اس سلسلے کے مزید مضامین پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

پہلی قسط

شام پر فرانسیسی استعمار کے مضر اثرات اور خانہ جنگی کی تاریخی جڑیں

جنگِ عظیم اول 11 نومبر 1918ء کو جرمنی اور اُس کے حلیف ممالک آسٹریا، ہنگری، بلغاریہ اور خلافتِ عثمانیہ پر مشتمل دھڑے کی شکست پر اپنے انجام کو پہنچی۔ برطانیہ اور فرانس کی قیادت میں قائم فاتح اتحادی دھڑے کے رکن ممالک میں پہلے سے کیے گئے خفیہ معاہدے’سائیکوس پیکو‘ کے تحت مفتوحہ ممالک کی بطورِ مالِ غنیمت کی تقسیم شروع ہوئی۔ یہ معاہدہ 16 مئی 1916 میں ہوا تھا۔ اس تقسیم میں خلافت عثمانیہ کا علاقہ شام فرانس کے حصے میں آیا۔ تب کا شام موجودہ شام سے رقبے کے لحاظ سے کافی وسیع تھا، اس زمانے کے شام میں موجودہ لبنان، اردن، فلسطین، اسرائیل اور ترکی کا عرب آبادی والا صوبہ ’ہاتے‘ بھی شامل تھا۔

سلطنت شام 1918

سلطنت شام 1918

بالشویک روس کی انقلابی حکومت نے روسی آرکائیو ڈپارٹمنٹ سے زارروس کے عہد میں عوام سے خفیہ رکھی گئی دستاویزات عام کیں۔
اسی دوران 23 نومبر1917ء کو روس میں لینن کی قیادت میں بالشویک انقلاب برپا ہوا۔ بالشویک روس کی انقلابی حکومت نے روسی آرکائیو ڈپارٹمنٹ سے زارروس کے عہد میں عوام سے خفیہ رکھی گئی دستاویزات عام کیں۔ اِن محفوظ شدہ دستاویزات کے عام کیے جانے سے برطانوی سفارت کار مارک سائیکس اور فرانسیسی سفارت کار فرانسوا جارج پیکو کے مابین ہونے والا معاہدہ بھی دنیا کے سامنے بے نقاب ہوا۔ سائیکس پیکو معاہدے کے تحت روس کے حصے میں درہ دانیال اور باسفورس پر مشتمل آبناؤں کے ساتھ ساتھ استنبول، آرمینیا اور کردستان کے کئی علاقے آنے تھے۔ یہ علاقے گرم پانیوں والے سمندروں تک رسائی کا راستہ ہونے کی وجہ سے روس کے لیے تجارتی اور تذویراتی اعتبار سے انتہائی اہمیت اور افادیت کے حامل تھے۔ مگر لینن کے زیراقتدار بالشویک روس نے مفتوحہ ممالک کی اس استعماری تقسیم میں شمولیت کی بجائے سائیکوس پیکو معاہدے کی دستاویزات کو بے نقاب کیا اور استعماری گٹھ جوڑ کا حصہ بننے سے گریز کیا۔ سائیکس پیکو معاہدے کا تذکرہ آج بھی شام اور عراق کی صورت حال میں بار بار سامنے آتا ہے، حال ہی میں دولت اسلامیہ نے بھی اس معاہدے کا ذکر کیا۔

سائیکس پیکو معاہدے کے تحت فرانس اور برطانیہ کے مابین علاقوں کی تقسیم کا نقشہ

سائیکس پیکو معاہدے کے تحت فرانس اور برطانیہ کے مابین علاقوں کی تقسیم کا نقشہ

یہ بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ صرف سائیکس پیکو معاہدہ ہی نہیں، بلکہ برطانیہ اور فرانس کی جانب سے مقامی عرب آبادی کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزی بھی موجودہ صورت حال کی ذمہ دار ہے۔ برطانیہ نے خلافت عثمانیہ کے خلاف اتحادی افواج کا ساتھ دینے کے عوض شریف مکہ سے شام کی بادشاہت ان کے بیٹے کو دینے کا وعدہ کیا تھا۔ یہ وعدہ لارنس آف عریبیہ کے ذریعے کیا گیا تھا۔ شام پر فرانس کے استعماری قبضے سے قبل برطانیہ نے 8 مارچ 1920 ء کو اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے شریفِ مکہ حسین ابن علی ہاشمی کے بیٹے فیصل ابن حسین کو شام کی بادشاہت سونپ دی۔ مگر محض چار ماہ بعد ہی 24 جولائی 1920ء کو فرانس کے شام پر قبضے اور فیصل ابن حسین کی بے دخلی پر برطانیہ خاموش رہتا ہے کیونکہ خفیہ معاہدے سائیکس پیکو کے تحت شام فرانس کے حصہ میں آنا تھا۔ شام پر فرانس کا استعماری قبضہ 17 اپریل 1946ء کو شام سے آخری فرانسیسی قابض فوجی دستے کی واپسی تک جاری رہا۔ اپنی خودمختاری کی امید پر جنگ عظیم اول کے دوران خلافتِ عثمانیہ کے خلاف ’عرب بغاوت‘ کی مسلح تحریک چلانے والے شامی خلافتِ عثمانیہ کی تحلیل اور ترکوں سے علیحدگی کے بعد فرانسیسی استعمار کے زیرِنگیں آ گئے۔

اپنی خودمختاری کی امید پر جنگ عظیم اول کے دوران خلافتِ عثمانیہ کے خلاف ’عرب بغاوت‘ کی مسلح تحریک چلانے والے شامی خلافتِ عثمانیہ کی تحلیل اور ترکوں سے علیحدگی کے بعد فرانسیسی استعمار کے زیرِنگیں آ گئے۔
فرانسیسی استعمار نے شام پر اپنے چھبیس سالہ قبضے کے دوران شام کو اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھائے رکھا۔ اس دوران فرانس نے برطانیہ کے ساتھ مل کر بالفور ڈیکلیریشن کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ’فرانسیسی مینڈیٹ برائے شام و لبنان‘ منصوبے کے تحت تین ایسے اقدامات کیے جو آنے والے وقتوں میں شام کے لئے انتہائی مضر ثابت ہوئے۔
پہلا یہ کہ فرانس نے 1920ء میں اُردن، لبنان اور فلسطین کو شام سے جدا کر کے شام کو موجودہ رقبے تک محدود کر دیا۔ تاکہ آنے والے وقتوں میں فلسطین میں یہودی آبادکاری اور مجوزہ یہودی ریاست اسرائیل کے قیام کے لئے رقبہ میسر آ سکے، اور خطے میں طاقت کا توازن نومولود اسرائیل کے تذویراتی حق میں پہلے سے تراشا جا سکے۔ ساتھ میں ’شریفِ مکہ‘ حسین ابن علی ہاشمی کے بیٹے فیصل ابن حسین کو عراق اور عبداللہ بن حسین کو اردن کی امارتیں دے کر مطمئن کیا جا سکے۔

دوسرا یہ کہ برطانوی ہند میں تقسیمِ بنگال 1905ء کے ماڈل پر فرانس نے موجودہ رقبے پر محیط باقی کے شام کو عارضی طور پر مسلکی اور نسلی بنیادوں پر تقسیم کیے رکھا۔ یہ تقسیم 1920ء سے 1936ء تک مسلکی اور نسلی بنیادوں پر پانچ کالونیوں کی صورت میں قائم رہی اگرچہ فرانس کے بقول تقسیم انتظامی لحاظ سے تھی۔ مگر پسِ پردہ فرانسیسی قابضین کا مقصد شام کے مقامی باشندوں یعنی دروزیوں، علویوں اور سنیوں کے مابین فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینا اور کردوں میں عربوں سے علیحدگی کے رجحان کو ابھارنا تھا۔ بالکل اِسی طرح جیسے بنگال کی انتظامی تقسیم کے پیچھے برطانیہ کا مقصد ہندوؤں اور مسلمانوں میں تقسیم کو بڑھا کر اپنے تسلط کو طول دینا تھا۔
تیسرا یہ کہ فرانس نے برطانیہ کے ساتھ مل کر شام کے صوبہ لوأالاسکندرون (ہاتے) کو شام کی آزادی سے قبل 1936ء کو متنازع طور پر ترکی کی تحویل میں دے دیا۔ یہ اقدام شام کی آزادی کے بعد شام اور ترکی کے مابین تعلقات میں سردمہری کا باعث بنا۔

فرانسیسی مینڈیٹ برائے شام و لبنان

فرانسیسی مینڈیٹ برائے شام و لبنان

شام کو موجودہ نہج پر لانے میں فرانسیسی قبضے کے ساتھ مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں بعثی عنصر اور شام کی علوی برادری سے تعلق رکھنے والی اسد حکومت بھی اہم محرکات میں سے ہیں۔
فرانسیسی استعمار کے یہ اقدامات خارجی اور داخلی دونوں سطحوں پر شام کی موجودہ حالتِ زار اور خانہ جنگی کا سبب بنے ہیں۔ خارجی سطح پر شامیوں کے ترکی کے ساتھ اختلافات فرانسیسی استعمار کے قبضے کے دوران ہی سر اُٹھانے لگے تھے۔ جبکہ 1946ء میں آزادی کے بعد شام کی اسرائیل کے ساتھ کشیدگی 1948ء کی پہلی عرب اسرائیل جنگ سے شروع ہو گئی تھی۔ داخلی سطح پر شامیوں میں فرانسیسی استعمار کا اُبالا گیا فرقہ وارانہ منافرت اور نسل پرستانہ عصبیت کا لاوا بھی اپنے مضر اثرات کے ساتھ جلد ہی پھٹ پڑا۔ تاہم اِس کی شدت میں حقیقی اضافہ 1960ء کی دہائی میں فوجی انقلاب کی صورت میں عرب سوشلسٹ بعث پارٹی کے شام کے اقتدار پر قبضے سے ہوا۔ شام کی داخلی صورت حال دسمبر2010ء میں بہارِ عرب اور 2011 سے جاری خانہ جنگی کی صورت میں اپنی سنگین ترین شکل کو پہنچ چکی ہے۔ اگرچہ حالیہ خانہ جنگی میں کلیدی کردار بیرونی طاقتیں ادا کر رہی ہیں۔ تاہم شام کو موجودہ نہج پر لانے میں فرانسیسی قبضے کے ساتھ مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں بعثی عنصر اور شام کی علوی برادری سے تعلق رکھنے والی اسد حکومت بھی اہم محرکات میں سے ہیں۔

(جاری ہے)

Leave a Reply