[blockquote style=”3″]
زاہد امروز پاکستان کی نئی نسل کے ایک اہم نظم نگار ہیں، نثری نظم ان کی ادبی شناخت کا حوالہ ہے۔ ان کی نظموں کے اب تک دو مجموعے "خود کشی کے موسم میں” اور "کائناتی گرد میں عریاں شام” شائع ہو چکے ہیں۔ آپ نیشنل یوتھ ایوارڈ وصول کر چکے ہیں اور طبعیات پڑھاتے ہیں۔
[/blockquote]
تصنیف حیدر: نثری نظم پر ہر تین طرف سے سوالات کی بوچھاڑ ہو تی ہے۔ اول اس کی ہیئت پر، دوسرے اِس کے وجود پر اور تیسرے اس کی شناخت پر۔ کیا مذہبی صحائف جن میں ایک خاص قسم کا ردھم بھی موجود ہوتا ہے، اپنی ہئیت کی بنیاد پر شاعری تسلیم کر لیئے جائیں گے؟
زاہد امروز: اس سوال کے لہجے سے یوں لگتا ہے جیسے نثری نظم ادبی عدالت میں کھڑی ایک ملزمہ ہے جس سے کوئی شعری غلطی سر زد ہو گئی کہ چاروں اطراف سے سوالات کی بوچھاڑ اور لعن طعن ہورہی ہے۔ اب اِسے اپنی ہیئت، وجود اور شناخت کے بارے میں صفائی پیش کرنا ہو۔ ایسی صورت حال تو تب پیدا ہوگی جب شاعری کے کوئی آفاقی اصول ہوں اور حضرت جبرائیل کے ہاتھوں پیغمبرانِ شعر پر نازل ہوئے ہوں۔ مجھے اس بات پر حیرانی ہوتی ہے کہ اگر شاعری محض قافیہ پیمائی اور عروض کی تنی رسی پر کرتب بازی ہے تو مختلف زبانوں میں اس کی بیسیوں اشکال کیوں کر موجود ہیں۔ میں یہاں نہ نثری نظم کی وکالت کروں گا اور نہ اس کی صفائیاں پیش کروں گا۔ یہ کام تو ہر تخلیق کار کی تخلیق خود کرتی ہے۔ ہاں البتہ ان سوالوں جوابوں کے ذریعے ہم یہ دیکھنے کی کوشش کرسکتے ہیں کہ شاعری کو کیا چیز شاعری بناتی ہے۔ شعر اور غیر شعر کی صنفی شناخت کیا محض عروض ہیں یا کچھ اور عناصر کسی خیال کو شعری پیکر عطا کرتے ہیں۔
مجھے اس بات پر حیرانی ہوتی ہے کہ اگر شاعری محض قافیہ پیمائی اور عروض کی تنی رسی پر کرتب بازی ہے تو مختلف زبانوں میں اس کی بیسیوں اشکال کیوں کر موجود ہیں۔
پہلی بات کہ ہئیت کوئی جامد شے نہیں۔ شاعری ہو، نثر ہو، کوئی دفتری دستاویز ہو یا عام بول چال، ہر بات کی کوئی فارم یا ہیئت موجود ہوتی ہے۔ ہم اس کی بصری ساخت کو دیکھ کر اندازہ لگا لیتے ہیں کہ اس کی صنف کیا ہے۔ چونکہ ہمارے محدود مشاہدات سے ذہنوں میں اصناف کی مخصوص ہیئتیں بن جاتی ہیں اور ہم ایک نظر دیکھتے ہی پہچان جاتے ہیں کہ یہ فلاں صنف ہے اور اس صنف کی فلاں ہیئت ہے۔ ایک صفحے پر لکھے ہوئے چند الگ الگ اشعار اور ردیف قافیہ دیکھتے ہی ہم کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو غزل ہے۔ اسی طرح چھوٹے بڑے مصروں کے تسلسل میں لکھی ہوئی تحریر کو ہم آزاد نظم کہہ دیتے ہیں۔ یہاں تک ہیئت کا کام ختم ہو جاتا ہے اور اس کے بعد اس ہیئت کے تشکیلی اصول دیکھنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ جب ہم آزاد نظم پڑھنا شروع کرتے ہیں تو ہمارا ذہن ایک مخصوص آہنگ کے تابع مصرعوں کی شناخت کرنا چاہتا ہے۔ جب قاری (صرف وہ جسے عربی عروض کا علم ہو) کسی لائن یا مصرعے میں بحر کا تسلسل محسوس نہیں کر پاتا تو اسے ایک مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کی حسِ بصرہ کو دھوکے کا گمان ہوتا ہے اور فوراً اپنا ردِ عمل ظاہر کردیتا ہے کہ صاحب! یہ تو شاعری ہی نہیں۔ البتہ وہ قاری جسے عربی عروض کا علم نہیں ہوتا وہ اس ہیئتی دھوکے کا شکار نہیں ہوتا اور نظم پڑھتے ہوئے اس سے لطف اٹھانا شروع کر دیتا ہے۔ مصرعوں کو پڑھتے ہوئے وہ خیال کی اشکال پر غور کرتا ہے۔ تشبیہات پر غور کرتا ہے، استعاروں کی گہرائی میں اترنے کی کوشش کرتا ہے۔ مصرعے کی نحوی ترتیب میں اگر بہاؤ ہے تو اسے پڑھتے ہوئے محسوس بھی کرتا ہے۔ لفظوں کے تناسب، تکرار اور تلازموں سے شعریت کا لطف اٹھاتا ہے۔ اسے ایک لمحے کے لیے بھی یہ خیال نہیں آتا کہ اس میں سارے شعری لوازمات ہونے کے باوجود یہ شاعری نہیں ہے۔
یہاں ہمیں سوچنا چاہئے کہ صحیح قاری کون ہوا؟ وہ جس نے محض سرسری دیکھا اور مصرعے کو عربی عروض کے تابع نہ پا کر ایک طرف جھٹک دیا یا وہ جس نے اس کے باطن میں اتر کر اُسے بغیر تعصب کے پڑھنے کی کوشش کی ؟ میں سمجھتا ہوں کہ علمی اور فکری جمود کے ساتھ ساتھ ہم حسی جمود کا بھی شکار ہیں۔ صرف شاعری نہیں، زندگی کے ہر شعبے میں ہماری تربیت کا نقص ہے کہ ہم ہر نئی چیز کو پہلے تعصب سے دیکھتے ہیں، اسے غیر مانوس پا کر اُس کا تمسخر اڑاتے ہیں۔ جب ایک محدود سے گروہ میں بات شروع ہوتی ہے۔ جو نسبتاً کھلے ذہن سے اُسے دیکھتا ہے، مکالمہ جنم لیتا ہے اور جب اس کے رد میں دلائل کم پڑ جاتے ہیں یا غیر موثر رہتے ہیں تو کچھ لوگ اُس نئی چیز کی طرف مائل ہو جاتے ہیں، کچھ بعد میں قبول کر لیتے ہیں اور باقی خاموش ہو جاتے ہیں۔ پھر جب وہ رائج ہو جاتی ہے تو بغیر اعلان کئے اُسے استعمال میں لے آتے ہیں۔ یہی کچھ آزاد نظم کے ساتھ ہوا اور اب یہ اُردوشاعری کی سب سے زیادہ توانا صنف ہے۔ اور یہی نثری نظم کے ساتھ ہوا۔ سوائے چند رجعت پسندوں کے وہ تمام شاعر جو چند سال پہلے اِس کا تمسخر اڑاتے تھے، اب نثری نظموں کی کتابیں شائع کر رہے ہیں۔ بات کہنے کا مقصد محض یہ بتانا مقصود ہے کہ ہمارا علمی رویہ محققانہ نہیں بل کہ مقلدانہ ہے۔ افسوس کہ ہم تشکیک و تحقیق و تائید کی بجائے تحقیر و تائیدو تقلید پر عمل کرتے ہیں۔
شاعری میں استعاروں، علامتوں، تشبیہوں، تلازمات اور امیجز کے ذریعے ایک خیال کی تجسیم ہوتی ہے۔ یہ تجسیم ظاہری معنی کے ساتھ کئی باطنی معنی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
پہلی بات پر واپس آتے ہیں۔ کسی بھی خیال کا شعری پیکر بحر یا مخصوص صوتی آہنگ سے جنم نہیں لیتا۔ اس کے لوازمات کچھ اور ہیں۔ آپ نے کہا کہ مذہبی صحائف بھی ایک خاص ردھم کی وجہ سے شاعری تسلیم کیے جاسکتے ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ روز مرہ کی زبان ہو، سرکس میں کرتب دکھانے والا مداری ہو، سبزی منڈی میں سبزی فروش ہو یا مسجد کے سپیکروں سے اُٹھتی ہوئی سریلی آواز ہو، سب ایک ردھم رکھتی ہیں۔ ان میں شعری ردھم سے زیادہ موسیقیت ہوتی ہے لیکن یہ شاعری نہیں قرار دی جا سکتیں۔ کیوں کہ شاعری میں استعاروں، علامتوں، تشبیہوں، تلازمات اور امیجز کے ذریعے ایک خیال کی تجسیم ہوتی ہے۔ یہ تجسیم ظاہری معنی کے ساتھ کئی باطنی معنی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ شاعری میں موسیقیت لفظوں کو ایک خارجی زنجیر (بحر) میں باندھنے سے نہیں بلکہ خیال، لفظ اور لہجے کی ہم آہنگی اور تکرارِ اصوات سے پیدا ہوتی ہے جسے کچھ ناقدین زبان کا نامیاتی آہنگ کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں نثری نظم اور نثر میں ہیئت کا دھوکہ کیوں پیدا ہوتا ہے جب کہ یہ آزاد نظم کے انداز میں لکھی جاتی ہے، اس پر آگے چل کر بات کرتے ہیں۔
جہاں تک معاملہ وجود اور شناخت کا ہے، اردو میں نثری نظم بھرپور انداز سے لکھی جا رہی ہے اور اس میں کئی شاندار نظمیں لکھی گئی ہیں۔ غزل ہو یا نظم، بری شاعری ہر جگہ موجود ہے۔ یہ سوال اب ختم ہو چکا ہے کہ اس کی شناخت یا وجود متنازع ہے۔ وہی لوگ اِس پر اٹکے ہوئے ہیں جن کے ہاں روایت کا تصور بہت محدود اور غلط ہے، اور ان کی یہ رجعت پسندی خوف اور علمی کمتری کے باعث ہے۔
تصنیف حیدر: آپ کیسے نثری نظم کو دوسری شعری اصناف سے علاحدہ کریں گے؟ اور کیا اب تک دوسری زبانوں یا اُردو میں بھی اسے کوئی بڑی شناخت حاصل ہو پائی ہے؟
زاہد امروز: بالکل اُسی طرح جس طرح آپ آزاد نظم کو دوسری اصناف سے علاحدہ کرتے ہیں۔ میرے نزدیک نثری نظم ایک گمراہ کن اصطلاح ہے اور آزاد نظم کو بہت محدود معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ میں اِس غیر عروضی نظم کو بھی آزاد نظم ہی سمجھتا ہوں۔ دیکھئے، لفظ "آزاد” بہت وسعت کا حامل ہے۔ ہمارے ہاں آزاد نظم غزل سے پیدا نہیں ہوئی۔ اس سے پہلے یہاں کے مقامی ادب میں نظم کی ہیئتیں موجود تھیں۔ جوں جوں زمانہ بدلا، معروضی حالات تبدیل ہوئے تو شعری اظہار میں بھی تبدیلی آئی۔ نظم کے موضوعات، کرافٹ، الفاظ، لہجہ، ہیئت اور زبان مسلسل تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ اس تبدیلی کا سب سے نمایاں رجحان موضوعات اوراس کی ہیئتی آزادی کا ہے۔ خیال کی وسعت کو سمونے کے لیے نظم نے قافیہ ردیف سے آزادی حاصل کی۔ پھر لہجے اور آہنگ کے امکانات بڑھے اور عروضی ارکان کی عددی بندش سے آزادی حاصل کی تو اسے آزاد نظم کہہ دیا گیا۔ پھر یہ محسوس کیا گیا کہ شاعری صرف خارجی آہنگ سے متعین نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ ایک بوجھ بھی ہو سکتا ہے جو خیال کی تجسیم پرایک میکانکی رنگ مسلط کر دیتا ہے۔ خلیل بصری کے متعین کردہ عروض جو کلاسیکی عربی ادب اور پھر فارسی ادب کے ذریعے اُردو تک پہنچے، جدید اُردو کی شعری ضروریات اور صوتی آہنگ میں سہولت کی بجائے رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔
خیال کی وسعت کو سمونے کے لیے نظم نے قافیہ ردیف سے آزادی حاصل کی۔ پھر لہجے اور آہنگ کے امکانات بڑھے اور عروضی ارکان کی عددی بندش سے آزادی حاصل کی تو اسے آزاد نظم کہہ دیا گیا۔
خیال اپنے اظہار کے لیے ایک مخصوص لفظ کا انتخاب کرتا ہے۔ بعض اوقات تو یہ لفظ بحر کے صوتی دائرے پر پورا اُترتا ہے اور بعض اوقات نہیں اُترتا۔ تخلیقی عمل میں سب سے بنیادی شے احساس کا خیال میں ڈھلنا اور خیال کا لفظ کے لبادے میں تشکیل پانا ہے۔ یاد رہے کہ تخلیق وقوع پذیر ہی اس طرح ہوتی ہے کہ زندگی سے کشید کیے گیے تجربے اور مشاہدے ایک ایسا احساس پیدا کرتے ہیں جو بالکل نیا ہوتا ہے یا ایک نئی شکل میں سامنے آتا ہے۔ اس غیر مرئی احساس کو ہمارا ذہن مکمل خیال میں ڈھالتا ہے اور خیال کسی خارجی ڈھانچے (Text)میں ڈھل کر مجسم ہو جاتا ہے اور غیر طبعی حالت سے طبعی حالت میں آ جاتا ہے۔ اس ٹیکسٹ کی کوئی بھی شکل ہو سکتی ہے۔ ’لفظ‘ اُس کی محض ایک شکل ہے۔ خیال جب شعری پیکر میں ڈھلتا ہے تو منتخب کردہ لفظ میں مجسم ہوتا ہے۔ اس تخلیقی عمل میں سب سے زیادہ مقدم عنصر خیال ہے جو غیر طبعی حالت سے طبعی حالت میں منتقل ہوتا ہے۔ شعری خیال کو پُر تاثیر بنانے کے لیے ایک آہنگ دریافت کیا جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ خیال ایک ایسے آہنگ میں مجسم ہو جوعربی کے متعین کردہ محدود عروض کے تابع نہ ہو۔ اگر شاعری کے لیے عروض کی شرط قایم رکھی جائے اور خیال کا لفظی پیکر اُس پر پورا نہ اترتا ہو تو اسے بدلنا پڑتا ہے۔ اس طرح شعر یا مصرعے کا تخیلاتی، جذباتی اور معنوی سرمایہ خسارے کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کی جگہ ایسا لفظ لگانا پڑتا ہے جو اس ساری گہرائی اور تخلیقیت سے خالی ہوتا ہے۔ آزادی کی اگلی منزل میں نظم نے عروض سے بھی چھٹکارا حاصل کیا تو اِسے کم فہمی میں نثری نظم کہا گیا۔ اِس سے ایسی بحث شروع ہو ئی جس کا زیادہ تر حصہ بحث برائے بحث پر مشتمل ہے۔ حالانکہ نظم میں اراکین کی عددی بندش سے آزادی کو آزاد نظم کہا جا سکتا ہے تو پھر نظم میں عروضی جبر سے آزادی کو آزاد نظم کیوں نہ کہا جائے؟
دراصل اِس الجھن کی ایک بڑی وجہ اس ہیئت کے یہاں متعارف ہونے کے ابتدائی عرصے میں دئیے گیے ناموں میں ہی مضمر ہے۔ 1948ء میں اپنے رسالے ’خیال’ میں میرا جی نے بسنت سہائے کے فرضی نام سے جو چند نظمیں لکھیں انہیں نثری نظموں کا نام دیا۔ وہ بودلیئر سے متاثر تھے۔ کسی ادب میں جب کوئی بھی نیا شعری تجربہ کیا جاتا ہے تو اسے الگ شناخت دینے کے لیے ایک نام متعین کرنا پڑتا ہے۔ اگر یہ شعری تجربہ کامیاب ہو اور اتنا مختلف ہو کہ پہلے سے قایم ہیئتوں کی حدود کو توڑ دے تو ایک الگ ہیئت کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ نثری نظم کے ساتھ اس مقام پر یہ معاملہ ہوا کہ جب فرانسیسی شاعری میں نثری نظمPoeme en prose کی صورت ایک نیا شعری رجحان شروع ہوا تویہ ایک انقلابی تبدیلی تھی جس نے روایتی شاعری کی دقیانوسیت کو منہدم کیا اور انسانی جذبے اور شاعری کو اظہار کی نئی راہ دکھائی۔ لیکن فرانس میں بودلیئر ، راں بو اور دوسرے نمائندہ شعراء نے نثری نظم Poeme en prose نثری پیرائے میں پیراگراف کی شکل میں لکھی گئی اور یہ شاعرانہ نثر poetic prose کی ارتقائی شکل تھی۔
نظم میں اراکین کی عددی بندش سے آزادی کو آزاد نظم کہا جا سکتا ہے تو پھر نظم میں عروضی جبر سے آزادی کو آزاد نظم کیوں نہ کہا جائے؟
اردو ادب میں شاعری کا یہ رجحان فرانسیسی ادب سے کسی حد تک تو متاثرہوا لیکن اس نے زیادہ اثر اور ہیئتی ساخت انگریزی ادب میں لکھی جانے والی نظم سے قبول کی۔ انگریزی میں نظم کی یہ ہیئتی آزادی، آزاد نظم(Vers Libre) کے نام سے بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں شروع ہوئی جو فرانسیسی علامت نگاری اور جاپانی شعری ہیئتوں Tankaاور Haikai سے متاثر تھی۔ آزاد نظم(Vers Libre) کے بانیوں میں ایذراپاؤنڈ، ٹی ایس ایلیٹ اور ٹی ای ہولم کا بنیادی کردار ہے۔ اردو والوں نے انہیں زیادہ پڑھا اور ان کی جدیدیت کی پیروی کی۔ ایذرا پاؤنڈ اور ٹی ای ہولم نے کلاسیکی انگریزی شاعری سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے نامیاتی ہیئت(Organic Form) کی بات کی جسے انیس ناگی اور ساٹھ، ستر کی دہائی کے نثری نظم کے حامیوں نے نئی شاعری کے بنیادی جواز کے طور پر پیش کیا۔ وہی اصول جو پاؤنڈ نے آزاد نظم(Vers Libre) کے لیے متعین کیے، اردو نثری نظم نگاروں نے اپنائے۔ اسی لیے اردو نثری نظم تکنیکی اور ہیئتی اعتبار سے فرانسیسی نثری نظم (Poeme en Prose) سے زیادہ جدید انگریزی آزاد نظم(Vers Libre) کے قریب ہے۔ اور انگریزی آزاد نظم کے تین بنیادی اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ مصرعے میں ردھم پیدا کرنے کے لیے میٹر (Meter) جو اردو میں عروض کہلاتے ہیں کا سہارا لینے کی بجائے زبان کے نامیاتی آہنگ کو اپنایا جائے جو موسیقی کے زیادہ قریب ہے۔
تصنیف حیدر: غزل میں یا پابند و آزاد نظم میں بھی خیال کو پیش کرنے کے لیے جس سیدھے راستے کا تعین کیا جاتا ہے اس میں غیر تربیت یافتہ قاری کے لیے بھی کبھی کبھی غزل یا نظم میں موجود شعریت کی پہچان میں دیر نہیں لگتی، مگرنثری نظم میں لفظوں کی الٹ پھیر ہا اہمال و اشکال سے کبھی کبھی تربیت یافتہ قاری بھی الجھن کا شکار ہو جاتا ہے۔ کیا واقعی ایسی کوئی بات ہے؟
زاہد امروز: رہا سوال اِس کے اہمال و اشکال سے پیدا ہونے والی الجھن کا، تو اس کی وجہ یا توکسی نظم کا ناقص ہونا ہے یا پھر قاری کا کم فہم ہونا ہے۔ دونوں صورتیں ہو سکتی ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ شاعر جو کچھ نظم کی شکل میں لکھ رہا ہے، اس میں وہ صلاحیت نہ ہو اور نظم کے رموز کو سمجھنے اور برتنے میں کمزور ہو جس سے ایسی الجھن پیدا ہوتی ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ قاری ایک خاص طرح کی شاعری پڑھنے کا عادی ہے اور اسے مختلف طرز کی شاعری پڑھنے کی تربیت نہیں ہے یا اُس کو ضرورت نہیں ہے۔ اچھی شاعری کسی بھی ہیئت میں ہو اگر قاری اس سے ہم آہنگ ہوجاتا ہے تو پھر الجھنیں خود ہی سلجھ جاتی ہیں ۔ ہر تحریر کا اپنا قاری ہوتا ہے۔ کسی پر غزل نہیں کھلتی، کسی پر نظم اور کسی کے لیے تو پوری شاعری ہی ایک نہ سمجھ آنے والی عجیب دنیا ہوتی ہے۔
تصنیف حیدر: کیا نثری نظم کے لیے کلوز ریڈنگ یا بین السطور کو جاننے یا سمجھنے کی کوشش دوسرے فن پاروں کے مقابلے میں ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے؟ نثری نظم کے ایک اہم شاعر کے طور پر آپ کا اپنا شعری تجربہ اور ادراک کیسے ممکن ہو پاتا ہے اور کیا آپ خیال کو اس طور پر نظم کرنے سے مطمئن ہو جاتے ہیں؟
زاہد امروز: میرے خیال میں ایسا نثری نظم کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ کوئی بھی صنف یا ہیئت ہو، اگر اس میں خیال اور اظہار کی پیچیدگیاں موجود ہیں تو اس کی کلوز ریڈنگ یا بین السطور مطالعہ زیادہ توجہ کا طالب ہو گا۔ بہت سے افسانے، ناول اور کہانیاں ایسے علامتی نظام رکھتی ہیں کہ انہیں کئی بار پڑھنے کے بعد بھی پوری طرح سمجھنا نہایت مشکل ہوتاہے۔ غالب کے کئی اشعارکی آج تک مکمل تفہیم ممکن نہیں ہو سکی۔ سو بین السطور مطالعہ کی مشکلات کا دارو مدار محض ہیئت نہیں بلکہ فن پارے کے فکری اور تکنیکی نظام پر ہوتا ہے۔ بہت سی خوبصورت اور کامیاب نثری نظمیں (نثری نظم کا لفظ میں مجبوراً استعمال کر رہا ہوں کیونکہ یہ رائج ہو چکا ہے، لیکن میرے نزدیک اسے غلط العام سمجھنا چاہئے، میں اسے آزاد نظم ہی کہوں گا) نہایت سادگی سے کہی گئی ہیں جنہیں سمجھنے میں کسی الجھن اور مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اور ان میں سحر انگیزی موجود ہوتی ہیں۔ ذی شان ساحل کی بہت سی نظمیں اس کی مثالیں ہیں۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ جدید نظم میں آج کی زندگی کے تضادات، مشکلات، تعقلات، الجھنیں اور کثیر جہتی سچائیاں پیش کی جانی چاہئیں، تو پھر نظم سیدھی سادی نہیں ہو سکتی۔
سوائے چند نظموں کے کراچی کے نثری نظم لکھنے والوں کے ہاں (میں اسے کراچی اسکول آف نثری نظم Karachi school of Prose Poem کہوں گا جنہوں نے قمر جمیل کی بیٹھک سے جدید نظم کی ترغیب حاصل کی) سارا شگفتہ نظموں اور عذرا عباس کی پہلی کتاب ’نیند کی مسافتیں‘ اور افضال احمد سیّد کی چند نظموں کے علاوہ عموماً نظم سیدھی سادی ہوتی ہے جس میں نہ کرافٹ کی پیچیدگی ہے اور نہ خیال کی کثیر جہتی کہ نظم سمجھ نہ آسکے۔ ان کی نظموں میں ایک متدرج استعارہ Progressional metaphor ہوتا ہے جس کے گرد پوری نظم تعمیر ہوتی ہے۔ اس کی مثالیں سعید الدین کی نظمیں ’کھرنڈ‘ اور’چیونٹیاں‘ ہیں۔ اِن شعراء کی شاعری نسبتاً سادہ اور سیدھی ہے جس میں وہ تخیلاتی اور لسانی پیچیدگی نہیں جو جدید نظم میں عموماً دیکھی جاتی ہے۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ جن نظموں میں علامتی، استعاراتی اور تشبیہات کا نظام پیچیدہ (Complex)اور گہرا ہوتا ہے انہیں سمجھنے کے لیے زیادہ کوشش درکار ہوتی ہے۔ کیونکہ ایسی نظم میں بہت سے استعارے، امیجیز، تمثالیں ا ور تشبیہیں استعمال ہوتی ہیں جو اس کو تہہ دار بنا دیتی ہیں۔ اگر شاعر اپنی نظم میں استعمال ہوئے اِن شعری لوازمات سے باخبر ہے اور استعارے اور علامتیں خیال کے تسلسل کے ساتھ مربوط ہیں تو پھر نظم کو سمجھنا مشکل نہیں۔ بس اِس کے لیے قاری کی دلچسپی کا ہونا لازمی ہے۔ نظم میں امیج اپنی کلّیت رکھتا ہو اورمصرعہ یا لائن پڑھتے ہوئے ایک واضح پُرکیف تصویر آنکھوں کے آگے تیر جائے۔ ورنہ دھندلا اور مبہم امیج خیال کے ادھورے پن کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ جدید نظم میں آج کی زندگی کے تضادات، مشکلات، تعقلات، الجھنیں اور کثیر جہتی سچائیاں پیش کی جانی چاہئیں، تو پھر نظم سیدھی سادی نہیں ہو سکتی۔ اسے سمجھنے کے لیے اور ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے اپنے معروض سے وابستگی اور نئی شعری حساسیت و جمالیات ضروری ہیں۔
جس طرح زندگی لاتعداد امکانات کا نام ہے اور ہم اپنے ارد گرد ہی غور کریں تو سینکڑوں طرز کے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اسی طرح نظم یا شاعری بھی کسی بندھے ہوئے شعری سانچے تک محدود نہیں رہی۔ اس میں ہیئت، خیال کی پیش کش اور کرافٹ کے اُتتے ہی امکانات ہو سکتے ہیں جتنے انسانی ذہن اپنی تخلیقی اُپچ سے پیدا کر سکتا ہے۔
کچھ شعری لوازمات میرے لاشعور یا تخیل سے آتے ہیں اور کچھ میرا ذہن سامنے پڑی چیزوں سے اٹھا لیتا ہے اور ایک لڑی میں پروتے ہوئے مرکزی خیال تشکیل پاتا ہے۔ یہ سارا عمل کہیں سے بھی شروع ہو سکتا ہے۔
آپ نے پوچھا کہ میراشعری تجربہ اور ادراک کیسے نظم تخلیق کرتا ہے۔ تو اِس کے لیے میرے پاس کوئی فارمولا نہیں ہے۔کبھی کبھی کوئی احساس، کوئی خیال سوچ کی تہوں میں گونجتا رہتا ہے اور رفتہ رفتہ مصرعے میں ڈھلنے لگتا ہے۔ کبھی کسی لمحے کی شدت میں، کسی بات، مشاہدے یا تجربے کی بازگشت سے اچانک چنگاری کی طرح پیدا ہوتا ہے اور کبھی بالکل داخلی خاموشی میں لہر کی طرح نمایاں ہوتا ہے۔ کوئی بھی داخلی یا خارجی چیز اِسے جنم دیتی ہے۔ جیسے خیالات کسی سوچ کے بخارات ہوں اور آہستہ آہستہ الفاظ کی صورت جمنے لگیں۔ ایسی حالت میں کبھی تو میں بہت شانت ہوتا ہوں اور کبھی بہت بے چین۔ کبھی بالکل تنہائی، پتھر جیسی خاموشی درکار ہوتی ہے اور کبھی توکچھ فرق ہی نہیں پڑتا کہ کہاں بیٹھا ہوں۔ بازار میں چلتے ہوئے، کسی ڈھابے پر بیٹھے ہوئے یا گفتگو کے درمیان، کہیں سے کوئی اشارہ، کوئی نظر آ جانے والی معمولی چیز ایک تحرک پیدا کرتی ہے اور جیسے خیالات کی لینڈ سلائیڈنگ شروع ہوجاتی ہے اور نظم بنتی ہے۔ اس سارے عمل میں میَں کبھی نہیں سوچتا کہ مصرعہ کیسے موزوں کر رہا ہوں۔ کبھی یہ خود بہ خود کسی خارجی آہنگ میں آتا ہے اور کبھی اِس کا اپنا ہی ردھم ہوتا ہے۔ میں اسے زبردستی بدلنے کی کوشش نہیں کرتا۔ احساس کے خیال میں ڈھلنے اور پھر نظم کی صورت اختیار کرنے کے دوران میرے استعارے، تشبہیات اور علامتیں اپنے ارد گرد سے ہی آتی ہیں۔ اگر کوئی شے اُس خیال کی استعاراتی یا علامتی شکل بن رہی ہو تو میں اسے نظم میں برت لیتا ہوں۔ کچھ شعری لوازمات میرے لاشعور یا تخیل سے آتے ہیں اور کچھ میرا ذہن سامنے پڑی چیزوں سے اٹھا لیتا ہے اور ایک لڑی میں پروتے ہوئے مرکزی خیال تشکیل پاتا ہے۔ یہ سارا عمل کہیں سے بھی شروع ہو سکتا ہے۔ کسی خبر سے، کسی جذباتی کیفیت کے پیدا ہونے سے، کسی مشاہدے سے یا کبھی کچھ پڑھتے ہوئے۔
مثلاً آج کل میں جہاں رہتا ہوں اُس پلازے کی چھت پر کبوتروں کے چبوترے ہیں۔ شہر کے وسط میں ہر جانب پھیلی گنجان تنگ گلیوں کو پانچویں منزل سے دیکھتے ہوئے کسی سرکٹ کی طرح لگتی ہے۔ آسمان کو دیکھو تو ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں کے ٹاور ہیں، ملٹی نیشنل کمپنیوں کی کثیر منزلہ عمارتیں ہیں۔ نیولبرل معیشت کے نمائندے، معاشی استحصال کے علاقائی مراکز ہر طرف پھیلے نظر آتے ہیں۔ یا پھر مسجدوں کے گونجتے ہوئے ان گنت مینار ہیں جو مذہبی استحصال اور جبر کو قایم رکھنے کے مراکز ہیں۔ نیچے گلیوں ، بازاروں میں پھرتی مجبو ر زندگی مخصوص قوتوں کے متعین کردہ معیا رات، اقدار اور خواہشات کی تکمیل کرتی ماری ماری بے بس پھر رہی ہے۔ ایک کتا سیاہ رنگ بکر ی کا سر چبا رہا ہے جو کسی نے بلائیں ٹالنے کے لیے صدقہ کر کے پھینکا ہے۔ ایک عورت جعلی چوٹ کا مکر کر کے زندگی کی بھیک مانگ رہی ہے۔ چھت کی منڈیر پر ایک دو بلیاں آتی ہیں اور کبوتروں کو تاڑ کر چلی جاتی ہیں۔ ایک تماشہ ہے، ایک جبر ہے جو مسلط ہے۔ یہی اس کا حسن ہے اور یہی اس کی بدصورتی۔ میں ایک شام چھت پر بیٹھا آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا کہ خود بہ خودہی اِس احساس سے، اِس سوچ سے ایک اُداسی بھر گئی اور میں نظم لکھنے لگا۔ وہ نظم یہاں پیش کر رہاہوں تاکہ آپ جان سکیں کہ میرا شعری تجربہ کیسے نظم بنتا ہے۔
ہم شہر کی خفیہ جیب میں گر جاتے ہیں
اِن شہروں میں زندگیاں تو مرغی کاڈربہ ہیں
دن، جیسے دانوں کا ایک کٹورا
جس کو جیون بھرہم ختم نہیں کر سکتے
دن، جیسے دانوں کا ایک کٹورا
جس کو جیون بھرہم ختم نہیں کر سکتے
ڈربے سے باہر بھی توپھندے ہیں!
حِرص بھری بلیوں کے
بھوک زدہ چیلوں کے!
حِرص بھری بلیوں کے
بھوک زدہ چیلوں کے!
سورج کے پیچھے اُکھڑے پلستر کی دیوار سا بادل ہے
اُس کے آگے مسجد کے مینار ہیں
یا پھر ٹیلی فون کے ٹاور
اُس سے آگے جانے کی کوئی راہ نہیں ہے!
اُس کے آگے مسجد کے مینار ہیں
یا پھر ٹیلی فون کے ٹاور
اُس سے آگے جانے کی کوئی راہ نہیں ہے!
آسمان کے نیچے ہر جانب
چھتوں، محلوں اور گلیوں کا سرکٹ ہے
یوں لگتا ہے
دنیا ایک کروڑ مربع میل پہ پھیلا بجلی گھر ہے
اِس سے ہم بھاگ نہیں سکتے ہیں
چھتوں، محلوں اور گلیوں کا سرکٹ ہے
یوں لگتا ہے
دنیا ایک کروڑ مربع میل پہ پھیلا بجلی گھر ہے
اِس سے ہم بھاگ نہیں سکتے ہیں
جینے کی کوشش میں جب ہم جلدی کرتے ہیں
ننگی تار سے جھولتا کّوا بن جاتے ہیں
جس کو بچے پتھر مار گرا لیتے ہیں
حرص کی بلی جس کو
شہر کی خفیہ جیب میں چھپ کر کھا جاتی ہے
ننگی تار سے جھولتا کّوا بن جاتے ہیں
جس کو بچے پتھر مار گرا لیتے ہیں
حرص کی بلی جس کو
شہر کی خفیہ جیب میں چھپ کر کھا جاتی ہے
نظم لکھنے کے بعد میں اُس پر اسی طرح کام کرتا ہوں جیسے لوگ کہانی، افسانے یا غزل کی نوک پلک درست کرتے ہیں، مصرعے کاٹتے ہیں، کبھی کبھی کوئی لفظ بدل دیتا ہوں، اضافی لائنیں، الفاظ ختم کر دیتا ہوں۔ کوئی بات دوہرائی جا رہی ہو،غیر ضروری ہو، کم اہم ہو تو اسے ختم کر دیتا ہوں۔ لیکن نظم لکھنے کے بعد نظم کی کرافٹ کا عمل میکانکی نہیں ہونا چاہئے۔ اِسے کسی مضمون یا کسی دستاویز کی طرح پروف ریڈ نہیں کیا جانا چاہئے۔ کیونکہ کرافٹ کے عمل میں بھی ایک ایسی کیفیت درکار ہے جو تخلیقی لمحوں میں ہوتی ہے۔ ورنہ تو اِس میں وہی مصنوعیت در آئے گی جو شعری احساس کو آلودہ کر دیتی ہے۔
تصنیف حیدر: کیا اچھی نثر میں شاعرانہ خصوصیتیں موجود نہیں ہوتیں، اگر ہوتی ہیں یا ہو سکتی ہیں تو پھر نثری نظم کو اس سے علاحدہ کیوں تصور کیا جائے؟ اس صورت میں تو بہت سے بہترین ناول نثری نظم کے نمونے کے طور پر پیش کیے جا سکیں گے۔ معاف کیجیے گا کہ میں ایک دفعہ پھر ہیئت کی طرف آپ کا دھیان کھینچ لایا ہوں۔
شاعرانہ خصوصیات یا شعری عناصر محض نثر میں نہیں بلکہ فن کار کے تخلیقی ذہن میں موجود ہوتے ہیں جو ہر اُس صنف میں در آتے ہیں جنہیں وہ چھوتا ہے۔
زاہد امروز: اوپر سوالوں میں جتنی باتیں ہوئیں اس کے بعد نثری نظم کو آزاد نظم سے الگ کہنا جواز نہیں رکھتا۔ بہر حال آپ کا سوال کہ اچھی نثر میں شاعرانہ خصوصیتیں ہوتی ہیں تو اسے شاعری سے الگ کیوں کرنا چاہئے، پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ یہ سوال ہم آج اس لیے اٹھا رہے ہیں کہ ہمارا ادراک اور شعور اس سطح پر پہنچ چکے ہیں کہ اصناف کے تشکیلی عناصر کا کھوج لگا سکتے ہیں۔ دیکھو، شاعری کوئی بہشت کی نہر تو ہے نہیں کہ اسے صرف مخصوص مقام پر پہنچ کر ہی حاصل کیا جاسکتا ہے اور نہ یہ شجرِ مقدس ہے کہ صرف منتخب کردہ لوگ ہی اسے چھو سکتے ہیں۔ یہ تقدیسی نظریات اب بے معنی ہیں۔ شاعری تو ہر جگہ موجود ہوتی ہے۔ بس اسے دریافت کرنا پڑتا ہے۔ شاعرانہ خصوصیات یا شعری عناصر محض نثر میں نہیں بلکہ فن کار کے تخلیقی ذہن میں موجود ہوتے ہیں جو ہر اُس صنف میں در آتے ہیں جنہیں وہ چھوتا ہے۔ بعض لوگ عام گفتگو میں ایسے خوبصورت جملے بولتے ہیں یا کبھی ایسا لفظ یا خیال پیش کرتے ہیں کہ ہمیں کہنا پڑتا ہے کہ کیا شاعرانہ بات کہی۔
اگر توجہ کی جائے تو روز مرہ کے غیر شعری مقامات پر آپ کو شعری عناصر نظر آئیں گے۔ مثلاً آپ بازار سے گزر رہے ہیں تو پھل فروش آواز لگاتا ،شہد بھرے سیب، خربوزہ کھوئے ملائی والا وغیرہ۔ اب یہ عام بول چال میں شعری عنصر کی بہت سامنے کی مثال ہے۔ وسطی پنجاب میں جگت بازی عام ہے۔ ہر ہر بات کو گھما کر بلاواسطہ طور پر بیان کیا جاتا ہے کہ اس سے ذہن میں طرح طرح کی تصاویر بنتی ہیں اور لطیفے کی صورت پیدا ہوتی ہے۔ مثلاً ایک آدمی کہتا ہے تمہاری شکل ایسے ہے جیسے رضائی سے پاؤں باہر نکلا ہوا ہو۔ یا عام گفتگو میں ہم کہتے ہیں دیکھو فلاں اتنا موٹا ہے کہ تربوز بن گیاہے۔ اب یہ تشبیہات اور استعارے ہی ہیں جو شعری لوازمات ہیں۔ جیسے ابھی آپ نے اس سوال میں بولا کہ ’آپ کا دھیان کھینچ لایا ہوں‘۔ دھیان کھینچ لانا بھی شاعرانہ بات ہے۔ لیکن ہم انہیں شاعری نہیں کہتے۔ کیونکہ گفتگو میں ایسے عناصر کا استعمال محض کسی ایک نقطے کی طرف اشارہ کرنا ہوتا ہے۔ اس میں خیال کا کوئی مربوط شعری نظام قایم کرنا مقصود نہیں ہوتا۔ انسانی مشاہدے کے ذخیرے میں سے اٹھائی گئی مختلف اشکال کسی بات کی تفہیم وترسیل کے لیے استعمال میں لائی جاتی ہیں۔ شاعری میں بھی اسی ذخیرے کو ایک اور انداز سے برتا جاتا ہے۔ نثر میں بیانیہ غالب ہوتا ہے اور تشریحی لہجہ اپنایا جایا جاتا ہے جب کہ شاعری میں اس کے متضاد کیفیت ہوتی ہے۔ خیال کی شعری تجسیم اور غیر شعری تجسیم بالکل الگ طرح ہو تی ہیں۔ اس کا انحصار محض زبان کے نثری اور غیر نثری ہونے پر نہیں۔ ہر نثر غیر شاعری نہیں اور ہر شاعری غیر نثر نہیں۔
شاعری اور نثر میں کوئی اچھوت برہمن والی حد بندی نہیں۔ یہ خیال کے اظہار کی مختلف صورتیں ہیں۔ کچھ لوگ اسے سخت اصولوں میں بندھی ہوئی تصور کرتے ہیں اور کچھ سمجھتے ہیں کہ یہ ڈھیلی ڈھالی اور آزاد ہوتی ہیں۔
شاعری اور نثر میں کوئی اچھوت برہمن والی حد بندی نہیں۔ یہ خیال کے اظہار کی مختلف صورتیں ہیں۔ کچھ لوگ اسے سخت اصولوں میں بندھی ہوئی تصور کرتے ہیں اور کچھ سمجھتے ہیں کہ یہ ڈھیلی ڈھالی اور آزاد ہوتی ہیں۔ آج ہم آرٹ کی جس سطح پر کھڑے ہیں، ہماری جمالیات کلاسیکی آرٹ کے اصولوں سے مختلف ہے۔ ہمارے اِرد گرد رونما ہونے والی زندگی، اس کی پیچیدگیاں، مسائل، تہہ داری اور اس کی خوبصورتیاں اور بدصورتیاں بدل رہی ہیں۔ آرٹ ان سب تبدیلیوں سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ وہ ان ہی عوامل سے وابستہ ہو کر انہیں اظہار میں لاتا ہے اوراسی معروض سے اپنی جمالیات پیدا کرتا ہے۔ اب ادبی ہیئتیں جامد نہیں بلکہ سیّال ہیں اور ایک دوسرے میں مدغم ہوتی جا رہی ہیں جن سے اظہار کے نئے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔ ایک ناول کو شعری لہجے میں بھی لکھا جاسکتا ہے۔ ایک نظم کو پیراگراف میں ابواب کی صورت میں بھی لکھا جاسکتا ہے۔ یہ تجربات کوئی نئے نہیں، ہمیشہ سے ہوتے آئے ہیں۔ یہ سب فن کار کی اپنی ترجیحات اورفنی صلاحیتیوں پر منحصر ہے کہ وہ اپنا اظہار کرنے کے لیے کس صورت کا انتخاب کرتا ہے۔ اس کا فیصلہ تو قاری خود کرے گا کہ وہ اس فن پارے سے کیا حاصل کرتا ہے۔ فن کار اِس کا ذمہ دار نہیں۔ یہی ہیئتوں کا ارتقاء ہے اور تخلیقی اظہار کے نئے امکانات کی دلیل ہے۔
Leave a Reply