کل دوپہر کے کھانے پر ایک دوست سے ملاقات ہوئی، سیزر سلاد کھاتے ہوئے موصوف نے انکشاف کیا کہ انہیں روانی سے اردو بولنے میں کافی دقت پیش آتی ہے، میں نے کہا اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کی ساری زندگی ملک سے باہر گزری ہے۔جواب آیا "یہ تو کوئی بات نہ ہوئی، بہت سےایسے لوگ ہیں جو اپنے وطن سے دور پیدا ہوتے ہیں اور پروان چڑھتے ہیں مگر پھر بھی اپنی زبان فر فر بول لیتے ہیں۔”پھر کہنے لگے” اصل میں یہ سارا قصور میرے والدین کا ہے،” انہوں نے کانٹا رکھتے ہوئے کہا۔ "کیا انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ ان کے بچوں کو مستقبل میں کتنی تکلیف اٹھانی پڑے گی؟ اور اب اس عمر میں میں کیا خاک روانی لاونگا اپنی زبان میں۔”یہ سن کر مجھے پہلےتو کچھ تعجب سا ہوا اور پھر اطمینان۔ہمارے دوست کو زبان پر عبور ہو نہ ہولیکن اس گفتگو کے بعد ان کے پاکستانی اور محب وطن ہونے پر کوئی شک نہیں کیا جا سکتا، کیوں کہ ہم سب پاکستانیوں کی طرح انہوں نے بھی اپنے مسئلہ کا حل تلاش کرنے کے بجاے شکایتوں کا سہارا لیا اور اپنی نااہلیت کو ماں باپ کے ذمہ ڈال دیا۔
یہ سابق وردی والے سیلوٹ کی کمی کا شکار ہونے کے بعد روزانہ کسی نہ کسی ٹی وی چینل پر اورکسی نہ کسی اخباری کالم میں شکایات کے معصوم جام چھلکاتے نظر آتے ہیں، یہ سبھی سوال اٹھاتے ہیں اور بس اٹھاتے ہی چلے جاتے ہیں۔
چاہےٹی وی چینل ہو یا کوئی اخبار، سوشل میڈیا ہو یا انٹرنیٹ پہ کوئی بلاگ، ایسا لگتا ہے کہ ہماری قوم کو شکایتیں کرنے کے سوا اور کچھ نہیں آتا۔ اگر آپ میری طرح خوش قسمتی سے کافی فارغ وقت کے مالک ہوں تو آپ بھی ہرگزرتے برس کے ساتھ ہماری شکایت کرنے کی صلاحیتوں میں مسلسل اضافہ محسوس کر سکتے ہیں۔ ہماری فی کس آمدنی per capita income بڑھی ہو یا نہ ہو ہماری فی کس شکایات کرنے کی شرح ضرور بڑھی ہے۔
اب آپ کہیں گے کہ جس قسم کے حالات ملک کو درپیش ہیں، وہاں عام آدمی اگر شکایت نہ کرے تو اورکیا کرے ؟ یہ بات بھی درست ہےمگر جب آپ شکایتوں کے انبار پر نظر ڈالتے ہیں تو آپ کے سامنے بجلی کے گردشی قرضہ کے قد و قامت کی سی یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ جتنےبھی "شکایتی ٹٹو” الکٹرتونک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر شکایتوں کے پلندے کھولے بیٹھے ہیں ان میں سے اکثریت ان کی ہےجنہیں یقین ہے کہ اس مملکتِ خداداد نے فقط ایک سبز پاسپورٹ اور اسکے ساتھ آنے والی پریشانیوں کے علاوہ انہیں اور کچھ نہیں دیا۔ یہ شکایت کنندگان اس قوم کا سب سے کمزور اور لاچار طبقہ ہیں جبھی ان کی شکایات پر کوئی سنجیدگی سے کان دھرنے کو تیار نہیں۔
اس گروہ میں بہت سے فرقے ہیں مگر چند جو قابلِ ذکر ہیں ان میں سب سے پہلے تو وه وردی والے ریٹائرڈ حضرات ہیں جو اپنا سب کچھ اس قوم پر قربان کرچکے ہیں (یا شاید اس قوم کا سب کچھ خود پر قربان کر دیا) پر اب ریٹائرمنٹ کے بعد ان سےرہا نہیں جاتا اور ہائے توبہ کرتے نہیں تھکتے۔خوش شکل، خضاب زدہ اور صابر، یہ صرف قوم کے مفاد میں اپنی آواز اٹھاتے ہیں کیونکہ انہیں اس ملک کے علاوه کسی اور چیز میں دلچسپی نہیں ہے؛ نہ جائیدادمیں اور نہ ہی ٹرانسپورٹ کے کاروبار میں ،نہ دلیہ میں اور نہ ہی چینی بنانے کے کاخانوں میں، اچھی کھاد ذخیرہ کر کے بیچنے سےبھی کوئی شغف نہیں اور آج کل فلمیں بنانے کا دھندا ویسے ہی مندے کا شکار ہے۔ یہ سابق وردی والے سیلوٹ کی کمی کا شکار ہونے کے بعد روزانہ کسی نہ کسی ٹی وی چینل پر اورکسی نہ کسی اخبار ی کالم میں شکایات کے معصوم جام چھلکاتے نظر آتے ہیں، یہ سبھی سوال اٹھاتے ہیں اور بس اٹھاتے ہی چلے جاتے ہیں۔ انہیں ہر ایک سے گلہ ہے: سیاستدانوں سے، تاجر برادری سے، صحافی بھائیوں سے، ادیبوں اور مصوروں سے، طالبِ علموں سے، اساتذه سے۔۔۔ حتٰی کہ پاکستان کی تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسا طبقہ ہو جس نے انہیں شکایت کا موقع نہ دیا ہو۔
مگرمنبر ومحراب کےرکھوالوں کا طبقہ ان سے بھی بڑھ شکوہ کناں ہے جو اس ملک کے ہر باشندے سے نالاں ہے۔ ہر مذہبی جماعت کے ہر رہنما نے پچھلے 66 سالوں میں اپنے شکوے شکایتوں سے اس قوم کے کان لہولہان کر دیے ہیں۔ شاید اس لیے کے افواجِ پاکستان کے ہرریٹائرڈ افسر کی طرح، ان بیچاروں کی بھی آج تک کسی نے نہیں سنی۔ یہ سپیکر پھاڑ کر چلاتے رہتے ہیں اور ملک و قوم کو سیدھی راه پر چلنے کی ہدایت کرتے رہتے ہیں پر قوم ایسی ناہنجار ہے کے اس کے 40 کروڑ کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔یہ مجبور، داڑھیوں سے بھرپورہجومِ نیکوکاراں اور کرے بھی تو کیا؟ اپنی نیک نیتی کا اظہارکس طرح کرے؟ بم، بندوق ، فتوے اور ڈنڈے کے ذریعے شکایت نہ کرے تو اپنے ضمیر کو مطمئن کیسے کرے؟
ٹیلیویژن پر روزانہ شکایتوں کا بازار گرم کرنے والے اینکرپرسن اُس تیسرے محب وطن شکایتی طبقہ میں شامل ہیں جسے آج تک اس قوم نے وه پذیرائی نہیں بخشی جس کا وه حقدار ہے۔بے غرض، نازک اندام یہ فرشتہ صفت اینکر ہر شام قوم کے مسکین ترین طبقات( یعنی کہ وه دو گروه جن کا ذکر کچھ کیا جا چکا ہے) کی آواز بن کر دنیا سے اپنے سوالوں کا جواب طلب کرتے ہیں۔یہ ساده دل لکھ پتی اینکر،صحافت کے پرانے دقیانوسی اصولوں کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں اور بلک بلک کر ہماری اور آپکی بھلائی کی دعائیں مانگتے ہیں۔ یہ دعائیں عموماً براہ راست رمضان نشریات کے دوران خطرناک اور بھیانک شکایتوں کی صورت اختیار کر لیتی ہیں مگر سچائی کے یہ محافظ کسی سے ڈرے بغیر ہر اس شخص کی” آن کیمرہ "پگڑی اچھالتے ہیں جس سے انہیں کسی بھی کی گزند پہنچنے کا خوف نہ ہو۔ دوسرے شکایتی ٹٹوؤں کی طرح یہ بھی بہت لاچار اور کمزور ہیں مگر بالکل انہی کی طرح یہ بھی وطن کی مٹی کی محبت میں گرفتار، دوسروں پر لعن طعن کرنے پر مجبور ہیں۔
صنعتکار اور سیاستدان ہمارے ملک کا وه حصہ ہیں جو نہ ایک دوسرے کے ساتھ رہ سکتے ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے کے بغیر۔ اسی لیے کچھ سال قبل وه اس فیصلے پر پہنچے کہ ایک دوسرے کی شکایتوں سےاپنا جی خواه مخواه ہلکان کرنے کی بجائے کیوں نہ دونوں اپنے پیشوں کا فرق ہمیشہ کے لیئے مٹا دیں اور اپنی شکایتی توپوں کا رخ کسی اورجانب موڑ دیں؟ چنانچہ اب آپ،ہم اور کوئی مائی کا لال اس ملک کے کسی سیاستدان اور بزنس مین میں فرق نہیں بتا سکتا۔اکھٹے ہونے کا قطعا یہ مطلب نہیں کہ ان کی شکایات میں کوئی کمی آئی ہو، وه آج بھی اسی جوش و خروش سے سبھی پر کیچڑ اچھالتے ہیں جیسے ماضی میں اچھالا کرتے تھے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اب وه ایک دوسرے کے کیچڑ میں لتھڑے کپڑے خود ہی دھوبی گھاٹ پہنچادیتے ہیں اورصفائی کا بلِ بھی اپنی جیب سے ادا کر دتے ہیں۔
اب آپ کہیں گے کہ جس قسم کے حالات ملک کو درپیش ہیں، وہاں عام آدمی اگر شکایت نہ کرے تو اورکیا کرے ؟ یہ بات بھی درست ہےمگر جب آپ شکایتوں کے انبار پر نظر ڈالتے ہیں تو آپ کے سامنے بجلی کے گردشی قرضہ کے قد و قامت کی سی یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ جتنےبھی "شکایتی ٹٹو” الکٹرتونک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر شکایتوں کے پلندے کھولے بیٹھے ہیں ان میں سے اکثریت ان کی ہےجنہیں یقین ہے کہ اس مملکتِ خداداد نے فقط ایک سبز پاسپورٹ اور اسکے ساتھ آنے والی پریشانیوں کے علاوہ انہیں اور کچھ نہیں دیا۔ یہ شکایت کنندگان اس قوم کا سب سے کمزور اور لاچار طبقہ ہیں جبھی ان کی شکایات پر کوئی سنجیدگی سے کان دھرنے کو تیار نہیں۔
اس گروہ میں بہت سے فرقے ہیں مگر چند جو قابلِ ذکر ہیں ان میں سب سے پہلے تو وه وردی والے ریٹائرڈ حضرات ہیں جو اپنا سب کچھ اس قوم پر قربان کرچکے ہیں (یا شاید اس قوم کا سب کچھ خود پر قربان کر دیا) پر اب ریٹائرمنٹ کے بعد ان سےرہا نہیں جاتا اور ہائے توبہ کرتے نہیں تھکتے۔خوش شکل، خضاب زدہ اور صابر، یہ صرف قوم کے مفاد میں اپنی آواز اٹھاتے ہیں کیونکہ انہیں اس ملک کے علاوه کسی اور چیز میں دلچسپی نہیں ہے؛ نہ جائیدادمیں اور نہ ہی ٹرانسپورٹ کے کاروبار میں ،نہ دلیہ میں اور نہ ہی چینی بنانے کے کاخانوں میں، اچھی کھاد ذخیرہ کر کے بیچنے سےبھی کوئی شغف نہیں اور آج کل فلمیں بنانے کا دھندا ویسے ہی مندے کا شکار ہے۔ یہ سابق وردی والے سیلوٹ کی کمی کا شکار ہونے کے بعد روزانہ کسی نہ کسی ٹی وی چینل پر اورکسی نہ کسی اخبار ی کالم میں شکایات کے معصوم جام چھلکاتے نظر آتے ہیں، یہ سبھی سوال اٹھاتے ہیں اور بس اٹھاتے ہی چلے جاتے ہیں۔ انہیں ہر ایک سے گلہ ہے: سیاستدانوں سے، تاجر برادری سے، صحافی بھائیوں سے، ادیبوں اور مصوروں سے، طالبِ علموں سے، اساتذه سے۔۔۔ حتٰی کہ پاکستان کی تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسا طبقہ ہو جس نے انہیں شکایت کا موقع نہ دیا ہو۔
مگرمنبر ومحراب کےرکھوالوں کا طبقہ ان سے بھی بڑھ شکوہ کناں ہے جو اس ملک کے ہر باشندے سے نالاں ہے۔ ہر مذہبی جماعت کے ہر رہنما نے پچھلے 66 سالوں میں اپنے شکوے شکایتوں سے اس قوم کے کان لہولہان کر دیے ہیں۔ شاید اس لیے کے افواجِ پاکستان کے ہرریٹائرڈ افسر کی طرح، ان بیچاروں کی بھی آج تک کسی نے نہیں سنی۔ یہ سپیکر پھاڑ کر چلاتے رہتے ہیں اور ملک و قوم کو سیدھی راه پر چلنے کی ہدایت کرتے رہتے ہیں پر قوم ایسی ناہنجار ہے کے اس کے 40 کروڑ کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔یہ مجبور، داڑھیوں سے بھرپورہجومِ نیکوکاراں اور کرے بھی تو کیا؟ اپنی نیک نیتی کا اظہارکس طرح کرے؟ بم، بندوق ، فتوے اور ڈنڈے کے ذریعے شکایت نہ کرے تو اپنے ضمیر کو مطمئن کیسے کرے؟
ٹیلیویژن پر روزانہ شکایتوں کا بازار گرم کرنے والے اینکرپرسن اُس تیسرے محب وطن شکایتی طبقہ میں شامل ہیں جسے آج تک اس قوم نے وه پذیرائی نہیں بخشی جس کا وه حقدار ہے۔بے غرض، نازک اندام یہ فرشتہ صفت اینکر ہر شام قوم کے مسکین ترین طبقات( یعنی کہ وه دو گروه جن کا ذکر کچھ کیا جا چکا ہے) کی آواز بن کر دنیا سے اپنے سوالوں کا جواب طلب کرتے ہیں۔یہ ساده دل لکھ پتی اینکر،صحافت کے پرانے دقیانوسی اصولوں کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں اور بلک بلک کر ہماری اور آپکی بھلائی کی دعائیں مانگتے ہیں۔ یہ دعائیں عموماً براہ راست رمضان نشریات کے دوران خطرناک اور بھیانک شکایتوں کی صورت اختیار کر لیتی ہیں مگر سچائی کے یہ محافظ کسی سے ڈرے بغیر ہر اس شخص کی” آن کیمرہ "پگڑی اچھالتے ہیں جس سے انہیں کسی بھی کی گزند پہنچنے کا خوف نہ ہو۔ دوسرے شکایتی ٹٹوؤں کی طرح یہ بھی بہت لاچار اور کمزور ہیں مگر بالکل انہی کی طرح یہ بھی وطن کی مٹی کی محبت میں گرفتار، دوسروں پر لعن طعن کرنے پر مجبور ہیں۔
صنعتکار اور سیاستدان ہمارے ملک کا وه حصہ ہیں جو نہ ایک دوسرے کے ساتھ رہ سکتے ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے کے بغیر۔ اسی لیے کچھ سال قبل وه اس فیصلے پر پہنچے کہ ایک دوسرے کی شکایتوں سےاپنا جی خواه مخواه ہلکان کرنے کی بجائے کیوں نہ دونوں اپنے پیشوں کا فرق ہمیشہ کے لیئے مٹا دیں اور اپنی شکایتی توپوں کا رخ کسی اورجانب موڑ دیں؟ چنانچہ اب آپ،ہم اور کوئی مائی کا لال اس ملک کے کسی سیاستدان اور بزنس مین میں فرق نہیں بتا سکتا۔اکھٹے ہونے کا قطعا یہ مطلب نہیں کہ ان کی شکایات میں کوئی کمی آئی ہو، وه آج بھی اسی جوش و خروش سے سبھی پر کیچڑ اچھالتے ہیں جیسے ماضی میں اچھالا کرتے تھے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اب وه ایک دوسرے کے کیچڑ میں لتھڑے کپڑے خود ہی دھوبی گھاٹ پہنچادیتے ہیں اورصفائی کا بلِ بھی اپنی جیب سے ادا کر دتے ہیں۔
یہ ساده دل لکھ پتی اینکر،صحافت کے پرانے دقیانوسی اصولوں کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں اور بلک بلک کر ہماری اور آپکی بھلائی کی دعائیں مانگتے ہیں۔ یہ دعائیں عموماً براہ راست رمضان نشریات کے دوران خطرناک اور بھیانک شکایتوں کی صورت اختیار کر لیتی ہیں مگر سچائی کے یہ محافظ کسی سے ڈرے بغیر ہر اس شخص کی” آن کیمرہ "پگڑی اچھالتے ہیں جس سے انہیں کسی بھی کی گزند پہنچنے کا خوف نہ ہو۔
آخری شکایتی طبقہ ملک سے باہر مقیم وه پاکستانی ہیں جن کا تعلق ہمارے مزدور یا محنت کش طبقے سے نہیں بلکہ اس کلاس سے ہے جسکے پاس بزنس ایڈمنسٹریشن کی ایک آدھ ڈگری، مغربی پاسپورٹ اور کم ازکم دو گھر ہیں، ایک یہاں اور دوسرا وہاں (یہاں اور وہاں اصل میں کہاں ہیں اس کا وه فرعونی انداز میں کبھی ذکر نہیں کرتے)۔ اس طقہ کی مستقل شکایت یہ ہے کہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ ساری مسلم دنیا اس قابل نہیں رہی جہاں وه اپنے (دوسروں کے) خون پسینے سے کمائے ہوئے سالانہ بونس کو محفوظ طریقے سے invest کر سکیں۔ انقلاب اپنی جگہ پر پر مغرب آخر مغرب ہے۔اس طبقہ میں ہمارے وه محنت کش، خوشبودار،جراثیم کش صابن و روغنیات استاہہل کرنے والے، خشکی سے پاک اصحاب بھی شامل ہیں جو پچھلے برس بزنس کلاس میں سوار ہوکر اپنے پیارے ہرے پاسپورٹ والے وطن انقلاب لانے آئے تھے اور جب ان کے مطلب کا انقلاب نہ آیا تو دل برداشتہ ہوکر اگلی فلائٹ سے واپس لوٹ گئے۔ واپس پہنچتے ہی انہوں نے اپنے غصے کا اظہار اس طرح کیا کہ اپنا دبئی کا چار بیڈروم پر مشتمل وِلا(Villa) فروخت کر کے اس کی جگہ لندن میں ایک ڈیلکس فلیٹ خرید لیا۔
شکایتیں کرنے والے باقی ماندہ بچے کھچے عام پاکستانی ملک و قوم کا درد رکھنے والے ان بے چارے گروہوں کی طرح کمزور اور لاچار نہیں، لہٰذا ہماری ہمدردی کے مستحق نہیں۔ ان میں سے بہت سے تو اتنے طاقتور، مبوےط اور خوش باش ہیں کے پیدل ہی بلوچستان سے سندھ اور سندھ سے پنجاب کی سیرکوچلے آتے ہیں۔ کئی تو 24 سالہ لطیف جوہر کی طرح اپنے آس پاس کے حالات سے اتنے مطمئن ہیں کہ خوشی کے مارے کھانا پینا تک چھوڑ دیتے ہیں ایسا ہی معاملہ ملک کی کچھ اقلیتوں کے ساتھ بھی ہےجن کی شکایتوں کی آواز آج تک ہمارے کانوں تک نہیں پہنچی جس سے یقیناً یہی ثابت ہوتا ہے کہ یا تو سرے سے انہیں کوئی شکایت ہی نہیں اور اگر ہے تو اس قدر معمولی کہ وہ شکایت کرنا ہی نہیں چاہتے۔
شکایتی ٹٹو زنده قوموں کی نشانی ہوتے ہیں اور چوں کہ ہم ایک زندہ و پائندہ قوم ہیں اس لئے مستقل شکایت کرتے رہنا ہماری پہچان بن چکا ہے۔ ہمیں یہود و ہنود سے، صدر اوباما کے سوتیلے بھائی سے، آسٹریلیا کے کینگرووں سے، دبئی کی ثقافت سے سے، افریقہ کے گھنے جنگلات سے، روتھس چائلڈ خاندان کے سب اراکین سے، چھوٹی بچیوں کے اسکولوں سے، لڑکیوں کے کالجوں سے حتٰی کے پوری عورت ذات سے شکایت ہے، اور ہو بھی کیوں نہیں، آخر ہم پاکستانی اور مسلمان ہیں۔
آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی
ہم جنہیں رسمِ دعا یاد نہیں
ہم جنہں سوزِ "شکایت "کے سوا
کوئی بت کوئی خدا یاد نہیں
شکایتیں کرنے والے باقی ماندہ بچے کھچے عام پاکستانی ملک و قوم کا درد رکھنے والے ان بے چارے گروہوں کی طرح کمزور اور لاچار نہیں، لہٰذا ہماری ہمدردی کے مستحق نہیں۔ ان میں سے بہت سے تو اتنے طاقتور، مبوےط اور خوش باش ہیں کے پیدل ہی بلوچستان سے سندھ اور سندھ سے پنجاب کی سیرکوچلے آتے ہیں۔ کئی تو 24 سالہ لطیف جوہر کی طرح اپنے آس پاس کے حالات سے اتنے مطمئن ہیں کہ خوشی کے مارے کھانا پینا تک چھوڑ دیتے ہیں ایسا ہی معاملہ ملک کی کچھ اقلیتوں کے ساتھ بھی ہےجن کی شکایتوں کی آواز آج تک ہمارے کانوں تک نہیں پہنچی جس سے یقیناً یہی ثابت ہوتا ہے کہ یا تو سرے سے انہیں کوئی شکایت ہی نہیں اور اگر ہے تو اس قدر معمولی کہ وہ شکایت کرنا ہی نہیں چاہتے۔
شکایتی ٹٹو زنده قوموں کی نشانی ہوتے ہیں اور چوں کہ ہم ایک زندہ و پائندہ قوم ہیں اس لئے مستقل شکایت کرتے رہنا ہماری پہچان بن چکا ہے۔ ہمیں یہود و ہنود سے، صدر اوباما کے سوتیلے بھائی سے، آسٹریلیا کے کینگرووں سے، دبئی کی ثقافت سے سے، افریقہ کے گھنے جنگلات سے، روتھس چائلڈ خاندان کے سب اراکین سے، چھوٹی بچیوں کے اسکولوں سے، لڑکیوں کے کالجوں سے حتٰی کے پوری عورت ذات سے شکایت ہے، اور ہو بھی کیوں نہیں، آخر ہم پاکستانی اور مسلمان ہیں۔
آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی
ہم جنہیں رسمِ دعا یاد نہیں
ہم جنہں سوزِ "شکایت "کے سوا
کوئی بت کوئی خدا یاد نہیں
Leave a Reply