اجمل جامی

 

سید عباس اطہر شاہ

نہیں معلوم کہ جب کوئی استاد ہستی دنیا سے کوچ کر جائے تو پھر اس کی شان میں کیسے لکھا جاتا ہے۔۔کیفیت کچھ ایسی ہے کہ ملاقاتوں کے ان مٹ نقوش ذہن میں "ری پلے” ہو رہے ہیں، اور "نوسٹیلجیا” اپنے جوبن پر ہے۔ ۔ سید عباس اطہر شاہ صاحب۔۔ المعروف شاہ جی۔۔۔ اور ہم چند دوستوں کے لیے "بابا جی شاہ جی۔۔!!” کینسر جیسے خطرناک مرض سے لڑتے لڑتے رخصت ہو گئے۔۔ میں نے خود دیکھا کہ شاہ جی نے بڑھاپے میں بھی کینسر کا خوب ڈٹ کر مقابلہ کیا۔۔ یقننا اس مرض کو ضرور احساس ہوا ہوگا کہ اس کا پالا کسی عام آدمی سے نہیں بلکہ "شاہ صحافت” سے ہے۔۔ سماعتوں میں بدستور وہ منفرد لہجہ اور انداز تخاطب ٹکرا رہا ہے۔۔ "حضور۔۔۔کی حال اے۔۔” شاہ جی اپنے ملنے والوں کو یوں مخاطب کیا کرتے تھے۔۔ بدقسمتی یہ کہ میں شاہ جی سے ہونے والی آخری چند ملاقاتیں ریکارڈ نہ کر سکا۔۔ گو کہ اس بات کا افسوس میں نے انہی دنوں اپنے عزیز دوست برادرم رائے شاہ نواز سے کر دیا تھا۔۔ اور خوش قسمتی یہ کہ ناچیز اور رائے شاہ نواز ٹی وی کے ان چند نوجوان صحافیوں میں سے ہیں جنہیں شاہ جی کے ساتھ کئی ملاقاتوں کا شرف حاصل ہوا۔۔ اور ملاقاتیں بھی ایسی کہ لکھنے بیٹھوں تو شاید کتاب مرتب ہو جائے۔۔ شاہ جی پاکستان کی سیاسی تاریخ کا چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا تھے۔۔ آنکھوں دیکھے سیاسی حادثات اور واقعات یوں بیان کیا کرتے تھے جیسے ابھی ابھی ہی ان کے سامنے رونما ہوئے ہوں۔۔ شاہ جی سے ملنے والے صحافی کو صحافت میں کسی ماسٹرز یا ایم فل کرنے کی ضرورت شاید ہی محسوس ہوتی ہو۔۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ طاہر سرور میر صاحب کو شاہ جی کے ساتھ اکثر دیکھ کر میرے دل میں خواہش پیدا ہوا کرتی تھی کہ کاش ہمیں بھی شاہ جی سے ایسی ملاقاتوں کا شرف حاصل ہو۔۔ دو ہزار آٹھ کے اوائل میں ایکسپریس نیوز لانچ ہوا اور ادارے کا پہلا امتحان جنرل ا الیکشن کی کوریج تھا۔۔ ہمیں ٹی وی جرنلزم میں قدم رکھے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہی ہوئے تھے۔۔ کہ الیکشن کی میراتھن ٹرانسمیشز اینکر کرنے کی ذمہ داری آن پڑی۔۔ ایک دن ہمارے اس وقت کے ڈائریکٹر نیوز سید فہد حسین صاحب نے مجھے بلا کر ہدایات دیں کہ آج سٹوڈیوز میں آپ کے ساتھ "شاہ جی” بطور تجزیہ کار موجود ہوں گے اور آپ نے ان سے ماضی میں ہونے والے انتخابات کی روداد سننی ہے اور موجودہ انتخابات پر ان کی سیاسی پیشن گوئی بھی لینی ہے۔۔ چند لمحوں بعد سٹوڈیوز میں شاہ جی آن پہنچے۔۔۔ میرے لیئے وہ لمحہ بہت خاص تھا کیونکہ میں ان کا قاری تو ضرور تھا لیکن اس طرح ان سے ٹی وی پر لمبی چوڑی گفتگو کا شاید خیال بھی ذہن میں کبھی نہ آیا ہو۔۔ شاہ جی کے ساتھ تقریبا ایک گھنٹے کی گفتگو ختم کرنے کے بعد یوں محسوس ہوا جیسے میں نے کوئی معرکہ سر کر لیا ہو۔۔ اور یوں ان سے راہ و رسم چل نکلی۔۔ ۔۔ پھر اللہ بھلا کرے رائے شاہ نواز کا۔۔ جس کے توسط سے شاہ جی کے ساتھ خوب ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ شاہ جی کے دو جملے ہمیشہ میری سماعتوں سے ٹکراتے رہیں گے۔۔۔اور یہ دونوں جملے ہمارے قریبی دوستوں میں اب رائج ہیں۔۔ ایک شاہ جی کا کسی سے بھی انداز تخاطب۔۔۔یعنی۔۔ او حضور۔۔۔!! اور دوسرا۔۔ رائے شاہنواز کو بلانے کا انداز۔۔ یعنی۔۔اور را جی۔۔۔۔!! اکثر ملاقاتیں ان کے دفتر میں ہی ہوا کرتی تھیں۔۔ اس لیئے انہیں کام کرتے قریب سے دیکھا۔۔ کالم لکھتے دیکھا۔۔ اور کمرے میں بیٹھے دوست حضرات سے محو گفتگو بھی دیکھا۔۔ عموما ایاز خان صاحب، لطیف چوہدری صاحب اور برادرم خالد قیوم بھی ایسی ملاقاتوں میں محفل کا حصہ ہوتے تھے۔۔ مہمان نوازی کے معاملے میں شاہ جی بہت زیادہ حساس واقع ہوئے تھے۔۔ جبھی تو ایک ملاقات میں تین تین بار چائے پینا پڑتی تھی۔۔ شاہ جی جس قد ر اپنی تحریر میں برجستہ تھے اتنے ہی عام بول چال میں بھی تھے۔۔۔ ظرافت اکثر ان کے چہرے سے ٹپک رہی ہوتی تھی۔۔ میں ہمیشہ ان سے انٹرویو لینا شروع کر دتیا تھا۔۔ شاہ جی۔۔! ستر کی دہائی میں کیا ہوا تھا؟؟ شاہ جی !بھٹو صاحب کی قید اور پھانسی کی کہانی سنائیں۔۔شاہ جی۔۔! ضیا دور میں کیا ہوا۔۔ ؟ آپ امریکہ کیوں گئے۔۔؟ صحافت کب شروع کی۔۔ ؟ وغیرہ وغیرہ۔۔ اور مجھے ہمیشہ میرے ہر سوال کا جواب ضرور ملا۔۔ بھٹو صاحب کے ساتھ ان کی عقیدت ہر گزرے دن کی نسبت زیادہ ہوتی تھی۔۔ شاید یہ اسی لازوال محبت کا نتیجہ تھا کہ انہیں بھٹو کی پھانسی کا علم ایک ہفتے پہلے ہی ہو گیا تھا۔۔ کہنے لگے کہ جیل میں مجھے ایک ہفتہ قبل ہی خواب آ گیا تھا کہ بھٹو اب اس دنیا میں نہیں رہے گا۔۔شاہ جی ایک نڈر انسان تھے۔۔ اور اپنے موقف سے ہٹنا ان کے لیے بہت مشکل ہوتا تھا۔۔ پنجاب کے ایک سابق وزیر کا قصہ سناتے ہوئے بولے کہ ۔۔وہ میرے اچھے دوست ہوا کرتے تھے۔۔ اور میں نے ہمیشہ انہیں اخبار میں اچھی کوریج دی۔۔ اور انہیں وزیر بنانے کے حق میں خوب لکھا۔۔ موصوف جب وزیر بنے تو شاہ جی کو کسی کام سے انہیں فون کرنا پڑ گیا۔۔ سیکرٹری نے جیسے ہی وزیر صاحب کو مطلع کیا کہ شاہ جی بات کرنا چاہ رہے ہیں تو جواب آیا کہوکہ صاحب ابھی مصروف ہیں۔۔ یہ جملہ شاہ جی نے سن لیا اور اس سے پہلے کہ سیکرٹری شاہ جی سے معذرت کرتا۔۔شاہ جی فون بند کر چکے تھے۔۔ سگریٹ کا کش لگا نے کے بعد شاہ جی کرسی پر ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔۔ اور کہنے لگے کہ مجھے دکھ ہوا اس بات کا۔۔ کیونکہ مجھے علم تھا کہ وزیر صاحب دفتر میں ہیں اور ایسی کوئی مصروفیت بھی انہیں نہیں تھی ۔۔ خیر۔۔ وزارت ختم ہو نا ہی تھی۔۔ وزیر موصوف پھر سے عام سیاستدان بن گئے۔۔ کسی عشائیے میں شاہ جی انہیں نظر آگئے تو وہ لپک کر شاہ جی کے گلے لگ
نے ہی لگے تھے کہ شاہ جی نے انہیں روک دیا۔۔اور کہا۔۔۔”اوے توں کون ایں؟؟” یعنی تم کون ہو؟ شاہ جی نے پھر ان صاحب سے کبھی رسم و راہ نہ رکھی۔۔ کہنے لگے ۔۔او حضور۔۔بندے نوں اک وری آزمایا جاندا اے۔۔ وار وار نیں۔۔

شاہ جی پاکستان کی سیاسی تاریخ کا چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا تھے۔۔ آنکھوں دیکھے سیاسی حادثات اور واقعات یوں بیان کیا کرتے تھے جیسے ابھی ابھی ہی ان کے سامنے رونما ہوئے ہوں۔۔ شاہ جی سے ملنے والے صحافی کو صحافت میں کسی ماسٹرز یا ایم فل کرنے کی ضرورت شاید ہی محسوس ہوتی ہو۔۔

تقریبا ایسا ہی ایک قصہ شاہ جی نے پنجاب کے ایک سابق گورنر کے بارے بھی بتایا۔۔ کہنے لگے کہ جب وہ صاحب گورنر نہ رہے تو پھر اکثر میرے دفتر کے باہر انتظار ہی کیا کرتے تھے کہ شاہ جی سے ملاقات کی کوئی صورت نکل آئے۔۔ یقیننا شاہ جی جیسی قد آور شخصیت ایسے موقع پرست لوگوں کو برداشت کرنے کی متحمل ہر گز نہ تھی۔۔
حبیب جالب کو اپنا اچھا دوست کہتے تھے۔۔ کہنے لگے کہ ایک بار جالب نے الیکشن لڑنے کی ٹھان لی۔۔ یار دوستوں نے بہت سمجھایا کہ با ز آجاو جالب۔۔ یہ تمھارے بس کا کام نہیں۔۔ لیکن وہ بھی حبیب جالب تھے۔۔ پیچھے نہ ہٹے۔۔ شاہ جی نے بتایا کہ جالب کی انتخابی مہم کو میں نے اخبار میں خوب کوریج دی۔۔ جب نتیجہ آیا تو معلوم ہوا کہ جالب اپنی ضمانت ضبط کروا بیٹھے ہیں۔۔ کہنے لگے کہ مجھے کہا گیا کہ چونکہ آپ نے urlجالب کے حق میں خوب سرخیاں جمائیں تھیں۔۔ لہذا اب جالب کی شکست پر بھی سرخی آپ ہی نکالیں۔۔ یہ بات سنتے ہوئے میں نے سوچا کہ آخر کونسی وہ ایسی سرخی ہوسکتی ہے جس سے شاہ جی نے جالب صاحب کی لاج رکھی ہوگی ۔۔ شاہ جی گویا ہوئے۔۔اور بولے۔۔ کہ پھر میں نے یہ سرخی جمائی۔۔”شاعر ہار گیا۔۔جمہوریت جیت گئی” ۔
"ادھر ہم ادھر تم” شاہ جی کی پہچان بن گئی۔۔ اس سرخی کی وضاحت کرتے ہوئے ایک بار شاہ صاحب نے فرمایا تھا کہ یہ الفاظ بھٹو صاحب نے نہیں کہے تھے بلکہ یہ انہوں نے خود اخذ کئے تھے۔۔ شاہ جی کی ادارتی حس اس قدر لاجواب تھی کہ انسان دھنگ رہ جاتا تھا۔۔ جس کمال مہارت سے وہ کسی خبر کی اہمیت کا اندازہ لگاتے تھے وہ یقینا آج کے ٹی وی جرنلزم میں نایاب ہے۔۔

بس یہی کہوں گا کہ شاہ جی نے صحافت کا آغاز کراچی سے شائع ہونے والے روزنامہ "انجام” سے کیا۔۔ اور پھر اسی "انجام” سے پاکستان میں صحافت کے ایک نئے باب کا "آغاز” ہوا۔۔ جس نے "شاہ صحافت” ہونے کا حق خوب ادا کیا۔ ۔

شاہ جی کی شاعری بارے ایک ملاقات میں تفصیلا گفتگو ہوئی۔۔۔ جس میں انہوں نے اپنی کئی نظمیں سنائیں۔۔ ان کا کلام سی ڈی کی شکل میں مارکیٹ میں دستیاب ہے۔۔ جس کو میوزک کی شکل میں لانے کا سہرا جناب طاہر سرور میر کے سر ہے۔۔ یہ لازوال کلام یو ٹیوب پر "مائے نی” کے نام سے موجودہے۔۔ اور اسی میں وہ شہرہ آفاق نظم بھی موجود ہے جو آجکل پی پی پی کی انتخابی مہم کے طور پر ٹی وی چینلوں پر خوب چل رہی ہے۔۔ یہ نظم "بھٹوکی بیٹی آئی تھی”ہے۔۔ جو ابتدائی طور پر پنجابی زبان میں لکھی گئی تھی۔ ۔۔ اس بارے مزید تفصیلات کے لیئے طاہر سرور میر صاحب کا کالم (روزنامہ دنیا ۸ مئی بعنوان "دوستوں کے شہر میں شاہ جی زندہ ہوں گے”) ملاحظہ کریں۔
شاہ جی کے ساتھ ان کے دفتر میں آخری ملاقات کے دوران انہوں نے مجھے اور شاہنواز کو "مائے نی” کی سی ڈیز بطور تحفہ پیش کی تھیں۔۔ میرے اصرار پر انہوں نے سی ڈی پر اپنا آٹو گراف بھی دیا تھا۔۔ جو میرے لیے یقنیا ایک بہت بڑا اثاثہ ہے۔۔ وہی ملاقات ان سے آخری ملاقات ثابت ہوئی۔۔ کیونکہ اس کے بعد شاہ جی کو دو بار دیکھا۔۔ ایک بار وہ سی ایم ایچ میں بستر پر حیات تھے۔ لیکن کسی سے بات چیت کرنے سے قاصر تھے۔ اور پھر دوسری بار جب وہ اپنے آخری سفر پر روانہ ہور ہے تھے۔۔ یقنیا شاہ جی اگلے جہاں میں بھی اپنی محفلیں سجا رہے ہوں گے۔۔
شاہ جی کی شخصیت ، ان کی صحافت، اور ان کی شاعری پر ہمارے بہت سینئر کالم نویس مختلف اخباروں میں بہت عمدہ لکھ چکے ہیں۔۔ بس یہی کہوں گا کہ شاہ جی نے صحافت کا آغاز کراچی سے شائع ہونے والے روزنامہ "انجام” سے کیا۔۔ اور پھر اسی "انجام” سے پاکستان میں صحافت کے ایک نئے باب کا "آغاز” ہوا۔۔ جس نے "شاہ صحافت” ہونے کا حق خوب ادا کیا۔ ۔

(ajmal-jamiاجمل جامی دنیا نیوز میں اینکر اور نمائندہ خصوصی کے طور پر صحافتی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں)
Twitter – @ajmaljami

2 Responses

  1. MALIK TAHIR

    JAMI JE MASHALLHA BOHAT HE KOOOOOOOOB LELHA AP NEIN:SHAH JI KO 1970 SE JANTA HON APNE 66 SALA ZENDGE MAIN ETNA PERYA DOST NAHEIN MELA MAIN MUSAWAAT MAIN PHOTOGRAFAR TA 1970 MAIN AUR SHA JI SE BOHAT HE QURBAT TE MAIN MOUGHAL PURA REHTA TA AUR WO TAJPURA UN SE AKRE BAR PHONE PE BAT HOYE TE JAB HO ELAJ KE LEYE UK AEYE TE.BOHHAT SUKREYA RABRAKHA

    جواب دیں

Leave a Reply

%d bloggers like this: