Laaltain

سیف الملوک پر ایک نظر

24 جنوری, 2014
Picture of لالٹین

لالٹین

اے رشید

Saif-Ul-Malook__88020_std

سیف الملوک کے مصنف میاں محمد بخش 1846ء میں جموں کشمیر کے ضلع میرپور مین کھڑی شریف میں پیدا ہوئے۔ پیر شاہ غازی سے چوتھی نسل میں ان کا شجرہ نسب ملتا ہے۔ انہوں نے اردو اور پنجابی میں بہت سی کتابیں لکھیں اور 1907ء میں ان کا انتقال ہوا۔
انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں میاں محمد بخش کی تصنیف سیف الملوک کی اشاعت شمال مغربی ہندوستان کے ادب کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ سیف الملوک سے قبل برصغیر کے دوسرے صوفی شعراء کی تصانیف سے برصغیر کے بڑے حصے نے استفادہ کیا۔ لیکن سیف الملوک نے برصغیر مین کشمیر، پنجاب اور صوبہ سرحد کے دور افتادہ علاقوں کے باسیوں تک رسائی کر کے بڑی خدمت انجام دی۔ بالخصوص ریاست جموں کشمیر میں اس تصنیف کا اثر باقی تمام تصانیف کے مجموعی اثر سے بھی بڑھ کر ہوا۔ سیف الملوک کی اشاعت تک ان علاقوں میں علم و ادب صرف پڑھے لکھے لوگوں تک محدود رہا جن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔
سیف الملوک ایک دھماکے کی مانند وارد ہوئی اور خاص کر ناخواندہ لوگوں میں ایک جادو اثر تشہیر کی حامل ہوئی۔ چند ہی برسوں میں یہ کتاب ہر گرہستی کا ضروری جزو بن گئی۔ اس کتاب کے ہر دلعزیز ہونے کی کئی وجوہ تھیں، اول یہ کہ چونکہ مصنف نے مختلف مقامی زبانوں مثلا پہاڑی، پوٹھوہاری، پنجابی اور ہندکو کے امتزاج کو ذریعہ اظہار بنایا، چنانچہ ضروری ہوا کہ اسی طور اس کے قارئین کا حلقہ بھی وسیع ہوا۔ علاوہ ازیں کتاب چونکہ شاعری میں لکھی گئی جس کی کہانی ایک اچھوتے رومانی پلاٹ پہ محیط ہوئی، لہٰذہ قارئین کا حلقہ ایک دھماکے کی طرح پھیلا۔ سیف الملوک کی اشاعت سے پہلے تمام رومانی لوک کہانیوں کی بنیاد خالصتا انسانی رومان پر محیط رہیں لیکن سیف الملوک کے مصنف نے اس کتاب کے پلاٹ میں ایک جدت کا اضافہ کیا اور ایک انسان شہزادے اور پری شہزادی کی رومانی داستان انتہائی مہارت کے ساتھ پیش کی ، چنانچہ مصنف نے اس کی تائید میں دو الہامی کتابوں کا حوالہ بھی پیش کیا اور اس رومانی داستان کی تائید دو انبیاء یعنی حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کی زبانی پیش کی، اس حوالے سے مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ ہوں:
ملکہ خاتون کہندی بہنے موت دی گل ساری
سیف الملوک شہزادے مینوں دسی سی اک واری
جیوں کر سنی زبانی اس دی تیویں اکھ سناواں
اک دن نبی سلیمان ہوراں پچھیا سب امراواں
کیویں یار دسو مینوں سچو سچ زبانوں
مہتر یوسف بھائی میرا جو ہے سی کنعانوں
اس جیہا کوئی صورت والا دنیا اتے ہوسی
اکھیں ڈٹھیاں کنیں سنیاں دسو پنڈت جو سی
سبھناں عرض گزاری حضرت کوئی نہ ڈٹھا اگے
پر جے ہن کوئی مہلت بخشو ہر کوئی لوڑن لگے
ساری دھرتی پھر کے تھکے آبادی ویرانی
مہتر یوسف جیہا نہ لدھا سہنا مرد زنانی
جا سلیمان اگے سبھناں جمی زمین ادب دی
دین دعائیں شاہ پر ہوئے دائم رحمت رب دی
وچ زیور داؤد نبی دے جو ہے نور لپیٹی
لِکھا ڈِٹھا نسل تیری تھیں پیدا ہوسی بیٹی
مہتر یوسف نال برابر یا اس تھیں کجھ کسی
وچ کلام الٰہی ایہو پتے اسانوں دسی
نبی سلیمان اگوں پچھیااگوں دسو کھاں گل ساری
بیٹی کس دی کس نگر وچ کی ناواں اس ناری
دانشمند پری پھر بولی پکا پتہ دسا لے
نام بدیع جمال پری دا بیٹی شاہ شاہ پالے
او اگوں شاہ رخ دا جایا اوہ اولاد تساڈی
اگوں آپ سیانے صاحب حاجت کی اساڈی
دتا حکم نبی نے اگوں صورت نقش بناؤ
ناں میرے دل ہوے تسلی کر تصویردکھاؤ
کر تجویز عجائز ہوراں اک تصویر بنائی
اطلس لے بہتر رنگاں اس پر خوب سہائی
سیف الملوک کی اشاعت کشمیر، سرحد اور پنجاب میں تعلیم کو رواج دینے میں ایک موثر ذریعہ ثابت ہوئی۔خواندہ لوگ ہر جگہ یہ کتاب پڑھتے اور اس کے شعر خوش الحانی سے گاتے۔ جبکہ ناخواندہ اور نیم خواندہ لوگوں میں خواندگی کی موثر تحریک ہوئی۔ (چنانچہ سیف الملوک ترنم سے پڑھنے کی ایک خاص لے اور طرز وضع ہوئی جس نے ارتقائی منزلیں طے کرتے ہوئے ہر علاقے میں مختلف شکل اختیا ر کی)
یہاں پر میں ایک ذاتی تجربہ بیان کروں گا۔ نو سال کی عمر میں، میں اپنے گاؤں کے پرائمری سکول میں زیر تعلیم تھا تو ہمارے ایک ملازم علی محمد نے نہایت سنجیدگی سے مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں اسے لکھنا پڑھنا سکھاؤں جس کے عوض وہ مجھے اپنی تنخواہ میں سے چار آنے ماہوار ادا کرے گا۔ چنانچہ میں نے علی محمد کو چند ماہ میں لکھنا پڑھنا سکھا دیااور کوئی فیس بھی نہیں لی۔ علی محمد نے سیف الملوک اور میاں محمد بخش کی دوسری تصانیف پڑھنا شروع کر دیں۔ علی محمد خوش آواز ہونے کے ساتھ ساتھ خوش الحانی کا شوق بھی رکھتا تھا۔ اپنے کام سے فارغ ہونے کے بعد وہ گاؤں کے لوگوں کو سیف الملوک گا کر سناتا، جہاں سب کی تواضع کشمیری قہوے سے ہوتی اور ایسی نشستوں کے خاتمے پر ناخواندہ لوگ جوق در جوق علی محمد کی شاگردی اختیار کرتے اور دستار بندیاں ہوتیں۔ اس طور لوگوں میں لکھنے پڑھنے کی تحریک زور پکڑتی، جس میں عورتیں بھی شامل ہوتیں۔ ایسی صورت حال دوسرے علاقوں میں بھی مروج تھی۔ جس سے سب علاقوں میں خواندگی کا دور دورہ ہوا۔
بنیادی طور پر تصنیف کی زبان اگرچہ پنجابی ہے لیکن مصنف نے کمال دور اندیشی سے علاقے کی دوسری زبانوں، پہاڑی، پوٹھوہاری اور ہندکو وغیرہ کو مناسب نمائندگی دی۔
سیف الملوک انتہائی ارفعٰ علمی اسلوب کی حامل ہے، مثلاً مصنف نے سسپنس اور ڈرامائی انداز، جو کسی بھی افسانوی تحریر کو رنگ بخشتے ہیں، کمال مہارت سے تحریر میں شامل کیا۔ مثلاً سیف الملوک نے ملکہ خاتون کو ایک زور آور جن کے قبضے سے اپنی جان پر کھیل کر آزاد کروایا ، اس بناء پر ہر دو ملکہ خاتون اور بدرہ خاتون اس کی ممنون اور احسان مند تھیں۔
جب سیف الملوک نے انہیں بتایا کہ وہ شا ہ پری کے عشق میں گرفتار ہے اور وطن چھوڑ کر یہاں تک بھی شاہ پری ہی کی تلاش میں آیا ہے، شاہی خواتین نے جواب دیا کہ حسن اتفاق ہے کہ شاہ پری تفریحاً ایک ہفتہ کے قیام کے لیے چند دنوں میں ان کے ہاں آ رہی ہے اور یہ کہ وہ شاہ پری سے اس کا مسئلہ انتہائی موثر انداز میں پیش کریں گی، اور یقین ہے کہ شاہ پری ان کی بات رد نہیں کرے گی۔ چنانچہ جب شاہ پری کی آمد ہوئی تو مناسب موقع دیکھ کر شاہی خواتین نے سیف الملوک کا مسئلہ انتہائی فصاحت سے اس کے سامنے رکھ دیا۔ لیکن شاہ پری نے سب سننے کے بعد نہایت موثر دلائل دے کر معذرت کے ساتھ صاف انکار کر دیا۔ اس موقع پر قارئین کے لیے ایک الجھن سی سامنے آتی ہے لیکن بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ شاہ پری کا انکار محض دکھاوا تھا حالانکہ اس سے قبل شہزادے سے پہلی ملاقات میں ہی دل و جان سے اس پر فریفتہ ہو گئی تھی۔ اور پھر اس رات کو بھی خفیہ طور پر شاہزادے سے باغ میں ملی جہاں اس نے شہزادے سے اپنے بے کراں پیار کا اظہار کیا اور وعدے وعید ہوئے۔ اس سین کے پلاٹ سے یہ احساس ہوتا ہے کہ مصنف نے سسپنس اور ڈرامائی تشکیل کو کس قدر خوبصورتی سے نبھایا۔ اسی طور پر ایک اور مسئلے میں شاہ پری نے سیف الملوک سے رشتہ استوار کرنے کے لیے اپنے ماں باپ کو قائل کرنے کے لیے اپنی پھوپھی کو ایک جن کے ہاتھ خط دے کر بھیجا (وہ جن ایک خاص پری پر عاشق تھا لیکن وہ پری کسی طور اسے قبول کرنے کو تیار نہ تھی) اور ساتھ یہ لالچ دیاکہ اگر وہ خط جلد پہنچا دے تو شاہ پری اس کی محبوبہ کو اس کے ساتھ شادی کرنے پر آمادہ کر لے گی، جن نے اس لالچ میں کام مکمل کیا لیکن شاہ پری نے اس کی کوئی سفارش نہ کی۔ دوسرے کئی موقعوں پر جب سیف الملوک کو ایسی کئی مشکلات پیش آئیں جن سے نبرد آزما ہونا بظاہر مشکل نظر آتا تھا، لیکن مصنف اس خوبصورتی سے کہانی کو موڑ دیتا کہ مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل نکل آتا۔
سیف الملوک کتاب کی ایک نہایت قابل تحسین خصوصیت مصنف کا فطرت اور معاشرت کے بارے میں گہری واقفیت کا اظہار ہے، جس کی جھلکیاں کتاب کے آغاز سے انجام تک جگہ جگہ نظر آتی ہیں۔ کتاب کے اس اسلوب سے قاری کو بار بار شیکسپئیر کی تحریروں کی یہ خصوصیت ذہن میں آتی ہے۔ اگرچہ شیکسپئیر کی تصانیف میں یہ عنصر کہیں اونچے درجے کا ہے اس مطابقت سے یہ تاثر بھی ہو سکتا تھا کہ شاید یہ عنصر شیکسپئیر سے ماخوذ ہے لیکن چونکہ یہ جانی بوجھی حقیقت ہے کہ سیف الملوک کے مصنف کو انگریزی زبان کا چنداں محاورہ نہ تھا اس لئے ظاہر ہے کہ یہ میاں محمد بخش کی اپنی اختراع تھی جس سے وہ اور زیادہ تعریف کے لائق ہو جاتے ہیں۔
اس عنصر کی عکاسی کے لیے چند اشعار پیش ہیں:
رملی لوک نجومی سدے، پابندے، پنڈت جوشی
مجلس اندر آ کے بیٹھے ملاں، قاضی جوسی
چلے وگ لہو دے نالے، اتنے اٹھ ہلالے
میلوں باہر خیرات کر کے نت پکا کھوا لے
نرم کباب، پلاؤ سولنے، پھلکے تے فالودے
حلوہ، لچی اتے جلیبی، برفی لگے تودے
مٹھائیاں دا انت نہ کوئی، کھاین رنگ برنگی
انبار اخلاص کریندے، ریں لگی ہر ڈونگی
شتراں اپر شتری وجے،ہاتھی اپر پھیراں
ناداں، تاویلاں پڑھیاں گجے وانگ شیراں
وجدے چلے دفاں بنایا، دفاں، تاشے، ڈھولاں
چھٹھلوری کے مرلی آکھے اجے رج رج بولاں
طریاں تریاں کوک اٹھائی، کٹ طنبوراں پائی
بینسریاں الغوزے بولے، تان لئی شرنائی
چپے چپے چوکی ہندی، کنجر نچن گاون
ہسن کھیڈن کرن تماشے، سانگی سانگ بناون
منشی قانون گو، مصدی، کاغذ کے بٹے
گتر وچ نہ آئے ڈیرے، پھر پھر تھک تروٹے
باغ ارم وچ شور مچاویں، خرچ خوشی دا کردا
کنجر، بکھتی تے اربابی، انت نہ بازی کردا
ہر زبان میں مختلف مصنفین نے چند مشہور کہاوتیں اور مقولے تحریر کیے ہیں، میاں محمد بخش نے بھی اس ضمن میں موتی بکھیرے ہیں، چنانچہ اس عنصر کی عکاسی کے لیے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
عاماں بے اخلاصاں اندر خاصاں دی گل کرنی
مٹھی کھیر پکا محمد کتیاں اگے دھرنی
نیچاں کی اشنائی وچوں کسے نئیں پھل پایا
کیکر اتے انگور چڑھایا، پر گچھا زخمایا
باغ بہاراں تے گلزاراں، بن یاراں کس کاری
یار ملن دکھ جان ہزاراں شکر کراں لکھ واری
سنگ سہیلی کوئی نہ بھاوے جس دم بیلی آون
جدوں پتنگ دیے نوں ملدے پربھی انہاں نہ بھاون
بس میرا کجھ بس نہ چلدا کی تساڈا کھوجنا
کَسّے دا کی زور محمد نس جانا یا رونا
سیف ملوک پری رل بیٹھے نال محبت دل دی
جس چیز نوں لوڑن چڑھیے اوڑک اک دن ملدی
سدا نہ روپ گلاباں اتے سدا نہ باغ بہاراں
سدا نہ بھج بھج پھیرے کرسن طوطے بھور ہزاراں
پر دیکھو بے عیب خدا ہے، بندہ روگن ہارا
جے کوئی عیب تکو تاں پھر بھی کرنا لطف سہارا
سیتے مول نہ سیتے جاون گاہ وچھوڑے والے
سجناں باہجوں پینے آہے بھر بھر زہر پیالے
سیف الملوک نے میاں محمد کو امر کر دیا اور ادب کی دنیا میں ان کے نام کو ہمیشہ کے لیے ایک اونچا مقام عطا کیا۔ جس میں میاں محمد نے دنیاوی مسائل کو خوب صورت نظم میں پیش کیا۔ ان کی لے نے کم علم اور کم مایہ لوگوں کو گہری نیند سے جگا کر اس طور علم کا شیدائی بنا دیا کہ کہا جا سکتا ہے کہ سیف الملوک کے قارئین پھر سے اس جہالت کے اندھیرے کی طرف کبھی نہ لوٹیں گے۔
ہم میاں محمد صاحب کے انتہائی ممنون ہیں، لیکن ابھی اس احسان کا بدلہ چکانے میں ہم ناکام رہے ہیں۔ میری رائے میں اس احسان کے عوض اگر ہم اس کتاب کو آرٹس کی مختلف کلاسوں کے نصاب میں شامل کر لیں تو شائد ان کا حق ادا ہو سکے۔ سیف الملوک استعاراتی ادب کا شاہکار ہے اور تعلیم سے متعلقہ صاحب اختیار لوگوں کا فرض ہے کہ موجودہ اور آنے والی نسلوں میں یہ کتاب متعارف کروائیں۔ انیسویں صدی کے کشمیر کے دور افتادہ علاقوں میں مصنف کا ابھرنا ان کے جینئس ہونے کا ثبوت ہے۔

ہمارے لیے لکھیں۔