7 جنوری 2015ء کو ایک فرانسیسی ہفت روزہ، شارلی ایبدو (عرفِ عام میں چارلی ابدو) کے دفتر پر چند مسلح افراد نے ’’اللہ اکبر‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے حملہ کیا اور جریدے کے کارٹون نگاروں، مدیراور دیگر عملےسمیت کُل 11 افراد کو ہلاک اور متعدد کو زخمی کردیا۔ اس وحشت ناک اور دہشت انگیز حملے سےنہ صرف فرانس بلکہ دنیا بھر میں غم و غصے اور احتجاج کی ایک لہر دوڑگئی۔ فرانسیسی رسالے پر حملے کوآزادیِ اظہارِ رائے کے انسانی حق پر حملہ تصور کیا گیااور دنیا بھر میں فرانسیسی جریدے سے اظہارِ یکجہتی کے لیے مختلف طریقے اپنائے گئے۔کہا جاتا ہے کہ اس حملے کاسبب شارلی ایبدو کی جانب سے پیغمبرِ اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت اور دین اسلام کی تضحیک ہے۔ اس حوالے سے عالمی منظرنامے پر بحث جاری ہے، حملے کی تحقیقات میں پیش رفت ہو رہی ہے اور بظاہر یورپ میں اسلام مخالف اور تارکین وطن مخالف جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔عالمی ردعمل کے برعکس مسلمانوں کی اکثریت اس حملے پرراضی بلکہ خوش نظر آتی ہے،اُن کا ماننا ہے کہ ایسی گستاخانہ حرکتوں کا یوں ہی جواب دیا جانا چاہیے۔ اس رائے پر لوگوں کی جذباتیت اورشدت دیکھتے ہوئےیقیناً معتدل نقطہ نظر کے حامی افراد کے لیے اس حملے کی مذمت آسان کام نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ اور سنت خود پر کوڑا پھینکنے والوں کی عیادت اور برابھلا کہنے والوں کے لیے عام معافی ہے ، قتل کرنا یا انتقام لینا نہیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی توہین اور تضحیک کسی طور مناسب قرار نہیں دی جاسکتی تاہم توہین رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے متفقہ تعریف کی عدم موجودگی میں محض جذباتی اشتعال میں انتقامی کارروائی کرتے ہوئے انسانی جان لینا بھی جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں کسی قسم کی گستاخی یقیناً ناقابل برداشت ہے لیکن اس معاملے پر قانون ہاتھ میں لیتے ہوئے قتل کرنے یا ہتھیار اٹھانے کی ستائش کہیں زیادہ ناگوار فعل ہے۔ مسلم ممالک خصوصاً پاکستان میں رائج عام تصور کے اس فعل کی سزا صرف اور صرف قتل ہے اور اُس کی کسی صورت معافی نہیں، ایک محتاط نظرثانی کا متقاضی ہے اس حوالے سے ہر دور کے علما میں اختلاف موجود رہا ہے اور بعض علماء اس معاملہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلم اور بردباری کو غیض، غضب اور انتقام پر مقدم جانتے ہیں۔ہم سب اس بڑھیا سے واقف ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کوڑا پھینکا کرتی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ اور سنت خود پر کوڑا پھینکنے والوں کی عیادت اور برابھلا کہنے والوں کے لیے عام معافی ہے ، قتل کرنا یا انتقام لینا نہیں۔
توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت ترین سزا اگر قتل تسلیم کر بھی لی جائے تویہ طے کیا جانا ابھی باقی ہے کہ کیا یہ سزا کسی مسلم ریاست ہی میں لاگو ہوگی یا غیر مسلم ریاست میں بھی؟ اور کیا اس کا فیصلہ عدلیہ کے ذریعہ ہو گایا کسی بھی فرد کا اپنے تئیں عالم دین، ممتاز قادری یا کواچی برادران کی طرح ازخود ہتھیار اٹھا لینا بھی جائز ہے؟ایک مسلم ریاست میں اسلامی قوانین کے مطابق کسی کو سزا دی جا سکتی ہے لیکن کسی غیر مسلم ریاست میں اُس کے آئین اور عمل داری کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آئین و قانون کو کیسے اپنے ہاتھ میں لیا جا سکتاہے؟ کیا رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں دوسری مملکتوں کے بادشاہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی نہیں کی تھی اور کیا عربوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ممکن حد تک تحقیر نہیں کی تھی؟ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزعمل ہمیشہ معاف کرنے اور بخش دینے کا رہا تھا۔
مسلم دنیا کا جذباتی اور متشددردعمل کبھی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی توقیر میں اضافہ کا باعث نہیں بنا بلکہ ہمیشہ گستاخوں کو عالمی پذیرائی دینے کا موجب ثابت ہوا ہے۔
مسلم دنیا کا جذباتی اور متشددردعمل کبھی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی توقیر میں اضافہ کا باعث نہیں بنا بلکہ ہمیشہ گستاخوں کو عالمی پذیرائی دینے کا موجب ثابت ہوا ہے۔ سلمان رشدی ، تسلیمہ نسرین اور اب شارلی ایبدو، ان سب کو عالمی شہرت مسلمانوں کے جذباتی اور نامناسب متشدد ردعمل نے فراہم کی ہے۔ یہ مولانا شبلی نعمانی کے اس طرزعمل کے بالکل برعکس ہے جنہوں نے ہتھیا ر اٹھانے اور کفرو قتال کے فتاوی جاری کرنے کی بجائےسر ولیم میور کی کتاب حیات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا علمی جواب دینا زیادہ مناسب سمجھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج مسلم معاشروں میں شبلی نعمانی کی بجائے ممتاز قادری پیدا ہورہے ہیں۔ چند جذباتی نادانوں کی ایک حرکت نے عالمی سطح پر ایک جریدے کو اتنی شہرت عطا کردی کہ اُسے معمول کے 65 ہزار نسخوں کی بجائے تیس لاکھ نسخے چھاپنے کا موقع مل گیا۔
اس بہیمانہ حملے کو دنیا بھر میں اظہارِ رائے کی آزادی کے حق پر حملہ تصور کیا گیا اور عالمی سربراہانِ حکومت سمیت دنیا بھر میں لوگوں کی بڑی تعداد نے جریدے سے اظہارِ یکجہتی کے لیے مظاہرے کیے، اور ’’میں شارلی ہوں‘‘ (Je suis Charlie) کا نعرہ ہر طرف گونجنے لگا۔ یہ ردِّعمل اتنا مضبوط تھا کہ اس حملے کے خلاف احتجاج میں خاصے مسلمانوں سمیت بعض مسلم سربراہانِ حکومت بھی شریک ہوئے جبکہ مسلم دنیا میں حملہ آوروں کی مذمت کی بجائے ان کی ستائش اور حمایت میں مظاہروں سے عالمی سطح پر مسلمانوں کے خلاف نفرت اور بیگانگی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
جب ہمیں اپنے دین اور مقدس ہستیوں کی توہین اتنی ناگوار گزرتی ہے تو ہمیں دوسروں کے دین اور مقدس ہستیوں کی توہین اور گستاخی سے بھی حتیٰ الامکان گریزکا رویہ اپنانا ہوگاخواہ وہ ہمارے لیے کتنی ہی ناپسندیدہ کیوں نہ ہوں۔
ابلاغ کا بہترین اصول یہ ہے کہ آپ مخاطب سے اُسی کی زبان میں بات کریں۔ مسلمانوں کا مخاطب فنون (آرٹ/ کارٹون نگاری) کی زبان استعمال کر رہا ہےجس کا جواب بندوق سے نہیں دیا جا سکتا۔اکثر جب میں یہ بات کرتا ہوں تو مجھے سننے کو ملتا ہے کہ ہم کیسے اس طرح کا جواب دے سکتے ہیں، ہم تو اُن کے پیغمبروں (حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام، وغیرہ) کو بھی مانتے ہیں، اور اُن کا مکمل ادب و احترام کرتے ہیں۔ جہاں تک شارلی ابدو کا تعلق ہے، اُس کا رویہ جیسا اسلام کے ساتھ رہا ہے، ویسا ہی دیگر مذاہب و ادیان (یہودیت، مسیحیت، وغیرہ) کے ساتھ بھی رہا ہے۔ اور پھر ضروری تو نہیں کہ مذہب پر حملے کا جواب مذہب پر حملے ہی سے دیا جائے۔ کیا ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی سے کوئی ایسی مثال نہیں تھی جو ہم دنیا کے سامنے نمونے کے طور پر پیش کر سکتے ؟شارلی ایبدو پر حملے کے بعد مغربی ممالک میں بعض مسلمانوں نے ایسے طریقے اپنائے بھی ہیں اور ٹوئٹر پر Freedom of Speechکے ہیش ٹیگ کے ساتھ کئی ٹوئٹس کیے ہیں۔ نیز، اُن کے طنزیہ اور ہجویہ ٹوئٹس پر کی جانے والی تنقید سے اُن کے حمایتیوں میں اضافہ بھی ہوا ہے کہ اظہارِ رائے کی آزادی کا حق سب کے لیے ہے۔لیکن ہمارے لوگ اس معاملے میں بے بس نظر آتے ہیں, ہمیں طنز و مزاح سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے، ہمارے مزاج طنزومزاح کی حس سے عاری ہو چکے ہیں یہاں تک کہ بی بی سی کے ’’سٹیزن خان‘‘ جیسے ہلکے پھلکے مزاحیہ ٹی وی شو بھی ہمیں برداشت نہیں۔ ہم ہر ناگوار بات پر ڈنڈے اٹھا لیتے ہیں، بندوقیں تھام لیتے ہیں اور مخالف فریق پر حملہ کر دیتے ہیں۔ پھر جب ہماری جگ ہنسائی ہوتی ہے تو ہم دنیا پرجانب دار ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں۔
ہمیں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے خلاف مظاہروں اور احتجاج کا حق بالکل حاصل ہے، لیکن دو پہلو اس میں بھی لازمی پیشِ نظر رکھنے چاہئیں۔ اوّل، ہم اپنے نقصان پر ہونے والے احتجاج میں اپنا مزید نقصان (جلاؤ گھیراؤ، توڑ پھوڑ کے ذریعے) نہ کر بیٹھیں، دوم، جب ہمیں اپنے دین اور مقدس ہستیوں کی توہین اتنی ناگوار گزرتی ہے تو ہمیں دوسروں کے دین اور مقدس ہستیوں کی توہین اور گستاخی سے بھی حتیٰ الامکان گریزکا رویہ اپنانا ہوگاخواہ وہ ہمارے لیے کتنی ہی ناپسندیدہ کیوں نہ ہوں۔

One Response

  1. humaira ashraf

    یقینا ایک مثبت طرز فکر جسے تمام دنیا اور بالخصوص مسلمانوں کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ محبت اور جذبات پسندیدہ رویے ضرور ہیں لیکن جب تک وہ خود فرد کی اپنی ذات تک محدود رہیں۔ اپنے خیالات جذبات اور محبت کو ہم جبرا جب بھی کسی پر لاگو کرنے کی کوشش کریں گے ہمیں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اور ایسی صورت میں جب مزاحمت کار ہم سے کہیں زیادہ طاقتور اور وسائل کا حامل ہو تو نقصان بھی ہمیں ہی زیادہ اٹھانا پڑے گا۔ شارلی ایبدو کے واقعے پر جس بات نے مجھے سب سے زیادہ خوفزدہ کیا وہ یہی ہے کہ ہماری جذباتی محبت کے ہاتھوں لوگوں کے پاس سستی شہرت حاصل کرنے کا مجرب نسخہ ہاتھ آگیا ہے اور معاذاللہ یہ سوچ ہی مجھے لرزا دینے کے لیے کافی ہے کہ دیگر لوگ بھی کہیں اسی طریقے کو اپناتے ہوئے شہرت ناموری یا مالی فوائد کے حصول کے لیے میرے نبی کے دامن پاکیزہ پر آزادی رائے کے نام پر اپنی آلودہ سوچ کی کیچڑ اڑائیں گے۔ نبی پاک سے محبت کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہم ہر ایسے عمل میں محتاط رہیں جن سے ہمارے نبی کی تعلیمات اور ان کے کردار پر حرف آتا ہو۔ اور اس سوچ کی روشنی میں ہم سچائی رواداری محبت خیال حسن سلوک میانہ روی، برداشت، حلم، بردباری، بلند اخلاقی سمیت تمام وہ پسندیدہ افعال پر عمل کریں جو نبی پاک کی عادات کا حصہ رہے۔ ہم دیگر ادیان، فرقوں اور منفرد و مختلف خیالات رکھنے والوں کو بھی اپنے درمیان جگہ دیں۔ میں حیران ہوتی ہوں کہ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی سلول مدینے میں موجود ہے، تمام اہم مشاورتوں میں بھی شامل ہوتا ہے لیکن میرے نبی اس کے ارتداد یا کفر کا فتوی جاری نہیں کرتے۔ ہم بہت آرام سے اپنے علاوہ دیگر جماعتوں یا فرقوں پر کفر کی حد لگا دیتے ہیں۔ ہمارے خیال میں بالفرض اگر ہم بریلوی ہیں تو دیگر اہل تشیع دیوبندی وہابی سلفی سب کافر ۔ اور یہی حال ان مذکورہ دیگر کا بھی ہے۔

    جواب دیں

Leave a Reply

%d bloggers like this: