بدھ کی شام اور جمعرات سے میرے موبائل فون پر شہر کے بڑے نامی دکانداروں کی طرف سے میسیج پہ میسیج آرہے تھے کہ اتنے فی صد ڈسکاؤنٹ اور بس ڈسکاؤنٹ ہی ڈسکاؤنٹ۔ پتا نہیں چل رہا تھا یہ کیا ماجرا ہے کہ سارے شہر کے دکاندار ہمیں ہی کیوں برقی پیغام پہ پیغام دے رہے ہیں۔ پہلے ہی کسک سی تھی کہ اپنا ووٹ اس بڑے شہر میں نہیں لہٰذا کوئی “نا جھکنے والا اور نا بِکنے والا” بلدیاتی انشااللہ چیئرمین ہمارے قیمتی ووٹ کا حق جتانے نہیں آیا۔ ان پیغاموں کی آمد سے تھوڑی اہمیت ملنے پہ ایک خفیف سی خوشی بھی ہورہی تھی لیکن یہ خوشی پورا منظر واضح نا ہونے پر کچھ ڈھکی ڈھکی سی بھی تھی۔ جی ہم جس روزگار مارکہ نوکری میں ہیں اس میں ہفتے کے دن کم یاد رہتے ہیں۔ وہ بھلکڑ پن اور غیر حاضر دماغی کے لطیفے باداموں پہ پَلے بَوڑھوں نے ایسے ہی نہیں بنائے۔ کبھی کبھی تو اپنا نام بھی کسی سے پوچھنا پڑتا ہے کہ “دس ‘بُلیھا’ میں کون؟”
پتا نہیں تھا کہ کوئی خاص جمعہ آنے والا ہے کہ موبائل فون کی سکرین کا رَن کانپ رہا ہے۔ عمومی جمعے جو جمعہ جمعہ ہر آٹھ آٹھ دن بعد آتے ہیں، کی آمد کے ساتھ ہی فیس بک پہ ہمارے ایمان کی حرارت والے اور ہمارے عقیدے کے ‘نان پرافٹ اہلکار’ ہمیں جمعہ مبارک کی تصویر پہ ٹیگ کرکے یاد کرا دیتے ہیں۔ اس بار چونکہ نئے رنگ کے کسی جمعہ کی آمد آمد تھی، تو وقت سے پہلے ہی ہمیں ٹیکسٹ میسیج آنا شروع ہو گئے۔ موبائل میسیجوں کے لگاتار حملوں نے آخرکار اپنی وجہ جتلا دی کہ کہ یہ فرائیڈے بلیک فرائیڈے ہے۔ اس جمعہ کو امریکی دکانداروں اور کاروباریوں نے فنانس کی زبان میں بلیک فرائیڈے کہا ہے۔ جس کا مطلب ہوتا ہے کہ حساب کتاب کے کھاتے نقصان دکھانے کی سرخ رنگی علامت سے نفع ظاہر کرنے والے بلیک یعنی سیاہ رنگ میں آگئے ہیں۔ مطلب اب بہت کچھ ملے گا اور سستے داموں ملے گا۔ خریدار بھی خوش اور ٹھنڈی پڑی دکان والا بھی شاداں و فرحاں۔ یہ وضاحت کیوں ضروری سمجھی بتانے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے کہ مجھے اپنی عدم موجود فیکٹری کو آگ نہیں لگوانی اور ملک سے بھاگ کر پکا اور “کنفرمڈ کافر” نہیں بننا۔
اس جمعہ کو امریکی دکانداروں اور کاروباریوں نے فنانس کی زبان میں بلیک فرائیڈے کہا ہے۔ جس کا مطلب ہوتا ہے کہ حساب کتاب کے کھاتے نقصان دکھانے کی سرخ رنگی علامت سے نفع ظاہر کرنے والے بلیک یعنی سیاہ رنگ میں آگئے ہیں۔ مطلب اب بہت کچھ ملے گا اور سستے داموں ملے گا۔
جہاں جہاں معاشرے کے چست طبقوں کو فائدہ ہے وہاں عالمگیریت کتنی تیز دوڑتی آتی ہے۔۔۔۔۔ خریدوفروخت کا یہ امریکی تہوار “تھینکس گِوِنگ” کے روز “ٹَرکی” کی بوٹیوں کے مزے لینے کے بعد آتا ہے کہ اپنی اپنی جیبیں خالی کر لو اور آنے والے کرسمس کی تیاری کر لو۔ ویسے یہ بھی بڑی مزے کی بات ہے کہ بہت سارے لطف اور مزے خریدنے اور بیچنے کی رسم کے ساتھ نتھی کر دیئے گئے ہیں۔ اوپر سے ان کے شانوں پہ تقدس کی رِدا بھی ڈال دی گئی ہے۔ واللہ ہم اسے سازش نہیں کہیں گے کیوں کہ ایسا کام تو صرف ہمارا ازلی دشمن اور اس کی خام خیال خفیہ ایجنسی را ہی کرتی ہے۔ بہرحال آپ پڑھے لکھے ہیں خود ہی اس کی کوئی جَڑ اور بنیاد ڈھونڈیں۔
سپریم کی چائے تو شاید ہر جگہ نا چلتی ہو لیکن سپر پاور کی ثقافت سپرسونک جہاز سے بھی تیزی سے چاروں اور بھاگتی ہے۔ آج جب ہفتہ کہ صبح آنکھ کھولی تو بی بی سی کے ویب سائٹ کا چکر لگایا۔ وہاں بلیک فرائیڈے کہ شُبھ دن مختلف سٹوروں پہ مچنے والے ہڑبونگ نے بتا دیا کہ کتنے مقامات پہ خریداری کے پاگل پن میں گاہکوں کی جنگیں برپا ہو گئیں۔ کئی جگہوں پہ پولیس کو بلانا پڑا۔ مانچسٹر کے پولیس چیف دکانداروں کی غیر ذمہ داری اور پچھلے سال سے سبق نا سیکھنے پر اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ سے خوب برسے کہ پولیس کو اور بھی ضروری کام ہیں۔ وہ محض گاہکوں کی آپسی دست و گریبانی کو ہی سنبھالنے کے لیے تنخواہ نہیں لیتی۔ ایک گاہک کے سر پر تو ٹی وی آ گرا لیکن جم کے لڑائیاں ہوئیں۔ برطانوی تہذیب نو آبادیاتی نفسیات کے دنوں کی “لُٹ پڑی” کیفیت کی جانب سانس پھولے بھاگتی ہوئی نظر آئی۔ چھوڑیں دور کی باتیں اور جہازوں پہ سفر کر کے پہنچنے کی باتیں، ٹانگے پہ بیٹھیں یا رکشہ کرا لیں۔ آس پاس میں اور قریب ہی آتے ہیں۔
Black Friday 2015: Chief warns bargain hunters to behave after fights inside Manchester stores last Christmas https://t.co/hWE9mayVhs
— Ch Supt Chris Sykes (@CSuptChrisSykes) November 16, 2015
برآمد شدہ اشیاء پہ اگرچہ اسحاق ڈار صاحب نے سامانِ تعیش کا سٹکر چسپاں کر کے آئی ایم ایف سے کیے عہد و پیمان کو نبھانے کی راہ کمال حسنِ تدبیر سے نکالی ہے۔ پر پھر بھی برآمد شدہ کلچر کی نفسیات کسی ریگولیٹری ڈیوٹی کی زد میں آنے سے محفوظ رہی ہے۔ جیسا کہ شروع کی سطروں میں میرے نحیف موبائل فون پہ آنے والے ٹیکسٹ میسجز کے سیلاب سے اشارہ مل گیا ہوگا کہ ہم بھی کسی نا کسی طرح ترقی یافتہ ممالک کی صف میں آ کھڑے ہوئے ہیں۔ ہم بھی بلیک فرائیڈے منانے لگ پڑے ہیں۔ ابھی چند ہفتے مہینے ہوئے تھے کہ عیدوں کی مالی تھکاوٹ سے باہر آئے تھے کہ اب ایک اور جمعہ نے آ گھیرا۔ ویسے اپنے منہ کا رنگ لال کرنا ہم نے کافی سالوں سے سیکھا ہوا ہے بھلے اپنے منہ پہ چپیڑ مارنے کی تدبیر ہی کیوں نا کرنی پڑے۔ ایٹم بم بنانے کے علاوہ کئی اور مثالیں ہیں، پھر سہی۔ یار باقی صحبت باقی۔
برآمد شدہ اشیاء پہ اگرچہ اسحاق ڈار صاحب نے سامانِ تعیش کا سٹکر چسپاں کر کے آئی ایم ایف سے کیے عہد و پیمان کو نبھانے کی راہ بڑی حسنِ تدبیر سے نکالی ہے۔ پر پھر بھی برآمد شدہ کلچر کی نفسیات کسی ریگولیٹری ڈیوٹی کی زد میں آنے سے محفوظ رہی ہے۔
تو اس برآمدی بِکری کی ثقافت کی پیروی میں وطنِ عزیز میں بلیک فرائیڈے کے جلوس برآمد کیے گئے۔ اور ہاں جو منظر لاہور میں اپنے لیے لان کی کُرتی پر ہاتھ بڑھانے پہ سامنے آیا اس نے معاشرے کے نَک چڑھے طبقے کی اندر کی کئی پرتیں کھول دیں۔ جو اپنا گھوڑا آگے بڑھائے، پہلے وہی پانی پلائے کا اصول موجود ہونے کے باوجود بھی اس فارمولے کی سافٹ ویئر پروگرامنگ میں کوئی کیڑا آسکتا ہے۔ مثال سوشل میڈیا پہ گھومن گھیریاں کھاتی اس ویڈیو کی لے لیجئے جس میں ایک کُرتی پر کچھ خواتین برابر کا حق جتانے میں اس کُرتی کو تارتار کرنے میں مصروف ہیں۔ مشہور برانڈ کی دکانوں پہ تو “ماڑے دُپڑے” کو تو نیلی وردی پہنے کھڑا سیکیورٹی گارڈ آنکھوں آنکھوں میں ہی آدھا کھا جاتا ہے۔ رہتی سہتی اتنے بڑے شیشوں اور چمکیلی بتیوں والی اونچی دکان کی دہشت ہی بچے کُھچے جملہ حقوقِ داخلہ کے احساس کی بتی پہ گھڑوں پانی ڈال دیتی ہے۔
ان دکانوں میں تو عام طور پر “باشعور، پڑھے لکھے اور انقلابی مزاج ہی جاتے ہیں۔” اب اس لاہور والے واقعے سے جس انداز میں “برانڈ مُشتی”، معذرت، دھینگا مُشتی ہوئی ہے اس سے ہمیں یہ تو اندازہ ہو گیا کہ پڑھے لکھے اور باشعور طبقات کی اخلاقیات کیا ہیں۔ اب اگر ان پاؤڈر مَلے، فیشل سے دمکے، پیڈی کیور مینی کیور سے چمکے اور کریموں سے لشکارے مارتے طبقات نے کسی سیاسی پارٹی کے کارکنوں کے کھانے پر ٹوٹ پڑنے، کسی آٹے کی تقسیم کرتے ٹرک پہ جھپٹ پڑنے، کسی آسمانی و قدرتی آفت پہ بٹنے والے امدادی سامان کی خاطر ایک دوسرے پر پَل پڑنے پہ “اوہ شِٹ شِٹ، تُھوہ تُھوہ” اور اپنی ناکوں کی آستینیں چڑھائیں تو ہم اسی برانڈز شاپ واقعے کا حوالہ دے کر ان کی “برانڈڈ غیرت” سامنے لا کھڑا کریں گے۔ اس بات میں شاید ہی کوئی گنجل اور پیچ ہو کہ بھوکا اگر روٹی کو دیکھ کر ہوش کھو بیٹھے تو شاید زیادہ دوشی نہیں، لیکن کپڑوں سے بھری الماریوں والے طبقے ستر پوشی کی خاطر ذخیرہ اندوزی کی جنگ میں اگر اپنے تن کے کپڑے تار تار کرلیں تو سمجھ لیں کہ مرغی دال سے بھی کوسوں دور ہے۔ اور بہت کچھ زیادہ اندر سے گل سڑ رہا ہے۔