عرب خطے میں جاری شورش کے فرقہ وارانہ اور سیاسی رحجانات کے تناظر میں لکھا گیا این بلیک کا یہ مضمون دی گارڈین اخبار کی ویب سائٹ پر 5 اپریل 2015 کو شائع کیا گیا تھا۔
عرب خطے میں ایک زمانے تک کسی عرب سے اس کاعقیدہ یا مسلک پوچھنا نامناسب خیال کیا جاتا تھا، اگرچہ اس کے نام، لہجے، جائے رہائش ،عبادت گاہ یا دیوار پر آویزاں تصاویر سے اس کا سنی، شیعہ یا عیسائی العقیدہ ہونا عیاں ہو۔نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد کے ایام تفاخر میں تمام تر توجہ ایک مشترکہ عرب اور قومی شناخت کی تشکیل پر تھی۔ سنی، علوی، دروز اور کئی عیسائی قومیتوں پر مشتمل شام "عرب قومیت کادھڑکتا دل”بن کر نمایاں ہوا،حتی کہ لبنان میں بھی جہاں شراکت اقتدار کی بنیاد مسلک پر تھی عقیدہ ایک نجی معاملہ تھا۔ عرب خطے میں بین المسالک شادیاں عام تھیں۔دمشق اور بغداد میں حکومت کرنے والی جماعت بعث پارٹی کی بنیاد ایک عیسائی عرب قومیت پرست مشیل عفلق نے رکھی، دو اہم فلسطینی انقلابی رہنما جارج حبش اور نایف حواتمہ سمیت عرب قوم پرستی کے مورخ جارج انطونیوس بھی عیسائی تھے۔
شام میں گزشتہ چار برس سے جاری خونریز جنگ میں علویوں کو بحیثیت مجموعی بشارالاسد کا طرفدار جبکہ حزب مخالف کو سنی العقیدہ قرار دینے سے بھی فرقہ وارانہ جذبات کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔
شیعہ اکثریت، سنی اقلیت اورکردوں پر مبنی عثمانی خلافت کے ایک صوبے پر مشتمل برطانیہ کا تشکیل دیا غریب، دیہی عراق جہاں سنی صدام حسین نے سب گروہوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش میں سبھی پر جبر کیا۔اس صورت حال میں تبدیلی 1979میں ایران کے اسلامی انقلاب سے آئی جس سے مشرق وسطی کی تاریخ پرشدید اثرات مرتب ہوئے اور پورے عرب خطے میں پسماندہ رہ جانے والے شیعہ مسلمانوں کو تقویت اور مہمیز ملی۔1980 میں صدام حسین کی ایران کے خلاف جارحیت کو سنی عرب اور خلیجی ریاستوں کی مالی معاونت حاصل رہی اور اسے عرب اور عجم کی جنگ قرار دیا گیا۔ 2003 میں صدام حکومت کے خاتمے کا جشن منانے والے شیعہ مسلمانوں نے اس واقعے کو 680ء میں سنی امویوں کے ہاتھوں امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے تناظر میں دیکھا۔
اگرچہ فرقہ بندی مذہبی اختلافات کی مظہر ہے اور "غیریت” کی بنیاد ہے لیکن یہ ہمیشہ طاقت، وسائل اور علاقائی اقتدارسے جڑی رہی ہے۔ بحرین کی سنی العقیدہ بادشاہت اقتدار اور نظام حکومت میں اپنے جائز حصے سے محروم شیعہ اکثریت کی مزاحمت کو ہمیشہ تہران کی پشت پناہی کی پیداوار قرار دیتی آئی ہے۔ سعودی عرب بھی اسی طرح اپنے شرقی حصوںمیں شیعہ اقلیت کی جدوجہد کو ایرانی سازش قرار دیتا آیا ہے۔ بحرین اور سعودی عرب دونوں جگہ مقامی سیاسی مسائل کو چھپانے کے لیےفرقہ وارانہ رنگ دیا گیاہے۔
اگرچہ فرقہ بندی مذہبی اختلافات کی مظہر ہے اور "غیریت” کی بنیاد ہے لیکن یہ ہمیشہ طاقت، وسائل اور علاقائی اقتدارسے جڑی رہی ہے۔ بحرین کی سنی العقیدہ بادشاہت اقتدار اور نظام حکومت میں اپنے جائز حصے سے محروم شیعہ اکثریت کی مزاحمت کو ہمیشہ تہران کی پشت پناہی کی پیداوار قرار دیتی آئی ہے۔ سعودی عرب بھی اسی طرح اپنے شرقی حصوںمیں شیعہ اقلیت کی جدوجہد کو ایرانی سازش قرار دیتا آیا ہے۔ بحرین اور سعودی عرب دونوں جگہ مقامی سیاسی مسائل کو چھپانے کے لیےفرقہ وارانہ رنگ دیا گیاہے۔
دولت اسلامیہ کے خلیفہ ابوبکر بغدادی نے اسامہ بن لادن کے جانشین ایمن الظواہری کی جانب سے اہل تشیع کے بے دریغ قتل عام کی بجائے عراق اور شام کی شیعہ نواز اورصفوی حکومتوں پر حملے کرنے کی استدعا کو نظر انداز کیاہے۔
شام میں گزشتہ چار برس سے جاری خونریز جنگ میں علویوں کو بحیثیت مجموعی بشارالاسد کا طرفدار جبکہ حزب مخالف کو سنی العقیدہ قرار دینے سے بھی فرقہ وارانہ جذبات کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ بشارالاسد کو ایرانی حمایت یافتہ شیعہ عسکری تنظیم حزب اللہ کی حمایت ملنےسے بھی اس تاثر میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن یہ بھی درست ہے کہ فرقوں کےمابین بھی تنازعات موجود ہیں اور ایسےتنازعات بھی ہیں جہاں مسئلہ مذہبی شناخت سے بالاتر ہے۔
سعودی عرب اور کویت میں مقیم سنی شدت پسند مبلغین مخصوص وہابی اندازبیان کے مطابق اہل تشیع کی تضحیک انہیں "بت پرست” کہہ کرکرتے ہیں۔ ایرانیوں کی ہتک کے لیے انہیں سولہویں صدی کی ایرانی صفوی بادشاہت کے حوالے سے”صفوی” بھی پکارا جاتا ہے۔ بنیاد پرست جہادی اپنے تکفیری نظریات کی بنا پر (ایسے) "کفار” کا قتل جائز سمجھتے ہیں۔
اپنے عروج کے زمانے میں القاعدہ اپنے "دورافتادہ” دشمنوں خصوصاً امریکہ کو ہدف بناتی رہی لیکن دولت اسلامیہ نے رد تشیع کو اپنے زہریلے نظریات میں بنیادی حیثیت دی ہے۔ دولت اسلامیہ کے خلیفہ ابوبکر بغدادی نے اسامہ بن لادن کے جانشین ایمن الظواہری کی جانب سے اہل تشیع کے بے دریغ قتل عام کی بجائے عراق اور شام کی شیعہ نواز اورصفوی حکومتوں پر حملے کرنے کی استدعا کو نظر انداز کیاہے۔ بااثر سنی عالم یوسف القرضاوی نے الجزیرہ ٹی وی پر حزب اللہ کے حسن نصراللہ کو حزب الشیطان کا سربراہ قرار دیا تھا۔
فرقہ واریت نے گزشتہ چند برس کے دوران جڑ پکڑ لی ہے لیکن اس امر میں بہت سے لوگوں کی کوششوں کا حصہ ہے، خاص طور پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس نے عدم برداشت پر مبنی زہریلا پراپیگنڈا پھیلانا خاصا آسان کردیا ہے۔ اس کے باوجود فرقہ واریت مشرق وسطی میں تنازعات کی بنیادی وجہ نہیں۔ شیعہ اسلام سے وابستہ ہونے کے باوجود زیدی فرقے کے حوثی باغی یمن کے شدت اختیار کرتے بحران میں اپنے ملک کی سنی اکثریت کے قریب ہیں۔ سعودی مداخلت کے باعث حوثی باغیوں کو ایران سے حاصل ہونے والی مدد محض اتحادیوں کے حصول اور اپنی طاقت کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے۔
امریکی دانشور اور مشرق وسطی کے مبصر”ہوان کول” کے مطابق یہ کہنا کہ ایران حوثی باغیوں کی مدد مذہبی بنیادوں پر کر رہاہے ایسا ہی ہے جیسے "یہ مان لیا جائے کہ سکاٹش پریسبیٹیرین ہمیشہ جنوبی بپٹسٹ عیسائیوں کی مدد کریں گے کیوں کہ دونوں پروٹسٹنٹ مسلک سے ہیں۔ ” یمن تنازعہ کافرقہ وارانہ انگ شیعہ سنی مخاصمت کی بجائے اس خطے کے سیاسی اور جغرافیائی سیاق و سباق کے باعث ہے۔ مصر کی واضح طور پر سنی العقیدہ آبادی کے باوجود2011 کے انقلاب اور اس کے استبدادی اور متنازعہ نتائج کے باعث قبطی عیسائی اقلیت کو شدت پسندوں کی طرف سے سابق حکومت کا حمایتی قرار دے کر نشانہ بنایا جانا بھی( اسی نوعیت کی )ایک مثال ہے۔
سعودی عرب اور کویت میں مقیم سنی شدت پسند مبلغین مخصوص وہابی اندازبیان کے مطابق اہل تشیع کی تضحیک انہیں "بت پرست” کہہ کرکرتے ہیں۔ ایرانیوں کی ہتک کے لیے انہیں سولہویں صدی کی ایرانی صفوی بادشاہت کے حوالے سے”صفوی” بھی پکارا جاتا ہے۔ بنیاد پرست جہادی اپنے تکفیری نظریات کی بنا پر (ایسے) "کفار” کا قتل جائز سمجھتے ہیں۔
اپنے عروج کے زمانے میں القاعدہ اپنے "دورافتادہ” دشمنوں خصوصاً امریکہ کو ہدف بناتی رہی لیکن دولت اسلامیہ نے رد تشیع کو اپنے زہریلے نظریات میں بنیادی حیثیت دی ہے۔ دولت اسلامیہ کے خلیفہ ابوبکر بغدادی نے اسامہ بن لادن کے جانشین ایمن الظواہری کی جانب سے اہل تشیع کے بے دریغ قتل عام کی بجائے عراق اور شام کی شیعہ نواز اورصفوی حکومتوں پر حملے کرنے کی استدعا کو نظر انداز کیاہے۔ بااثر سنی عالم یوسف القرضاوی نے الجزیرہ ٹی وی پر حزب اللہ کے حسن نصراللہ کو حزب الشیطان کا سربراہ قرار دیا تھا۔
فرقہ واریت نے گزشتہ چند برس کے دوران جڑ پکڑ لی ہے لیکن اس امر میں بہت سے لوگوں کی کوششوں کا حصہ ہے، خاص طور پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس نے عدم برداشت پر مبنی زہریلا پراپیگنڈا پھیلانا خاصا آسان کردیا ہے۔ اس کے باوجود فرقہ واریت مشرق وسطی میں تنازعات کی بنیادی وجہ نہیں۔ شیعہ اسلام سے وابستہ ہونے کے باوجود زیدی فرقے کے حوثی باغی یمن کے شدت اختیار کرتے بحران میں اپنے ملک کی سنی اکثریت کے قریب ہیں۔ سعودی مداخلت کے باعث حوثی باغیوں کو ایران سے حاصل ہونے والی مدد محض اتحادیوں کے حصول اور اپنی طاقت کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے۔
امریکی دانشور اور مشرق وسطی کے مبصر”ہوان کول” کے مطابق یہ کہنا کہ ایران حوثی باغیوں کی مدد مذہبی بنیادوں پر کر رہاہے ایسا ہی ہے جیسے "یہ مان لیا جائے کہ سکاٹش پریسبیٹیرین ہمیشہ جنوبی بپٹسٹ عیسائیوں کی مدد کریں گے کیوں کہ دونوں پروٹسٹنٹ مسلک سے ہیں۔ ” یمن تنازعہ کافرقہ وارانہ انگ شیعہ سنی مخاصمت کی بجائے اس خطے کے سیاسی اور جغرافیائی سیاق و سباق کے باعث ہے۔ مصر کی واضح طور پر سنی العقیدہ آبادی کے باوجود2011 کے انقلاب اور اس کے استبدادی اور متنازعہ نتائج کے باعث قبطی عیسائی اقلیت کو شدت پسندوں کی طرف سے سابق حکومت کا حمایتی قرار دے کر نشانہ بنایا جانا بھی( اسی نوعیت کی )ایک مثال ہے۔
عربوں کا ہر گروہ اپنی مذہبی یا علاقائی شناخت کی بنیاد پر دوسرے عرب گروہوں سے ایک ایسی بے مصرف جنگ لڑ رہا ہے جس میں سب کی ہار یقینی ہے
مغرب(شمالی افریقہ) میں جہاں تیونسی انقلاب کے دوران عرب بہار کا آغاز ہوا تھا ؛شامی خانہ جنگی اور دولت اسلامیہ کے ظہور کے باعث شدت پسندی میں اضافے کے باوجود فرقہ وارنہ مسائل موجودنہیں ہیں۔ لیبیا، مراکش اور الجیریا کو(مختلف العقیدہ) بربر قوم کے حقوق سے متعلق مسائل کا سامنا ضرور ہے تاہم یہ کسی بحران کا باعث نہیں بن پائے۔
یہ یاد رکھنا اہم ہے کہ ہر جگہ بہار عرب کا آغاز کسی بھی مذہب، عقیدے یا مسلک کے برعکس سیکولر اصلاحات کے مطالبے کے تحت ہوا تھا، جیسا کہ طلال سلمان نے لبنانی اخبارالسفیر میں لکھا،”کسی بھی قبیلے، خاندان، عقیدے یا مسلک سے قبل تمام شہریوں نے "احترام” کا مطالبہ کیا۔ ” وہ لکھتے ہیں کہ "(بہار عرب کے نتیجے میں) انتقال اقتدار کے باوجود بھی حالات جوں کے توں رہنے کے باعث وقت کے ساتھ فرقہ وارانہ رحجانات واضح ہونا شروع ہو گئے اورزیادہ تر لوگوں نے خود کو سیاسی خطوط پر منظم کرنے کی بجائے قبائلی اور مذہبی وابستگی کو شناخت بنانا شروع کر دیا۔”
طلال سلمان کے مطابق "آج عرب بیک وقت بھائی بھی ہیں اور دشمن بھی، عربوں کا ہر گروہ اپنی مذہبی یا علاقائی شناخت کی بنیاد پر دوسرے عرب گروہوں سے ایک ایسی بے مصرف جنگ لڑ رہا ہے جس میں سب کی ہار یقینی ہے۔۔۔مختصراً مشترکہ عرب قوم پرستی کا خاتمہ بھائیوں کے درمیان ایک ایسی خانہ جنگی کا نقطہ آغاز ثابت ہو گا جس سے متعلق کوئی نہیں جانتا کہ اس کا اختتام کب اور کیوں کر ہوگا ۔”
یہ یاد رکھنا اہم ہے کہ ہر جگہ بہار عرب کا آغاز کسی بھی مذہب، عقیدے یا مسلک کے برعکس سیکولر اصلاحات کے مطالبے کے تحت ہوا تھا، جیسا کہ طلال سلمان نے لبنانی اخبارالسفیر میں لکھا،”کسی بھی قبیلے، خاندان، عقیدے یا مسلک سے قبل تمام شہریوں نے "احترام” کا مطالبہ کیا۔ ” وہ لکھتے ہیں کہ "(بہار عرب کے نتیجے میں) انتقال اقتدار کے باوجود بھی حالات جوں کے توں رہنے کے باعث وقت کے ساتھ فرقہ وارانہ رحجانات واضح ہونا شروع ہو گئے اورزیادہ تر لوگوں نے خود کو سیاسی خطوط پر منظم کرنے کی بجائے قبائلی اور مذہبی وابستگی کو شناخت بنانا شروع کر دیا۔”
طلال سلمان کے مطابق "آج عرب بیک وقت بھائی بھی ہیں اور دشمن بھی، عربوں کا ہر گروہ اپنی مذہبی یا علاقائی شناخت کی بنیاد پر دوسرے عرب گروہوں سے ایک ایسی بے مصرف جنگ لڑ رہا ہے جس میں سب کی ہار یقینی ہے۔۔۔مختصراً مشترکہ عرب قوم پرستی کا خاتمہ بھائیوں کے درمیان ایک ایسی خانہ جنگی کا نقطہ آغاز ثابت ہو گا جس سے متعلق کوئی نہیں جانتا کہ اس کا اختتام کب اور کیوں کر ہوگا ۔”
Leave a Reply