شہزادنیر

siaah-tar-haashiyay3

بہادر شمشیر زن
جامع مسجد نمازیوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ مولانا کا خطبہ جاری تھا۔ الفاظ بجلی کے کوڑوں کی طرح برس رہے تھے۔ نمازیوں میں جوش اُبل رہا تھا۔ اہلِ ایمان اور اہلِ کُفرکے جنگی معرکوں کا تذکرہ تھا۔ سامعین کی آنکھوں کے سامنے تلواریں چمک رہی تھیں۔ سر تن سے جدا ہو کر ہوا میں اُڑ رہے تھے۔ بھاگتے گھوڑوں سے نیزے بلند ہوتےسب کو صاف نظر آتے تھے۔ خون کی پھواروں کے بیچ نعرے بلند ہو رہے تھے۔ کشتوں کے پُشتے لگ رہے تھے۔ فتح و نصرت کے شادیانے تھے۔ مولانا کی آنکھ میں سپاہیانہ چمک بھر گئی تھی۔ وہ آنکھیں نکال نکال کر کفار کی بزدلی اور مجاہدینِ خدا کی بہادری کے قصے سنا رہے تھے۔ اُن کے گلے کی رگیں اور نتھنے باربار پھول رہے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ خُود بہادر شمشیر زن ہوں اور گھوڑھے پر بیٹھ کر گردنیں اُڑا رہے ہوں۔
ایک دم قیامت آگئی۔ خود کش حملہ آور نے نعرہ تکبیر بلند کیااور دروازے پر آکر پھٹ گیا۔ دھماکے کی شدت سے مولانامنبر سے اُڑے اور محراب کی دیوار سے ٹکرا کر فرش پر آرہے۔ اُنہوں نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں۔ مسجد کی چٹائیوں پر خون نظر آیا۔ کئی نمازی بے حس وحرکت پڑے تھےاور کئی کی درد شدت سے چیخ رہے تھے۔ مولانا نے خوف سے کانپتے ہوئے اپنا جسم ٹٹول کر اس کے صحیح وسالم ہونے کا اطمینان کیا اور پھر آنکھیں کھولیں۔ سامنے کی دیوار پر ایک انسانی گوشت کا ایک بڑا سا لوتھڑا چپکا ہوا تھا جس سے قطرہ قطرہ خون ٹپک کر ایک نمازی کی مردہ آنکھوں پر گر رہا تھا۔ مولانا پر خوف کی کپکپی طاری ہو گئی تھی۔۔۔ کانپتے کانپتے اُنہیں ایک بھریری آئی۔۔۔اچانک اُن کا جسم پھڑکا اور ٹھنڈا ہوگیا۔

دوہزار بندے
اُستاد بندے علی خان آنکھیں بند کیے سُر سمندر میں ڈوبے ہوئے تھے۔ مالکونس میں ٹھمری کی تانیں حاضرین پر سحر طاری کر رہی تھیں۔ واہ واہ! سبحان اللہ کے نعرے بلند ہو رہے تھے۔ سازندوں نے جیسے اپنے اپنے سازوں میں جادو بھر لیے تھے۔ وہ استاد بندے علی خان کی طرف دیکھتے ہوئے انگلیوں کو سُروں کی رفاقت میں جُنبش دے رہے تھے۔ رات کے سناٹے میں ماحول بندھا ہوا تھا۔ اچانک سٹیج کی پچھلی قنات کے پیچھے سے کُھسر پھسر کی آوازیں آنے لگیں۔ ایک نعرہ تکبیر بلند ہوا اور قنات کھل کر سٹیج پر آگری۔ اُس پر پاوں رکھتے ہوئے کئی آدمی سٹیج پر آگئے۔ اُن کے سروں پر ٹوپیاں اور ہاتھوں میں ڈنڈے تھے۔ سب سے اگلے لمبی داڑھی والے نےاستاد بندے علی خان کے منہ کے سامنے والے مائیک کو زور سے ڈنڈا مارا جس کی آواز پورے پنڈال میں گونج گئی۔ تماشائیوں میں کھلبلی مچ گئی اور وہ سراسیمہ ہو کر اُٹھنے اور نکلنے لگ گئے۔
اُدھر سٹیج پر عجیب دھما چوکڑی مچی۔ طبلہ نواز نے پہلے تو طبلے کے پیچھے چھپنا چاہا پھر اس اوٹ کو ناکافی سمجھ کر ہاتھوں اور گھٹنوں پر چلتا ہوا سٹیج سے نیچے لڑھک گیا قراقلی ٹوپی والے نے ستار کے اوپر ڈنڈا مارا جو پھسلتا ہوا ستار نواز کے گھٹنے پر لگا۔ اُس کی چیخ بلند ہوئی اور وہ سٹیج پر ہی لوٹ پوٹ ہونے لگا۔ ہارمونیم والا پہلے ہی ہارمونیم چھوڑ، گری ہوئی قنات والے رستے سے فرار ہوچکا تھا۔ سرمئی ٹوپی اور ہلکی داڑھی والے ایک نوجوان نے ہارمونیم اُٹھا کر سامعین کی طرف اُچھال دیا۔ اُستاد بندے علی خان پہلے تو سکتے میں بیٹھے رہے، پھر پیرانہ سالی کے باوجود سرعت سے اُٹھے اور سٹیج سے اتر کر اندھیرے میں غائب ہو گئے۔ بانسری نواز اور طنبورہ نواز بھی بھاگ گئے۔ ایک لٹھ بردار نے سارنگی نواز کی گود سے سارنگی نوچ کر سٹیج پر دے ماری۔ وہ اُٹھ بھی نہیں سکا۔ اُسے گنٹھیا کا مرض تھا اور عین وقت پر اُس کے جوڑ جواب دے گئے تھے۔ حملہ آور اب سٹیج سے اُتر کر پنڈال میں گُھس آئے۔ کرسیاں پرے اُچھال دیں، میزیں توڑڈالیں اور گلدستے نوچ کر پھول زمین پر بکھیر دئیے۔ پھر وہ نعرے لگاتے ہوئے چلے گئے۔
کچھ دیر بعد تقریب کا منتظم تھانے میں رپورٹ لکھوارہا تھا:
"کتنے لوگوں نے حملہ کیا؟” تھانیدار نے پوچھا۔
"بیس پچیس بندے ہوں گے جناب!” منتظم نے جواب دیا۔
"اور حاضرین کی تعداد کیاتھی؟”
"دوہزار بندے!” منتظم نے مختصر جواب دیا۔

غیرتِ ایمانی
غلام رسول جب تھیٹر سے نکلا تو ٹھٹھک کر رہ گیا!
وہ کھیل ختم ہونے سے پہلے کبھی ہال سے نہ نکلتا اگر اُسے پیشاب نے تنگ نہ کر رکھا ہوتا۔ وہ بہت دیر تک ضبط کر کے بیٹھا رہاتھا کیونکہ عین ممکن تھا اِدھر وہ ٹائلٹ جاتا، اُدھر نرگس کا رقص شروع ہو جاتا اور وہ اس رقص کی خاطر ہی تیسری بار یہ کھیل دیکھنے آیا تھا۔ سو وہ جانتا تھا کہ نرگس کے بھڑکیلے ناچ کے بعد جلد ہی ڈرامہ ختم ہو جائے گا۔ وہ پیشاب دبائے بیٹھا رہا تاکہ ایک ہی بار باہر جائے۔
چنانچہ جونہی نرگس کا بوٹی بوٹی تھرکتا بدن پردے کے پیچھے اوجھل ہوا، وہ تیز تیز قدم اُٹھاتا ہال سے باہر آیا اور سیدھا ٹائلٹ میں گُھس گیا۔ فارغ ہو کر باہر آیا تو اُسے اپنی آنکھوں پر اعتبار نہ آیا۔ لاٹھیاں پکڑے ایک ہجوم تھیٹر کی دیوار سے لگے پوسٹروں پر پتھر برسا رہا تھا۔ ڈرامے کے جو پوسٹر اُن کی لاٹھیوں کی پہنچ میں تھے وہ پہلے ہی ٹوٹ کر ہجوم کے قدموں میں بکھرے ہوئے تھے۔ فنکاروں کے کٹے پھٹے چہرےجوتوں تلے آئے ہوئے تھے۔ لمبی داڑھی والا ایک صحت مند شخص، جس کی شلوار ٹخنوں سے بہت اوپر تھی اور اسکے سر پر سفید ٹوپی تھی، ہجوم سے نعروں کے انداز میں مخاطب تھا۔ غلام رسول ایک طرف کھڑا ہوگیا۔ لمبی داڑھی والا فحاشی اور عریانی کے خلاف آوازیں لگاتا رہا۔ ایک طرف چند آدمی ٹکٹ گھر کو توڑ رہے تھے۔ ٹکٹ بیچنے والا شائد بھاگ چکا تھا۔
اسی اثنا میں ڈرامہ ختم ہو گیا اور تماشائی ہال سے باہر آنے لگے۔ باریش ہجوم میں سے کسی نے ایک پتھر تھیٹر سے نکلتے ہوئے تماشائیوں پر اُچھال دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے کئی پتھر پوسٹروں کی بجائے تماشائیوں پر برسنے لگے۔ تماشائی سراسیمہ ہو کر اِدھر اُدھر بکھرنے لگے۔ باریش ہجوم نے نعرے بلند کئے اور پتھروں کی بارش تیز کر دی۔ کئی تماشائی زخمی ہو کر گر گئے۔ لمبی داڑھی والا بدستور ہجوم کی غیرتِ ایمانی کو للکار رہا تھا۔ غلام رسول نے آو دیکھا نہ تاو، ایک پتھر اُٹھا کر تماشائیوں پر دے مارا۔۔۔ پھر وہ پتھر پھینکتا چلا گیا۔

صلہ رحمی
گل زیب نے بکرے کی ایک اگلی اور ایک پچھلی ٹانگ پکڑ لی اور اُسے زور سے دھکا دیا۔بکرا دھم کی آواز سے پتھروں پر جا گرا۔ پھر اُس نے اپنا ایک گُھٹنا بکرے کی گردن پر رکھ کر زور سے دبا دیا اور دونوں ہاتھوں سے اگلی اور پچھلی ٹانگیں رسی سے کس کر آپس میں باندھ دیں۔ اب اُس نے جیب سے اُسترا نکالا اور بکرے کے خصیوں کے سامنے اُکڑوں بیٹھ گیا۔ اُس نے احتیاط سے ایک خصیے کو ہاتھ میں پکڑ کر کھینچا۔ اس سے خصیے کی تھیلی کی اوپری جلد میں تناو پیدا ہوگیا۔ گل زیب نے کھینچی ہوئی جلد پر اوپر کی جانب اُسترے سے لمبا کٹ لگایا۔ بکرے نے ٹانگیں چلانے کی ناکام کوشش کی۔ خصیے کی تھیلی میں ایک شگاف بن گیا تھا۔ گل زیب نے ہاتھ کو مٹھی کی شکل دے کر خصیے کو اوپر دھکیلا۔ خصیہ پھسل کر شگاف سے باہر آکر لٹک گیا۔ اُس نے خصیے کی نالی کاٹ ڈالی اور خصیہ دور پھینک دیا۔ گل زیب نے اسی طرح دوسرا خصیہ بھی کاٹ کر دور پھینکا۔ اب گرے ہوئے بکرے کے پیٹ پر دو پچکی ہوئی تھیلیاں تھیں جن کے کٹے ہوئے شگافوں پر خون جمنے لگا تھا۔ اُس نے اُسترا ایک طرف رکھ کر دونوں ہاتھوں کی اُنگلیوں کی مدد سے تھیلیوں کو اوپر کی طرف گولائی میں لپیٹنا شروع کر دیا۔ جب تھیلیاں لپٹتے لپٹتے اپنے اپنے شگافوں کے اوپر آگئیں تو اُس نے میلے سے کپڑے کی دو انگل چوڑی پٹی اُس تہ در تہ جلد کے ڈھیلے کے اوپر باندھ کر گرہ لگا دی۔
جب اُس نے بکرے کی ٹانگوں سے رسیاں کھول دیں تو وہ فورآ اُٹھ کر کھڑا نہیں ہوا بلکہ کافی دیر تک پتھروں پر لیٹا ہانپتا رہا۔
بکرا خصی ہو چکا تھا۔ اب گل زیب جلدی جلدی مسجد کی طرف چل پڑا جہاں تبلیغی جماعت ٹھہری ہوئی تھی اور گل زیب نے امیر صاحب کے حکم پر آج صلہ رحمی کے موضوع پر وعظ کرنا تھا۔

اینٹ اور مسجد
بازار میں شانِ رسالت کا جلوس نکل رہا تھا۔ سبزے جھنڈے اُٹھا ئے رنگ برنگی پگڑیوں والے سینکڑوں لوگ ہاتھ اُٹھااُٹھا کر نعرے لگا رہے تھے۔ کئی ٹولیوں کے پاس میگا فون تھے اور ان میں خوش الحان بچے منقبتیں گا رہے تھے۔ بیچ بیچ میں نعرے بلند ہونے لگتے اور جلوس آگےروانہ ہو جاتا۔
چلتے چلتے جب جلوس ایک بڑی جامع مسجد کے سامنے پہنچا تو اندر سے امام صاحب اور کئی افراد گلاب کے ہار لے کر نکلے اور جلوس کے رہنماوں کو پہنادئیے۔ ایک ہار امام صاحب نے اپنے گلے میں ڈالا اور ہراول دستے میں شامل ہوکر آگے آگے چلنے لگتے۔
پیچھے ایک ٹولی نے شربت فروش کی ریڑھی پر ہلہ بول دیا۔ ٹوپیوں اور پگڑیوں والے نوجوان خود ہی گلاس بھر بھر کر شربت پینے لگے۔ چھینا جھپٹی میں کئی گلاس ٹوٹے اور شربت زمین پر گرتا رہا۔ جلوس روانہ ہوا تو دکانداروں نے لُوٹ اور پتھراو کے ڈر سے دُکانیں بند کر دیں۔
تھوڑی دور چل کر جلوس ایک دوسری مسجد کے سامنے رک گیا۔ نعرے اچانک فلک شگاف ہوگئے۔ جلوس کے شرکاء میں نیا جوش بھر گیا۔ پہلی مسجد کے امام صاحب نے دوسری مسجد کے طرف ہاتھوں کے اشارے کرکر کے منکرینِ شانِ رسالت کے خلاف خوب نعرے لگوائے۔ اچانک اُس مسجد کا لاوڈ سپیکر آن ہونے کی آواز آئی اور ایک کرخت آواز گونجی "یہ جلوس والے آگے چلے جائیں، ہماری نماز کا وقت ہونے والا ہے”۔ اِس پر جلوس نے مزید جوش وخروش سے نعرے لگانے شروع کر دئیے۔ کچھ جذباتی نوجوان، جن کی پہلی پہلی داڑھیاں نکلی ہوئی تھیں، مسجد کے دروازے پر پہنچ گئے اور بند دروازے کودھکے دینے لگے۔ دروازہ بہت مضبوط تھا، نہ کھُلا نہ ٹوٹا۔ نوجوانوں نے مسجد کا بورڈ اتار کر توڑ دیا اور چندے والی صندوقچی اُکھاڑ لی۔ ایک نوجوان صندوقچی سر سے بلند کر کے نعرے لگانے لگا۔ اسی دوران مسجد کے اندر سے چند پتھر اور اینٹیں آ کر جلوس پر گریں۔ جلوس کے شرکاء نے بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دیااور سینکڑوں پتھر مسجد کے اندر گرنے لگے۔
پھر پولیس کی گاڑیوں کے سائرن کی آواز آنے لگی۔ جلوس آرام سے نعرے لگاتا ہوا آگے بڑھ گیا اور پولیس نے ایک فاصلے سے جلوس کے آگے آگے چلنا شروع کردیا۔

معمول
شمس اللہ نے چادر اوڑھ رکھی تھی جس کے نیچے اُس نے تاریں اور فیوز چھپائے ہوئے تھے۔ نوراللہ اور ضیاءاللہ اُس کے پیچھے چل رہے تھے۔ دونوں کے ہاتھوں میں کپڑے کے تھیلے تھے جن میں آر ڈی ایکس بھرا تھا۔ وہ تینوں خاموشی سے چلتے ہوئے اندھیری گلیاں پار کرنے لگے۔ رات کا تیسرا پہر تھا اور گلیاں سنسان۔
ایک جگہ رُک کر شمس اللہ نے ایک طرف انگلی سے اشارہ کرک کہا ” وہ سکول ہے” ۔ مکانوں سے ذرا ہٹ کر کھیتوں کے قریب پرائمری سکول کے تین پختہ کمرے اندھیرے میں بھی نظر آرہے تھے۔ ضیاءاللہ ذرا سا لرز گیا۔ اُس نے تھوک نگل کر گلا تر کیا اور دھیمی آواز میں نوراللہ کو مخاطب کیا "اسی سکول سے میں نے پانچویں پاس کی تھی!”
شمس اللہ نے یہ سرگوشی سُن لی اور وہ پیچھے مڑا۔ وہ اپنا منہ ضیاءاللہ کے کان کے قریب لایا اور سخت لہجے میں کہا”پھر؟”
"پھر میں ابا کے ساتھ کوئلوں والی انگھیٹیاں بنانے لگ گیا”۔
شمس اللہ نے اور بھی سخت اور سرد لہجے میں کہا ” تم نے اس سکول سے پڑھا تو پھر کیا ہوا۔ امیر صاحب کا حکم ہے کہ یہ سکول بچوں کو ناپاک دنیاوی تعلیم دیتے ہیں جو اُن کو کفر کی طرف لے جاتی ہے۔ صرف دین کا علم پاک علم ہے ۔” ضیاءاللہ نے ہلکا سا سر ہلایا۔ شمس اللہ نے پھر کہا ” تمہیں اور مجھے فیوز جوڑنے اور آرڈی ایکس لگانے کی تربیت اس لئے دی گئی ہے کہ جہاں امیر صاحب حکم کریں، دھماکہ کر دینا ہے۔باقی امیر صاحب پر چھوڑنا ہے۔ انہوں نے خود، تمہارے سامنے ہمیں دعا دے کر بھیجا ہے”۔
تینوں نے مل کر آرڈی ایکس، فیوز اور تاریں بچھادیں ۔ شمس اللہ ایک لمبی سی تار بچھاتا ہواسکول سے دور لے آیا۔ پھر اُس نے وہ تار ایک بیٹری سے لگائی، بٹن جوڑااور ہلکی آواز میں نعرہ تکبیر کہہ کر بٹن دبا دیا۔
گاوں والوں نے ایک اور دھماکہ سُنا اور کروٹ بدل کر سو گئے۔

5 Responses

  1. sibite hassan

    بہت عمدہ ! کمال کی تصویر کشی اور حقیقت نگاری ! شہزاد نیر صاحب بہت خوب !

    جواب دیں
  2. ساجد منصور

    جناب بہت خوبصورت تحریر۔ ۔ وللہ ہمیں ایسی تحریروں کی اشد ضرورت ہے۔ ۔ اللہ کریم آپ کو جزائے خیر عطا فرمائیں، زورِ قلم بڑھائیں۔ ۔ ٓمین

    جواب دیں

Leave a Reply

%d bloggers like this: