Laaltain

شعر شور انگیز:جلد اول-ایک مطالعہ

20 جولائی، 2016
(1)

 

کیا میں بھی پریشانی خاطر سے قریں تھا
آنکھیں تو کہیں تھیں دل غم دیدہ کہیں تھا

 

میر نے اس شعر میں جس طرح اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا ہے وہ مفہوم کو وسیع تناظر میں دیکھنے پر انگیز کرتا ہے۔
میرؔ نے دو تراکیب اور دو الفاظ کے سہارے شعر وضع کیا ہے۔ مصرع اول:ترکیب، پریشانی خاطر۔لفظ: قریں۔ مصرع دوئم:ترکیب :دل غم دیدہ لفظ: آنکھیں۔ مناسبت لفظی سے قطع نظر بقول فاروقی صاحب ’شعر کا مفہوم صاف ہے۔‘ سے مجھے اس حد تک اختلاف ہے کہ صرف اتنا کہہ دینے سے بات نہیں بنتی۔ میر نے اس شعر میں جس طرح اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا ہے وہ مفہوم کو وسیع تناظر میں دیکھنے پر انگیز کرتا ہے۔ یہ امر بھی ناقابل فراموش ہے کہ فاروقی صاحب نے لفظ ’پریشانی (بکھراؤ)‘ اور ’ قریں(نزدیک)‘ کے معنی کی وضاحت جس انداز میں کی ہے اس سے مفہوم کی تہہ داری میں اضافہ ہوتا ہے۔ مصرعہ اولا میں جس استفسار سے بات کی شروعات کی گئی ہے اس سے شعر میں ذو معنویت پیدا ہو گئی ہے۔ایک معنی تو وہ ہی ہیں جس طرح فاروقی صاحب نے اس شعر کے دوسرے مصرعے کی تشریح کی ہے، کہ خیال یار میں عاشق گم ہے جس کی وجہ سے ایسا منظر پیدا ہو گیا ہے جس سے عاشق ’پریشانی خاطر‘ میں مبتلا ہے۔‘

 

’تھا‘ جو ماضی کا استعارہ ہے اس میں ایک منفی تاثر تو پوشیدہ ہے ہی، لیکن، ساتھ ہی وہ گذشتہ حالات کی وضاحت بھی کر رہا ہے کہ عاشق کو یا معشوق کو گویا آج ہی اپنا احتساب نصیب ہوا ہے
فاروقی صاحب یہ بھی کہتے ہیں کہ دوسے مصرعے میں جس کیفیت کو میرؔ نے پیش کیا ہے اس سے ’پریشانی خاطر‘ کا جواز ملتا ہے۔ لیکن اس استفساری رویے میں اس کے بر عکس معنی بھی موجود ہیں ۔شعر پہ ذرا غور کیجئے تو سمجھ میں آتا ہے کہ میر ؔ خود سے یا کسی ماورائی شئے سے یہ سوال پو چھ رہے ہیں کہ کیا میں حقیقتاً کسی قسم یا کسی نوع کی پریشانی خاطر میں مبتلا تھا۔ ’تھا‘ جو ماضی کا استعارہ ہے اس میں ایک منفی تاثر تو پوشیدہ ہے ہی، لیکن، ساتھ ہی وہ گذشتہ حالات کی وضاحت بھی کر رہا ہے کہ عاشق کو یا معشوق کو گویا آج ہی اپنا احتساب نصیب ہوا ہے کہ کیا بات ہے کہ میں کسی بھی طرح کی پریشانی خاطر میں مبتلا نہیں ہوں، جب کہ زمانہ، میرا عاشق، میرا معشوق، دیگر رفقا ،صوفیااور ہر ذی روح کسی نہ کسی طرح کی پریشانی خاطر میں مبتلا ہیں۔ جو مجھے نصیب نہیں۔ لیکن، یہ بھی اظہاریہ کا حسن ہے کہ میں جب اس مصرعے کا مطالعہ کر تا ہوں تو تیسری قرۃ میں میرے لبوں پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ چھا جا تی ہے گویا مجھے اس بات کا افسوس نہیں ہے کہ میں ابھی تک اس عارضے میں مبتلا نہیں ہوا۔ بلکہ مجھے اپنے اس روّیے پر ہنسی آرہی ہے۔ اس مسکراہٹ کو واعظ کی سفاکی سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے جس سے میرؔ ایک ظالم اور خود غرض عاشق یا انسان کی صورت میں ہمارے سامنے آتے ہیں، خیر دوسرے مصرعے میں صرف مناسبت لفظی کا کھیل نظر نہیں آتا کہ میرؔ صرف اتنا کہہ کر آگے بڑھ گئے ہیں کہ ’آنکھیں تو کہیں تھی اور دل غم دیدہ کہیں تھا‘ پھر بھی دونوں ایک ہی جسم میں موجود تھے۔ بر خلاف اس کے میر ؔ غزل کی ردیف کا عمدہ استعمال کرتے ہوئے اسی استفساری روئے کو یہاں بھی قائم رکھتے ہیں جس سے منفی تاثر کا اظہار ہوتا ہے کہ آنکھیں تو کہیں تھی یعنی جسم میں موجود تھی اور نظر آرہی تھیں صرف اتنا ہی نہیں بلکہ آنکھوں کہ ساتھ ساتھ دل بھی تھا (دل اور آنکھ میں ایک یہ بھی مناسبت ہے کہ دونوں عشق کے اصل آلۂ کار ہیں) لیکن ایسا دل جس نے کسی قسم کا غم دیکھا ہو یا کسی نوع کی پریشانی میں مبتلا ہو، کہیں نہیں تھا گویا اس سے اس بات کا بھی احتمال ہورہا ہے کہ میرؔ ایسے دل کو دل ہی نہیں مانتے جس میں غم نہ ہو، لیکن یہ احتمال برائے نام ہے۔ میرؔ اس بات کا سرے سے انکار کر رہے ہیں کہ یہاں تو عشق وشق نام کا کوئی جذبہ موجود ہی نہیں ہے۔ پھر کیسا غم اور کیسی پریشانی۔

 

کس رات نظر کی ہے سوے چشمک انجم
آنکھوں کے تلے اپنے تو وہ ماہ جبیں تھا

 

سودا ‘واہ’ کے شاعر ہوں یا نہ ہوں لیکن میر ؔ کے ایسے کلام سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ میر ؔ حقیقتاً ‘آہ’ کے شاعر تھے۔
اس شعر کے ذریعے اگر میرؔ کی شخصیت کا احتساب کیا جائے تو انھیں منٹو کے افسانے ’بو‘ کے رندھیر سے مشابہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ فاروقی صاحب نے ’چشمک‘ کے معنی ’چھوٹی چھوٹی آنکھیں‘ بھی ہو سکتے ہیں۔‘ پر اکتفا کیا ہے جب کہ مجھے یقین ہے کہ میرؔ کی مراد وہی ہے جس کو سمجھنے میں فاروقی صاحب کامیاب رہے۔ اب دیکھئے کہ شاعری کے میرؔ میں اور اس میرؔ میں جسے گذشتہ دو صدیوں سے ایک آدم بیزار، دھیمے لہجے کا شاعر، صوفی، معتکف، اور آہ زدہ شاعر تسلیم کیا جا رہا ہے،اس میں اور اس میں کتنا فرق ہے۔ میں کہنے پر مجبور ہوں کہ سودا ‘واہ’ کے شاعر ہوں یا نہ ہوں لیکن میر ؔ کے ایسے کلام سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ میر ؔ حقیقتاً ‘آہ’ کے شاعر تھے لیکن وہ آہ میرؔ کی منہ سے کن وجوہات کی بنا پر نکلتی ہے اسے سمجھنے میں ہمارے بزرگوں سے غلطی ہوئی ہے۔

 

اب کوفت ہے ہجراں کی جہاں تن پہ رکھا ہاتھ
جو درد و الم تھا سو کہے تو کہ وہیں تھا

 

فاروقی صاحب نے جس طرح اس شعر کی تشریح کی ہے، بعید العقل معلوم ہوتا ہے کہ میرؔ نے اس عام طبی مشاہدے کو نظم کیا ہے۔ جب کہ شعر کا مفہوم اور گزشتہ اشعار کی مانند اس شعر کے اظہاریے کا استفساری رویہ اس امر کی وضاحت کر رہا ہے، کہ یہ صریحاً جنسی مضمون ہے۔ جس کو میرؔ نے ایک نفسیاتی علاج کی صورت تجویز کیا ہے۔ شعر کا پہلا مصرع تسکین اوسط سے قبل استفسار پر مبنی ہے اور اس کی دوسری شق اور دوسرا مصرع اس استفسار کا جواز۔ اس کی نثر کچھ اس طرح ہوگی کہ: ’جہاں تن (اس تن) پہ تو نے ہاتھ رکھا۔ اس غم ہجراں یا صاف الفاظ میں محبوب کے دور جانے کا جتنا درد و الم تھا سب جاتا رہا، گویااس فعل سے یہ بھی ثابت ہورہا ہے کہ سارا درد جسے تو ’یہاں‘ کا درد سمجھ رہا تھا حقیقتاً وہ ’وہاں‘ کادرد تھا۔ ’وہیں‘ سے میرؔ نے جو کھیل رچاہے وہ بہت خوب ہے۔ ’وہیں‘ یا ’وہاں‘ الفاظ کا استعمال ہم عام بول چال میں بھی دل کے لئے نہیں کرتے ۔سینے یا دل میں درد ہو بھی تو اس کے لئے لفظ اشارہ ’ یہاں‘ یا ’یہیں‘ کا استعمال ہوتا ہے۔ اس کے باوجود لفظ ’ یہاں ‘ کی بحث چھوڑ بھی دی جائے تو ’وہیں‘ سے دل مراد نہیں لیا جا سکتا۔ فاروقی صاحب سے ایک بڑی غلطی یہ ہوئی ہے کہ انہوں نے لفظ ’جہاں‘ کو ’جس جگہ‘ کے معنی میں سمجھا، جب کہ ’جہاں‘ کا استعمال ’جس گھڑی‘ کے معنی میں ہوا ہے۔اس صورت میں ’جہاں‘ لفظ ’وہیں‘ کا جواز پیش نہیں کرتا اور اس سے اسی جنسیت کے مضمون کی جانب اشارہ ہوتا ہے جس کا ذکر میں نے اوپر کیا۔ اب یہ جنسیت ’منٹو‘ والی ہے یا ’میراجی‘ والی اس کا فیصلہ قاری کے مزاج کے مطابق ہو گا۔

 

(2)

 

نکلے ہے چشمہ جو کوئی جوش زناں پانی کا
یاددہ ہے وہ کسو چشم کی گریانی کا

 

چلیے وقتی طور پر مان لیجئے کہ مصرع میں: ہے، جو، کوئی یا کا اضافی ہیں تو کیا آپ انھیں مصرع سے نکال دیں گے، اور کیا یہ اتنے ہی غیر ضروری ہیں جتنا انھیں سمجھا جا رہا ہے؟
اس شعر کے ضمن میں فاروقی صاحب کے اس تنقیدی رویے سے مجھے اختلاف ہے جس کو وہ اکثر شعرا کے اشعار پر تنقید کرتے وقت روا رکھتے ہیں۔ مثلاً مصرعِ اولیٰ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ’چشمہ کے ساتھ ’پانی کا‘ کہنے کی ضرورت نہ تھی۔‘ یا ’مصرع میں بھرتی کے الفاظ بہت ہیں۔‘ آگے اپنے ہی بیان کی تردیدمیں کہہ گئے کہ ’یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ اگر چہ لفظ ’چشمہ‘ خود ہی ’پانی‘ کا مفہوم رکھتا ہے لیکن اس کے ساتھ ’پانی‘ کا لفظ اکثر استعمال ہوتا ہے۔‘ اس کے بعد ’خضر راہ‘ سے اقبال کا ایک لا جواب شعر پیش کیا ہے۔ اول بات جب ’پانی‘ کی موجودگی کی دلیل مل گئی تھی تو اس جملے کو سرے سے کاٹ دینا چاہئے تھا کہ ’چشمہ کے ساتھ ’پانی کا‘ کہنے کی ضرورت نہ تھی۔‘ دوسری بات یہ کہ ہمیں اس بات پر زور نہیں دیناچاہئے کہ شاعر نے فلاں لفظ کیوں استعمال کیا ہے۔اس لئے کہ شاعر کو الفاظ کے استعمال کی آزادی ہے۔ (اور نہ کہ میرؔ جیسے شاعر جو ایک ایک لفظ کو سجا، بنا کر استعمال کرتے ہیں) اس کے بر عکس اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ کیا شاعر اس لفظ کا استعمال کر کے شعر بنانے میں کامیاب ہوا ہے، فاروقی صاحب نے اس شعر میں ’حشو و زواید‘ کا عیب بھی گنایا ہے ،کہ’مصرع میں بھرتی کے الفاظ بہت ہیں۔‘ حالاں کہ مصرع میں الفاظ ہی کتنے ہیں، چلیے وقتی طور پر مان لیجئے کہ مصرع میں: ہے، جو، کوئی یا کا اضافی ہیں تو کیا آپ انھیں مصرع سے نکال دیں گے، اور کیا یہ اتنے ہی غیر ضروری ہیں جتنا انھیں سمجھا جا رہا ہے؟ کیا یہ شعر میں موسیقی کی تکمیل کا کام انجام نہیں دے رہے ؟معنوی اعتبار سے ہو سکتا ہے کہ کسی لفظ کے بنا بات مکمل ہو سکتی ہے، لیکن شعر کے Musical System میں ہر لفظ کی اپنی اہمیت ہے جس کا نعم البدل بھی تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ہو سکتا ہے میرؔ ’ہے، جو، کوئی یا کا‘ کا استعمال نہ کرتے تو اس سے اچھا شعر بن جاتا۔ لیکن، یہ بھی ممکن ہے کہ اس مفہوم کی ادائیگی میں میرؔ ان الفاظ کا استعمال کرنے پر مجبور ہو گئے ہوں کہ ان کے نعم البدل سے شعر کی صورت اور خراب ہو جائے گی۔مجموعی طور پر کوئی شعر اگر خراب ہے تب تو اس میں حشو و زواید کی اغلاط گنوائی جا سکتی ہیں لیکن اچھا شعر خواہ اس میں کتنے ہی الفاظ بھرتی کے ہوں اس میں یہ عیب گنانا غیر معقول فعل ہے۔

 

اس کا منہ دیکھ رہا ہوں سو وہی دیکھوں ہوں
نقش کا سا ہے سما میری بھی حیرانی کا

 

فاروقی صاحب نے نقش سے متعلق جو رائے قائم کی ہے وہ بالکل درست ہے ۔نقش میں ’سحر‘ کی بھی کیفیت ہے، لیکن میر ؔ کے جس دوسرے شعر کو اس شعر کے مفہوم کے عین مطابق قرار دیا ہے اس پہ کسی حد تک سوال قائم ہوتا ہے۔

 

رہیں ہیں دیکھ جو تصویر سے ترے منھ کو
ہماری آنکھ سے ظاہر ہے یہ کہ حیراں ہیں

 

اس شعر کو سمجھنے میں فاروقی صاحب کتنے کامیاب رہے ہیں اس سے قطع نظر اس شعر کو مندرجہ بالا شعر کے مماثل قرار دینے میں ’وہی‘ کا ابہام آڑے آتا ہے۔
اس کا منہ دیکھ رہا ہوں سو وہی دیکھوں ہوں

 

اس مصرع میں میرؔ نے ’وہی‘ کے التزام سے گیرائی پیدا کر دی ہے، جس سے دو نوں اشعار معنوی اعتبار سے مختلف ہو گئے ہیں۔’وہی‘ میں پست اور بلند دونوں معنی ہیں۔ ’وہی‘ سے ’وہیں‘ کی طرف بھی ذہن جاتا ہے جس پر اوپر بحث ہو چکی ہے اور’وہی‘ میں متصوفانہ رنگ بھی پوشیدہ ہے۔

 

(3)

 

شب ہجر میں کم تظلم کیا
کہ ہمسایگاں پر ترحم کیا

 

اس شعر کی سب سے اہم بات ہے کہ جہاں زیادہ تر شعرا نے اس مفہوم کی ادائیگی کے لئے ’رات‘ اور ’رونے‘ کے الفاظ کا استعمال کیا ہے، وہیں میرؔ نے اپنی انفرادیت برقرار رکھتے ہوئے ’شب‘اور ’تظلم‘ جیسے الفاظ کا سہارا لیا ہے۔
اس شعر کی سب سے اہم بات ہے کہ جہاں زیادہ تر شعرا نے اس مفہوم کی ادائیگی کے لئے ’رات‘ اور ’رونے‘ کے الفاظ کا استعمال کیا ہے، وہیں میرؔ نے اپنی انفرادیت برقرار رکھتے ہوئے ’شب‘اور ’تظلم‘ جیسے الفاظ کا سہارا لیا ہے۔ شب تو بہر حال ادائے مطا لب کے لئے عام ہے لیکن تظلم جیسے الفاظ کو غزل کے شعر میں اس خوبی سے استعمال کرنا میرؔ کا ہی خاصہ ہے۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس شعر میں میرؔ نے تظلم یا آہ و زاری کا جواز پیش کیا ہے کہ ’شب ہجر ‘ہے اس لئے تظلم کی نوبت آن پہنچی اور اس پر بھی یہ طنطنہ کہ اس حالت میں بھی مجھے ہمسائگاں کا خیال ہے ۔بقول فاروقی صاحب ’بے چارگی میں بھی اپنی وقعت دیکھنا میرؔ کا ہی کرشمہ ہے۔‘ یہ میرؔ کی بڑی خاصیت ہے جس جانب فاروقی صاحب نے ہماری توجہ مبذول کرائی ہے۔فاروقی صاحب نے اس شعر کی تشریح کرتے ہوئے خاقانی ؔ کا ایک شعر رقم کیا ہے۔

 

ہمسایہ شنید نالہ ام گفت
خاقانیؔ را دگر شب آمد
(ترجمہ: پڑوسی نے میرا نالہ سنا تو بولا، خاقانی پر ایک اور رات آ گئی۔)

 

نیچے لکھتے ہیں ’اس شعر اور میرؔ کے شعر پر مزید بحث ’شعر، غیر شعر، اور نثر‘ میں ملاحظہ کریں۔‘ جس سے گمان گزرتا ہے کہ فاروقی صاحب نے خاقانیؔ کے شعر اور میرؔ کے ’تظلم‘والے شعر پر اپنے مضمون میں بحث کی ہے۔جس کے بر عکس فاروقی صاحب نے میرؔ کے مندرجہ ذیل شعر جس کا مفہوم کچھ حد تک اس شعر سے مشابہ ہے پر بحث کی ہے۔

 

جو اس شور سے میرؔ روتا رہے گا
تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا

 

فاروقی صاحب نے اپنی بحث میں مصحفیؔ اور میرحسنؔ کے یہ اشعار بھی شامل کئے ہیں۔
جو تو اے مصحفیؔ راتوں کو اس شدت سے رووے گا
تو میری جان پھر کیوں کر کوئی ہمسایہ سوئے گا

 

پھر چھیڑا حسنؔ اپنا قصہ
بس آج کی شب بھی سو چکے ہم

 

افسوس کہ فاروقی صاحب نے خاقانیؔ کے شعر کا موازنہ میرؔ کے’تظلم‘ والے شعر سے نہ کرتے ہوئے اسی مفہوم کے ایک ہلکے شعر سے کیا،اسی طرح دردؔ کے اسی مفہوم سے متعلق اس لا جواب شعر کو اپنی بحث میں شامل نہ کیا کہ:

 

رکھتا ہوں ایسے طالع بیدار میں کہ رات
ہمسایہ میرے نالوں کی دولت نہ سو سکا

 

دولت جو بمعنی بدولت استعمال ہوا ہے اس میں بھی شاعر نے یہ خیال پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کے میرے نالے ہی حقیقتاً میری دولت یا میرا کل اثاثہ ہیں۔
رعایت لفظی کا کھیل دیکھئے کہ سونا اور بیدار کا تضاد سوائے دردؔ کے کسی نے قائم نہیں کیا۔ دولت جو بمعنی بدولت استعمال ہوا ہے اس میں بھی شاعر نے یہ خیال پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کے میرے نالے ہی حقیقتاً میری دولت یا میرا کل اثاثہ ہیں۔اس سے یہ احتمال بھی ہوتا ہے کہ آہ و زاری کوئی نقصان کا سودا نہیں بلکہ منفعت بخش عمل ہے ۔دردؔ اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ یہ میری طالع بیداری یا میری خوش قسمتی ہے کہ میرے پاس نالوں کی دولت ہے ۔لیکن ساتھ ہی انہیں اس بات کا افسوس بھی ہے کہ میری اس دولت کی بدولت میرا ہمسایہ سو نہیں پاتا تو یہ دولت کس کام کی کہ میں ایذا رسانی کا سبب بن رہا ہوں ،کتنی عمدگی سے متضاد کیفیت پیدا کی ہے کہ جو سرمایہ باعثِ افتخار ہے حقیقتاً وہی وجہ افسوس۔ طالع بیدا ر کے ایک معنی ’معشوق‘ بھی ہیں، جس سے شعر کی صورت مختلف ہو جاتی ہے ۔پھر بھی دردؔ کا شعر کسی طرح میرؔ کے’ تظلم‘والے شعر سے کمتر نہیں معلوم ہوتا۔ جبکہ خاقانی ؔ، حسنؔ اور مصحفی ؔ کے ساتھ میرؔ کے ’جو اس شور سے میرؔ روتا رہے گا‘ کے اشعار سے بڑھا ہوا ہے۔

 

کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسم کیا

 

اس شعر کی تشریح فاروقی صاحب نے جس انداز میں کی ہے یا گوپی چند نارنگ نے جس طرح شعر کا عقدہ سلجھایا ہے، کچھ باتوں کو چھوڑ کر مجھے ان سے صد فی صد اتفاق ہے ۔لیکن میں نے اس شعرکو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ جس کی ہلکی سی جھلک بھی ان دونو ں ناقدین کی تشریحات میں نظر نہیں آتی۔ جہاں تک اختلاف کی بات ہے تو مجھے فاروقی صاحب کے اس جملے سے اختلاف ہے کہ ’پہلے مصرع میں جو سوال ہے اس کا مخاطب کوئی نہیں۔ وہ کلی تو ہر گز نہیں جس نے اسے سن کر جواب دیا۔بلکہ محض تبسم کیا ہے۔‘ اس کے علاوہ خود کلامی، اظہارِ حیرت جیسے مفروضے بھی ہیں،لیکن ان کے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ فاروقی صاحب کی اپنی رائے ہے۔ اسی طرح انہوں نے کلی کی مسکراہٹ کو جن وجوہات کی بنا پرعام اشارہ، طنزیا انداز یا الم ناک و قار وغیرہ سے تعبیر کیا ہے یہ سب ذاتی آرا ء کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں جن پر سوال قائم نہیں کیا جا سکتا ۔رہی نارنگ صاحب کی بات تو مجھے ان کی تشریح میں اس جملے سے اختلاف ہے جو بہر حال مجھے پسند آیاکہ انہوں نے فارو قی صاحب سے یا ایک حد تک سب سے مختلف رائے قائم کرنے کی کوشش کی۔ وہ اپنے مضمون ’اسلوبیات میر‘ میں اس شعر کے ضمن میں فرماتے ہیں۔ ’مکالمہ جاندار اور بے جان کے پیچ میں ہے۔‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سوال کرنے والا حقیقتاً کوئی شخص یا ذی رو ح ہے ۔اس جملے سے شعر کو سمجھنے کی ایک نئی جہت فراہم ہوتی ہے۔ جس کی جھلک فاروقی صاحب کی تشریح میں نظر نہیں آتی۔ لیکن میں ان سے اس حد تک اختلاف رکھتا ہوں کہ میری تشریح ان کے اس خیال کی تر دید کرتی ہے ورنہ شعر کو دیکھنے کا ایک رخ یہ بھی ہو سکتا ہے۔

 

میر ؔ کا یہ کمال ہے کہ اس نے معشوق کو بیک وقت ’گل‘ اور ’کلی‘ دو استعاروں سے نو ازا ہے۔ کردار ایک ہی ہے پر نام دو ہیں۔
نارنگ صاحب سے چوک ہوئی کہ انہوں نے صرف خطیب پر نگاہ کی اور بظاہر معنی سے استفادہ کرتے ہوئے مخاطب کی شخصیت کا بغور جائزہ نہیں لیا ورنہ انھیں محسوس ہوتا کہ مکالمہ جاندار اور بے جان کے پیچ نہیں، بلکہ دو ذی روح اشخاص کے درمیان ہو رہا ہے۔ شعر میں بنیادی طور پر دو کردار ہیں۔ ایک عاشق دوسرا معشوق۔ عاشق وہ ہے جو سوال پوچھ رہا ہے اور معشوق وہ ہے جو جواباً مسکرا رہا ہے۔ میر ؔ کا یہ کمال ہے کہ اس نے معشوق کو بیک وقت ’گل‘ اور ’کلی‘ دو استعاروں سے نو ازا ہے۔ کردار ایک ہی ہے پر نام دو ہیں۔ لہٰذا جب عاشق اپنے معشوق سے یہ سوال کرتا ہے کہ آج اس خلوت خانے میں تمہارا ثبات یا پائداری یا قیام کتنا ہے۔ تو اس ’ کتنا‘ میں جھلّاہٹ اور خفگی کے ملے جلے اثرات نظر آتے ہیں۔ جس سے اس بات کا بھی اظہار ہو رہاہے کہ کل تو تم آتے ہی چل دئے تھے لہٰذا کیا آج بھی وہی کرنے کا ارادہ ہے۔ کلی (جو معشوق کا دوسرا استعارہ ہے۔) نے جیسے ہی اپنے عاشق کا یہ شکوہ سنا تو وہ مسکرا اٹھی۔اس مسکرا ہٹ میں چھیڑ چھاڑ بھی ہے اور قیام کے اقرار کا اظہار بھی۔ مزاجاً بھی شعر کا اگر تجزیہ کیا جائے تو یہ میرؔ صاحب کا کمال ہے کہ انہوں نے یہاں بھی متضاد رویہ بخوبی برقرار رکھا ہے ۔پہلے مصرع میں اگر خفت اور ناراضگی کا اثر ہے تو دوسرے میں لفظ مسکراہٹ سے پورا ماحول خوشگوار بنا دیا ہے۔

 

زمانے نے مجھ جرعہ کش کو ندان
کیا خاک و خشت سرخم کیا

 

فاروقی صاحب اس شعر کے متعلق ایک مقام پر فرماتے ہیں ’خاک ہونے پر کوئی غم نہیں ہے‘ یہاں تک تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن اسی کے ساتھ جب یہ کہتے ہیں کہ شعر میں ’ہٹ دھرمی سے ابھرا ہوا غرو رہے‘ تواس کاجوازکہیں نظر نہیںآتا۔ہٹ دھر می اس صورت میں ہوتی جب میر ؔ صاحب شعر اس طرح کہتے کہ:

 

زمانے نے مجھ جرعہ کش کو ندان
کیا خاک و خشت سر خم ہوا

 

لیکن میر ؔ نے ’ہوا‘ کی جگہ شعر میں ’کیا‘ کا استعمال کیا ہے۔ جس کے معنی واضح طور پر یہ ہیں کہ جس نے خاک کیا اسی نے خشت سر خم بھی کیا۔ میرؔ صاحب اس ذات کا اعتراف کر رہے ہیں جسے وہ ’زمانے‘ کے نام سے موسوم کرتے ہیں کہ اس نے مجھے خاک تو کیا اور خاک ہونا میرا مقدر بھی تھا کہ ہر وہ شخص جو جرعہ کشی کے عمل میں مبتلا ہوتا ہے اآخر کار اسے خاک ہونا ہی پڑتا ہے۔ اسی مفہوم کا ایک شعر میر دردؔ کے یہاں بھی ملتا ہے جس پر شاید فاروقی صاحب کی نگاہ نہیں پہنچی اور وہ رندؔ اور خیامؔ تک بہنچ گئے کہ:

 

زمانے کی نہ دیکھی جرعہ ریزی درد کچھ تو نے
ملایا مثلِ مینا خاک میں خوں ہر شرابی کیا

 

درد ؔ کے شعر میں یہ بات نظر آتی ہے کہ ’شعر میں ایک طنزیہ پہلو بھی ہے‘ لیکن میرؔ کے شعر میں وہ طنزیہ پہلو کہیں نظر نہیں آتا
درد ؔ کے شعر میں یہ بات نظر آتی ہے کہ ’شعر میں ایک طنزیہ پہلو بھی ہے‘ لیکن میرؔ کے شعر میں وہ طنزیہ پہلو کہیں نظر نہیں آتا بلکہ ہٹ دھرمی کے برعکس ایک التفات کی جھلک ہے کہ اس نے، جس کے تصرف میں ہے کہ جب چاہے خاک میں ملا دے اور جب چاہے پھر خلق کرے۔ اس نے خاک میں ملانے کے باجود ہم پر یہ کرم کیا کہ ہمیں خشت سر خم بنا دیا۔ جس کی وجہہ سے ہم ہر وقت ہر لمحے اپنے مقصود یا محبوب کا دیدار کر سکتے ہیں۔ ایک جگہ فاروقی صاحب نے خود بھی اس مفہوم کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن ’طنزیہ پہلو‘ کو ملحوظ رکھنے کی وجہہ سے اس مفہوم سے آگے نکل گئے۔ فرماتے ہیں۔ ’شعر میں ایک طنزیہ پہلو بھی ہے کہ جب تک میں زندہ رہا ،صرف بوند بوند شراب ملتی رہی، لیکن جب میں خاک ہو گیا تو مجھے خم کے سر پر بٹھا دیا۔اس میں ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ خشت خم چونکہ ڈھکنے کا کام کرتی ہے۔اس لئے شراب سے مجھے اتنی محبت ہے کہ مرنے کے بعد بھی خم کو ڈھانک رہا ہوں۔تاکہ شراب ضائع نہ ہو۔‘ اسی لئے انھیں یہ گمان گزرتا ہے کہ’شعر کا انداز بظاہر محزونی کا ہے، لیکن شاعر کا غرور پسِ پردہ جھانک رہا ہے۔‘ جب کہ شعر میں نہ محزونیت ہے نہ پس پردہ کسی قسم کا غرور۔

 

(4)
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا

 

اس شعرمیں بنیادی کردا ر ’بیماری دل‘نے ادا کیا ہے۔ جب کہ دوسرے شعر میں جسے فاروقی صاحب نے اس شعر کا ہم مضمون قرار دیا ہے :

 

نافع جو تھیں مزاج کو اول سو عشق میں
آخر انھیں دواؤں نے ہم کو ضرر کیا

 

اس میں ’دواؤں‘ کے کرنے نے اہم رول ادا کیا ہے۔پہلے شعر میں شاعر اس بات کا اعتراف کر رہا ہے کہ یہ میری غلطی ہے کہ میں نے انجام کار پر غور کر کے جو نتیجہ نکالا تھا وہ پوری طرح سے الٹ گیااور وہ تمام دوائیں جن کا اہتمام اس نتیجے کی بنیاد پر کیا گیا تھا جونتیجہ غلط نکلا۔ اس لئے تمام دوائیں بھی بے کار ثابت ہوئیں ۔اور دوسرے مصرع میں وہ (شاعر) اس بیان کی دلیل پیش کر رہا ہے کہ میں غلط نتیجے پر ہر گز نہ پہنچتا لیکن کیا کروں کہ یہ بیماری دل ،پریشانی خاطر جو ہے اس نے مجھے کسی کام کا نہیں رکھ چھوڑا۔ ’آخر کام تمام کیا‘ میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اب تمہاری یہ حالت بچی ہی نہیں ہے کہ تم کسی کام کو انجام دے سکو،لیکن اس میں مزید ایک پہلو یہ بھی پوشیدہ ہے کہ’آخر کام تمام کیا‘کی تکرار پورے شعرکو ایک مثبت معنی بھی فراہم کر دیتی ہے۔ وہ مثبت معنی یہ ہیں کہ ہماری ساری تدبیریں بھی الٹی ہو گئیں جو اس نے کسی کام کو انجام دینے کے لئے بنائی تھیں اور ان دواؤں نے بھی کچھ کام نہ کیا جو معاون ثابت ہو سکتی تھیں ،پھر بھی یہ کمالِ بیماری ہے کہ اس نے آخر کام کو انجام دے ہی دیا۔دیکھا میں ایک طرح کی مسرت ہے کہ’لیکن دیکھا تم نے آخر کام تمام ہو ہی گیا‘۔ اس کے بر عکس دوسرے شعر میں میرؔ صاحب نے دواؤں سے جو کام لیا ہے اس نے شعر کی صورت بالکل مختلف بنا دی ہے۔ یہاں تو شاعر یہ اعتراف کر رہا ہے کہ ابتدا میں تو دوائیں اثر کر رہی تھیں بلکہ فائدہ بھی پہنچا رہی تھیں، لیکن اچانک انھیں دواؤں نے نقصان پہنچانا شروع کر دیا۔ بقول فاروقی صاحب یہ ایک طبی مشاہدہ ہے کہ جو دوائیں شروعات میں فائدہ پہنچاتی ہیں، کبھی کبھی انھیں سے آگے چل کر نقصان بھی ہو جاتا ہے۔ بہر کیف جہاں تک شعر کے خارجی اثرات کا تعلق ہے۔ یہ شعر میر ؔ کے دوسرے شعر (الٹی ہو گئیں ۔۔) سے کمزور ہے، کیوں کہ اس شعر میں میرؔ نے بیماری کو علاج سے تعبیر کیا ہے۔ جس سے شعر کا حسن بڑھ گیا ہے۔

 

ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
ہم:ما،آپ :ہم۔ جمع متکلم۔ تہمت:بہتان، جھوٹ لگانا،الزام۔ عبث:بے فائدہ۔
تشریح کے نام پر تین جملے ،
‘چاہتے ہیں سو آپ کرے ہیں ‘کہہ کر دلیل فراہم کر دی ہے۔
‘دلیل ‘جبر کی ہے یا قدر کی ؟
‘ہم کو عبث بد نام کیا ‘میں ایک درویشانہ بلکہ قلندرانہ شوخی بھی ہے۔ وہ شوخی کیا ہے؟
‘جاہتے ہیں سو آپ کرے ہیں’

 

قرآن کی ایک آیت کی طرف اشارہ ہے جس میں خدا نے اپنے بارے میں کہا ہے کہ وہ ’فعال لمایرید‘ ہے۔ ’چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں‘ سے اگر فاروقی صاحب ’فعال لمایرید‘ تک پہنچتے ہیں تو اس سے اس بات علم ہوتا ہے کہ انہوں شعر کو جبریہ تناظر میں دیکھا ہے۔
قرآن کی ایک آیت کی طرف اشارہ ہے جس میں خدا نے اپنے بارے میں کہا ہے کہ وہ ’فعال لمایرید‘ ہے۔ یعنی وہ جو چاہتا ہے کر ڈالتا ہے۔ ’چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں‘ سے اگر فاروقی صاحب ’فعال لمایرید‘ تک پہنچتے ہیں تو اس سے اس بات علم ہوتا ہے کہ انہوں شعر کو جبریہ تناظر میں دیکھا ہے۔ جو شعر کا سیدھا سیدھا معنی ہے اور جسے سمجھنے میں کسی طرح کی محنت کرنے کی ضرورت نہیں، لیکن یہ شعر کا ایک رخ ہے جسے فاروقی صاحب نے پوری طرح واضح بھی نہیں کیا ہے۔ درد ؔ کا جو شعر انہوں نے پیش کیا ہے اور اس پر جس طرح اظہار خیال کیا ہے۔ اس پر یہاں کچھ کہنا درست نہیں۔ لہٰذا اتنا کہہ کر آگے بڑھتے ہیں کہ درد کا شعر میرؔ کے شعر سے بہت قریب ہے، لیکن دو وجوہات کی بنا پر میر ؔ، دردؔ پر سبقت لے جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ درد ؔ ’ہم‘صیغہ جمع متکلم سے وہ کھیل نہیں کر پائے جو میر ؔ صاحب نے کیا اور دوسری بات یہ کہ دردؔ ’مجبور اور مختار‘ کہنے پر مجبور ہو گئے ،جبکہ میر ؔ نے مجبور سے مختار ی کے معنی نکال لئے۔

 

ہم سب جانتے ہیں کہ جبریہ اور قدریہ حقیقتاً دو فرقے ہیں، جو اپنی اپنی نوعیت سے ہم کو یا خود کو مجبور محض یا مختار کل مانتے ہیں، اسی طرح جبر اور قدر تصوف کی دو اصطلاحیں بھی ہیں۔ اگر جبریہ ایمان لاو تو قدر ہاتھ سے جاتا ہے اور اگر قدریہ ایمان ہو تو جبر گیا حالاں کہ صوفیہ متقدّمین ،متاخرین اکابر علما، فقہا کے یہاں اس کا امتزاج نظر آتا ہے۔ میر کے شعر کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ انہوں نے شعر میں اس امتزاج ملحوظ نہیں رکھا۔
فاروقی صاحب کے کلمات کی روشنی میں جبر تک ہماری رسائی با آسانی ہوتی ہے۔ اب قدر ملاحظہ کیجئے۔

 

دراصل میر ؔ صاحب نے شعر ’ہم‘ کی بنیاد پر کھڑا کیا ہے ۔ کہ ’ہم ‘ یعنی صیغہ جمع متکلم اس شعر میں دو صورتوں میں استعمال ہوا ہے ایک ’جمع متکلم‘ایک ’واحد متکلم‘ ’ما بہ صورتِ من‘ پہلا مصرع استفہامیہ ہے۔

 

ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی؟

 

اور اس میں’ ہم‘صیغہ جمع متکلم طنزیہ انداز میں استعمال کیاگیا ہے۔ گویہ کوئی ہماری بات کو دہرا ررہا ہے کہ آپ کو اس بات کا زعم ہے کہ آپ پر یہ تہمت ہے ،الزام ہے ،بہتان ہے یا جھوٹ لگایا گیا ہے (جھوٹ لگانا اور ناحق کی مناسبت بھی خوب ہے) کہ آپ اپنے عمل میں مختار نہیں؟ اس استہفام میں یہ خیال مضمر ہے کہ آپ اپنے عمل کے خود ذمہ دار ہیں۔ ہم نہیں، اس مصرع میں سوالیہ نشان کی گنجائش نکالنے کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں پھر بھی یہ ہماری شعری روایت ہے کہ ہم شعر کے پہلے مصرع کو دو مرتبہ ادا کرتے ہیں ،لہذا شعر کی صورت کچھ یوں بنتی ہے،

 

ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختوری کی (متکلم )
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختوری کی؟ (متکلم ثانی :طنز)
چانتے ہیں سو آپ کرے ہیں ہم کو عبث بدنام کیا

 

تہمت کا استعمال بھی بہت خوب ہے کہ کیا پتہ اس میں آپ کا کیا فائدہ چھپا ہے۔ کوئی ایسا فائدہ ہو سکتا ہے جو بظاہر نظر نہ آتا ہو، لیکن اسی الزام، تہمت یا بہتان سے آپ کو اپنی عمل کی مختاری کا حق ملتا ہو
دوسرے مصرع میں اور واضح انداز میں یہ نظر آرہا ہے کہ جو چاہتے ہیں وہ خود کرتے ہیں ہم کو بیکار، بے فائدہ بد نام کیا ہوا ہے۔ تہمت کا استعمال بھی بہت خوب ہے کہ کیا پتہ اس میں آپ کا کیا فائدہ چھپا ہے۔ کوئی ایسا فائدہ ہو سکتا ہے جو بظاہر نظر نہ آتا ہو ،لیکن اسی الزام، تہمت یا بہتان سے آپ کو اپنی عمل کی مختاری کا حق ملتا ہو۔

 

سرزد ہم سے بے ادبی تو وحشت میں بھی کم ہی ہوئی
کوسوں اس کی اور گئے پر سجدہ ہر ہر گام کیا
فاروقی صاحب اس شعر اور سودا کے شعر کا موازنہ کر تے رہے انہیں اس بات کی فرصت ہی نہ ملی کہ شعر پر غور کرتے ،تاکہ اس کے اصل معنی تک رسائی ہو سکے۔

 

بہر کیف اس شعر کا پورا نظام لفظ ’اس‘ پر قائم ہے ۔
اس (مظلوب)
اس (غیر مطلوب)
اسی طرض سجدہ کی بھی دو صورتیں ہیں
پہلی : سجدۂ ایمانی
دوسری سجدۂ کفر
دونوں طرح سے شعر کو سمجھا جا سکتا ہے۔

 

‘اس کی اور’ سے پہلا سوال یہ اٹھتا ہے کہ کس کی اور؟ اس طرح سجدہ ہر ہر گام کیا سے ایک معنی یہ بھی نکلتے ہیں کہ ہم اس کی اور جا رہے تھے اور کوسوں گئے بھی مگر ہم نے تجھ کو فراموش نہیں کیا ۔ ہر ہر قدم پر تیری یاد ساتھ رہی لہذا ہم تیری اور بھی آرہے تھے۔ یہ ایک متضاد کیفیت ہے کہ بیک وقت دو نوں سمت یا دونوں اور ہمارا سفر جاری تھا۔ اسی بنا پر پہلے مصرع میں بھی متضاد کیفیت برقرار رہتی ہے کہ ہم ایک طرح کے عالم وحشت میں تھے ۔ اس لئے اپنے کسی عمل کے ذمہ دار نہیں تھے ۔ پھر بھی ہم سے یہ بے ادبی کم ہی سرزد ہوئی کہ ہم تجھے بھول جاتے ۔ اب یہاں بھی بے ادبی کس کی شان میں ہوئی ظاہر نہیں ہوتا۔ اس کی شان جس کی اور جا رہے ہیں یا اس کی شان میں جسے سجدہ کر رہے ہیں۔

 

ایسے آہو رم خودہ کی وحشت کھونی مشکل تھی
سحر کیا اعجاز کیا جن لوگوں نے تجھ کو رام کیا
اعجاز رام
معجزہ مطیع،تابیدار
آہو رم خودرہ وحشت

 

فاروقی صاحب نے ’کافر اورمومن‘ کا جواز سحر اور اعجاز سے پیش کیا ہے، جبکہ یہ تصور بعید از قیاس ہے کہ میر ؔ صاحب نے اس بنیاد پر شعر میں سحر اور اعجاز باندھا ہو
فاروقی صاحب نے ’کافر اورمومن‘ کا جواز سحر اور اعجاز سے پیش کیا ہے، جبکہ یہ تصور بعید از قیاس ہے کہ میر ؔ صاحب نے اس بنیاد پر شعر میں سحر اور اعجاز باندھا ہو ’جادو کرنا کفر ہے ‘یا’ معجزہ صرف نبی سے سرزد ہو سکتا ہے‘ اتنی سطحی باتیں ہیں جو روایتی مولویوں کے علاوہ کسی اور کے ذہن میں نہیں آ سکتیں۔اس پر یہ خیال کرنا کہ میرؔ صاحب نے ایسا خیال باندھا ہوگا یہ میر ؔ کو ہر گز زیب نہیں دیتا، یہ غیر شاعرانہ تشریح ہے۔

 

شعر کے سیدھے سیدھے معنی یہ ہیں کہ شاعر معشوق کو آہو رم خوردہ کہہ رہا ہے۔ ساتھ ہی اپنی وحشت کا تذکرہ کر رہا ہے کہ میں اس آہو رم خوردہ کے عشق میں گرفتار ہوں، جسے میں رام نہ کر سکا یا جسے میں اپنا نہ بنا سکا اور وہ لوگ کیسے ساحر اور موجزہ کار ہوں گے جس کے حصے میں ایسا معشوق آیا۔ سحر اور اعجاز کا لفظ میرؔ نے اپنے رقیبوں کے لئے استعمال کیا ہے۔ جس سے میر صاحب کے منفرد انداز کا علم ہوتا ہے کہ جہاں اس عہد کی شاعری میں رقیب کو گالیاں دینے کا چلن تھا وہیں میر ؔ صاحب اس کی صلاحیتوں کا اعتراف کر رہے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *