Laaltain

شخصی آزادی پرعسکری شب خون – اداریہ

23 جولائی، 2015
پاکستان میں شہریوں، سیاستدانوں اور عدالت عالیہ کے ججوں کی غیر قانونی نگرانی کا انکشاف ملک میں شخصی آزادی کو درپیش خطرات کی محض ایک جھلک ہے۔ انٹرنیٹ امور پر نظر رکھنے والی برطانوی تنظیم پرائیویسی انٹرنیشنل کی جاری کردہ حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستانی خفیہ ادارے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ اور ملک کو درپیش سیکیورٹی خطرات کے پیش نظر اپنے شہریوں کی معلومات اور رابطوں کی تفصیلات تک رسائی کی اپنی صلاحیت کو بڑھا رہے ہیں۔ رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی خفیہ ادارے 2005 سے پاکستانی شہریوں، سیاسی رہنماوں اور فاضل جج حضرات کی نگرانی میں ملوث ہیں۔

 

پاکستانی سیکیورٹی اداروں کی جانب سےنگرانی کی صلاحیت میں اضافے اور آن لائن نگرانی کے جابرانہ قوانین متعارف کرانے کی بڑے پیمانے پر کوشش پاکستان میں شخصی آزادیوں کے خاتمے اور ایک سخت گیر نگران نظام کے قیام کا پیش خیمہ ہے۔
رپورٹ کے مندرجات پاکستان میں ریاستی اداروں کے ہاتھوں شخصی آزادی محدود کیے جانے کے خدشات بڑھانے کے لیے کافی ہیں۔ عسکری اداروں کااپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے آئین میں درج شدہ بنیادی حقوق اور آزادیاں سلب کرنا پاکستان میں فوجی قیادت کے سیاسی اثرورسوخ میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ سول اداروں کی بالادستی اور عدالتوں کے سامنے جوابدہی کے بغیر تحفظ پاکستان ایکٹ، فوجی عدالتوں کے قیام اور مجوزہ سائبرکرائم بل کے ذریعے عسکری اداروں کو مل جانے والے اختیارات خود ریاست کے آئین اور سیاسی نظام کی بقا کے لیے خطرہ ہیں۔پاکستانی شہریوں کی غیر قانونی نگرانی سے یہ تاثر مضبوط ہوتا ہے کہ اس ملک میں عسکری و سیکیورٹی اداروں کی سرگرمیوں کی جانچ پڑتال کا کوئی نظام موجود نہیں اور نگرانی کی صلاحیتیں صرف فوجی نقطہ نظر سے استعمال کی جارہی ہیں۔ جواب طلبی کا نظام نہ ہونے سے انٹرنیٹ اور مواصلات کے ذرائع کی نگرانی کے دوران شخصی آزادیوں کے مجروح ہونے کے واضح شواہد اورمستقبل میں اس عمل کے جاری رہنے کے واضح امکانات موجود ہیں۔

 

پاکستانی سیکیورٹی اداروں کی جانب سےنگرانی کی صلاحیت میں اضافے اور آن لائن نگرانی کے جابرانہ قوانین متعارف کرانے کی بڑے پیمانے پر کوشش پاکستان میں شخصی آزادیوں کے خاتمے اور ایک سخت گیر نگران نظام کے قیام کا پیش خیمہ ہے۔ سول اور عدالتی جواب طلبی کا نظام قائم کیے بغیر سیکیورٹی اداروں کی شہریوں کی نگرانی کرنے کی صلاحیت اور اختیارات میں اضافہ ریاستی اداروں پر تنقید کی روک تھام کے لیےشہری آزادیوں پر قدغنیں لگانے کا باعث بنے گا۔اگرچہ دہشت گردی اور شدت پسندی کے عفریت کو نکیل ڈالنے کے لیے سیکیورٹی اداروں کے اختیارات اور وسائل میں اضافہ اور انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے قانونی پشت پناہی ضروری ہے لیکن ان اختیارات کے غلط استعمال اور اپنی متعین کردہ حدود سے تجاوز کی صورت میں جوابدہی اور احتساب کے نظام کی عدم موجودگی خطرناک ہے۔ ماضی میں سیکیورٹی اداروں کو ملنے والے خصوصی اختیارات سیاسی قیادت، انسانی حقوق کے کارکنان اور قوم پرست جماعتوں کے خلاف بے دریغ استعمال کرنے کے واقعات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔

 

سیاستدانوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور ججوں کی نگرانی اس بات کا ثبوت ہے کہ آئی ایس آئی فوجی قیادت کےزیر اثر ہونے کی وجہ سے عسکری اداروں کے سیاسی ایجنڈے کے تحت بھی کام کررہی ہے۔ عدالت عالیہ میں آئی ایس آئی کی جانب سے جمع کرائی گئی تفصیلات کے مطابق شہریوں کے فون ٹیپ کرنے کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ تاہم اس حوالے سے وفاقی حکومت اور خفیہ ادارے اپنا موقف واضح کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ شہریوں کی ذاتی معلومات تک رسائی کا حکم کس مجاز صاحب اختیار نے کس قاعدے اور قانون کے تحت دیا ہے۔

 

سیاستدانوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور ججوں کی نگرانی اس بات کا ثبوت ہے کہ آئی ایس آئی فوجی قیادت کےزیر اثر ہونے کی وجہ سے عسکری اداروں کے سیاسی ایجنڈے کے تحت بھی کام کررہی ہے۔
موجودہ قوانین، عدلیہ اور منتخب جمہوری نمائندے پاکستانی شہریوں کی شخصی آزادی کا تحفظ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ شہریوں اور منتخب عوامی نمائندوں کی نگرانی کا عمل ملکی و بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے علاوہ ریاست کے قیام اوراستحکام کے لیے درکار عمرانی معاہدے کے بنیادی اصولوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔سیکیورٹی اداروں کے طرز عمل سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ان کے نزدیک پاکستان کی سالمیت، بقاء اور استحکام کے لیے فیصلہ سازی عوم اور ان کے منتخب نمائندوں کی بجائے صرف عسکری قیادت کا استحقاق ہے۔ ایک فعال سول سوسائٹی، ریاستی سطح پر شخصی آزادی کے تحفظ سے دانستہ غفلت اور کم زور سیاسی و سول اداروں کی وجہ سے پاکستان میں عسکری اداروں کی بالادستی مزید مستحکم ہو چکی ہے۔ سول ادارے، سیاسی قیادت اور انسانی حقوق کے تحفظ کی تنظیمیں ریاستی معاملات پر اپنی گرفت کھو چکی ہیں جس کے باعث شہری حقوق کے تحفظ کی آئینی ضمانت محض ایک کتابی بات بن کر رہ گئی ہے۔

 

عسکری اداروں کے طرزعمل سے یہ احساس پختہ ہوتا ہے کہ فوجی قیادت اپنے ہی شہریوں، عوام کے منتخب نمائندوں اور عدلیہ پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ اپنی آئینی حدود سے تجاوز کی اس روش سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ ہمارے سیکیورٹی ادارے اپنے نقطہ نظر کےتحت سول اداروں ، سیاسی معاملات اور بنیادی شہری آزادیوں میں مداخلت کو نہ صرف جائز سمجھتے ہیں بلکہ اس مقصد کے لیے کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں۔ یہ اقدام شخصی آزادی پر اپنی ہی ریاست اور اپنی ہی فوج کے ہاتھوں شب خون کے مترادف ہے۔ ایسے میں شہری یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر ریاست ، آئین، عدلیہ اور جمہوریت اپنے ہی اداروں کے ہاتھوں شخصی آزادیوں اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی روکنے میں ناکام ہیں تو انہیں کیا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔

 

 

[embeddoc url=”www.privacyinternational.org/sites/default/files/PAKISTAN%20REPORT%20HIGH%20RES%2020150721_0.pdf” height=”1202px”]

 

One Response

  1. مجھے تو نہیں لگتا آپ کا پیج (ساییٹ) زیادہ دیر چلے گی !

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

One Response

  1. مجھے تو نہیں لگتا آپ کا پیج (ساییٹ) زیادہ دیر چلے گی !

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *