فلسطین کے شاعر محمود درویش کی ایک نظم کا ترجمہ
لکھو!!
میں ایک عربی ہوں
اور میرا شناختی نمبر پچاس ہزار ہے
میرے آٹھ بچے ہیں
اور گرمیوں کے بعد نواں ہوگا
کیا تم غضبناک ہو گے؟

لکھو
میں عربی ہوں
میں ایک کان میں مزدوری کرتا ہوں
ہمراہ دوست کارکنوں کے
آٹھ بچے ہیں میرے
مہیا کرتا ہوں میں انہیں
چٹانوں سے
روٹی،لباس اور کتابیں
میں منت سماجت نہیں کرتا تمہارے دروازوں پر
بھیک اکٹھی کرنے کے لیے
نہ خود کو ذلیل کرتا ہوں
تمہارے ایوانوں کے چوکھٹ پر
تو کیا غضبناک ہو جاؤ گے تم؟

لکھو
میں عربی ہوں
میری ایک شناخت ہے بغیر کسی نام کے
ضبط کیے ہوئے ہوں ایک سرزمین پر
خود کو طیش زدہ لوگوں کے درمیان
میری جڑیں پھیل چکی تھیں
وقت کی نمود اور قرن نمائی سے پہلے
زیتوں اور انناس کے بور اور سبزے کی دمیدگی سے قبل
میرا باپ ہاریوں کی قبیل سے ابھرا
طبقہ جلیل سے نہیں
اور میرا دادا دہقان تھا
نہ ٹھیک سے جنما، نہ ٹھیک سے پلا
مجھے پڑھایا جاتا ہے سورج کا غرور
قرات سیکھنے سے پہلے
میرا گھر ہے پہرےدار کے جھونپڑے کے مانند
بانس اور شاخچوں سے تعمیر شدہ
کیا یہ تعارف کافی ہے تمہارے لیے؟
میری ایک شناخت ہے بغیر کسی نام کے

لکھو
میں عربی ہوں
چوری کر لیے ہیں تم نے میرے اجداد کےباغات
اور وہ کھیت جنہیں میں نے زرخیز رکھا
اپنی اولاد کے ساتھ
اور تم نے کچھ نہیں چھوڑا ہمارے لیے
ان چٹانوں کے سوا
تو کیا ریاست قابض ہو جائے گی ان پر
جیسا کہ ہمیں بتایا گیا ہے؟
خیر!!
سرنامے پر تحریر کر دو
میں عداوت نہیں کرتا
نہ مداخلت کرتا ہوں
لیکن جب مجھے بھوک لگی
تو میں نوچ کھاؤں گا غاصبوں کا ماس۔۔۔۔
آگاہ رہو
خبردار رہو
میری بھوک سے
اور میرے غصے کی تھوک سے

Leave a Reply