"سن 160 ہجری بمطابق 775 عیسوی ۔ عباسی دورِ حکومت ہے اور زبیدہ اپنے محل میں اپنا دربار لگائے بیٹھی ہیں۔ سوالی عورتیں اپنے اپنے مسائل پیش کر رہی ہیں، ایک جانب محل سرا کی منتظم ہیں تو دوسری جانب وثیقہ نویس۔ ایک طرف خزانے اور داخلی امور کے محکموں کے ہرکارے ہیں تو دوسری سمت شاہی خانوادے کی خواتین۔ غرض ایک گہما گہمی ہے، ایک شان ہے ایک دبدبہ ہے۔ چند بیبیاں اس دوران خاموش رہیں یہاں تک کہ نماز مغرب کا وقت ہوا اور تمام سائلات رخصت ہوئیں۔ زبیدہ کے استفسار پر ان بیبیوں نے اپنے بے نکاحے ہونے اور اپنے شوہروں کے عدم التفات کی ایک عجب داستان گوش گزار کی”
(عہد عباسی کی ثقافت از علامہ خرجوزی، باب چہارم، صفحہ 243)

"خلیفہ وقت کی فوری توجہ کا متقاضی
گزارش ہے کہ مردان مملکت اسلام کنیزوں اور لونڈیوں کے اتنے عادی ہوئے جاتے ہیں کہ ان کی توجہ اور دلچسپی لائقِ نکاح مسلم خواتین کی جانب ہونے ہی نہیں پاتی۔ تفصیل اس معاملے کی یوں ہے کہ مملکت اسلامیہ کی حدود میں وسعت نے امیران سلطنت، شہزادگان اور روساء کی دولت میں بے پناہ اضافہ فرمایا ہے، یہ کشادگی مسلم جوانوں اور باحیاء عورتوں کے مابین رومانی کشش کم کرنے کا بھی باعث بنی ہے۔ فتوحات کے نتیجے میں خوبرو، کم سن اور پری پیکر کنیزوں اور لونڈیوں کی فروانی بھی ہاتھ آئی ہے۔ ان حسیناؤں نے کیا نوخیز کیا بزرگ، کیا امیر کیا غریب، کیا سپاہی کیا ہنر مند، سبھی کو آزاد اور لائق نکاح خواتین سے متنفر کر دیا ہے، کوئی مرد کسی مسلم خاتون سے نکاح کو تیار نہیں اور جو منکوحات ہیں وہ بھی اپنے شوہروں کے لطف و کرم سے محروم ہیں۔ بندی زبیدہ بنت جعفر یہ خط اس لئے تحریر کر رہی ہے تاکہ اس واسطےفوری اقدامات کئے جائیں۔
فقط
زبیدہ بنت جعفر بن ابو جعفر منصور
(عہدعباسی کی ثقافت، از علامہ خرجوزی، باب چہارم صفحہ 301)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بنام وزیر مملکت و دیوان عام سید ولی الدین
خلیفہ المہدی کی مہر سے یہ حکم نامہ جاری کیا جاتا ہے کہ مردان اسلام کی لائق نکاح خواتین اور اپنی منکوحات کی جانب عدم دلچسپی کے خاتمے کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں اور خلیفہ کو بر وقت آگاہ کیا جائے۔
بحکم
خلیفہ المہدی
(عہد عباسی کی ثقافت از علامہ خرجوزی باب چہارم صفحہ 303)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اوپر درج اقتباسات” عہد عباسی کی ثقافت” سے لیے گئے ہیں جو مشہور مورخ علامہ بربوت بن خرجوزی کی تصنیف ہے۔ یہ اقتباسات عباسی دور حکومت کے ان گوشوں کی جانب بھی اشارہ کرتے ہیں جو آج مسلم دنیا سے اوجھل ہیں۔ سید ولی الدین نے خلیفہ کا حکم ملتے ہی ایک انوکھی ترکیب سوچی۔ اس نے تجویز کیا کہ ہر برس موسم بہار کے آغاز پر چودہویں کی رات اور دن کو محبت و التفات کے دن کے طور پر مقرر کیا جائے اور ہر خاص و عام کو اس موقع پر مخصوص باغات اور تفریح گاہوں می میل ملاپ، تحائف کے تبادلے اور گفت و شنید کا موقع دیا جائے۔ بعض مورخین کے خیال میں یہ رسوم ملکہ سبا کے زمانے سے رائج ہیں جس کے دور حکومت میں سرعام اظہار محبت عام تھا۔ سید ولی الدین نے تجویز کیا کہ محل، باغات، سرائے اور چوراہوں پر باہمی محبت و الفت کی وہ رسوم دوبارہ جاری کی جائیں جو ملکہ سبا کے زیر سایہ پروان چڑھیں اور دولت و فراوانی سے قبل مسلم علاقوں میں جا بجا رائج تھیں۔

علامہ خرجوزی کی اس تصنیف سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جہاں محبت کا عالمی دن عباسی خلفاء کی دین ہے وہیں اس دن کو منانے کا مقصد بھی واضح ہے۔ اس زمانے میں مشہور مفتی علاطون بن جوزی بن خمسیانی نے "فتاویٰ حب” کے عنوان سے پانچ سے ایسے فتاوی اکٹھے کیے تھے جن کے ذریعے اس دن کی حرمت ثابت کی گئی، یہ فتاوی سید ولی الدین کی سعی اور جستجو کا نتیجہ ہیں۔ مفتی خمسیانی کے درج کردہ فتاوی کے مطابق اس وقت کے جید مفتیان کرام نے اس دن کو مفید اور مباح قرار دیا تھا کیوں کہ یہ دن :

1۔ زنا بالجبر کا تدارک کرے گا۔
2۔ نکاح کی طرف مائل کرے گا۔
3۔ کم سن غلمان کی جانب توجہ کم کرے گا۔
4۔ لائق نکاح مردان و زن کو صحت مند خاندان کی بنیاد رکھنے پر آمادہ کرے گا۔

روایت ہے کہ اس خط کے موصول ہونے کے بعد زبیدہ کو اس سلسلے کی پہلی تقریب میں مدعو کیا گیا اور وہیں اس وقت کے شہزادے اور مستقبل کے خلیفہ ہارون الرشید نے زبیدہ کے ساتھ رقص کیا اور بعد ازاں نکاح کے لئے پیغام بھیجا۔ یہ دن اگلی کئی دہائیوں تک سید ولی الدین منعقد کراتے رہے یہاں تک کہ عباسی سلطنت کو زوال آیا۔ مفتی خمسیانی اور علامہ خرجوزی کی تصانیف تاتاری اور بربر حملوں میں تباہ ہوئیں اور یہ درخشندہ روایت عالم اسلام میں متروک قرار پائی۔ امام غزالی اور ابن تیمیہ کہ تعلیمات کے زیراثر مسلم دنیا میں تنگ نظری کا فروغ ہوا تو یوم محبت پر بھی قدغنیں لگائی گئیں، تاہم چاہنے والوں نے اس دن کو سید ولی الدین کے عرس کی آڑ میں منانا شروع کیا۔ عالم اسلام کے مضافاتی علاقے جو اس بربریت سے محفوظ رہے وہاں حالیہ امریکی حملوں سے قبل تک ولی الدین کا عرس یوم محبت و التفات کے نام سے منایا جاتا رہا ہے۔

مشہور جرمن مستشرق اور ماہر آثار قدیمہ گوبرین گستال نے علامہ خرجوزی اور مفتی خمسیانی کی یہ تصانیف بغداد کے ایک نوادر فروش کے ہاں دیکھیں اور ان انکشافات پر حیران ہوا کہ ویلنٹائن ڈے جو یورپ میں رائج ہے اس کا آغاز سید ولی الدین کے انتظام وانصرام کی بدولت ہوا۔ گستال نے اپنی تحقیق کا محور اس سوال کو بنایا کہ آخر ایک مغربی تہوار جو تیسری صدی عیسوی کے ایک شہید سینٹ ویلنٹائن سے منسوب ہے اس کی شروعات بغداد میں کیسے ہوئیں۔

گستال کی تحقیق پندرہ جلدوں پر مبنی ہے اور مغرب کی روایتی اسلام دشمنی کے باعث علمی حلقوں اور مباحث سے خارج رکھی گئی ہے۔ گستال کی تحقیق کے مطابق ہارون الرشید کی سربراہی میں بازنطیی سلطنت سے ہونے والی 780 عیسوی کی لڑائی ایک ایسا اہم واقعہ تھا جس نے عیسائی دنیا کو بدل کر دیکھ دیا۔ گستال کے مطابق اس جنگ کا اثر صلیبی جنگوں سے بھی گہرا اور اثر انگیز ہے۔ گستال کے مطابق یہ جنگ عیسائی اور مسلم دنیا کے مابین امن معاہدے کا باعث بنی اور جس کے نتیجے میں عرب ثقافت بازنطینی مملکت اور پھر وہاں سے عیسائی یورپ تک پہنچی۔ گستال کی تحقیق کے مطابق عیسائی دنیا کے لئے مردوزن کا اس طرح ایک دن ایک دوسرے کو پسند کرنے کے لئے اکٹھے ہونا ایک ناقابل یقین حد تک جدید خیال تھا۔ ابتداءً اس دن کو عیسائی دنیا کے مذہبی حلقوں کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ گستال کے مطابق کئی صدیوں تک انگلستان، فرانس اور سپین کی مذہبی عدالتیں ایسے جوڑوں کو سرعام سزائیں دیتی رہیں جو اس دن کو منانے کی جرات کرتے تھے۔ گستال کے مطابق قریب چودہ ہزار عیسائی جوڑے اس دوران ہجرت کر کے مسلم علاقوں کا رخ کرنے پر مجبور ہوئے جہاں انہیں پسند کی شادی کرنے یا شادی سے پہلے ایک دوسرے سے میل ملاپ کی مکمل آزادی تھی۔ گستال کا کہنا تھا کہ ان جوڑوں میں سے بہت سے "یوم سید ولی الدین” کے موقع پر قبول اسلام اور نکاح کا اہتمام کرتے تھے۔ تاہم اس ضمن میں مسلم حکمرانوں کی جانب سے کسی قسم کی قیود نہ تیں۔ بلکہ مسلم فرمانروا جن میں عباسی خلفاء سے لے کر عثمانی امراء تک شامل ہیں اپنے خانوادوں سمیت اس دن کو خصوصی اہتمام سے منایا کرتے تھے اور ولی الدین کے عرس کی تقریبات کو یوم محبت و التفات کا نام دے کر اس میں شریک ہوتے اور الفت و محبت کے پیام ایک دوجے کو دیتے۔ ہندوستان میں مسلم فرمانروا بھی اس دن کو مناتے آئے ہیں۔ انار کلی کی دلفریب داستان اسی دن سے یادگار ہے اور اکبر کے قلمی نسخوں میں ایسے ایک تہوار کا ذکر ملتا ہے۔

مشہور جہاز ران کولمبس اسی لیے ہندوستان کو ڈھونڈنے نکلا تھا کہ وہاں ان عیسائی جوڑوں کو اتارا جا سکے جو مذہبی عدالتوں کے خوف سے پسند کی شادی نہیں کر پا رہے تھے۔ کولمبس کی لاگ بکس میں ایسے 1463 جوڑوں کی نشاندہی کی جا چکی ہے جو اسی غرض سے عیسائی دنیا چھوڑ کر ترکی یا ہندوستان جانا چاہتے تھے۔

گستال کے کام کی بنیاد پر انیسویں صدی کے اواخر میں ایک تاریخ نویس ٹی ایچ پین نے مسلم ثقافت کے یورپ پر اثرات کا انسائکلو پیڈیا مرتب کیا۔ ٹی ایچ پین کو اس انسائکلوپیڈیا کے مرتب کرنے پر نہ صرف آکسفورڈ یونیورسٹی سے بے دخل کیا گیا بلکہ اس کی تصنیفات ضبط کر لی گئیں جو اس وقت بھی کلیسائے روم کی لائبریری میں موجود ہیں۔ ٹی ایچ پین نے اپنی کتاب The Islam that lovesمیں لکھا ہے کہ سینٹ ویلنٹائن ڈے دراصل "یوم سید ولی الدین” ہے جس نے ملکہ سبا کے دور میں رائج اظہار محبت کی رسموں کا احیاء کیااور اس دن کی مناسبت سے نت نئی اختراعات کیں۔ ٹی ایچ پین کا موقف ہے کہ یورپ نے کسی قدر اپنے تعصب اور کسی قدر مجبوری کے تحت سید ولی الدین کے کارنامے کو سینٹ ویلنٹائن سے منسوب کیا، ٹی ایچ پین نے بغداد کے ایک ایسے خفیہ مزار کا بھی زکر کیا ہے جو بغداد کے ہر جوڑے کے لئے کھلا رہتا تھا اور وہاں میل ملاپ پر کسی کو کبھی اعتراض نہیں ہوا۔ ٹی ایچ پین کے مطابق یہ مزار سید ولی الدین کا ہی تھا جو بغداد میں امریکی بمباری کے نتیجے میں سن 2006 میں تباہ ہوا۔

نوآبادیاتی طاقتوں نے اپنی نوابادیوں کو ان کی عظیم تاریخ سے بے بہرہ رکھنے اور انہیں قدامت پسند، تنگ نظر اور وحشی ثابت کرنے کے لئے یہ تاثر عام کیا کہ اسلام اور مسلمان مردوں اور عورتوں کے آزادانہ اختلاط اور میل ملاپ کے خلاف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں جہاں نوآبادیاتی قبضہ رہا وہاں وہاں مسلمانوں ویلنٹائن ڈے کے خلاف نفرت اور تنگ نظری عام ہے۔ تاہم تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان کبھی بھی اتنے تنگ نظر نہیں رہے جتنے نوآبادیاتی دور سے آزادی کے بعد ہوئے ہیں۔ ایک جانب سید ولی الدین کا دن سینٹ ویلنٹائن دے کے نام سے دھوم دھام سے منایا جا رہا ہے او دوسری جانب یہ دن جن مسلمانوں کی اختراع تھا وہ اس پر پابندیاں عائد کر رہے ہیں۔ صد افسوس۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔

Leave a Reply