بستی کے باہر ٹوٹے ہوئے خوابوں کا چلتا پھرتا بازار آکے رُکا تھا اور اور وہ اُسے دیکھنے کو بے حد بےتاب تھا۔ اُس کی عمر کے لڑکوں کے پاس پیسے اتنے نہیں ہوتے جن سے کسی بھی قسم کے خواب خریدے جا سکیں۔ مگر بستی کے ہر شخص کا خواب دیکھنے جانا اور خالی ہاتھ اور روتے ہوئے واپس آنا اس کے شوق کو باولا کیے دے رہا تھا۔ جب شوق کا یہ بار نا قابلِ برداشت ہونے لگا تولڑکا اپنی ماں کےپاس مدد لینے جا پہنچا۔”ماں مجھے ٹوٹے ہوئے خواب خریدنے کو پیسے چاہئیں۔ "ماں نے کام سے سر اٹھا کر اپنے سالم خواب کی جانب دیکھا۔ لڑکے کی آنکھیں آنسوؤں میں تیر رہی تھیں، ماں کا دل دھک سے رہ گیا اور اس نے پلو سے بندھی پونجی کھولنے میں دیر نہ کی۔ لڑکے کے ہاتھ میں اب تک کی زندگی کی سب سے بڑی رقم تھی اور پاؤں ہوا میں پڑ رہے تھے۔
راستے میں اس کے سب سے اچھے دوست کا گھر پڑتا تھا اور یہ ناممکن تھا کہ کہ وہ کوئی بھی کام ایک دوسرے کو بتائے یا شامل کیے بغیر کر پائیں، سو لڑکے نے تپتی دوپہر میں اپنے دوست کے گھر کا دروازہ تب تک کھٹکھٹایا جب تک اسے کھول نہ دیا گیا۔ دروازہ کھلا تو اسے اپنے دوست کے باپ کی نامہرباں صورت دکھائی دی جس وہ سخت خار کھاتا تھا۔ مگر آج اسے کسی شکل کی پروا نہ تھی۔ اس نے بے صبرے ہو کر گردن لمبی کر کے اپنے دوست کی تلاش میں ہر طرف نظر دوڑائی لیکن کچھ بولا نہیں، کیوں کہ اُس کی اِس جگہ موجودگی کی واحد وجہ گھر والوں کو معلوم تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ آگے بڑھ کر اپنے دوست کو خود ڈھونڈتا، دروازے میں کھڑا شخص بے حد شکستہ آواز میں بولا۔”وہ اب یہاں نہیں رہتا۔”
” کیوں؟” لڑکے نے پوچھا۔”میں صبح ہی تو اُسے یہاں چھوڑ کر گیا ہوں۔” آدمی نے ایک نظر لڑکے کے ٹمٹماتے ہوئے چہرے پر ڈالی اور جان گیا کہ وہ ایک اور دل توڑنے جا رہا ہے۔ اُس نے بچے کا ہاتھ پکڑا اور اُسے اندر لے گیا۔ آدمی اپنے بیٹے کو اس شکستہ خواب کے بدلے بیچ آیا تھا کہ ایک دن نامعلوم وجوہ کی بنیاد پہ وہ زندگی گزار پائے گا جس کا خواب دیکھنے کی ہمت ٹوٹی ہوئی آنکھوں میں نہیں ہوتی۔ لڑکا یہ خواب اور اس سے متعلق کہانی سن کر بے سمت ہو گیا۔ اب وہ یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ کل سورج نکلنے کا ارادہ رکھتا ہے یا نہیں۔ اس کے ذہن سے بستی کا نقش معدوم ہونے لگا۔ یہ بات اس کی سمجھ کی پکڑ میں نہ آتی تھی کے مستقبل کے متعلق کیے گئے ارادوں اور دعووں کا کیا ہو گا، اُس کی عقل یہ تک ماننے کو تیار نہ تھی کہ کسی کے ساتھ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔
لڑکا سوچ میں گم واپس ہولیا۔ راستے سے آشنا قدموں نے دماغ کی بے سمتی کو نظر انداز کر کے اسے ذمہ داری سے گھر پہنچایا اور خاموش رہے۔ لڑکے نے ماں کو پیسے واپس کیے اور چپ چاپ ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ ماں کو ان پیسوں کے خرچے جانے کا اور گم ہونے کا یقین تو تھا مگر واپسی کی توقع نہ تھی۔ اُس نے بیٹے سے سبب پوچھا۔ لڑکا بولا تو وقت اس کی آواز میں عمر کے اگلے دس سال بھی شامل کر چکا تھا۔ "ماں اب میرے پاس اپنے ٹوٹے ہوئے خواب اتنے ہیں کہ ان سے الگ بستی بسائی جا سکتی ہے۔ ”
راستے میں اس کے سب سے اچھے دوست کا گھر پڑتا تھا اور یہ ناممکن تھا کہ کہ وہ کوئی بھی کام ایک دوسرے کو بتائے یا شامل کیے بغیر کر پائیں، سو لڑکے نے تپتی دوپہر میں اپنے دوست کے گھر کا دروازہ تب تک کھٹکھٹایا جب تک اسے کھول نہ دیا گیا۔ دروازہ کھلا تو اسے اپنے دوست کے باپ کی نامہرباں صورت دکھائی دی جس وہ سخت خار کھاتا تھا۔ مگر آج اسے کسی شکل کی پروا نہ تھی۔ اس نے بے صبرے ہو کر گردن لمبی کر کے اپنے دوست کی تلاش میں ہر طرف نظر دوڑائی لیکن کچھ بولا نہیں، کیوں کہ اُس کی اِس جگہ موجودگی کی واحد وجہ گھر والوں کو معلوم تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ آگے بڑھ کر اپنے دوست کو خود ڈھونڈتا، دروازے میں کھڑا شخص بے حد شکستہ آواز میں بولا۔”وہ اب یہاں نہیں رہتا۔”
” کیوں؟” لڑکے نے پوچھا۔”میں صبح ہی تو اُسے یہاں چھوڑ کر گیا ہوں۔” آدمی نے ایک نظر لڑکے کے ٹمٹماتے ہوئے چہرے پر ڈالی اور جان گیا کہ وہ ایک اور دل توڑنے جا رہا ہے۔ اُس نے بچے کا ہاتھ پکڑا اور اُسے اندر لے گیا۔ آدمی اپنے بیٹے کو اس شکستہ خواب کے بدلے بیچ آیا تھا کہ ایک دن نامعلوم وجوہ کی بنیاد پہ وہ زندگی گزار پائے گا جس کا خواب دیکھنے کی ہمت ٹوٹی ہوئی آنکھوں میں نہیں ہوتی۔ لڑکا یہ خواب اور اس سے متعلق کہانی سن کر بے سمت ہو گیا۔ اب وہ یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ کل سورج نکلنے کا ارادہ رکھتا ہے یا نہیں۔ اس کے ذہن سے بستی کا نقش معدوم ہونے لگا۔ یہ بات اس کی سمجھ کی پکڑ میں نہ آتی تھی کے مستقبل کے متعلق کیے گئے ارادوں اور دعووں کا کیا ہو گا، اُس کی عقل یہ تک ماننے کو تیار نہ تھی کہ کسی کے ساتھ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔
لڑکا سوچ میں گم واپس ہولیا۔ راستے سے آشنا قدموں نے دماغ کی بے سمتی کو نظر انداز کر کے اسے ذمہ داری سے گھر پہنچایا اور خاموش رہے۔ لڑکے نے ماں کو پیسے واپس کیے اور چپ چاپ ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ ماں کو ان پیسوں کے خرچے جانے کا اور گم ہونے کا یقین تو تھا مگر واپسی کی توقع نہ تھی۔ اُس نے بیٹے سے سبب پوچھا۔ لڑکا بولا تو وقت اس کی آواز میں عمر کے اگلے دس سال بھی شامل کر چکا تھا۔ "ماں اب میرے پاس اپنے ٹوٹے ہوئے خواب اتنے ہیں کہ ان سے الگ بستی بسائی جا سکتی ہے۔ ”
Leave a Reply