Laaltain

شکست

17 دسمبر، 2016
یہ ان دنوں کی بات ہے جب عراق کا ماحول تیسری دنیا کے اکثر لوگوں کے لیے ملازمت کے حوالے سے سازگار تھا۔ بالخصوص یہاں تیل صاف کرنے والی ریفائنریاں کئی پاکستانیوں، ہندستانیوں اور بنگالیوں کے لیے پرکشش روزگار تھیں۔ ان نوکریوں کی برکت سے آئل ریفائنریوں پر جہاں پرسکون حالات میں شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پی رہے تھے وہاں ‘کے ایل کے’ آئل ریفائنری پر ایک پاکستانی اور ایک بھارتی بھی اسی طرح دوستانہ ماحول میں ملازمت کر رہے تھے۔ بھارت سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ لیفٹننٹ کرنل گورنگ تھاپا یہاں سیکیورٹی انچارج تھے جبکہ کمپنی کے کارگو اور کورئیر پائلٹ شاہد لغاری، پاکستانی فضائیہ کے سابق اسکوارڈرن لیڈر تھے اور کمپنی میں نئے آئے تھے۔ لغاری ہمیشہ تھاپا سے عزت سے پیش آتا تھا جبکہ تھاپا کا رویہ بھی لغاری سے مشفقانہ تھا۔ لیکن رسمی سلام سلیک اور پیشہ ورانہ امور کے سوا انہیں کبھی مل بیٹھتے یا گھلتے ملتے نہ دیکھا گیا تھا۔

 

ایک شام دن بھر کے کام کے بعد لغاری نے ہیلی کاپٹر عملے کے حوالے کیا اور واپس اپنے رہائشی فلیٹ کی طرف جا رہا تھا کہ کرنل تھاپا کا پیغام ملا کہ شام کا کھانا ان کے ہاں کھائے، کچھ اور لوگ بھی مدعو ہیں۔ لغاری بلا توقف تھاپا کے فلیٹ پہنچا جہاں وہ اپنی بیوی کے ساتھ رہ رہے تھے۔ مسز تھاپا ایک ملنسار اور مہمان نواز گورکھا خاتون تھیں اور وہ اکثر اوقات کرنل تھاپا کے رفقائے کار کو کھانے پہ مدعو کرتی رہتی تھیں۔ یہ پہلا موقع تھا جب انہوں نے خصوصی طور پر لغاری کو بھی مدعو کیا تھا۔ کھانے سے پہلے مے نوشی کا دور چلا تو وہاں موجود پانچوں مہمانوں ـ اور میزبان ـ نے اپنی اپنی بساط یا مزاج کے مطابق جرعہ بہ جرعہ چسکیاں لے کر پینا شروع کر دیا۔ ساتھ ہی دیر تک گپ شپ کا دور چلا اور کھانا تو کہیں رات گئے کھایا۔

 

“لغاری! تم کرنل صاحب سے بڑا کھچے کھچے رہتے ہو، یار وہ تو بڑی مہربان ہستی ہیں!” انجنیئر ملک نے حسب عادت چہلیں کرنا شروع کر دیں۔ ملک بھی پاکستان سے تھا اور زیادہ ہی بے تکلف اور بے تکی گپ ہانکتا تھا۔ “یار ختم کرو یہ انڈو پاک دشمنی!!” ملک نے لغاری کے تاثرات دیکھے یا جواب سنے بغیر اگلا جملہ بھی داغ دیا۔ اس بات پر لغاری قہقہہ لگا کر ہنسا اور کچھ کہنے کے لیے تیار ہوا ہی تھا کہ کرنل تھاپا نے مصنوعی ناگواری کے ساتھ، مگر مسکراتے ہوئے ملک کو مخاطب کیا۔ “شٹ اپ ملک!” جس پر کمرے میں قہقہہ بلند ہو کر بھنبھناہٹ سے بدل گیا۔ سب کو معلوم تھا کہ ملک فقط چھیڑ کر رہا تھا۔ “نہیں سر، تھاپا صاحب ہمارے بڑے بھائے ہیں۔۔۔ میں ان کا احترام کرتا ہوں” لغاری نے گلا صاف کرتے ہوئے کہا۔ “یا پھر یہ وجہ ہے لغاری، کہ کرنل صاحب اکہتر کے ویٹرن ہیں، ہاہاہا، صرف پینسٹھ کے ہی ہوتے تو کوئی بات تھی۔۔۔” ملک نے شوخی سے کہہ کر کرنل صاحب کو آنکھ مار دی۔ جس پر کرنل صاحب کے سوا سب قہقہہ لگا کر ہنس پڑے۔ کرنل تھاپا کے چہرے پر خلاف توقع گھمبیر قسم کی ناگواری طاری ہو گئی اور لغاری، جسے کھسیانا ہونا چاہیے تھا، ایک کشادہ قہقہے کے بعد بھی اپنے وہسکی کے گلاس پہ جھکا ہنس رہا تھا اور اس کی گھنی مونچھیں تھرتھرا رہی تھیں۔

 

جبک کرنل تھاپا بدستور خاموش رہے تو سب کے چہروں پر سنجیدگی طاری ہو گئی۔

 

“ملک۔ بات سنو!” کرنل تھاپا نے اپنے سفید بالوں کو سہلاتے ہوئے ملک کو سنجیدگی سے مخاطب کیا، تمام حاضرین ہمہ تن گوش ہو گئے۔ کرنل تھاپا نسلاً گورکھا تھے لیکن دلّی میں پلے بڑھے تھے اور بڑی شستہ اردو بولتے تھے۔ کرنل صاحب نے غٹاغٹ اپنا اسکاچ وہسکی کا پیگ ختم کیا اور صوفے پر یوں جمے گویا کوئی لمبی بات کرنے والے ہیں۔ “لغاری۔۔۔ ملک۔۔ سلیمی صاحب۔۔۔ وکرم بابو!۔۔۔ تم سب لوگوں کو پتہ تو ہے ناں کہ مجھے اکہتر کی جنگ میں ویر چکرا کا اعزاز ملا۔۔۔ تمہارے پاکستانیوں کے؟؟” کرنل تھاپا نے سوالیہ نظروں سے لغاری کو دیکھا “ستارۂ جرٲت کے برابر سر۔۔۔” لغاری نے لقمہ دیا۔
“ہاں! پاکستانیوں کے ستارۂ جرٲت کے برابر تمغہ۔۔۔ ویر چکرا، مجھے ملا۔۔۔ دلیری کا تمغہ۔۔۔” کرنل تھاپا کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔ “لیکن!!!” کرنل صاحب کے اس اضافے پر سب نے انہیں سوالیہ نظروں سے دیکھا، لغاری چونکا۔

 

“یہ جو جنگ ہوتی ہے ناں۔۔۔ ایک قوم جیت جانے کا دعوی کرتی ہے۔۔۔ یا یوں کہہ لو کہ جیت جاتی ہے، ایک قوم ہار جاتی ہے لیکن سپاہی۔۔۔ سپاہی ہمیشہ شکست سے دوچار ہوتا ہے۔۔۔ شکست فارسی زبان کا لفظ ہے شاید۔۔۔ اس کا مطلب ‘Defeat’ ہی نہیں، Breakage بھی ہے، Damage۔۔۔ سپاہی کے حصے میں Breakage اور Damage ہی آتا ہے، روحانی اور ذہنی توڑ پھوڑ۔۔۔” کرنل تھاپا رک گئے، جیسے اپنی بات ختم کر چکے ہوں۔ لغاری ان کی رواں اور صاف اردو پر تحیّر ملی تحسین سے انہیں دیکھنے لگا۔ کرنل تھاپا نے وہسکی کا ایک اور پیگ لنڈھایا اور جھٹکے سے سیدھے ہو کر بیٹھے۔

 

“Boys! Let me tell you a story… I have a story…”

 

کرنل تھاپا نے بھنویں تن کر مربیانہ انداز میں کہا تو سب نے گویا آنکھوں ہی آنکھوں میں “ہم ہمہ تن گوش ہیں” کہا۔

 

۔۔۔ جب ہم ایسٹ پاکستان کے بارڈر سے کافی اندر تک چلے گئے۔۔۔ پاکستان کی طرف سے اعلان جنگ سے کئی ہفتے پہلے کی بات ہے۔۔۔ میں تب جیونیئر سا کیپٹن تھا۔ ہماری گورکھا پلٹن تھی اور یہ پینسٹھ میں ـــ مجھے مان لینا چاہیے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ـــ پاکستان کی 18 پنجاب رجمنٹ کے ہاتھوں شدید قسم کی مار کھا چکی تھی۔ اب کی بار ہم نے پکا ارادہ کر لیا تھا کہ 18 پنجاب سے پینسٹھ والی ذلت کا بدلہ ضرور لیں گے اور ہمارے ایجوٹنٹ کیپٹن دلبر سنگھ نے تو باقاعدہ قسم کھائی تھی کہ وہ بدلا لیے بغیر واپس نہیں جائے گا کیونکہ وہ پینسٹھ میں سیکنڈ لفٹین تھا اور کبھی اس قصے کو بھولنے کی پوزیشن میں نہیں رہا تھا۔ دلبر سنگھ بہت بدزبان لیکن دلیر آدمی تھا اور اپنا بڈی تھا۔ ادھر ہمارے سی۔او کرنل بِیجُو تھاپا بھی بڑی جی دار آدمی تھے، اصلی گورکھا! وہ بھی سنجیدگی سے پرانا داغ دھونا چاہتے تھے۔

 

“ایسٹ پاکستان میں ہمیں ایسٹ پاکستان رائفلز کے سپاہیوں اور بنگالی دیہاتیوں نے کافی سپورٹ کیا۔ پاکستان آرمی کے ایک بنگالی افسر نے تو ہمیں انتہائی ایکوریٹ لوکیشنیں دیں لیکن 18 پنجاب سے کوئی واسطہ نہیں پڑ رہا تھا۔ باقاعدہ جنگ تو نہیں ہو رہی تھی، ہم نے بہت سی چھاپے مار کارروائیاں کروائیں، باہنی کے ساتھ، کچھ کمپنی لیول کے آپریشن بھی کیے۔ ہمارا مورال بہت بلند تھا۔ ایک رات ہم کمانڈ پوسٹ والے ٹینٹ میں بیٹھے تھے کہ ایک پاکستانی وائرلیس کے ساتھ ہماری فریکوئنسی مل گئی۔ دلبر سنگھ جو پاکستانیوں کے لیے نفرت سے بھرا ہوا تھا، جھٹ بول اٹھا؛
“اوئے پاکستانیو! مادر جاتو! سویلین بنگالیوں اور بنگالنوں پہ مردانگی کی پریکٹس کر رہے ہو، ادھر میدان میں آؤ، گورکھا پلٹن سے لڑو!!” دلبر سنگھ کافی زور سے للکارا۔ جواب بھی اتفاقاً کسی پاکستانی افسر سے ہی آیا۔

 

“Shut up and lick your god monkey’s butts… before you lick your wounds..! Over and all!!!”

 

پاکستانی افسر کا لہجہ بھی نفرت سے بھرا تھا لیکن وہ آہستہ سے بول رہا تھا۔

 

“اوئے رانی خاں کے سالے! اٹھارہ پنجاب والوں کو بتا دینا کہ اگر تمہاری گـــــ میں ہوائی اڈا نہ بنا دوں تو میرا نام بدل ڈالنا”۔ اب کی بار دلبر سنگھ نے انتہائی احمقانہ بات کہہ دی۔ لیکن پاکستانی افسر نے واضح طور پر ہنستے ہوئے جواب دیا اور ہمیں چونکا دیا؛

 

“Roger, its eighteen Punjab! Your name please, so that we can change it later…”

 

اس پر تو دلبر سنگھ باقاعدہ چلا اٹھا۔ “تیری بہن کا خصم دلبر سنگھ!” خیر گزری کہ اسی لمحے سی او صاحب ٹینٹ میں آ گئے اور سختی سے وائرلیس سیٹ دلبر سنگھ کے ہاتھ سے چھین لیا اور اسے خوب لتاڑا۔ دلبر سنگھ کو بریگیڈ ہیڈ کوارٹر میں پیشی بھی بھگتنا پڑی جہاں یہ مکالمہ سنا گیا تھا۔ فریکؤنسیاں تو آخر تک بدلتی رہیں البتہ ہمیں اندازہ ہو گیا کہ دشمن کہاں اور کس فارمیشن کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ اسی دوران ہم نے ذیادہ تر باہنی کی سپورٹ کے آپریشن کیے۔ دو ایک جگہوں پر بنگالی دیہاتیوں کو پاکستانی فوج کی لوٹ مار اور مار دھاڑ سے بچانے کے لیے بھی گئے لیکن کوئی خاص کامیابی نہ ہوئی، وہ دیہات ذیادہ تر خالی ہی تھےـــ Deserted۔۔۔
“پاکستان کے اعلان جنگ کے بعد کہیں ہماری بٹالین کی سطح کی پہلی لڑائی ہوئی، یہ کوئی پٹھان کمپنی تھی پاکستانی فوج کی۔ جگہ بے حد مشکل تھی۔ دھان کے کھیت تھے شاید، کناروں پر بانسوں کا جنگل تھا اور وہ لوگ ڈیفنسو پوزیشنوں میں تھے جبکہ موسم بھی سخت خراب تھا۔ ہم نے ٹینک منگوا لیے اور آرٹلری کا فائر بھی۔۔۔ اس پٹھان کمپنی سے کوئی بھی گھیرا توڑ کے نکل نہ سکا، ذیادہ تر مارے گئے، باقی سارے زخمی پڑے تھے۔ ہم ان کی پوزیشنوں میں جا گھسے تو لاشیں دیکھیں یا زخمی اور اکثر خالی ہاتھ، ایمونیشن ختم ہو چکا تھا ان کا۔ دلیر سنگھ نے حکم دیا کہ زخمیوں کو وہیں سنگینیں گھونپ کر ختم کر دیا جائے۔ یہ منظر کبھی بھولنے والا نہیں یار۔۔۔ میں نے ایک زخمی پٹھان کے سینے میں سنگین اتاری تو اس نے اپنے خون سے لتھڑے ہاتھ سے میری سنگین کو پکڑ لیا۔ یہ لانس نائیک تھا، بالکل سیاہ آنکھیں لیکن گورا رنگ اور قد میں مجھ سے دوگنا لمبا ہو گا۔۔۔ اس کی آنکھیں مجھے ایسے دیکھ رہی تھیں جیسے مجھ سے التجا کر رہی ہوں لیکن ہاتھ کی گرفت سنگین پر اتنی مضبوط تھی کہ جیسے مجھے سختی سے منع کر رہا ہو۔ مجھے اس سے آنکھیں چار کرنے کی ہمت نہ ہوئی، میں نے جھٹکے سے سنگین نکالی تو اس کی انگلیاں کٹ کے لٹک گئیں اور اس کا ہاتھ لمحے بھر کو فضا میں بلند رہا۔۔۔ خون کے فوارے ابلے، وہ ایک دو دفعہ ایڑھیاں رگڑ کر ٹھنڈا ہو گیا۔ اس رات دلبر سنگھ اور دیگر افسران نے خوب غل مچایا، شراب پی، میں بھی کافی پرجوش ہوا۔۔۔ اس وقت میں اتنا حسّاس نہ تھا شاید جتنا اب ہو گیا ہوں۔ اس شام تک مجھے اس پٹھان لانس نائیک کی شکل بھی بھول چکی تھی لیکن آج سب کچھ ایک فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے چلتا ہے۔ اس حملے کے بعد ہمارا مورال اور بھی بلند ہو گیا۔ ہمیں کمانڈر انچیف کی طرف سے شاباش کا سندیسہ ملا تو ہماری ہمت اور بڑھ گئی۔

 

شاید اسی غرور میں ہم سے کوئی غفلت ہوئی کہ چند دنوں بعد ہی ہم ڈھاکہ شہر کے باہر، تانگیل کے قریب شایدــ یا محمدپور محلہ تھا ـــ ایک پاکستانی پلٹون کو گھیرتے ہوئے خود ایک بٹالین کے ٹریپ میں آ گئے۔ گھمسان کی لڑائی ہوئی۔ پاکستانیوں کو اب نظر آ چکا تھا کہ وہ ہار چکے ہیں اور اسی لیے وہ ایک زخمی درندے کی طرح وحشیانہ انداز میں لڑ رہے تھے۔ اسی وجہ سے لوٹ مار بھی انہوں نے اس قدر بڑھا دی کہ ہمارا خون کھولتا۔ خیر، اس حملے میں بھی ہم نے ٹینک اور آرٹلری کی مدد لی لیکن ہمارے کچھ سپاہی۔۔۔ تمام گورکھے۔۔ بٹالین سے کٹ کر دشمن کے ہاتھ جا لگے اور قیدی ہو گئے۔ اس سے ہماری کمپنی کی ہمت کافی ٹوٹ گئی لیکن اس دوران دلبر سنگھ کو پتہ چلا کہ یہ پاکستانیوں کی اٹھارہ پنجاب رجمنٹ تھی جس سے اب ہمارا واسطہ پڑا تھا، پھر کیا تھا، ایک دلبر پر ہی کیا موقوف، ہر آدمی دلیری سے لڑا اور کرل بیجو یعنی کمانڈنگ افسر، ایجوٹنٹ دلبر سنگھ، دو کمپنی کمانڈر اور بیس کے قریب لوگ مارے گئے، پچاس کے قریب زخمی ہوئے جنہیں میں نے اپنی پلٹون کے ساتھ وہاں سے نکالا۔۔۔ ہماری بٹالین بری طرح کٹ گئی اور کرنل بیجو اور دلبر سنگھ جیسے بدقسمت لوگ اپنا بدلہ نہ لے سکے۔ ہم اگلے دن جب اکٹھے ہوئے، دوبارہ کاؤنٹ پورا کیا و میجر جونز کمانڈر بنے۔
اس رات ہم نے پاکستانیوں کی وائرلیس ٹرانسمشن سنی۔ “سرکل سپلائی میں کچھ خراب انڈے ملے تھے، ان کا کیا کریں، کال سائن ٹٹو کے پاس جگہ نہیں ہے سٹور کرنے کی۔۔۔” ہمیں فوراً اندازہ ہو گیا کہ ہمارے قیدیوں کا پوچھا جا رہا ہے۔ “یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے؟ ہم لوگ آملیٹ بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے، پارٹی ختم ہونے والی ہے، آپ خراب انڈے ڈسپوز کر دیں”۔ ہم نے سر پیٹ لیا۔ ہمارا خوف درست نکلا، پاکستانیوں نے ہمارے قیدی سپاہی مار ڈالے۔ ہمارے پہلے سے مارے جانے والوں میں سے بھی دلبر سنگھ اور ایک کمپنی کمانڈر کی لاش وہ اٹھا کر لے گئے تھے۔ ہمیں کافی پریشانی رہی لیکن خیر ہوئی کہ اگلے ہی دو دنوں کے اندر اندر ہمیں ری انفورسمنٹ ملی اور ہم نے اٹھارہ پنجاب کی پوزیشنوں پر ایسا زوردار حملہ کیا کہ انہیں وہاں سے بھاگ نکلنا پڑا اور ہمیں کچھ تشفی اور تلافی محسوس ہوئی۔ ہمارے تمام شہیدوں کی لاشیں مل گئیں لیکن پاکستانیوں نے کمپنی کمانڈر اور دلبر سنگھ کی لاشوں کے ساتھ بہت برا سلوک کیا تھا۔ کمپنی کمانڈر کے genetals کاٹ کر اس کے منہ میں ٹھونس دیے گئے تھے۔ ہمارے ساتھ ایک دیدبان، یعنی observer بھی تھا، اس کی آنکھیں سنگین سے نکال دی گئی تھیں، جبکہ دلبر سنگھ کے دائیں buttock پر ریزر سے لمبائی میں بال صاف کر کے اس پر لکھا تھا؛

 

“The runway built in great hurry by eighteen…”

 

یقیناً یہ اسی افسر کی حرکت تھی جس سے دلبر سنگھ کی تلخ کلامی ہو چکی تھی۔ دلبر سنگھ کی لاش برہنہ پھینکی گئی تھی جو انت کی بیہودہ اور غیر سپاہیانہ حرکت تھی۔۔۔ فیلڈ ہسپتال میں جب اس کی لاش کو لایا گیا تو پتہ چلا کہ اس کی زبان بھی تالو سے کاٹ دی گئی تھی۔ اب تک میں جس نامعلوم پاکستانی افسر کی سینس آف ہیومر کی اندر ہی اندر داد دے رہا تھا، اب میں سمجھ سکتا تھا کہ وہ کتنا گھٹیا اور وحشی آدمی تھا۔۔۔ لیکن اس کے بعد سرنڈر تک کبھی اٹھارہ پنجاب نظر نہ آئی۔ سرنڈر ہو گیا تو جنرل جگجیت سنگھ نے تمام ذلت کا ٹوکرا پاکستانی کمانڈر کے سر پر پٹخ دیا، ہماری پلٹن کی عزت بھی بچ ہی گئی لیکن اب ہم نے اٹھارہ پنجاب کو بہت ڈھونڈا، اس کے افسر کہیں نہ ملے، وہ دوسرے یونٹوں میں جا ملے تھے۔ سرنڈر کے بعد مجھے ایک ٹیم کے ساتھ بھیج دیا گیا جس کی ذمہ داری پورے ایسٹ پاکستان میں سے لوٹے گئے سونے کا کھوج لگانا تھی اور مجھے کئی پاکستانیوں سے تفتیش کرنا ہوتی تھی۔ پاکستانی افسروں نے منوں کے حساب سے لوٹا ہوا سونا ندیوں دریاؤں میں پھینک دیا لیکن ہمارے ہاتھ نہ آنے دیا۔

 

پاکستانی قیدیوں کو پورے بھارت میں پھیلے جنگی قیدی کیمپوں میں پہنچانا ایک کٹھن کام تھا۔ کمانڈروں کا حکم تھا کہ پاکستانی افسروں کو فورٹ ولیم، رانچی، جمشید پور، جبل پور، آگرہ، بھوپال اور بنارس اور راستوں میں آنے والے تمام بڑے اسٹیشنوں پر کئی کئی گھنٹے کھڑا رکھ کے بھارتی عوام کے سامنے ذلیل کیا جائے۔ کئی جگہوں پہ جب بھارتی عوام نفرت کی شدت میں پاکستانی افسروں کو پتھر مارنے لگتے، ان پر جوتے پھینکتے یا تھوکتے تو ہمارے سپاہی اس سے لطف اندوز ہوتے۔ کچھ آفیسر اس چیز کے خلاف بھی تھے لیکن وہ لوگ بہت کم تعداد میں تھے۔

 

میری پوسٹنگ آگرے کے جنگی قیدی کیمپ میں ہوئی جہاں کیپٹن دلبر سنگھ کا بڑا بھائی میجر جوانا سنگھ بطور کیمٹ ڈاکٹر تعینات تھا اور اکثر ڈپٹی کمانڈنٹ کے طور پر ڈیوٹی بھی کرتا۔ میجر جوانا سنگھ بے حد اکھڑ اور اپنے بھائی سے بھی بڑا بدزبان افسر تھا لیکن اس کے ساتھ کچھ عرصہ گزارنے کے بعد میرے دل میں اس کے لیے ہمدردی سی پیدا ہو گئی کیونکہ وہ اپنے بھائی کی ذلت آمیز موت کو نہیں بھولا تھا۔ وہ جنگی قیدیوں پر بہت سختی کرتا حتی کہ افسروں سے بھی رعایت کا قائل نہ تھا۔ جنگی جرائم کی تفتیش کے واقعات میں تو وہ اکثر اوقات خود آ کر افسروں پر ٹارچر کرتا تھا۔ وہ بیمار قیدیوں کو جاڑے کی سرد راتوں میں رات بھر برآمدے میں کھڑا کیے رکھتا تھا اور کچھ بیماروں کو تو اس نے تڑپ تڑپ کر جان دینے کے لیے چھوڑ دیا تھا۔

 

میں نے ایک شام ریڈکراس کی دستاویزات، خطوط اور ڈائریوں کے ریکارڈ سے اس کیمپ میں موجود اٹھارہ پنجاب کے ایک افسر کی نشاندہی کر ہی لی۔ یہ ایک نوجوان پنجابی کیپٹن تھا اور درمیانے قد کا لیکن دیکھنے میں نازک سا لڑکا تھا۔ اس کی بھوری آنکھوں سے ذہانت جبکہ چہرے سے شدید قسم کا کینہ اور ناگواری ظاہر رہتی تھی۔ میں نے اس کو نائٹ رول کال کے بعد فورا کمانڈنٹ آفس میں بلوایا اور میجر جوانا سنگھ کی موجودگی میں اس سے کچھ سوالات کیے جن کا تعلق جنگ کے واقعات سے تھا۔ اس لڑکے نے فوراً صورت حال بھانپ لی۔

 

“I am Captain Hashim, eighteen Punjab – come to the point now!”

 

اس نے ازحد ڈھٹائی سے وہ کہہ دیا جس کے اگلوانے کے لیے ہم لمبی چوڑی جرح سوچ کر بیٹھے تھے۔ میجر جوانا سنگھ کے ردعمل نے مجھے چونکا دیا۔ اس نے ہولسٹر سے پستول نکال کر ہاشم پر تان لیا۔ ہاشم ایک لمحے کے لیے بوکھلایا، لیکن پھر سنبھلا۔

 

“So you are going to kill me??”

 

ہاشم معمولی سی لرزتی آواز میں بولا۔

 

“Certainly you bastard Paki pongo!! But once after you have told me who mutilated our dead bodies??”

 

میجر جوانا سنگھ کو اچانک غصے کا دورہ پڑا اور وہ کھڑا ہو گیا، اس کے ہاتھ میں پستول کانپ رہا تھا۔ کیپٹن ہاشم کی پیشانی پر پسینے کے قطرے نمودار ہوئے۔

 

“No names, no pack drills – I learnt it from old soldiers”

 

ہاشم نے نفرت بھری مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا تو جوانا سنگھ کے چہرے کا رنگ بدل گیا – وہ سرخ پڑ گیا۔

 

“Shut up you little shameless, defeated son of bit**!!”

 

جوانا سنگھ غصے میں چلایا اور پستول لوڈ کر لیا۔ میں گھبرا کر اٹھ کھڑا ہو گیا۔ میرے جسم کے بال گھبراہٹ میں تن گئے۔ میں مزید خون خرابہ نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔

 

“You have watched some third rate Hollywood war movies major! It’s not easy to kill a POW in real life!”

 

کیپٹن ہاشم نے دانت پیس کر، کانپتی سی آواز میں کہا تو اس سے پہلے کہ میں جوانا سنگھ کے چہرے کے تاثرات سمجھ پاتا، دھماکے کی آواز سے کیمپ گونج اٹھا۔ گولی ہاشم کے دائیں پھیپھڑے سے پار ہو کر دیوار میں ہتھوڑے کی طرح لگی اور ہاشم کسی کٹے ہوئے درخت کی طرح دیوار کے قریب گر گیا۔ اس کی آنکھیں غیر یقینی سے کھلی اور منہ ادھ کھلا رہ گیا۔۔۔ خون فوارے کی طرح بہہ کر فرش پر پھیلنے لگا۔ کیمپ میں سیٹیاں بجنے لگیں، تمام کیمپ سٹینڈ ٹو ہو گیا اور باہر بھاری بوٹوں کے دوڑنے کی آواز آئی۔ ایک بوکھلاہٹ بظاہر پورے آگرے کی فضا پہ چھا گئی تھی لیکن اس سے پہلے کہ کوئی صورتحال سمجھ پاتا، جوانا سنگھ کے پستول سے گولی لیٹ کر کراہتے ہوئے کیپٹن ہاشم کے پیٹ کو چھید کر فرش میں لگی اور اچٹ کر اس کے پہلو سے نکل گئی۔ دوسرے دھماکے کی آواز میں ہاشم کی چیخ دب گئی۔

 

اسی اثنا میں چھ سات مسلح سپاہی دفتر میں آ گھسے۔ “دور ہٹو! مرنے دو حرامزادے کو!!”

 

جب وہ آگے بڑھے تو جوانا سنگھ نے انہیں ڈانٹ کر روک دیا۔ مجھے ایک ڈاکٹر سے اس سنگ دلی کی توقع نہ تھی لیکن کسے خبر کہ میں اس کی جگہ ہوتا تو کیا کرتا۔

 

کیمپ میں ہلچل مچ گئی لیکن جوانا سنگھ نے صوبیدار میجر صاحب کو بھیجا کہ سب کو خاموش کروا دیں اور پاکستانی قیدیوں کو بتا دیں کہ ہاشم نے ایسکیپ کی کوشش کی تھی۔ دفتر میں ہاشم کے تڑپنے سے خون پھیل رہا تھا اور اس کی دبی دبی چیخیں ناقابل برداشت تھیں، میں باہر جانے لگا تو جوانا سنگھ نے مجھے وہیں ٹھہرنے کا حکم دیا۔ ہاشم کے پیٹ سے اس کی آنتیں نکل کر آہستہ آہستہ کسی سست رو سانپ کی طرح اس کی وردی کی قمیص میں سمٹنے لگیں۔ اس کی قمیص کے بٹن کھلے تھے۔ ایسی دردناک موت میں نے شاید جنگ میں بھی نہ دیکھی تھی۔ ہاشم کو ٹھنڈا پڑنے میں پچیس منٹ یا آدھا گھنٹہ تو لگا ہو گا۔ جوانا سنگھ سر پر کھڑا دیکھتا رہا۔ اس رات تو ہم قیدیوں کو سنبھالنے میں رات بھر جاگتے رہے، کمانڈر بھی آنے لگے۔ پاکستانی افسروں کو یقین تھا کہ ہاشم ایسکیپ کی کوشش میں نہیں مارا گیا، وہ ہمارے سنتریوں سے الجھ رہے تھے، جوانا کو گالیاں دے رہے تھے۔ ایک میجر نے تو اگلے دن کے کاؤنٹ کے وقت جوانا سنگھ کو گریبان سے پکڑ لیا، ہمارے سنتریوں نے بڑی مشکل سے چھڑایا۔ پھر ملٹری پولیس بلوانا پڑی۔ میں کئی رات اس منظر کی وجہ سے رات بھر نہ سو سکا۔

 

اگلی صبح پاکستانی سپاہیوں کے کیمپ میں یہ خبر پہنچی تو انہوں نے کیمپ سر پہ اٹھا لیا اور ہمارے ایک حوالدار کا سر اینٹوں کے وار کر کے کچل ڈالا۔ جب تک ملٹری پولیس پہنچی، ہمارے این۔سی۔او کا سر اس کے تن کے ساتھ چیتھڑے کی طرح لٹک رہا تھا اور اس کی لاش لاتوں اور مکوں کی شدت سے نیلی پڑ چکی تھی۔

 

“لغاری ــ وکرم ـــ یار یہ جنگ وحشت کی انتہا تھی۔۔۔ دونوں طرف۔۔۔” کرنل تھاپا گھبرا سے گئے لیکن اپنی کہانی جاری رکھی۔
خیر، بورڈ آف انکوائری نے میری اور صوبیدار میجر فقیرا سنگھ کی جھوٹی گواہی پر، جس کے لیے ہمیں حکماً کہا گیا تھا، ریڈ کراس کو یہی رپورٹ بھیجی کہ ہاشم ایسکیپ کی کوشش میں مارا گیا تھا۔ ملک اور فوج کو بدنام تو نہیں کیا جا سکتا تھا ناں۔۔۔

 

میجر جوانا سنگھ کا تبادلہ اس واقعے کے بعد شیلانگ کر دیا گیا، میں نے بھی ایجوکیشن کور میں جانے کی کوششیں شروع کر دیں۔ قیدی کیمپ سے نکل کر بھی میں ان بدصورت یادوں سے پیچھا نہ چھڑا سکا۔
“ملک، سلیمی صاحب۔۔۔ سکواڈرن لیڈر لغاری آپ سے اکہتر کی جنگ پہ نہیں بولے گا تو اس لیے شاید، کہ آپ کی آنکھوں کے آگے جنرل نیازی اور جنرل اروڑہ ہی کی شکلیں گھومتی ہیں، لیکن میں اس لیے نہیں بولوں گا کہ میرے شعور اور لاشعور پہ پٹھان لانس نائیک اور کیپٹن ہاشم کے نقش گہرے ہیں۔ اوہ آئی ایم سوری بوائز۔۔ یہ میں کس طرف آ گیا۔۔”

 

کرنل تھاپا اچانک چونک پڑے اور سر جھٹکنے اور اپنے بائیں ہاتھ کو زور زور سے نفی میں ہلانے لگے۔۔۔ “سوری بوائز۔۔ لیو اٹ۔۔” کرنل تھاپا گھبرا سے گئے۔

 

“سر پلیز، آپ اپنی کہانی مکمل کریں۔۔۔ ہم دلچسپی سے سن رہے ہیں۔۔۔” پرکاش، جو کافی خموش طبع نوجوان تھا، لغاری سے واضح طور پر آنکھیں چرا کر بولا۔

 

“کہانی مکمل کروں؟” کرنل تھاپا نے ٹھنڈی آہ بھری۔

 

“یہی تو تکلیف دہ بات ہے لڑکو۔۔۔ یہ کہانی کبھی مکمل نہیں ہو سکتی۔ پاکستانی سپاہی آج بھی پیدا ہوتا ہے تو اس کے ماتھے پر اکہتر کی ذلت لکھ دی جاتی ہے، وہ اپنی قوم سے طعنے سن سن کر انتقام کی آگ میں بھڑکتا رہتا ہے حالانکہ یہ جنگ اصولاً انہی کو ہارنی چاہیے تھی! ادھر ہم نے جو اکہتر میں پاکستان کو منہ کے بل گرایا تھا، ہم اس پر اتنے مغرور ہیں کہ یہ غرور ہمارا قومی مزاج بن گیا ہے۔ آج بھی پاکستان کسی تیسرے دشمن کے ہاتھوں بھی زخمی ہو کر گر جائے تو بھارت اس کے سینے پہ لات رکھ کے قہقہہ لگانا ضروری سمجھے گا۔۔۔”

 

کرنل تھاپا نے وہسکی کا ایک نیٹ پیگ بنایا اور جلدی سے حلق سے نیچے اتارا، چند سیکنڈ کے لیے کڑواہٹ اور تیزی کی وجہ سے آنکھیں اور ہونٹ بھینچے رکھے، پھر نئی سرعت اور روانی سے گویا ہوئے۔
“خیر، یہ بغض تو قیامت تک ان دونوں قوموں کے دل سے نہ جائے گا لیکن ہم سپاہیوں نے اس سے کیا پایا؟؟ جوں جوں اکہتر کی جنگ اور قیدی کیمپوں کے واقعات پرانے ہوتے گئے، لوگوں کے ذہنوں سے مٹتے گئے، میرے ذہن میں پختہ ہوتے گئے، میرے دل و دماغ پر بوجھ بنتے گئے۔ میجر جوانا سنگھ کو شیلانگ کے ملٹری ہسپتال میں بھیجا گیا تھا لیکن کیپٹن ہاشم کی موت کا قصہ میڈیکل کور میں ایک اوپن سیکرٹ کی طرح پھیل چکا تھا۔ ایک ڈاکٹر کے ہاتھوں ایک قیدی کا قتل بہرحال ایک گھناؤنا کام تھا جسے ہماری پلٹن کے لوگوں نے تو سراہا لیکن میڈیکل کور کے اکثر ڈاکٹر لوگ جوانا سنگھ کے بارے میں بڑی منفی رائے رکھنے لگے، جس کا ایک اظہار یہ تھا کہ اسے ہسپتال میں زیادہ تر انتظامی ڈیوٹیوں پر ہی رکھا گیا۔ جوانا سنگھ بھی جو کہ بہرحال ایک ڈاکٹر تھا، پیشہ ور لڑاکا نہیں، اپنی ہی ذات میں ایک عجیب کشمکش میں رہنے لگا کہ شاید کور کے باشعور افسر اس سے نفرت کرنے لگے ہیں اور اس تشکیک نے اس کی شخصیت کو مسخ اور میڈیکل کور میں اس کی سوشل لائف کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے فوج سے استعفی دے دیا اور خدا جانے کہاں چلا گیا۔ مجھے صرف یہی پتہ چل سکا کہ وہ چند سال بعد ہی برین ٹیومر سے بہت برے حالات میں مرا۔

 

“لیکن پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ جتنا تکلیف دہ انجام کیپٹن ہاشم کا ہوا، وہ جوانا سنگھ کا نہیں ہوا”۔ کرنل صاحب کی اس بات پہ سب لوگ چونک پڑے۔

 

“صرف میجر جوانا سنگھ کے ہاتھوں دردناک موت پہ ہی ہاشم کا قصہ تمام نہیں ہوا بلکہ مجھے اس کے بعد اس حوالے سے کچھ واقعات پتہ چلے وہ میرے لیے ناقابل یقین بھی تھے اور افسوسناک بھی۔ ایک بلوچ کرنیل نے یہ واقعہ کہیں لکھا تھا جو میں پڑھ کر اندر سے کٹ کر رہ گیا اور میں ہاشم کے قتل میں خود کو برابر کا مجرم تو سمجھتا ہی تھا، اب ایک بھیانک شرمندگی اور خلش میں گرفتار ہو گیا۔

 

کیپٹن ہاشم ملتان کے ایک ریٹائرڈ بلوچ صوبیدار میجر کا بیٹا تھا جو کہ دوسری جنگ عظیم کے ویٹرن سپاہی بھی تھے اور اڑتالیس والی لڑائی میں کوئی تمغہ بھی لے چکے تھے۔ ہم نے کچھ مصلحتوں کے تحت جب ریڈکراس کے ذریعے ہاشم کی میت پاکستان بھیج دی تو اس کے آبائی گاؤں میت پہنچنے پر بوڑھے بلوچ نے بیٹے کی میت سے منہ پھیر لیا۔ بوڑھا صوبیدار صرف چلّا چلا کر یہ کہتا رہا کہ میرا بیٹا ہتھیار ڈالنے جیسی بے غیرتی اور غداری نہیں کر سکتا، ہاشم بلوچ کو میں نے میدان میں مرنے کے لیے پالا پوسا تھا، قیدی ہو کر مرنے کے لیے نہیں۔ تمام برادری اور احباب نے منت سماجت کی کہ بیٹے کو آخری بوسے کے ساتھ رخصت کر دو، بوڑھا بلوچ نہیں مانا، یہی کہتا رہا کہ جس چہرے پر شکست اور بزدلی کا داغ ہو، وہ قبیلے کی عزت پہ دھبا ہے، نہیں چوموں گا!!!” کیپٹن ہاشم کی تدفین کے بمشکل ایک سال بعد تک ہی وہ بوڑھا صوبیدار میجر زندہ رہا لیکن ذہنی توازن کے بغیر۔ وہ اکثر راتوں کو ہاشم کو پکار پکار کر روتا رہتا اور سڑکوں اور پگڈنڈیوں پر گہری خاموشی میں تیز تیز چلتا رہتا حتی کہ ایک دن خاموشی سے ہی ریل کے نیچے آ کے کٹ مرا۔ کسی نے حادثہ کہا تو کسی نے خودکشی۔۔۔

 

“My story ends here, I think…”

 

کرنل تھاپا ایک لمحے کے لیے رک کر بولے۔ ان کی آواز لڑکھڑاتی رہی تھی اور ڈرامائی انداز اختیار کر چکی تھی؛

 

“…and let me tell you the sum total we soldiers got!!”

 

تم سویلینز نے عظمت پائی، بھارتیوں نے۔۔۔ جے ہند!! تم پاکستانیوں کے حصے میں کیا آیا؟ جنگ اپنے پیچھے پاگل فوجی اور دانا سیاستدان چھوڑ جاتی ہے، تم پاکستانیوں کو صرف پاگل فوجی ہی ملے! ہاں تمہارے جرنیلوں کو ہمیشہ کے لیے لڑنے کا جواز بھی مل گیا۔

 

لیکن ہم فوجیوں نے، دونوں طرف کے فوجیوں نے جو پاگل پن، توہین، بدبودار یادیں، زخم، شرمندگی، بے عزتی، ضمیر کی خلش اور سب کچھ پایا۔۔۔ اس کا میزان ایک لفظ ‘شکست’ میں سما سکتا ہے۔۔۔ صرف شکست۔۔۔ صرف شکست۔۔ سپاہی کی قسمت میں صرف شکست آتی ہے۔۔۔ شکست! ہاں! شکست!” کرنل صاحب بہت پی چکے تھے اور ہذیان بکنے کے انداز میں اور گھمبیر لہجے میں “شکست! شکست!” کی رٹ لگانے لگے اور صوفے پہ دراز ہو گئے۔

 

مسز تھاپا تیزی سے اندر آئیں۔ “معاف کیجیے گا، مجھے لگتا ہے آپ نے ان سے وہی باتیں چھیڑی ہوں گی۔۔۔” وہ کرنل تھاپا کی حالت دیکھ کر ہمدردی سے بولیں۔ “جو ہمیشہ سے زیادہ اب ان کو ڈسٹرب کرنے لگی ہیں۔۔۔ جب سے انڈیا سے آئے تھے یہ کچھ سنبھلے تھے، لیکن اب۔۔۔ اب پھر یہ چند دن ڈسٹرب رہیں گے۔۔۔” مسز تھاپا نے صوفے پر لیٹنے میں کرنل تھاپا کی مدد کی تو باقی سب لوگ بھی شرمندگی سے ان کا ہاتھ بٹانے کو اٹھے پھر دیر تک کمرے میں خاموشی رہی، بس شراب کے گلاسوں کے ہلنے جلنے، کھانسنے یا ہلکی جنبشوں کی آواز کمرے میں سنائی دیتی رہی۔

 

کرنل گورنگ تھاپا سو چکے تھے مگر ان کی خاموشی کمرے کی فضا میں ایک لف کی تلخی گھول رہی تھی “شکست۔۔”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *