ajmal-jamiحافظ آباد کے ایک سنکی کا ناٹک دم توڑے ابھی چند ہی دن گزرے تھے کہ اسی دھرتی کے ایک اور سپوت کے کالے کرتوت سامنے آگئے۔فاخرہ یونس کے چہرے پر تیزاب پھینکنے والا بھیڑیا ہو یا شاہدہ کو زنجیروں میں جکڑنے والا لیاقت بھٹی،سمجھ نہیں آتا کہ ان درندوں کو کیا نام دیا جائے۔ انسان کہنا تو دور کی بات، جانور سے تشبیہ دینا بھی جانوروں کی توہین کے مترادف ہو گا۔ کراچی میں جاری بدامنی، سیاسی قیادت کے تیور، شام اور مصر کی کشیدہ صورتحال ہو یا لائن آف کنٹرول پر بگڑتے حالات،اور نجانے ایسےکتنے بے پناہ اہم موضوعات ہیں کہ جن پر لکھنے بیٹھیں تو صفحات کے پیٹ نہ بھرنے پائیں۔ لیکن نجانے کیوں ایک خاص واقعے نے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو جیسے مقفل کر رکھا ہو۔ بہت کوشش کی کہ ان دل دہلا دینے والے خیالات کوجھٹک دوں لیکن کوئی کوشش بارآور نہ ہو سکی۔
تیرہ چودہ سال کی ایک بچی کا چہرہ بار بار آنکھوں کے سامنے آتا ہے اور پھر وہ مناظرکہ جنہیں دیکھ کر شاید ہی کوئی ذی شعور تڑپ نہ اُٹھے۔ زنجیروں میں جکڑی،زخمی چہرہ، سوجے ہوئے ہاتھ پاوں،نڈھال،سہمی ہوئی ، شاہدہ! تا دم مرگ وہ اس بھیانک تجربے کے زیرِ اثر رہے گی، ان اذیت ناک شب و روز کی یادیں اس معصوم ذہن سے کبھی مٹ نہ پائیں گی۔

زنجیروں میں جکڑی،زخمی چہرہ، سوجے ہوئے ہاتھ پاوں،نڈھال،سہمی ہوئی ، شاہدہ! تا دم مرگ وہ اس بھیانک تجربے کے زیرِ اثر رہے گی، ان اذیت ناک شب و روز کی یادیں اس معصوم ذہن سے کبھی مٹ نہ پائیں گی۔

شاہدہ کا تعلق بھلے نامی گاوں سے ہے جو فیروز پور انٹر چینج شیخوپورہ کے قریب واقع ہے۔ کچھ عرصہ قبل اس کے والدین نے حافظ آباد کے سابق ایم این اےلیاقت بھٹی سے چار لاکھ روپے کی رقم بطور قرض حاصل کی۔اطلاع کے مطابق ادائیگی نہ ہونے کے باعث شاہدہ کی والدہ اسے آٹھ سالہ بہن زبیدہ، اور دس سالہ بھائی عرفان کے ہمراہ لیاقت بھٹی کے ہاں چھوڑ گئی تھی۔
نجانے کب سے شاہد ہ ، لیاقت بھٹی کے ہاں ایک چھوٹے سے کمرے میں زنجیروں میں جکڑی پڑی تھی،کہ اچانک چند روز قبل اس خبر نے ٹی وی سکرینوں کو سرخ کر دیا۔ پولیس جوہر ٹاون لاہور کے ای بلاک میں ایک گھر پر چھاپہ مارتی ہے۔ سرونٹ کواٹرز سے شاہدہ کو بازیاب کیا جاتا ہےاور مکان کے پورچ سے سابق ایم این اے لیاقت بھٹی کو بھی گرفتار کیا جاتا ہے۔ تھانہ جوہر ٹاون کے ایس ایچ او آصف ذوالفقار سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ بچی کو حبس بے جا میں رکھنے کی اطلاع انہیں ون فائیو کے ذریعے موصول ہوئی۔ بچی کو مکان کی بالائی منزل پر سیڑھیوں کے قریب ایک چھوٹے سے کمرے میں زنجیروں میں جکڑا گیا تھا ۔زنجیروں کا ایک سرا نچلے حصے میں واقع ایک کمرے تک جاتا تھا۔ سر دست لیاقت بھٹی نے اس واقعہ سے لاعلمی کا اظہار کیا ہےاور سارا ملبہ اپنے ملازم پر ڈالاہے۔ پولیس نے تعزیرات پاکستان کی دفعات تین سو چوون، تین سو بیالیس، اور پانچ سو چھے کے تحت بچی کے والد عاشق کی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا ہے ۔Picture 12 یاد رہے کہ یہ تینوں دفعات قابل ضمانت ہیں۔
اگلے روز ملز م کو ماڈل ٹاون کچہری میں مجسٹریٹ کے رو برو پیش کیا گیاجہاں لیاقت بھٹی نے فقط پچاس ہزار روپے کے مچلکے بھرے اور ضمانت حاصل کر لی۔ یہ تو ذکر تھا دستیاب معلومات کا لیکن معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ کیونکہ نہ تو بچی کی ابتدائی میڈیکل رپورٹ حاصل کی گئی اور نہ ہی اس کی روشنی میں پولیس نے ملزم کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔ اسی پیشی میں شاہدہ کے والد عاشق نے بھی پر اسرار طور پر چپ سادھ لی۔ شاید رات کے اندھیرے میں غریب آدمی کی غربت کے دام لگ چکے تھے ۔ لیاقت بھٹی کا موقف انتہائی دلچسپ ہے۔ اس شخص کا کہنا ہے کہ بچی کو زنجیروں میں اس کےایک ملازم نے جکڑا۔ مخالفین نے پیسوں کے عوض ملازم کو اکسایا تا کہ لیاقت بھٹی کو بدنام کیا جا سکے۔ لیکن موصوف کی نیک نامی کا ڈنکا ضلع حافظ آباد میں خوب بجتا ہے۔ شاید وہ کوئی اور لیاقت بھٹی تھا جس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ بارات روک کر دلہن اتار لیا کرتا تھا، اور جس کے خلاف حافظ آباد کے تھانوں میں درجنوں پرچے درج ہیں۔ Picture 14
لیاقت بھٹی کی انوکھی منطق پر وقت ضائع کرنے کی بجائے یہ سوچنا زیادہ اہم ہے کہ چند لاکھ روپوں کے عوض کسی انسان کو گروی رکھنا کس قانونی یا اخلاقی نظام میں جائز ہے؟ اور اگر کسی نابالغ بچی کو ملازمہ کی حیثیت سے ہی رکھا جائے تو کیا یہ چائلڈ لیبرقوانین کی کھلی خلاف ورزی نہیں؟ ان نکات پر ہمارا قانون کیا کہتا ہے اور کیا لیاقت بھٹی جیسا بااثر شخص اس کی گرفت میں آئے گا؟ اور اگر نہیں تو پھر ہمیں ماننا پڑے گا کہ ہمارے ہاں قانون کی حکمرانی کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے میں ابھی بہت وقت لگے گا۔
یہ جواز بھی دیا گیا کہ بچی کی ذہنی حالت درست نہیں لہذا سے زنجیروں میں باندھے رکھنا ضروری تھا۔ تو لیاقت بھٹی ! اگر تمہارا کوئی اپنا بچہ ایسی ذہنی بیماری میں مبتلا ہو تا تو کیا تم اس کے ساتھ بھی یہی سلوک کرتے؟

شاید وہ کوئی اور لیاقت بھٹی تھا جس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ بارات روک کر دلہن اتار لیا کرتا تھا، اور جس کے خلاف حافظ آباد کے تھانوں میں درجنوں پرچے درج ہیں۔

دل دہلا دینے والی یہ خبر زیادہ دیر تک نیوز سٹوڈیوز اور تجزیہ نگاروں کی توجہ قائم نہ رکھ سکی۔ کچھ روز قبل حافظ آباد کے ہی ایک سکندر کے بلنڈر کو گھنٹوں نہیں بلکہ کئی دنوں تک مسلسل بیچا گیا۔ سول سوسائٹی یا سوشل میڈیا کو ہی دیکھ لیجئے، کوئی بھرپور احتجاجی آواز سننے میں نہیں آئی۔ کوئی دفاع پاکستان کی مقدس ذمہ داری نبھارہا تھا تو کسی کو عالمی یوم حجاب پر فرانس کی بچیوں کا غم کھائےجارہا تھا۔ بڑے بڑے مفکر، دانشور، لکھاری اور صحافی اس انسانی المیے کو نظر انداز کر گئے ۔ شاید ان کی ادارتی حس کے مطابق یہ واقعہ معمولی نوعیت کا تھا۔ یا پھر شاید ان لوگوں نے اس واقعے پر اس لیے آواز نہ اٹھا ئی کیونکہ ان کے اپنے گھروں میں چائلڈ لیبر عام ہے۔
کئی جوانیاں سائیکل چوری جیسے معمولی مقدمات کی مدمیں جیل میں بیت گئیں لیکن انصاف اُن بے چاروں سےتو کوسوں دور ہےلیکن ہاں اگر آپ لیاقت بھٹی ہیں تو یقین جانیں ‘ انصاف’ آپ کے گھر کی باندی ہے۔
بہر حال ایک بات تو طے ہےکہ شاہدہ ! تم تا قیامت اس بربریت کی شاہد رہو گی۔ لیکن لیاقت اور انسانیت کا منکر لیاقت بھٹی کب کیفر کردار تک پہنچے گا؟ مظلوم شاہدہ اس دن کی منتظر رہے گی۔

2 Responses

  1. Aamna Munawar

    Jami child labour ki tu baat hi na krain… its not under any crime in Pakistan or in Asia infact…. bus seminar kiye jao aur baatain suntay jao…. but rest ka b koi action lay liya jana abhi asar rasukh walon pay b na mumkin hy… paisa paink tamasha dekh… ye tu ek admi ka Qisa hy there are several case by women…. Pakistan Became Lawless… that’s y things are getting worst… with everyday…

    جواب دیں
  2. Hidayatullah Akhtar

    ایسی اور بہت ساری کہانیاں ہمارے منہ پر طمانچہ ہیں اور جب تک اس معاشرے میں حرام مال سے جسم پلتا رہیگا ایسی حرا م زادگیاں ہوتی رہینگی

    جواب دیں

Leave a Reply

%d bloggers like this: