلک و قوم کا اتنا درد رکھنے لگ جائے تو اس دیہاتی نوجوان کی طرح کون بے روزگار رہے، کس بوڑھے کی بیٹی نوکری سے معطل رہے ، کیوں کوئی کلرک اپنی کھڑکی کے باہر کھڑے شہریوں کی ناراضگی مول لے اور کون سا اے۔ایس۔پی خراب موڈ لے جا کر سپاہیوں پر برسے۔۔۔
مُجھے آج ریٹائرماسٹر ممتاز حُسین صاحب مرحوم و مغفور کی وہ بات سمجھ آئی جو اکثر لنگڑے نائی کی دُکان کے پھٹے پہ بیٹھ کر کہا کرتے تھے کہ اس ملک کو اللہ کا کرم اور ایک معجزہ چلا رہا ہے۔ سوچا کہ دیکھئے ،مسجد میں بیٹھ کارِ جہاں چلایا جائے تو یہ معجزہ نہیں تو اور کیا ہے۔۔۔ خیر، میں بندہء کمینہ کیا بات کروں اعجازِ خداوندی کی، تو ہم ذکر کررہے حاجی صاحب کے انتظار کا۔ وہ سعادت مند گھڑی آہی گئی جب ہمیں اس مردِ مومن کی زیارت نصیب ہوئی۔ نائب قاصد نے منادی کی ، ہم سب اپنی نشستوں سے اُٹھ کھڑے ہوئے، حاجی صاحب کی آمد ہوئی۔
آپ ہماری توقع کے برعکس چھوٹے سے قد کے لیکن توقع کے عین مطابق بارعب، نورانی چہرے والی شخصیت تھے۔ نظر کا چشمہ، چھوٹی چھوٹی سی ڈاڑھی جس میں کافی سے سفید بال ۔بہت پُر وقار قومی لباس، قیمتی گھڑی آپ کے تسبیح والے ہاتھ میں، سیاہ واسکٹ کے بٹنوں کی چمک کی چھوٹی سی توند سے ہماری توجہ ہٹا رہی تھی کہ یہ واسکٹ کے بالکل نیا ہونے کی علامت تھی ۔آپ کو دیکھ کر ایمان تازہ ہوا اور چہروں پر رونق آئی۔ لیکن یہ رونق تب تک قائم رہی جب تک آپ کے ورد کرتے ہوئے ہونٹ خموش رہے۔
آپ کا پہلا ارشاد ایک زاہدانہ سی ڈانٹ کی صورت میں اُس سپاہی پر نازل ہوا جو کہ بلا اجازت ان کے دفتر میں کھڑا تھا۔سپاہی ایک ہی جست میں بدک کر دفتر سے باہر ہوا تو روئے سُخن بزرگ ہیڈ کلرک کی طرف ہوا۔ہیڈ کلرک کی عرضِ مُدعا ابھی مکمل ہی نہ ہوئی تھی کہ حاجی صاحب کی ڈانٹ کا قُدسی کوڑا برسا اور ہیڈ کلرک صاحب خموشی سے فائل بغل میں دابے کھسک گئے۔اب کانسٹیبل لڑکی کے ابا جان کی باری آئی ، اُنہوں نے مُدعا بیان کرنا شروع کیا تو پہلے ہی جُملے کے درمیان ہی حاجی صاحب کے ہاتھ کے جلالت مآبانہ اشارے پر بزرگ خاموش ہوگئے۔ ہاتھ کے اشارے کا رُخ فدوی کی طرف ہوا ۔ میں نے اپنا کارڈ ڈرتے ڈرتے آگے بڑھایا ، ہاتھ کا اشارہ ہوا ،اسے دیکھے بغیر ایک طرف سرکا دیا گیا۔عرضِ مُدعا ہوئی، آپ کے کوتوالی لہجے میں کُچھ مزید عتاب شامل ہوا ، فرمان تھا کہ کام اُن کے محکمے کے متعلق ہی نہ ہے۔اگرچہ مُجھے اس انکار کی وجہ کا ادراک تھا لیکن کیا بحث کرتا کہ فدوی آپ کے پاس بلاوجہ نہیں آیا۔
جس کو ہو جان و دل عزیز،تیری گلی میں آئے کیوں
میرے بعد سیلابِ بلا اُس دیہاتی نوجوان کے گھر گیا، یعنی اُسے ڈانٹنے کے انداز میں اندر بُلا کر کہا گیا کہ باہر جا کے کھڑ اہو جائے وعلیٰ ہٰذالقیاس۔۔۔
میں نے دوبارہ بات کرنے کی کوشش کی تو صاحب نے اپنے پیش ہونے والی فائل سے نظریں ہٹا کر آتش بار نگاہوں سے مُجھے دیکھا اور نجانے کس قبولیت کا لمحہ تھا کہ آپ نے فائل لے کر اپنے ایک کلرک کی طرف اُچھال دی۔ لیجئے، یہی چند منٹ کاکام تو تھا، میں نے بصد شُکریہ سلام عرض کیا اور کھسک آیا وہاں سے۔سنتری بابُو سے اپنا شناختی کارڈ واپس لیتے ہوئے میں نے وقت کی کیفیت دیکھی تو علم ہوا کہ فقط ایک گھنٹہ اور پندرہ بیس منٹ سے اوپر ہی وقت لیا ہوگا صاحب کی نماز نے۔
واپس آئے تو اپنا دفتر بند ہونے کو تھا۔ پھر ہر کہانی کی طرح ہم اپنے گھر آئے اور ہنسی خوشی رہنے لگے۔۔۔
میں نے سوچا کہ صاحب دُعا تک آگئے ہیں تو پھر انتظار ختم سمجھیں کیونکہ دُعا عموماً بس ‘فارمیلٹی’ ہی ہوتی ہے نماز میں۔ آخر ہم بھی نوجوانی میں نمازیں پڑھا کرتے تھے۔ لیکن شائد مُجھے اندازہ نہ تھا کہ دُعا ‘فارمیلٹی’ نہیں ہوتی بلکہ جوانی جلد باز ہوتی ہے۔جب کچھ اور وقت گُذرا تو مُجھے بے چینی سی ہونے لگی۔” آخر اتنا بڑا افسر اتنی لمبی دُعائیں کیسے مانگ سکتا ہے ۔۔۔ یعنی اُسے کیا چاہیئے ہو سکتا ہےکہ اللہ میاں سے لمبی لمبی جرحیں کرے؟؟” میں نے خود کو تسلی بھی دی اور خود سے سوال کیا، جواب ملا "نہیں، افسر کی دُعا مختصر ہونی چاہیئے کیونکہ نوکری اُسے نہیں چاہیئے، بنگلے میں رہتا ہوگا، مرغِ مرغن کھاتا ہو گا، حج کی سعادت حاصل کرلی، دُختر کا فرض بھی یقیناً ادا کر لیا ہوگا، والدین کیلئے مغفرت مانگنا کوئی طویل پروسیجر نہیں۔۔۔ بلکہ آجکل تو اپنے پاس وقت نہ ہو تو کسی کو پیسے دیجے، اپنے ابا کی مغفرت کیلئے قرآن، نماز، نعت، کُچھ پڑھوا لیجئے۔ باقی رہی اولادکیلئے دُعا، تو افسروں کے ہاں عموماً ذیادہ سے ذیادہ دو بچے ہوتے ہیں اور دو بچوں کیلئے لمبی سے لمبی کیا دعا مانگی جاسکتی ہے۔ یعنی قصہ مختصر، افسران کے مطالبات کی فہرست مجھ ایسے کم مایہ آدمی کے محتاط اندازے کے مطابق ذیادہ سے ذیادہ پانچ منٹ کی دُعا "مار” ہوتی ہے۔لیکن جب یہ پانچ منٹ بھی طویل ہو گئے تو میرا دل ڈوبنے سا لگا کہ کہیں حاجی صاحب کوئی غریب اور پھانک افسر تو نہیں ہیں؟؟؟لیکن پھر خود کو تسلی دی کہ حاجی صاحبان غریب اور پھانک نہیں ہوتے ۔ اسکی دو وجوہ ہیں: ایک تو یہ ہے کہ اگر غریب ہوں تو حج ہی کیونکر کر پائیں، دوم، ماں کہتی ہےکہ اُس دَر سے جو کوئی ہو آتا ہے، دامن بھر بھر لاتا ہے۔۔۔ سو اس میں کوئی شک نہ رہا کہ آپ صاحب ثروت افسر ہیں۔
اگلے چند لمحے اسی اطمینان میں گذر گئے تو ماتحت افسر نے نائب قاصد کو پھر سے مسجد کی طرف دوڑا دیا۔ اب ماحول کا تناو اپنے عروج پر تھا جسے کم کرنے کیلئے قاصد کی غیر موجودگی میں ہیڈ کلرک صاحب ،افسر ماتحت سے مخاطب ہوئے "خُدا خوش رکھے بہت ہی نیک اور خُدا رسیدہ شخص ہیں حاجی صاحب” حاضرین منتظرین میں سرگوشیاں اور چہ مگوئیاں شروع ہونے لگیں تو نائب قاصد آدھمکا ۔ "سر، وہ دُعا پڑھ رہے ہیں ابھی تک” بتایا قاصد نے۔ "اُف خُدایا” اب کی بار میں سوچے بغیر نہ رہ سکا کہ حاجی و افسر موصوف کی دُعا کی طوالت کی وجہ کیا ہو سکتی ہے۔۔۔ بے چینی میں بے روزگار دیہاتی نوجوان کی طرف دیکھا، زیرِ عتاب سپاہی کی طرف دیکھا، کلرکوں کی افسردہ جانوں کو دیکھا، اپنی گریبان میں جھانک کر چاکِ بُنیان پہ نظر دوڑائی تو ایک خیال بجلی کے کوندے کی طرح ذہن میں لپکا "ہو نہ ہو ، صاحب کو اُمتِ مسلمہ کی عمومی حالت پہ کُڑھنے کا عارضہ لاحق ہے، بالیقین یہی وجہ ہے آپ کی طویل دُعاوں کی”میں نے دل میں فیصلہ صادر کردیا ۔اب مُجھے موڈ کی ناگواری ختم کرنے کا جواز فراہم ہو گیا۔سوچا کہ اگر ہمارا ہر افسر اُمتِ مُسلمہ اور مُلک و قوم کا اتنا درد رکھنے لگ جائے تو اس دیہاتی نوجوان کی طرح کون بے روزگار رہے، کس بوڑھے کی بیٹی نوکری سے معطل رہے ، کیوں کوئی کلرک اپنی کھڑکی کے باہر کھڑے شہریوں کی ناراضگی مول لے اور کون سا اے۔ایس۔پی خراب موڈ لے جا کر سپاہیوں پر برسے۔۔۔
مُجھے آج ریٹائرماسٹر ممتاز حُسین صاحب مرحوم و مغفور کی وہ بات سمجھ آئی جو اکثر لنگڑے نائی کی دُکان کے پھٹے پہ بیٹھ کر کہا کرتے تھے کہ اس ملک کو اللہ کا کرم اور ایک معجزہ چلا رہا ہے۔ سوچا کہ دیکھئے ،مسجد میں بیٹھ کارِ جہاں چلایا جائے تو یہ معجزہ نہیں تو اور کیا ہے۔۔۔ خیر، میں بندہء کمینہ کیا بات کروں اعجازِ خداوندی کی، تو ہم ذکر کررہے حاجی صاحب کے انتظار کا۔ وہ سعادت مند گھڑی آہی گئی جب ہمیں اس مردِ مومن کی زیارت نصیب ہوئی۔ نائب قاصد نے منادی کی ، ہم سب اپنی نشستوں سے اُٹھ کھڑے ہوئے، حاجی صاحب کی آمد ہوئی۔
آپ ہماری توقع کے برعکس چھوٹے سے قد کے لیکن توقع کے عین مطابق بارعب، نورانی چہرے والی شخصیت تھے۔ نظر کا چشمہ، چھوٹی چھوٹی سی ڈاڑھی جس میں کافی سے سفید بال ۔بہت پُر وقار قومی لباس، قیمتی گھڑی آپ کے تسبیح والے ہاتھ میں، سیاہ واسکٹ کے بٹنوں کی چمک کی چھوٹی سی توند سے ہماری توجہ ہٹا رہی تھی کہ یہ واسکٹ کے بالکل نیا ہونے کی علامت تھی ۔آپ کو دیکھ کر ایمان تازہ ہوا اور چہروں پر رونق آئی۔ لیکن یہ رونق تب تک قائم رہی جب تک آپ کے ورد کرتے ہوئے ہونٹ خموش رہے۔
آپ کا پہلا ارشاد ایک زاہدانہ سی ڈانٹ کی صورت میں اُس سپاہی پر نازل ہوا جو کہ بلا اجازت ان کے دفتر میں کھڑا تھا۔سپاہی ایک ہی جست میں بدک کر دفتر سے باہر ہوا تو روئے سُخن بزرگ ہیڈ کلرک کی طرف ہوا۔ہیڈ کلرک کی عرضِ مُدعا ابھی مکمل ہی نہ ہوئی تھی کہ حاجی صاحب کی ڈانٹ کا قُدسی کوڑا برسا اور ہیڈ کلرک صاحب خموشی سے فائل بغل میں دابے کھسک گئے۔اب کانسٹیبل لڑکی کے ابا جان کی باری آئی ، اُنہوں نے مُدعا بیان کرنا شروع کیا تو پہلے ہی جُملے کے درمیان ہی حاجی صاحب کے ہاتھ کے جلالت مآبانہ اشارے پر بزرگ خاموش ہوگئے۔ ہاتھ کے اشارے کا رُخ فدوی کی طرف ہوا ۔ میں نے اپنا کارڈ ڈرتے ڈرتے آگے بڑھایا ، ہاتھ کا اشارہ ہوا ،اسے دیکھے بغیر ایک طرف سرکا دیا گیا۔عرضِ مُدعا ہوئی، آپ کے کوتوالی لہجے میں کُچھ مزید عتاب شامل ہوا ، فرمان تھا کہ کام اُن کے محکمے کے متعلق ہی نہ ہے۔اگرچہ مُجھے اس انکار کی وجہ کا ادراک تھا لیکن کیا بحث کرتا کہ فدوی آپ کے پاس بلاوجہ نہیں آیا۔
جس کو ہو جان و دل عزیز،تیری گلی میں آئے کیوں
میرے بعد سیلابِ بلا اُس دیہاتی نوجوان کے گھر گیا، یعنی اُسے ڈانٹنے کے انداز میں اندر بُلا کر کہا گیا کہ باہر جا کے کھڑ اہو جائے وعلیٰ ہٰذالقیاس۔۔۔
میں نے دوبارہ بات کرنے کی کوشش کی تو صاحب نے اپنے پیش ہونے والی فائل سے نظریں ہٹا کر آتش بار نگاہوں سے مُجھے دیکھا اور نجانے کس قبولیت کا لمحہ تھا کہ آپ نے فائل لے کر اپنے ایک کلرک کی طرف اُچھال دی۔ لیجئے، یہی چند منٹ کاکام تو تھا، میں نے بصد شُکریہ سلام عرض کیا اور کھسک آیا وہاں سے۔سنتری بابُو سے اپنا شناختی کارڈ واپس لیتے ہوئے میں نے وقت کی کیفیت دیکھی تو علم ہوا کہ فقط ایک گھنٹہ اور پندرہ بیس منٹ سے اوپر ہی وقت لیا ہوگا صاحب کی نماز نے۔
واپس آئے تو اپنا دفتر بند ہونے کو تھا۔ پھر ہر کہانی کی طرح ہم اپنے گھر آئے اور ہنسی خوشی رہنے لگے۔۔۔
MASHALLHA BOHAT HE KOOOOOOOOOOOOOOOOB AUR HAL LEKHA HE JI