سیکولر لاطینی زبا ن کے لفظ سیکولم (Seculum) سے ماخوذ ہے جس کے معنی دنیا کے ہیں ۔سیکولرازم جدید مغربی اصطلا ح ہے جس کا مطلب ’’ایسا سیاسی اور سماجی نظام ہے جس کی بنیادیں مذہب اور مابعد الطبیعیاتی نظریات کی بجائے عقل اور سائنسی اصولوں پر رکھی گئی ہو‘‘۔ نامور دانشور اور مصنف سبطِ حسن اپنی تصنیف ’نویدِ فکر‘ میں سیکولرازم کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں ’’قرونِ وسطیٰ میں رومن کتھولک پادری دو گروہوں میں بٹے ہوئے تھے، ایک وہ پادری جو کلیساکے ضابطوں کے تحت خانقاہوں میں رہتے تھے۔ دوسرے وہ پادری جو عام شہریوں کی سی زندگی بسر کرتے تھے کلیسا کی اصطلاح میں آخرالذکر کو سیکولرپادری کہا جاتا تھاوہ تمام ادارے بھی سیکولر کہلاتے تھے جو کلیسا کے ماتحت نہ تھے اور وہ جائیداد بھی جسے کلیسا فروخت کر دیتا تھا۔ آج کل سیکولرازم سے مراد ریاستی سیاست یا نظم ونسق کی مذہب یا کلیسا سے علیحدگی ہے‘‘۔(نویدِ فکرصفحہ69)۔
انسائیکلوپیڈیا امریکانا کے مطابق ’’سیکولرازم ایک اخلاقی نظام ہے جو قدرتی اخلاق کے اصول پر مبنی ہے جو الہامی مذہب یا مابعدالطبیعیات سے جدا ہے اس کاپہلا کلیہ فکر کی آزادی ہے یعنی ہر شخص کو اپنے لیے کچھ سوچنے کا حق۔۲: تمام فکری امور کے بارے میں اختلافِ رائے کا حق ‘‘۔ ڈاکٹر مولوی عبدالحق کے انگلش اردو ڈکشنری کے مطابق ’سیکولرازم اس معاشرتی اور تعلیمی نظام کو کہتے ہیں ،جس کی اساس مذہب کے بجائے سائنس پر ہو اور جس میں ریاستی امور کی حد تک مذہبی مداخلت کی گنجائش نہ ہو ‘‘(نویدِ فکرصفحہ 70)۔
انسائیکلوپیڈیا امریکانا کے مطابق ’’سیکولرازم ایک اخلاقی نظام ہے جو قدرتی اخلاق کے اصول پر مبنی ہے جو الہامی مذہب یا مابعدالطبیعیات سے جدا ہے اس کاپہلا کلیہ فکر کی آزادی ہے یعنی ہر شخص کو اپنے لیے کچھ سوچنے کا حق۔۲: تمام فکری امور کے بارے میں اختلافِ رائے کا حق ‘‘۔ ڈاکٹر مولوی عبدالحق کے انگلش اردو ڈکشنری کے مطابق ’سیکولرازم اس معاشرتی اور تعلیمی نظام کو کہتے ہیں ،جس کی اساس مذہب کے بجائے سائنس پر ہو اور جس میں ریاستی امور کی حد تک مذہبی مداخلت کی گنجائش نہ ہو ‘‘(نویدِ فکرصفحہ 70)۔
سیکولرازم کوئی مذہبی عقیدہ نہیں اس کا مطلب لادینیت نہیں بلکہ مذہب کے بارے میں غیر جانبدارانہ پالیسی اختیار کرنا ہے یہ ایک عملی تدبیر ہے اسکا مقصد یہ ہے کہ مذہبی نزاع سے بچتے ہوئے سیاسی اور اقتصادی امور میں مشترک بنیاد پر ملک کانظام چلا یاجائے۔
مولانا وحید الدین خان’ مسائل اجتہاد‘ میں لکھتے ہیں ’’حقیقت یہ ہے سیکولرازم کوئی مذہبی عقیدہ نہیں اس کا مطلب لادینیت نہیں بلکہ مذہب کے بارے میں غیر جانبدارانہ پالیسی اختیار کرنا ہے یہ ایک عملی تدبیر ہے اسکا مقصد یہ ہے کہ مذہبی نزاع سے بچتے ہوئے سیاسی اور اقتصادی امور میں مشترک بنیاد پر ملک کانظام چلایاجائے ‘‘۔
سیکولرازم یہ دعویٰ تو نہیں کرتا کہ اس دنیاوی خوشی کے علاوہ اور کوئی خوشی نہیں ہو سکتی، البتہ ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہےجہاں انسانی سوچ اور فکر آزاد ہو جس کی بناپر انسان مظاہرِ قدرت اور کائنات کی تخلیق اور یہاں موجود فطرت کے کرشمات پر غورو فکر کرکے اپنی زندگیوں کو بہتر بنانے کی کوشش کرے۔
سیکولر نظام کی بنیادیں انتہائی قدیم ہیں، البتہ سیکولر اور سیکولرازم کی اصطلاح پہلی مرتبہ 18ویں صدی کے ایک انگریز مفکر اور دانشور’’جارج جیکب ہولی اوک‘‘ نے وضع کی۔ جیکب ہولی اوک برطانیہ کے شہر برمنگھم کے ’’میکنکس انسٹی ٹیوٹ‘‘ میں پڑھاتا تھا۔ مشہور خیالی اشتراکیت پسند رابرٹ اووین کا ہم نوا ہونے کے جرم میں اسے ادارےسے نکال دیا گیا۔اس زمانے میں لندن سے روشن خیالوں کا ایک رسالہ’’ندائے عقل‘‘ شائع ہوتا تھا، جیکب ہولی اوک بھی اسی رسالے سے منسلک ہوا۔ 1841ء میں اس رسالے کے ایڈیٹر کو مسیحی اصولوں سے انحراف کے جرم میں جیل بھیج دیا گیا ، تو ہولی اووک اس رسالے کا مدیر مقرر ہوا۔ ابھی چھ ماہ ہی گزرے تھے کہ اسے (ہولی اوک) کو بھی منطقی دلائل پر مبنی ایک تقریر کرنے کی پاداش میں چھ ماہ قید کی سزادی گئی، قید سے رہائی کے بعد ہولی اوک ترقی پسنداور سائنسی خیالات کی ترویج کے لیے تقریریں کرتا اور رسالے لکھتا رہا۔1851ء میں اس نے لندن میں ’’سنٹرل سیکولر سوسائٹی ‘‘ کے نام سے ایک علمی وادبی انجمن قائم کی ہولی اوک کا موقف تھا :
1۔انسان کی سچی رہنما سائنس ہے۔
2۔اخلاق مذہب سے جدا ایک قدیم حقیقت ہے۔
3۔علم وادراک کی واحد کسوٹی اور سند عقل ہے ۔
4۔ہر شخص کو فکر اور تقریر کی آزادی ملنی چاہیے۔
5۔ ہم سب کو دنیا کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
جمہوریت اپنی فطرت میں ایک سیکولر نظامِ حکومت ہے اٹھارہویں اور انیسویں صدی عیسوی میں یورپ میں اس کے فروغ نے آگے چل کر ساری دنیا میں مقبولیت حاصل کی جس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں آزمائے گئے سیاسی نظاموں میں سے جمہوریت ہی بہتریں طرزِ حکمرانی ہے۔ جس طرح سیکولرازم حریت پسندی ،شخصی آزادی سوچنے سمجھنے کے لیے بہتر ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اسی طرح جمہوریت بحیثیت سیاسی نظام سیکولر نظریات کی بنیاد پر ریاست اور معاشرے کے قیام کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ جمہوریت کی کامیابی کے لیے بھی ایک سیکولر معاشرے، آئین اور سیاسی ثقافت لازم ہیں۔
مسلم اکثریتی ریاستوں میں سیکولر نظریات فروع نہیں پائے یہی وجہ ہے کہ 57اسلامی ممالک کے عوام جمہوریت کو ترس رہے ہیں تقریباً سبھی مسلم ممالک خاندانی بادشاہتوں ، عسکری اور مذہبی آمریتوں یا غیر مستحکم جمہوری حکومتوں کے ماتحت ہیں یا پھر جمہوریت کے نام پر چند خاندانوں کی سیاسی اجارہ داری کے اسیر ہیں ۔ مسلم ممالک میں سیکولرازم کے غیر مقبول ہونے کے باعث جمہوری اقدار پروان نہیں چڑھ پائیں اور فکری سطح پر مسلم آبادی پسماندگی کا شکار ہے۔ پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک کو ترقی کے لیے محدود مذہبی جمہوریت یا موروثی بادشاہتوں کی جگہ مکمل سیکولر جمہوریت رائج کرنا ہوگی۔
سیکولرازم یہ دعویٰ تو نہیں کرتا کہ اس دنیاوی خوشی کے علاوہ اور کوئی خوشی نہیں ہو سکتی، البتہ ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہےجہاں انسانی سوچ اور فکر آزاد ہو جس کی بناپر انسان مظاہرِ قدرت اور کائنات کی تخلیق اور یہاں موجود فطرت کے کرشمات پر غورو فکر کرکے اپنی زندگیوں کو بہتر بنانے کی کوشش کرے۔
سیکولر نظام کی بنیادیں انتہائی قدیم ہیں، البتہ سیکولر اور سیکولرازم کی اصطلاح پہلی مرتبہ 18ویں صدی کے ایک انگریز مفکر اور دانشور’’جارج جیکب ہولی اوک‘‘ نے وضع کی۔ جیکب ہولی اوک برطانیہ کے شہر برمنگھم کے ’’میکنکس انسٹی ٹیوٹ‘‘ میں پڑھاتا تھا۔ مشہور خیالی اشتراکیت پسند رابرٹ اووین کا ہم نوا ہونے کے جرم میں اسے ادارےسے نکال دیا گیا۔اس زمانے میں لندن سے روشن خیالوں کا ایک رسالہ’’ندائے عقل‘‘ شائع ہوتا تھا، جیکب ہولی اوک بھی اسی رسالے سے منسلک ہوا۔ 1841ء میں اس رسالے کے ایڈیٹر کو مسیحی اصولوں سے انحراف کے جرم میں جیل بھیج دیا گیا ، تو ہولی اووک اس رسالے کا مدیر مقرر ہوا۔ ابھی چھ ماہ ہی گزرے تھے کہ اسے (ہولی اوک) کو بھی منطقی دلائل پر مبنی ایک تقریر کرنے کی پاداش میں چھ ماہ قید کی سزادی گئی، قید سے رہائی کے بعد ہولی اوک ترقی پسنداور سائنسی خیالات کی ترویج کے لیے تقریریں کرتا اور رسالے لکھتا رہا۔1851ء میں اس نے لندن میں ’’سنٹرل سیکولر سوسائٹی ‘‘ کے نام سے ایک علمی وادبی انجمن قائم کی ہولی اوک کا موقف تھا :
1۔انسان کی سچی رہنما سائنس ہے۔
2۔اخلاق مذہب سے جدا ایک قدیم حقیقت ہے۔
3۔علم وادراک کی واحد کسوٹی اور سند عقل ہے ۔
4۔ہر شخص کو فکر اور تقریر کی آزادی ملنی چاہیے۔
5۔ ہم سب کو دنیا کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
جمہوریت اپنی فطرت میں ایک سیکولر نظامِ حکومت ہے اٹھارہویں اور انیسویں صدی عیسوی میں یورپ میں اس کے فروغ نے آگے چل کر ساری دنیا میں مقبولیت حاصل کی جس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں آزمائے گئے سیاسی نظاموں میں سے جمہوریت ہی بہتریں طرزِ حکمرانی ہے۔ جس طرح سیکولرازم حریت پسندی ،شخصی آزادی سوچنے سمجھنے کے لیے بہتر ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اسی طرح جمہوریت بحیثیت سیاسی نظام سیکولر نظریات کی بنیاد پر ریاست اور معاشرے کے قیام کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ جمہوریت کی کامیابی کے لیے بھی ایک سیکولر معاشرے، آئین اور سیاسی ثقافت لازم ہیں۔
مسلم اکثریتی ریاستوں میں سیکولر نظریات فروع نہیں پائے یہی وجہ ہے کہ 57اسلامی ممالک کے عوام جمہوریت کو ترس رہے ہیں تقریباً سبھی مسلم ممالک خاندانی بادشاہتوں ، عسکری اور مذہبی آمریتوں یا غیر مستحکم جمہوری حکومتوں کے ماتحت ہیں یا پھر جمہوریت کے نام پر چند خاندانوں کی سیاسی اجارہ داری کے اسیر ہیں ۔ مسلم ممالک میں سیکولرازم کے غیر مقبول ہونے کے باعث جمہوری اقدار پروان نہیں چڑھ پائیں اور فکری سطح پر مسلم آبادی پسماندگی کا شکار ہے۔ پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک کو ترقی کے لیے محدود مذہبی جمہوریت یا موروثی بادشاہتوں کی جگہ مکمل سیکولر جمہوریت رائج کرنا ہوگی۔
I dnt want to go into the detail of secularism but still there is a question that what compelled Christians to adopt secularism n democracy??? & why muslims should follow it as well