Laaltain

شامی خانہ جنگی: پسِ منظر سے پیش منظر تک- دوسری قسط

16 اگست، 2016
Picture of حسین رضا

حسین رضا

اس سلسلے کے مزید مضامین پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
دوسری قسط

 

شامی بحران میں شامی بعث پارٹی، علوی برادری اور اسد حکومت کا عمل دخل

 

بعث پارٹی شام کے ایک عیسائی دانشور مشیل عفلق نے 7 اپریل 1947ء کو قائم کی تھی۔ بعث پارٹی ‘مصنوعی سرحدوں’ میں منتشر عربوں کو قومیت، اشتراکیت اور سیکولرازم کی بنیاد پر یکجا کرنے اور منقسم عرب خطوں کی جغرافیائی وحدت کو عربوں کے لیے راہِ نجات قرار دیتی ہے۔ بعث پارٹی کو عراق اور شام میں فوجی انقلابات کے ذریعے اقتدار تو مل گیا لیکن عراق اور شام کی مقتدر بعث پارٹیاں بہت جلد قیادت کے حصول کی لڑائی میں پڑ گئیں اور یوں بعث ازم کے تحت عراق اور شام کے باہم الحاق سے ایک قوم پرست اشتراکیت پسند عرب جمہوریت کے قیام کی دو طرفہ کوششیں ناکام ثابت ہوئیں۔

 

مشیل ایفلق
مشیل ایفلق
شام میں بعث پارٹی اور اسد حکومت کا پسِ منظر

 

حافظ الاسد نے اپنے تیس سالہ دور میں سابقہ حکومت سے ورثے میں ملنے والی ایمرجنسی کو اُٹھانے کی بجائے حسبِ سابق من وعن شامیوں پر مسلط کیے رکھا۔
17 اپریل 1946ء کو فرانسیسی استعمار سے آزادی کے بعد سے مارچ 1971ء تک شام داخلی اور خارجی عوامل کی بنا پر پچیس برس تک سیاسی عدم استحکام اور معاشی انحطاط کا شکار رہا۔ اسرائیل سے تین جنگوں میں شکست، فلسطینی مہاجرین کی آمد، نااہل سیاسی قیادت، مصر سے الحاق اور علیحدگی، فوجی انقلابات اور قیادت کا فقدان اس سیاسی اور معاشی بحران کی وجہ بنے۔ اُسی زمانے میں مشرقی وسطیٰ اور گردونواح میں اشتراکیت پسندوں کا اثرورسوخ بھی بڑھ رہا تھا۔ ہمسایہ ممالک کے حالات سے شہہ ملنے پر شام کی مسلح افواج میں بعث پارٹی سے وابستہ عناصر نے 8 مارچ 1963ء کو فوجی انقلاب کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ بعدازاں شام کے موجودہ صدر بشارالاسد کے والد حافظ الاسد نے ’بعث پارٹی شام‘ کے اپنے حامی رہنماؤں اور شام کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے علوی عہدیداران کی ملی بھگت سے 1970ء میں شام کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔

 

شام پر اسد خاندان کی حکومت بھی مشرقِ وسطیٰ میں دیگر بادشاہی اور خودرانی عرب حکومتوں کی طرح مطلق العنانیت، استبدادیت اور جبر کے بل پر قائم ہے۔ اس نظامِ حکومت میں بھی عوام کو ایمرجنسی، جاسوسی، خفیہ پولیس، سخت قوانین، ہولناک سزاؤں اور عقوبت خانوں کے خوف سے مطیع بنائے رکھا گیا ہے۔ حافظ الاسد نے اپنے تیس سالہ دور میں سابقہ حکومت سے ورثے میں ملنے والی ایمرجنسی کو اُٹھانے کی بجائے حسبِ سابق من وعن شامیوں پر مسلط کیے رکھا۔ جس کی وجہ سے شامی قانوناً بنیادی انسانی حقوق، سیاسی آزادیوں اور اظہارِ رائے کے حق سے محروم رہے۔ جس طرح مصر میں حسنی مبارک مذہبی عسکریت پسندوں کی جانب سے ملکی قومی سلامتی کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے ایمرجنسی کے بلاتعطل نفاذ کو ضروری قرار دیتے تھے، بالکل اسی طرح حافظ الاسد بھی شام میں ہنگامی حالت کے مسلسل نفاذ کے حق میں ایسی ہی پالیسی رکھتے تھے۔ اس حوالے سے اسد حکومت کے موقف کو تب وزن ملتا ہے جب شام میں بشارالاسد کی جانب سے 48 سالہ طویل ایمرجنسی اُٹھانے کے نتیجے میں اخوان المسلمین سمیت عسکریت پسند گروہوں کی زیرزمین سرگرمیاں سر اُٹھانے لگیں۔ یہ سرگرمیاں بالآخر موجودہ خانہ جنگی پر منتج ہوئیں۔ اگرچہ شام میں اسد حکومت نے اپنے شہریوں کو ضمیر کے مطابق مذہبی وظائف سرانجام دینے کی آزادی دیے رکھی ہے مگر حکومت کی جانب سے کسی شہری کا غیرمعمولی طور پر مذہبی سرگرمیوں میں ملوث ہونا شک کی نظر سے دیکھاجاتا ہے چاہے وہ شہری شیعہ ہو یا سنی کیونکہ حکومت انتہاپسندی کو سماجی استحکام کے لیے تباہ کن گردانتی ہے۔

 

حافظ الاسد کی مقبولیت کیوں کم ہوئی؟

 

حافظ الاسد کے عہد میں شام کی حکومت، بعث پارٹی، سول بیوروکریسی اور مسلح افواج کے کلیدی عہدوں پر علویوں کی تقرریوں کے محرکات مذہبی نہیں بلکہ ذاتی تھے۔
گو ابتداء میں حافظ الاسد کے انقلاب کو شامیوں کی جانب سے خوش آمدید کہا گیا لیکن 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد عوام میں حافظ الاسد کی حکومت کی مقبولیت کم ہوئی۔ جنگ کے دوران اسرائیل سے گولان کی پہاڑیوں کا قبضہ چھڑانے میں ناکامی سے عوام کی نظروں میں حافظ الاسد کی حکومت کا وقار کم ہوا۔ ملکی معیشت میں مندی پر’ملک اسرائیل کے خلاف حالت جنگ میں ہے‘ کا عذر پیش کیا گیا جس نے شامی عوام کو حافظ الاسد سے بہت جلد مایوس کر دیا اوریوں شام کی عوام میں حافظ الاسد کی مقبولیت کم ہوتی چلی گئی۔ اگرچہ مجموعی طور پر حافظ الاسد حکومت کی وجہ سے شام میں معاشی استحکام دیکھنے کو ملا اور عوام کے معیارِ زندگی میں نسبتاً بہتری بھی آئی لیکن اس ترقی کے ثمرات تمام طبقات تک نہیں پہنچے۔ حافظ الاسد کے دور میں مادی ترقی اور خوشحالی کے اعتبار سے پسماندہ علوی برادری نے باقی قومیتوں کی نسبت کئی گنا زیادہ ترقی کی۔

 

گولان پہاڑیاں اسرائیل اور شام کے مابین تنازعے کی وجہ ہیں
گولان پہاڑیاں اسرائیل اور شام کے مابین تنازعے کی وجہ ہیں
حافظ الاسد کی علویوں سے پر نوازشات سے متعلق اکثر تجزیہ کار کہتے ہیں کہ حافظ الاسد کے عہد میں شام کی حکومت، بعث پارٹی، سول بیوروکریسی اور مسلح افواج کے کلیدی عہدوں پر علویوں کی تقرریوں کے محرکات مذہبی نہیں بلکہ ذاتی تھے۔ چونکہ حافظ الاسد کا اقتدار محلاتی سازشوں کا نتیجہ تھا اِسی وجہ سے ان کے اقتدار کو جوابی محلاتی سازش کا کسی بھی وقت سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ جیسا کہ حافظ الاسد کو اپنے بھائی رفعت الاسد کی جانب سے اقتدار پر قبضے کی محلاتی سازشوں کا بھی سامنا ہوا۔ لہٰذا اِن خطرات کا سدباب کرنے کے لیے انہوں نے کلیدی عہدوں پر اپنے آبائی علاقے اور خاندان سے تعلق رکھنے والے قابلِ اعتبار اور وفادار امیدواروں کو مقرر کیا۔ بالکل اِسی طرح جیسے عراق میں صدر صدام حسین نے بیشتر کلیدی عہدوں پر اپنے آبائی علاقے تکریت سے تعلق رکھنے والے بااعتماد اور وفادار افراد کا تقرر کیا تھا۔ حافظ الاسد کا خاندان اپنی نجی زندگی میں انتہائی لبرل ہے اور بعثی رجحانات کی وجہ سے وہ مذہب کو ثانوی حیثیت دیتے ہیں۔ حافظ الاسد کی بہو اور بشارالاسد کی اہلیہ اسماء اسد کا تعلق سُنی فیملی سے ہے۔ جس سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ علویوں کے کلیدی عہدوں پر تقرر کے پیچھے حافظ الاسد کے مسلکی محرکات نہیں بلکہ ذاتی مفادات تھے۔ لیکن کلیدی عہدوں پر علویوں کی تقرریوں سے عوام میں حافظ الاسد حکومت کا امیج بعث پارٹی کی حکومت کی بجائے علوی حکومت کا بن گیا اور یوں شامی بعث پارٹی کا سیکولر تشخص علوی چھاپ کی نذر ہو گیا۔

 

اکثریت پر قلیت کی حکمرانی

 

اسد خاندان کے شام پر برسراقتدار آنے سے علوی بطورِ ایک برادری مقتدر سیاسی قوت اور سماجی اشرافیہ بن گئے جس کے نتیجے میں شام کی اکثریتی سنی المسلک اور کرد النسل عوام احساسِ محرومی کا شکار ہوگئے۔
علوی اور دروزی مسلمانوں کے ہی دو فرقے ہیں جو خود کو شیعہ مسلک کے ذیلی فرقے قرار دیتے ہیں۔ مگر تاریخ میں اہل تشیع اور اہل سنت دونوں علویوں اور دروزیوں کی تکفیر کرتے آئے ہیں۔ البتہ سیاسی مقاصد کے لیے اہل سنت میں پہلے مفتی اعظم فلسطین الحاج امین الحسینی اور بعدازاں اہل تشیع میں سے ایرانی نژاد لبنانی عالم آیت اللہ موسیٰ الصدر نے انہیں مسلمان قرار دیا۔ ان علماء کا بنیادی مقصد خطے میں آبادی ی بنیاد پر یہودیوں اور میرونیائی عیسائیوں کے مقابلے میں مسلمانوں کی عددی اکثریت ظاہر کرنا تھا۔ اسد خاندان کے شام پر برسراقتدار آنے سے علوی بطورِ ایک برادری مقتدر سیاسی قوت اور سماجی اشرافیہ بن گئے جس کے نتیجے میں شام کی اکثریتی سنی المسلک اور کرد النسل عوام احساسِ محرومی کا شکار ہوگئے۔ چونکہ اسد خاندان کا اقتدار اکثریت پر اقلیت کی حکمرانی تھی اس لیے شام کی عوام نے اِسے اپنے استحصال کے زمرے میں لیا جو کہ غلط نہ تھا۔ لہٰذا جس طرح بلحاظِ آبادی شیعہ اکثریتی عراق میں یک جماعتی نظام حکومت کے تحت برسراقتدار جماعت عراقی بعث پارٹی پر سنیوں کا غلبہ اکثریت پر اقلیت کی حکمرانی تھی بالکل اِسی طرح سنی اکثریتی شام میں یک جماعتی نظام کی حکمران جماعت شامی بعث پارٹی پر علویوں کا غلبہ بھی اکثریت پر اقلیت کی حکمرانی ہے۔

 

شام میں علوی آبادی اقلیت میں ہے
شام میں علوی آبادی اقلیت میں ہے
علوی برادری اسد حکومت سے دور ہو رہی ہے

 

علوی شام کی کل آبادی کا 12 فیصد ہیں۔ حافظ الاسد نے اپنے اقتدار کی بقاء کے لیے علویوں کو کلیدی عہدوں پر متعین کیا تاکہ علویوں کو احسانات تلے دبا کر اپنا وفادار بنایا جا سکے۔ حافظ الاسد شعوری طور پر علویوں کو یہ احساس دلانا چاہتے تھے کہ شام میں انہیں جو شان وشوکت اور ٹھاٹھ باٹھ حاصل ہے وہ صرف حافظ الاسد حکومت کی وجہ سے ہے۔ صدام حسین کی طرح حافظ الاسد نے بھی اپنے اقتدار کی بقاء اور طوالت کے لیے اکثریت کو دبائے رکھا اور اقرباء پروری کے ذریعے علویوں کو اپنا وفادار بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ جب موجودہ شامی صدر بشارالاسد کے خلاف خانہ جنگی کا آغاز ہوا تو حکومت نے نے ایران اور حزب اللہ سے مدد مانگنے سے پہلے علوی کمیونٹی کو امن لشکروں کے ذریعے حکومت کی حمایت میں باغیوں کے خلاف مزاحمت پر مجبور کیا۔ یوں بہت جلد علویوں کو احساس ہوگیا کہ شام کی خانہ جنگی علویوں کی بطورِ گروہ ذاتی جنگ نہیں بلکہ اسد خاندان کی جنگ ہے جس میں وہ مفت میں مارے جا رہے ہیں۔ لہٰذا علوی برادری نے خود کو بشارالاسد سے دور کر لیا ہے۔ علوی برادری نہیں چاہتی کہ وہ بشارالاسد حکومت کے خاتمے کی صورت میں فاتحین کے انتقام کا نشانہ بنے۔ اس صورت حال سے اس نکتے کو تقویت ملتی ہے کہ شام میں جاری خآنہ جنگی فرقہ وارانہ نہیں بلکہ اقتدار کی سیاست کی مظہر ہے۔

 

(جاری ہے)

Image: www.panoramio.com

One Response

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

One Response

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *