Laaltain

شاہد آفریدی کی بلے بازی کی فرضی روداد

17 جنوری، 2016

[blockquote style=”3″]

یہ فکاہیہ مضمون اس سے قبل ثاقب ملک کے اپنے بلاگ پر بھی شائع ہو چکا ہے، مصنف کی اجازت سے اسے لالٹین کے قارئین کے لیے شائع کیا جا رہا ہے۔ اس تحریر کا مقصد محض تفریح طبع کا سامان کرنا ہے، کسی بھی فرد کی دل آزاری یا تضحیک قطعاً مقصقد نہیں۔

[/blockquote]

زید حامد، جاوید چوہدری اور حسن نثار کے فرضی کالم پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

 

youth-yell

آفریدی، احمد شہزاد کو بلا کر کہتے ہیں کہ یار، ذرا میری جرابیں لاؤ، میں دو جوڑے پہن کر بیٹنگ کروں گا۔ احمد شہزاد فوراً بھاگ کر ان کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ شاہد آفریدی صلے کے طور پر احمد شہزاد کے ساتھ ایک سیلفی لیتے ہیں۔
شاہد آفریدی ڈریسنگ روم میں بیٹھے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ ان کی ٹانگیں تیز تیز ہل رہی تھیں۔ آفریدی، احمد شہزاد کو بلا کر کہتے ہیں کہ یار، ذرا میری جرابیں لاؤ، میں دو جوڑے پہن کر بیٹنگ کروں گا۔ احمد شہزاد فوراً بھاگ کر ان کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ شاہد آفریدی صلے کے طور پر احمد شہزاد کے ساتھ ایک سیلفی لیتے ہیں۔ کریز پر حفیظ اور عمر اکمل بیٹنگ کر رہے ہیں کہ تماشائیوں میں سے کوئی ڈیل سٹین کا نام لیتا ہے اور حفیظ فوراً آوٹ ہو جاتے ہیں۔ اب آفریدی کی باری ہے۔ ڈریسنگ روم میں ایک سنسنی سی دوڑ جاتی ہے۔ آفریدی جلدی سے اپنے سر سے دماغ اتار کر ہیلمٹ پہن لیتے ہیں۔ وہ جب باہر نکلنے لگتے ہیں تو کوچ وقار یونس انہیں کہتے ہیں “ٹیک یور ٹائم”۔ آفریدی اثبات میں سر ہلا کر کہتے ہیں: “وقار بھائی آپ فکر ہی نہ کریں”۔ مصباح الحق اپنی بھاری بھر کم آواز میں آفریدی کو سمجھاتے ہیں کہ ابھی بہت اوورز پڑے ہیں آرام سے کھیلنا۔ اس طرح فرداً فرداً تقریباً ہر اہم کھلاڑی، ٹیم مینجر اور ٹیم کا فزیو تھراپسٹ بھی آفریدی کو اپنے مشوروں سے نوازتا ہے۔ آفریدی سب کے مشورے سن کر ان پر عمل درآمد کے عزم کا اظہار کرتے ہیں۔ آفریدی فیلڈ کی جانب بڑھتے ہیں، پیچھے سے دبی دبی آواز میں ڈریسنگ روم سے کوئی بولتا ہے: “وی سال ہو گئے نے سمجھا سمجھا کے، اینوں عقل نئیں آئی” (بیس سال ہو گئے سمجھاتے ہوئے لیکن اسے عقل نہیں آئی)۔

 

آفریدی رسی عبور کر کے گراؤنڈ میں قدم رکھتے ہیں تو ان کے ذہن میں کوچ اور کپتان، اور ان کا اپنا بیٹنگ پلان گھوم رہا ہوتا ہے۔ وہ کچھ بولرز کواحتیاط سے کھیلنے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں، اننگز کے آغاز میں پل شاٹ نہ کھیلنے کا تہیہ کرتے ہیں، پہلی پندرہ بیس گیندیں سنگل ڈبل کرنے کا سوچتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ لیکن جیسے ہی آفریدی گراؤنڈ میں قدم رکھتے ہیں، اسٹیدیم، “بوم بوم” اور “لالہ لالہ” کے نعروں سے گونج اٹھتا ہے۔ ہر کوئی آفریدی کو چھکا مارنے پر اکسا رہا ہوتا ہے۔ کوئی تماشائی کہتا ہے “لالہ اگر پٹھان کا خون ہے تو پہلی بال پر چھکا مارنا ہے”۔ کوئی اور منچلا چلاتا ہے، “بوم بوم بھائی، میں نے اپنے محلے میں شرط لگائی ہے کہ شاہد بھائی پہلی گیند پر ہی چھکا ماریں گے”، ایک نسوانی آواز آتی ہے، “شاہد بھائی آج آپ نے ہی جتانا ہے، عزت کا سوال ہے”۔ آفریدی دل میں کہتے ہیں میں تمہاری ناک نہیں کٹنے دوں گا (چاہے، پاکستان کی ناک کٹ جائے )۔۔۔۔۔ اور تمام منصوبہ بندیاں، تمام نصیحتیں آفریدی کریز پر پہنچنے سے پہلے ہی بھول چکے ہوتے ہیں۔

 

کریز پر دوبارہ جاتے ہیں اور اگلی بال پر آوٹ ہو جاتے ہیں۔ آوٹ ہونے پر ان کی مایوسی اتنی زیادہ ہوتی ہے جیسے فرشتوں نے ایک سازش کے ذریعے ان کی قسمت میں ردوبدل کر کے انہیں آوٹ کروایا ہے۔
آفریدی کریز پر آتے ہیں تو عمر اکمل ان کے منہ کے اوپر گھس کر کہتا ہے، “شاہد بھائی، یہ باؤلر آپ کو گالی دے رہے تھا، اسے نہیں چھوڑنا”۔ آفریدی کا خون اور کھولنے لگتا ہے۔ سٹرائیک پر عمر اکمل ہوتے ہیں۔ عمر ایک چوکا لگاتے ہیں، سینہ مزید چوڑا کرتے ہیں، آفریدی کے اوپر چڑھ کر گلوز پر گلوز مارتے ہیں، پورے گراؤنڈ میں چاروں طرف فخریہ انداز میں دیکھتے ہیں، جیسے ایک گیند پر ایک ہزار رنز بنا لیے ہوں۔ کریز پر دوبارہ جاتے ہیں اور اگلی بال پر آوٹ ہو جاتے ہیں۔ آوٹ ہونے پر ان کی مایوسی اتنی زیادہ ہوتی ہے جیسے فرشتوں نے ایک سازش کے ذریعے ان کی قسمت میں ردوبدل کر کے انہیں آوٹ کروایا ہے۔ اگلے بلے باز شعیب ملک ہیں۔ ملک آفریدی کے قریب آتے ہیں تو آفریدی انہیں سمجھداری سے بلے بازی کا مشورہ دیتے ہیں (ملک دل ہی دل میں اس ستم ظریفانہ مشورے پر ہنستے ہیں)۔ ملک اپنی دوسری گیند پر خوب صورت چوکا لگاتے ہیں تو آفریدی انہیں کہتے ہیں، “ملک ہیلمٹ اتار”۔ شعیب ملک سوال کرتے ہیں، “کیوں لالہ کیا ہوا ہے؟” آفریدی جواب دیتے ہیں “اتنا پیارا چوکا مارا ہے میں تجھے شاباش دوں گا”۔ ملک ہنستے ہوئے کہتے ہیں، “لالہ جی ایسی باتیں آپ اپنے اشتہارات میں ہی کیا کریں۔” اگلی گیند پر شعیب ملک ایک اور چوکا لگاتے ہیں، آفریدی اس کی پیٹھ تھپتھپاتے ہیں اور شاباش دیتے ہیں۔ ملک کہتا ہے،”شاہد بھائی اتنا پیار تو کبھی ثانیہ نے بھی مجھے نہیں کیا جتنا آج آپ کو مجھ پر آ رہا ہے۔” آفریدی کہتا ہے “ملک میں تیرا بڑا بھائی ہوں، ثانیہ کون سی تیرا بڑا بھائی ہے؟” ملک فورا جواب دیتے ہیں، “لیکن لالہ وہ ڈانٹتی تو بڑے بھائی کی طرح ہی ہے”۔ آفریدی جواب میں ہنس کر کہتے ہیں اس کی بات مانا کر وہ دنیا میں ہر جگہ پرفارم کرتی ہے اور تو صرف ایشیا میں چلتا ہے۔” اس پر ملک آفریدی کو ایک گھوری دیتے ہیں۔

 

اب آفریدی سٹرائیک پر آتے ہیں۔ سٹیڈیم میں موجود تمام تماشائی اور ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھے لاکھوں ناظرین متوجہ ہو جاتے۔ توقعات اور خدشات ذہن پر ہتھوڑے کی طرح برسنے لگتے ہیں۔ گیند باز عرفان پٹھان ہیں۔ وہ آفریدی کو ایک باؤنسر کراتے ہیں جو آفریدی کے بلے پر نہیں آتا۔ آفریدی گیند چھوٹ جانے پر دو چار گالیاں اپنے آپ کو اور درجن بھر باولر کو دیتے ہیں۔ عرفان پٹھان کہتے ہیں “لالہ تیری بیٹنگ ختم ہو گئی ہے اب تمہاری کارکردگی پہلے جیسی نہیں ہے”۔ آفریدی جواب دیتے ہیں، “مجھے تم سے ایسی ہی گھٹیا بات کی توقع تھی”۔ عرفان دوبارہ اپنے رن اپ کی جانب چل پڑتے ہیں۔

 

کیچ ہو جاتا ہے اور آفریدی، ہزاروں لاکھوں لوگوں کے خدشات کے عین مطابق ہزارویں لاکھویں مرتبہ ایک ہی انداز میں آوٹ ہو کر چل پڑتے ہیں۔ وہ تماشائی جو آفریدی کو پہلی ہی گیند پر باؤلر کو اڑا دینے اور چھکے لگانے کی ترغیب دے رہے تھے اب مایوسی کے عالم میں کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اس آفریدی کو بیس سال ہو گئے ہیں بیٹنگ کرنا نہیں آئی۔.
اگلی گیند آفریدی کے منہ کے سامنے پڑتی ہے۔ آفریدی اسے اٹھا کر باونڈری سے باہر تماشائیوں میں پھینک دیتے ہیں۔ آفریدی کودتے پھاندتے شعیب ملک کے پاس جاتے ہیں اور اسے تیز تیز بول کر کچھ سمجھانے لگ جاتے ہیں۔ ملک ساری بات سنتے ہیں اور دل میں کہتے ہیں،” جسے بیس سال میں کبھی کسی کی سمجھ نہیں آئی وہ بھی مجھے سمجھانے پر تُلا ہوا ہے”۔ آفریدی اب اگلی گیند کھیلنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ اب لاکھوں تماشائی، ڈریسنگ روم میں موجود کھلاڑی، کپتان اور کوچز اسی خدشے کا شکار ہوتے ہیں کہ اب آفریدی کہیں گیند آسمان پر نہ چڑھا دے۔ عرفان پٹھان کو بھی خوب معلوم ہوتا ہے کہ اب آفریدی ایک اور چھکے کی کوشش کرے گا۔ عرفان پٹھان ایک نسبتاً آہستہ گیند کراتے ہیں آفریدی کا سر آسمان کی جانب ہوتا ہے اور وہ اپنی پوری توانائی سے بلا گھما دیتے ہیں۔ گیند آسمانوں کی بلندیوں پر چڑھ جاتی ہے اس دوران آفریدی پہلے سے ہی اپنی قسمت بھانپ کر ڈریسنگ روم میں واپسی کے لیے قدم بڑھا دیتے ہیں۔ کیچ ہو جاتا ہے اور آفریدی، ہزاروں لاکھوں لوگوں کے خدشات کے عین مطابق ہزارویں لاکھویں مرتبہ ایک ہی انداز میں آوٹ ہو کر چل پڑتے ہیں۔ وہ تماشائی جو آفریدی کو پہلی ہی گیند پر باؤلر کو اڑا دینے اور چھکے لگانے کی ترغیب دے رہے تھے اب مایوسی کے عالم میں کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اس آفریدی کو بیس سال ہو گئے ہیں بیٹنگ کرنا نہیں آئی۔

 

آوٹ ہو جانے کے بعد شاہد آفریدی کا پسندیدہ مشغلہ
آوٹ ہو جانے کے بعد شاہد آفریدی کا پسندیدہ مشغلہ
آفریدی، ڈریسنگ روم میں جا کر بیٹھتے ہیں۔ احمد شہزاد بھاگ کر ان کے لیے پانی لاتے ہیں۔ آفریدی پانی کا گلاس ہاتھ میں پکڑتے ہیں۔ سامنے ٹی وی پر محمد یوسف اور شعیب اختر براہ راست تبصرہ کرتے نظر آتے ہیں، اور آفریدی کے آوٹ ہونے اور اس کے آوٹ ہونے کے انداز پر تبصرہ کر رہے ہوتے ہیں۔ آفریدی کے کان میں دو جملے پڑتے ہیں، یوسف کہہ رہے ہوتے ہیں “یہ تو ہے ہی ٹلہ” اور شعیب کہہ رہے ہوتے ہیں “اس کا دماغ جو ماشاللہ ہے، کوپتان۔۔۔۔۔” آفریدی غصے سے کہتے ہیں بند کرو یہ یاجوج ماجوج کے تبصرے۔۔۔۔۔ اتنے میں خشکی ختم کرنے کے مشہور برانڈ کا اشتہار چل پڑتا ہے جس میں آفریدی اپنے بالوں میں انگلیاں پھیرتے دکھائی دیتے ہیں ۔۔۔۔ اور اس کے بعد ایک چیونگم کا جس میں وہ فن کو پھلاتے نظر آتے ہیں ۔۔۔۔اور پھر ایک ہاوسنگ سوسائٹی کا اور پھر ایک ہاضمے دار چورن کا اور پھر ایک کولا مشروب کا۔۔۔۔۔۔اور آفریدی اپنا غصہ کم کرنے کو گیند چبانا شروع کر دیتے ہیں۔

Image: Khaliq Khan

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *