خیبرپختونخواہ کے ضلع بونیر میں اساتذہ تنظیم کے اجلاس کے دوران اساتذہ نے صوبائی حکومت کی ہدایت پر سکولوں کی حدود میں اسلحہ رکھنے سے انکار کردیا ہے۔گورنمنٹ ہائی سکول سواری میں آل پاکستان پرائمری سکولز ایسوسی ایشن کے ایک اجلاس کے دوران اساتذہ نے اساتذہ، طلبہ اور عملے کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری قرار دیتے ہوئے صوبائی حکومت کے اس فیصلے کی مخالفت کی۔اجلاس کے دوران شریک اساتذہ نے سانحہ پشاور کے بعد صوبائی حکومت کی جانب سے اختیار کی گئی سکیورٹی پالیسی کو رد کرتے ہوئے تحفظات کا اظہار کیا۔ اساتذہ کے مطابق ان کا بنیادی فریضہ تدریس ہے اور سکولوں کے تحفظ کی ذمہ داری اساتذہ پر ڈالنے سے معیار تعلیم اور تدریسی سرگرمیاں متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
خیبرپختونخواہ کے ضلع بونیر میں اساتذہ تنظیم کے اجلاس کے دوران اساتذہ نے صوبائی حکومت کی ہدایت پر سکولوں کی حدود میں اسلحہ رکھنے سے انکار کردیا ہے۔
پرائمری ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صدرملک خالد کا کہنا ہے کہ تعلیمی اداروں کی سکیورٹی کی ذمہ داری ریاست اور حکومت کی ہے اور اگر اس میں کوتاہی کی جائے گی تو اس کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ حکومت اساتذہ پر تمام ذمہ داری عائد کر کے خود اس اہم ذمہ داری سے جان چھڑا نہیں سکتی۔
بونیرکے ایک ہائی سکول میں ہونے والے اجلاس کے دوران آل پاکستان پرائمری سکولز ایسوسی ایشن کے صدر اکبر علی باچا،چیئرمین معراج علی شاہ اور سیکرٹری خالد سیماب موجود تھے۔ اساتذہ تنظیمیں اس سے قبل بھی اضافی ذمہ داریوں کی تفویض کے خلاف احتجاج کر چکے ہیں۔ پشاور کے ایک سرکاری ہائی سکول میں پڑھانے والے غنی علی کے مطابق سیکیورٹی کی اضافی ذمہ داری سے اساتذہ کی کارکردگی متاثر ہونے اور عدم تحفظ میں اضافے کا اندیشہ ہے،”یہ ایک طرح کا نفسیاتی دباو ہے کہ ہماری حکومت جسے ہم نے منتخب کیا ہے ہماری حفاظت نہیں کر سکتی، اس فیصلے سے سکولوں میں عدم تحفظ میں اضافہ ہوا ہے۔”
خیبر پختونخواہ حکومت نے سولہ دسمبر کو پشاور آرمی سکول پر تحریک طالبان پاکستان کے حملے کے بعد سکول اساتذہ کو تعلیمی اداروں کی حدود کے اندر لائسنس یافتہ اسلحہ رکھنے کی ہدایت کی تھی، صوبائی حکومت کے اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
بونیرکے ایک ہائی سکول میں ہونے والے اجلاس کے دوران آل پاکستان پرائمری سکولز ایسوسی ایشن کے صدر اکبر علی باچا،چیئرمین معراج علی شاہ اور سیکرٹری خالد سیماب موجود تھے۔ اساتذہ تنظیمیں اس سے قبل بھی اضافی ذمہ داریوں کی تفویض کے خلاف احتجاج کر چکے ہیں۔ پشاور کے ایک سرکاری ہائی سکول میں پڑھانے والے غنی علی کے مطابق سیکیورٹی کی اضافی ذمہ داری سے اساتذہ کی کارکردگی متاثر ہونے اور عدم تحفظ میں اضافے کا اندیشہ ہے،”یہ ایک طرح کا نفسیاتی دباو ہے کہ ہماری حکومت جسے ہم نے منتخب کیا ہے ہماری حفاظت نہیں کر سکتی، اس فیصلے سے سکولوں میں عدم تحفظ میں اضافہ ہوا ہے۔”
خیبر پختونخواہ حکومت نے سولہ دسمبر کو پشاور آرمی سکول پر تحریک طالبان پاکستان کے حملے کے بعد سکول اساتذہ کو تعلیمی اداروں کی حدود کے اندر لائسنس یافتہ اسلحہ رکھنے کی ہدایت کی تھی، صوبائی حکومت کے اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
Leave a Reply